احکام ومسائل
جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت: مرکز
الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان ای میل: markaz.dirasat@gmail.com
قطبین میں سحر وافطار
O میرے
ایک دوست نے سوال کیا ہے کہ ہمارے ہاں تو سحر وافطار کا وقت مقرر ہے لیکن قطب شمالی
اور قطب جنوبی میں چھ ماہ دن اور چھ ماہ کی رات ہوتی ہے‘ وہاں سحر وافطار کے لیے کیا
ضابطہ ہے؟!
P قرآن کریم میں سحری کا ضابطہ یہ ہے: ’’اور فجر کے وقت
جب تک سفید دھاری کالی د ھاری سے واضح طور پر نمایاں نہ ہو جائے تم کھا پی سکتے ہو۔‘‘
(البقرہ: ۱۸۷)
یعنی فجر صادق کے نمایاں ہونے تک سحری کھانے کی اجازت ہے۔ افطار
کے لیے قرآنی ضابطہ حسب ذیل آیت سے معلوم ہوتا ہے: ’’پھر رات تک اپنے روزے کو پورا
کرو۔‘‘ (البقرہ: ۱۸۷)
ان دونوں آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انتہائے سحر سے لے کر آغاز
رات یعنی غروب آفتاب تک روزے کا وقت ہے۔ اس وقت پر جو سوال اٹھایا گیا ہے کہ قطب شمالی
اور قطب جنوبی یعنی قطبین کے قریب جہاں رات اور دن کئی کئی مہینوں پر مشتمل ہوتے ہیں
وہاں سحری کرنے اور روزہ افطار کرنے کے لیے اوقات کی تعیین کیسے ہو سکتی ہے؟ اس سوال
کا امر واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ قطبین میں اتنی شدید سردی ہوتی ہے کہ وہاں
انسانوں کا زندہ رہنا ہی ناممکن ہے اور جہاں انسانی آبادی ہی نہیں وہاں سحر وافطار
کی تعیین سے کچھ حاصل نہیں۔ ہاں جس مقام سے انسانی آبادی شروع ہوتی ہے وہاں دن رات
خط استواء کی طرح واضح نہ سہی اتنے نمایاں ضرور ہوتے ہیں کہ صبح وشام کے آثار کا پتہ
چل جاتا ہے۔ انہی کا لحاظ رکھ کر وہاں کے باشندے اپنے سونے جاگنے‘ کام کرنے اور دیگر
مصروفیات کے اوقات مقرر کرتے ہیں۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ افق پر نمایاں ہوتے دن اور
رات کے آثار سحر وافطار کے معاملہ میں وقت کی تعیین کا کام نہ دے سکیں۔ ویسے بھی اس
جدید دور میں گھڑیوں کی ایجاد نے یہ مسئلہ حل کر دیا ہے۔ سحر وافطار کی تعیین میں ان
سے مدد لی جا سکتی ہے۔ واللہ اعلم!
لا علمی میں وقت کے بعد سحری کھانا
O ہمارے
ساتھ اس رمضان میں ایک واقعہ اس طرح ہوا کہ اہل خانہ جب بیدار ہوئے تو انہوں نے خیال
کیا کہ ابھی سحری کا وقت باقی ہے‘ انہوں نے جلدی سے کھانا تیار کیا اور اسے کھا کر
روزہ رکھ لیا‘ جبکہ سحری کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ اس طرح ہمارا روزہ ہوا یا نہیں؟!
P ہمارے ہاں سحری کے متعلق دو طرح سے کوتاہی کی جاتی ہے‘
ایک تو یہ کہ اہل خانہ دیر سے اٹھتے ہیں اور اس وقت صبح کی اذانیں ہو رہی ہوتی ہیں‘
وہ جلدی جلدی کچھ نہ کچھ کھا پی کر روزہ رکھ لیتے ہیں جبکہ انہیں علم ہوتا ہے کہ اب
سحری کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ دیدہ دانستہ سحری کے بعد کچھ کھا پی کر روزہ رکھنا شرعا
صحیح نہیں۔ ایسے لوگوں کا روزہ نہیں ہوتا‘ انہیں رمضان کے بعد اس روزہ کی قضاء دینا
ہو گی۔ دوسری سحری کے سلسلہ میں کوتاہی کی صورت سوال میں ذکر کی گئی ہے کہ جب اہل خانہ
بیدار ہوئے تو ان کے علم کے مطابق ابھی سحری کا وقت باقی تھا۔ انہوں نے جلدی جلدی کھانا
تیار کر کے اسے تناول کیا اور روزہ رکھ لیا۔ ان سے یہ کام لا علمی میں حقیقت کے خلاف
ہوا۔ ان کا روزہ صحیح ہے اور انہیں بعد میں اس کی قضاء دینے کی ضرورت نہیں۔ اس قسم
کی کوتاہی سیدنا عدی بن حاتمt سے
بھی ہوئی۔ وہ خود اپنی روئیداد بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: ’’کھاؤ اور
پیئو حتی کہ سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے نمایاں ہو جائے۔‘‘ … وہ فرماتے ہیں کہ میں نے
رات کو ایک سفید ڈوری اور ایک کالی ڈوری اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیں اور انہیں دیکھتا
رہا‘ جب تک ان کی تمیز نہ ہوئی میں کھاتا پیتا رہا۔ جب صبح ہوئی تو میں نے اپنا ماجرا
رسول اللہe سے
عرض کیا کہ اللہ کے رسول! میں نے اپنے تکیے کے نیچے دو ڈوریاں رکھ لی تھیں اور ان میں
تمیز نہ ہونے تک کھاتا پیتا رہا‘ رسول اللہe نے از راہ مزاح فرمایا: ’’تمہارا تکیہ تو بہت بڑا ہے
جس کے نیچے صبح کی سفید ڈوری اور رات کی کالی ڈوری آگئی۔‘‘ (بخاری‘ التفسیر: ۴۵۰۹)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہe نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس سے مراد رات
کی سیاہی اور دن کی سفید ہے۔‘‘ (بخاری‘ التفسیر: ۴۵۱۰)
اس کوتاہی پر رسول اللہe نے سیدنا عدی t کو قضاء کا حکم نہیں دیا‘ اس سے معلوم ہوا کہ اس قسم
کی کوتاہی روزے پر اثرا نداز نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم!
آدھی رات سحری کھا کر سو جانا
O ہمارے
ہاں کچھ لوگ آدھی رات سحری کھا کر سو جاتے ہیں‘ بعض اوقات نماز فجر بھی باجماعت رہ
جاتی ہے۔ کیا ایسے لوگوں کا روزہ ہو جاتا ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت
کریں۔
P سحری کے سلسلہ میں ہم لوگ افراط وتفریط کا شکار ہیں۔
ایک کوتاہی کا ذکر تو سوال میں ہے کہ رات کے وقت سحری کر کے سو جانا اور پھر نماز فجر
باجماعت ادا کرنے سے پیچھے رہ جانا اور کچھ لوگ بایں انداز افراط کا شکار ہوتے ہیں
کہ سحری کا وقت ختم ہونے کے بعد بھی کھاتے پیتے رہتے ہیں۔ حالانکہ سحری کا مسنون طریقہ
یہ ہے کہ فجر صادق کے طلوع سے تھوڑا وقت پہلے سحری سے فراغت ہو۔ پھر نماز فجر کی تیاری
میں مصروف ہو جانا چاہیے۔ چنانچہ سیدنا سہل بن سعدt کا بیان ہے کہ میں اپنے گھر میں سحری کھاتا‘ پھر جلدی
کرتا تا کہ میں رسول اللہe کے
ہمراہ نماز فجر پا سکوں۔ (بخاری‘ الصوم: ۱۹۲۰)
اسی طرح سیدنا زید بن ثابتw بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ایک مرتبہ رسول اللہe کے
ہمراہ سحری کھائی‘ پھر آپ صبح کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ راوی حدیث سیدنا انسt نے
دریافت کیا کہ اذان فجر اور سحری کے د رمیان کتنا وقت تھا؟ سیدنا زید بن ثابتt نے
فرمایا: ’’پچاس آیات کی تلاوت کرنے کے برابر وقفہ تھا۔‘‘ (بخاری‘ الصوم: ۱۹۲۱)
بہرحال سحری کے سلسلہ میں ہمیں افراط وتفریط کا شکار نہیں ہونا
چاہیے بلکہ نماز فجر سے تھوڑا وقت پہلے سحری سے فراغت حاصل کر لینی چاہیے تا کہ نماز
فجر باجماعت ادا ہو سکے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ آدھی رات سحری کھا کر سو جائے‘ پھر
نماز فجر باجماعت ادا نہ کر سکے۔ واللہ اعلم!
بحالت روزہ حجامہ کرانا
O کیا
روزے کی حالت میں حجامہ کرایا جا سکتا ہے؟ قرآن وحدیث میں اس کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟
وضاحت فرمائیں۔
P روزے دار کے لیے سینگی لگوانے کے متعلق مختلف روایات
ہیں‘ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’سینگی لگوانے والے اور لگانے والے دونوں
نے روزہ توڑ دیا۔‘‘ (ترمذی‘ الصوم: ۷۷۴)
جبکہ ایک دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ e نے
روزے کی حالت میں سینگی لگوائی۔ (بخاری‘ الصوم: ۱۹۳۹)
ان دونوں روایات میں بظاہر تعارض معلوم ہوتا ہے۔ امام بخاریa کا
موقف یہ ہے کہ حجامہ کرانے سے روزہ ٹوٹنے کی روایات منسوخ ہیں کیونکہ یہ فتح مکہ کا
واقعہ ہے۔ چنانچہ بعض روایات میں اس بات کی صراحت ہے‘ جبکہ رسول اللہe کا
بحالت روزہ سینگی لگوانے کا واقعہ حجۃ الوداع کا ہے۔ کیونکہ اسے بیان کرنے والے سیدنا
عبداللہ بن عباسw جو
حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہe کے ہمراہ تھے اور یہ دس ہجری کا واقعہ ہے جبکہ مکہ مکرمہ
آٹھ ہجری میں فتح ہوا۔ یہ ایک اصول ہے کہ بعد والی حدیث پہلے والی کے لیے ناسخ ہوتی
ہے۔ بعض اہل علم یہ توجیہ بھی کرتے ہیں کہ سینگی لگانے اور لگوانے والا دونوں خود کو
افطار کے لیے پیش کرتے ہیں اس لیے کہ سینگی لگوانے والا جب خون چوستا ہے تو اس کے پیٹ
میں خون جانے کا اندیشہ بدستور رہتا ہے اور سینگی لگوانے والا کمزوری کی وجہ سے روزہ
توڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ سیدنا انسt سے مروی ایک روایت میں اسی توجیہ کا اشارہ ملتا ہے جیسا
کہ حضرت ثابت بنانی بیان کرتے ہیں کہ سیدنا انس بن مالکt سے
سوال کیا گیا کہ آیا تم روزے دار کے لیے سینگی لگوانے کو مکروہ خیال کرتے تھے؟ انہوں
نے جواب دیا نہیں۔ لیکن کمزوری کی وجہ سے اسے پسند نہیں کرتے تھے۔ (بخاری‘ الصوم: ۱۹۴۰)
بہرحال راجح بات یہی ہے کہ حجامہ کرانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا‘
اس کی مزید تائید سیدنا ابوسعید خدریt کی
روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہe نے
روزے دار کے لیے سینگی لگوانے کی اجازت دی تھی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: ج۳‘ ص ۵۳) واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment