درسِ قرآن
اپنی تخلیق پر غور تو کیجیے!
ارشاد باری تعالیٰ:
﴿اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ
اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِيْمِ١ۙ كَانُوْا مِنْ اٰيٰتِنَا عَجَبًا۰۰۹﴾
’’کیا آپ سمجھتے
ہیں کہ غار اور رقیم والے ہماری کوئی بڑی عجیب نشانیوں میں سے تھے؟‘‘
اصحاب کہف کے قصہ کے تفصیلی بیان سے پہلے اللہ رب العزت نے چار
آیتوں میں اس قصہ کا اجمالی بیان کیا ۔ اس تمہید میں خاص طور پر اس بات کی نشاندہی
کی گئی ہے کہ یہ ان چند نوجوانوں کا قصہ ہے جن کے دلوں نے ایمان کی حلاوت کوپالیا تھا۔
ان کے خلوص نے انہیں ہدایت کی اس منزل پر پہنچا دیا تھا جہاں پہنچ کر بندہ کے سامنے
دنیا کی ساری نعمتیں ، ساری آسائشیں ہیچ ہوجاتی ہیں۔بندے کا دل جب ایمان کی لذت کو
چکھ لیتا ہے تو دنیا کی ساری لذتیں اس کے سامنے پھیکی پڑجاتی ہیں ۔ یہ اللہ کے وہ بندے
تھے جنہوں نے اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے اپنے پر تعش محلات کو قربان كر دیا اور ایک غار میں پناہ گزیں ہوگئے ۔ رب پر توکل تھا
کہ وہ ان کی آسانی کے لیے راستہ نکال ہی دے گا۔ رب نے ان کی دعاوں کو سن لیا اور ان
کو تین سو سال کی گہری نیند سلا دیا ۔ تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے زمانہ کے انقلابات دیکھ
سکیں اور جان لیں کہ اللہ اپنے دین کو بلند کرنے اور اپنے اولیاء کی حفاظت کے لیے کیسے
بندوبست کرتا ہے ۔
انسان کی فطرت ہے کہ وہ خارق عادت امور سے دلچسپی رکھتا ہے ،
کرشموں سے اس کو خاص شغف ہوتا ہے ، کرامتیں اس کو متاثر کرتی ہیں۔ اصحاب کہف کا لمبی
نیند سوجانا ایک خلاف عادت واقعہ ہے ۔ انسان عادت اور فطرت کے خلاف کسی واقعہ کے ظہور
پر تعجب کرتا ہے ۔ یقینا ایسا واقعہ تعجب میں ڈال دینے والا ہے بھی ۔ لیکن فطرت اپنے
جلو میں اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز کرشمے سمیٹے ہوئے ہے ۔ جو صبح شام انسان کی نگاہوں
کے سامنے سے گذرتے ہیں لیکن انسان ان پر تعجب نہیں کرتا حالانکہ یہ تعجب کیے جانے کے
زیادہ مستحق ہیں۔ خود پانی کے حقیر سے قطرہ سے انسان کا پیدا کیا جانا کیا اس بات سے
کم تعجب خیز ہے کہ اللہ کے پیدا کیے گئے بندے تین سو نو سال سونے کے بعد جاگ گئے ؟
پھر انسان کا پیدا کرنا بھی زمین و آسمان کے پیدا کرنے کے مقابلہ
میں ایک چھوٹی سی بات ہے۔ قرآن مجید میں اس مفہوم کی بہت ساری آیات موجود ہیں۔
﴿لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ
وَ الْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۰۰۵۷﴾
(غافر)
’’آسمانوں اور زمین
کا پیدا کرنا انسان کو پیدا کرنے کی بہ نسبت یقینا زیادہ بڑا کام ہے ، مگر اکثر لوگ
جانتے نہیں ہیں۔
﴿ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ
خَلْقًا اَمِ السَّمَآءُ١ؕ بَنٰىهَاٙ۰۰۲۷﴾ (النّٰزعٰت)
’’کیا تمہیں پیدا
کرنا مشکل کام ہے یا آسمان کو؟ جسے اس اللہ نے بنایا۔‘‘
درسِ حدیث
حُرمتِ خون مسلم
فرمان نبویe ہے:
[عَنْ عَبْدِ اللهِ بن مسعود، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ: "لَا يَحِلُّ
دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّي رَسُولُ
اللهِ، إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: الثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ،
وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ".] (متفق عليه)
’’سیدنا عبداللہ
بن مسعودt سے
روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہe نے ارشاد فرمایا: کسی ایسے مسلمان کا خون جو اس بات
کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں (محمدؐ) اللہ کا
رسول ہوں۔ سوائے ان تین کاموں میں سے ایک کام کی بنا پر حلال نہیں: شادی شدہ بدکاری
کرے، جان کے بدلے جان اور اپنے دین کو چھوڑنے، جماعت سے الگ ہونے والے (واجب القتل
ہیں)۔ ‘‘
مسلمان کا خون بہانا حرام ہے‘ کسی انسان کو اس بات کی اجازت
نہیں کہ بلاسبب کسی کو قتل کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جس نے کسی مسلمان کو بغیر
وجہ کے قتل کیا گویا کہ اس نے ساری انسانیت کو قتل کر دیا اور جس نے ایک مسلمان کو
بچایا اس نے پوری انسانیت کو زندگی دی۔‘‘
اسی طرح رسول اکرمe نے فرمایا کہ ’’کسی مسلمان کا خون بہانا حلال نہیں مگر
تین کام ایسے ہیں جن کی بنا پر کسی مسلمان کو قتل کیا جا سکتا ہے۔‘‘ مگر اس کام کے
لئے بھی حکومت کی ذمہ داری ہے کسی فرد کو اجازت نہیں کہ وہ ان تین کاموں میں سے کسی
ایک کام کے مرتکب کو از خود سزا دے دے بلکہ حکومت اور عدالت کی ذمہ داری ہے کہ اس کی
سزا پر عمل درآمد کروائے۔ تین قسم کے افراد درج ذیل ہیں:
Ý شادی
شدہ بدکاری کرے‘ وہ مرد ہو یا عورت دونوں کو زمین میں گاڑ کر پتھر مار مار کر ہلاک
کر دیا جائے‘ اس کا وجود اس لائق نہیں کہ زمین کی سطح پر قائم رہ سکے، اگر یہی بدکاری
کسی غیر شادی شدہ سے ہوتی ہے تو اسے
80 کوڑے سزا دی جائے‘ اگر
وہ اسی کوڑے لگنے سے ہلاک ہو جائے تو کوئی حرج نہیں۔
Þ دوسرے
وہ شخص جو کسی کو بلاوجہ یا از خود مذکورہ کاموں میں سے کسی کام کی بنا پر موت کے گھاٹ
اتار دے اسے بھی اس کے بدلے میں قتل کر دیا جائے گا اور یہ کام بھی حکومت اور عدالت
کی ذمہ داری ہے۔
ß تیسرے
وہ شخص جو اپنی مسلمانوں کی جماعت کو چھوڑ کر کفر اختیار کرے وہ بھی واجب القتل ہے‘
اس لئے کہ اس کا وجود دیگر مسلمانوں کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے وہ انہیں بہکا سکتا
ہے‘ اگر وہ یہ نہ کرے تو اسے بھی قتل کر دیا جائے۔ بدکاری اور قتل کا جرم ثابت ہو جانے
پر توبہ نہیں بلکہ سزا دی جائے۔
No comments:
Post a Comment