درسِ قرآن
اللہ کی نشانیوں سے اعراض
ارشاد باری تعالیٰ:
﴿وَ مَنْ اَظْلَمُ
مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْهَا١ؕ اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِيْنَ
مُنْتَقِمُوْنَ۰۰۲۲﴾ (السجدة)
’’اس سے بڑھ کر ظالم
کون ہے جسےٍ اللہ کی آیات سے وعظ کیا گیا پھر بھی ان سے اس نے منہ موڑ لیا (یقین مانو)
کہ ہم بھی گنہگاروں سے انتقام لینے والے ہیں۔‘‘
انسانی معاشرہ میں احسان فراموشی بہت بڑا اخلاقی جرم سمجھا جاتا
ہے اور فی الحقیقت انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ حسن سلوک اور احسان و نیکی والا رویہ
رکھنے کے باوجود دوسرے فریق کا احسان مند ہونے کی بجائے منفی طرز عمل اپنانا واقعی
بہت بڑا جرم ہے۔ انسانوں کے خالق ومالک کو بھی یہ رویہ پسند نہیں اور ایسا شخص جو اللہ
کے احسانات کے بعد شکر گزاری اوررب کریم کا احسان مند ہونے کی بجائے مغرور اور متکبر
بن جائے اور اس کی نشانیوں سے اعراض برتنے لگے تووہ شخص کسی اور پر نہیں بلکہ اپنے
آپ پر ہی ظلم کر رہا ہے۔ اس ظلم کو کتاب ہدایت میں ’’بہت بڑا ظلم‘‘ قرار دیا گیا ہے
اور اس کے عوض دردناک عذاب کی وعید بھی سنائی گئی ہے اور ایسا شخص ہدایت سے محروم رہتا
ہے۔
﴿اِنَّا جَعَلْنَا
عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اَکِنَّةً اَنْ يَّفْقَهُوْهُ وَ فِيْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا١ؕ وَ
اِنْ تَدْعُهُمْ اِلَى الْهُدٰى فَلَنْ يَّهْتَدُوْۤا اِذًا اَبَدًا۰۰۵۷﴾ (الکهف)
’’بے شک ہم نے ان
کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں جس کی بناء پر وہ ہدایت کو نہیں سمجھ سکتے اور ان کے کانوں
میں گرانی ہے۔ اب اگر آپ ان کو ہدایت کی طرف بلاتے بھی رہیں تو یہ کبھی بھی ہدایت
قبول نہیں کریں گے۔‘‘
اللہ کی نشانیوں میں غوروفکر نہ کرنے اور اس کی ہدایت سےمنہ
موڑنے ہی کا نتیجہ ہے کہ انسان حیران و پریشان کسی متاع گم گشتہ کی تلاش میں سرگرداں
ہیں لیکن مجال ہے کہ اسے آسودگی میسر ہو۔
﴿فَمَا لَهُمْ عَنِ
التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِيْنَۙ۰۰۴۹ كَاَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَةٌۙ۰۰۵۰﴾ (المدثر)
’’انہیں کیا ہو گیا
ہے کہ وہ نصیحت سے منہ موڑے ہوئے ہیں گو یا کہ وہ بدکے ہوئے گدھے ہیں۔‘‘
اقوام ماضی کو اسی رویہ لا پرواہی اور احسان فراموشی کی وجہ
سے عذاب سخت نے آلیاتھا:
﴿فَاِنْ اَعْرَضُوْا
فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَؕ۰۰۱۳﴾(فصلت)
’’اللہ کی طرف سے
ہدایت کے آنے پر بھی اگر یہ لوگ روگرداں ہوں
تو کہہ دیجیے کہ میں تمہیں اس کڑک عذاب آسمانی سےڈراتا ہوں جو قوم عاد اور قوم ثمود
پر نازل ہوا۔‘‘
ایسے متکبر انسان سے دور رہنے اور اس سے بچنے کی تلقین کی گئی
ہے تاکہ ایک اچھے اور صالح معاشر ہ کے قیام کے لیے ایسے رویوں سے بچا جاسکے۔
﴿وَ لَا تُطِعْ مَنْ
اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا۰۰۲۸﴾
’’اور دھيان رکھنا
ایسے شخص کا کہا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی
خواہشات کے پیچھے چل پڑا ہےاور جس کا معاملہ حد سے گزر چکا ہے۔‘‘
درسِ حدیث
نیکی کے کام
فرمان نبویe ہے:
[عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ
رَسُولُ اللهِ ﷺ: "كُلُّ سُلامَى مِنَ النَّاسِ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ كُلُّ يَومٍ
تَطْلُعُ فِيْهِ الشَّمْسُ: تَعْدِلُ بَيْنَ اثْنَيْنِ صَدَقَةٌ، وَتُعِيْنُ الرَّجُلَ
في دَابَّتِهِ فَتَحْمِلُ لَهُ عَلَيْهَا أَو تَرْفَعُ لَهُ عَلَيْهَا مَتَاعَهُ صَدَقَةٌ،
وَالكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ صَدَقَةٌ، وَبِكُلِّ خُطْوَةٍ تَمْشِيْهَا إِلَى الصَّلاةِ
صَدَقَةٌ، وَتُمِيْطُ الأَذى عَنِ الطَّرِيْقِ صَدَقَةٌ"] (بخاری ومسلم)
سیدنا ابوہریرہt سے
روایت ہے‘ انہوں نے کہا کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’ہر روز ہر انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ واجب
ہے۔ آپ فریقین کے درمیان صلح کروا دیں یہ صدقہ ہے۔ آپ کسی انسان کی اس کے جانور
(سواری) کے بارے میں امداد کر دیں کہ اسے اس پر سوار کروا دیں یا اس کا سامان سواری
پر لادنے میں اس کی مدد کر دیں یہ صدقہ ہے اور عمدہ وپاکیزہ بات صدقہ ہے اور ہر وہ
قدم جو تو نماز کے لیے اٹھاتا ہے صدقہ ہے اور جو تو کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹاتا
ہے صدقہ ہے۔‘‘ (بخاری ومسلم)
انسان کا ہر نیک کام اس کے لیے نجات کا سبب بنتا ہے اور دنیا
میں بھی لوگ اس سے محبت کرتے ہیں۔ تلاوت کردہ حدیث میں رسول اللہe نے
ہر انسان کو نیکی کی طرف رغبت دلائی ہے کہ اگر آپ دو آدمیوں یا دو متحارب پارٹیوں
کے درمیان صلح کروا دیں تو یہ صدقہ ہے۔ ایسے ہی اگر آپ کسی شخص کو اپنی سواری پر سوار
ہونے میں اس سے تعاون کرتے ہیں تو یہ بھی صدقہ ہے۔ یعنی سواری بھی اس کی ہے آپ اس
کا سامان لادنے میں اس سے تعاون کر دیں یا اس کی سواری یعنی گھوڑے‘ اونٹ وغیرہ کو تھام
لیں اور وہ آسانی سے اس پر سوار ہو جائے یہ نیکی ہے جس پر کوئی خرچ نہیں ہوا صرف تعاون
کیا اور ثواب مل گیا۔
پاکیزہ اور عمدہ بات بھی صدقہ ہے۔ عمدہ بات کی مثال تو اللہ
تعالیٰ نے قرآن میں بیان فرمائی ہے کہ عمدہ بات تو ایسے ہے جیسے کہ ایک عمدہ درخت
ہے جس کی جڑیں زمین میں قائم ہیں اور شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں اور ہر موسم میں
پھل بھی عمدہ دیتا ہے جس کا ذائقہ بھی بہت اچھا ہے ایسے ہی عمدہ بات کے اچھے اثرات
مرتب ہوتے ہیں جس پر ثواب بھی مرتب ہوتا ہے اور ہر وہ قدم جو نماز کے لیے مسجد کی طرف
اٹھایا جاتا ہے نیکی ہے۔ ہر قدم کے بدلے نیکیاں ملتی ہیں۔ ایک مرتبہ بعض صحابہ کرام نے جن کے گھر مسجد
سے کچھ فاصلے پر تھے۔ حضور اکرمe سے
خواہش کا اظہار کیا کہ ہم اپنے گھر مسجد کے قریب بنا لیں۔ تو آپﷺ نے منع فرما دیا
اور کہا کہ ’’مسجد کی طرف اُٹھنے والا ہر قدم شمار کیا جاتا ہے اور ہر قدم کے بدلے
نیکی ملتی ہے۔‘‘ لہٰذا آباد ہونے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اس حدیث میں آخری بات یہ بیان
فرمائی کہ کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دینا بھی نیکی ہے۔ کوئی پتھر یا کانٹے
دار جھاڑی گذرنے والوں کی تکلیف کا باعث بنتی ہے اسے راستے سے ہٹا دینا بھی نیکی ہے۔
یہ وہ باتیں ہیں جن پر عمل کر کے عمدہ معاشرے کی تشکیل ممکن ہے۔
No comments:
Post a Comment