نعمتوں کا شکر اور سفر کے آداب
امام الحرم المکی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبداللہ البعیجان d
21 ربیع
الآخر 1440ھ
بمطابق 28 دسمبر 2018ء
حمد و ثناء کے بعد!
الحمد للہ! ہر طرح کی حمد و ثناء اللہ تعالی ہی کے لئے ہے۔ جو اس سے التجا کرتا
ہے وہ اس کی مراد ضرور پوری کرتا ہے۔ وہی بے بس لوگوں کا سہارا ہے۔ وہی مصیبت زدگان
کی مصیبتیں دور کرنے والا ہے۔ ساری مخلوق پر اپنی نعمتیں نچھاور کرنے والا ہے۔
’’زمین
میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق
وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے، سب کچھ ایک صاف دفتر
میں درج ہے۔‘‘ (ہود: ۶)
وہ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے۔ جس طرح چاہتا ہے ویسے ہی حکم دیتا ہے۔
’’وہی
ہے جو لوگوں کے مایوس ہو جانے کے بعد مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے اور
وہی قابل تعریف ولی ہے۔‘‘ (الشوری: ۲۸)
ہم اپنے نفس کے شر سے اور اپنے برے اعمال سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔ جسے اللہ
ہدایت عطا فرمائے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت
نہیں دے سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا
کوئی شریک نہیں۔ یہی وہ گواہی ہے جس سے مجھے قیامت کے دن نجات کی امید ہے۔ میں یہ بھی
گواہی دیتا ہوں کہ محمدe اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ آپe نے پیغام پہنچا دیا، امانت ادا کر دی، امت کو نصیحت کی اور اللہ کی راہ میں
یوں جہاد کیا جیسے جہاد کرنے کا حق تھا یہاں تک کہ آپe اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اللہ کی رحمتیں، برکتیں اور سلامتی ہو آپe پر، اہل بیت پر اور تمام صحابہ کرام پر۔
اللہ کے بندو! میں خود کو اور آپ سب کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ یہی وہ
نصیحت ہے جو اللہ تعالی نے اگلوں اور پچھلوں کو فرمائی ہے۔
’’تم
سے پہلے جن کو ہم نے کتاب دی تھی انہیں بھی یہی ہدایت کی تھی اور اب تم کو بھی یہی
ہدایت کرتے ہیں کہ خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرو۔‘‘ (النساء: ۱۳۱)
اللہ کے بندو! ’’خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل
اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و
اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش
ہو گئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہو گئے‘ پھر وہی کھیتی
پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہو گئی پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے۔ اِس کے
برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے‘ دنیا
کی زندگی ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ (ـالحدید: ۲۰)
دنیا، زوال پذیر نعمتوں کا ٹھکانا ہے، جلد ختم ہو جانے والا سایہ ہے، اس کے دن
گنے چنے ہیں۔
’’دنیا
کی یہ زندگی (جس کے نشے میں مست ہو کر تم ہماری نشانیوں سے غفلت برت رہے ہو) اس کی
مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا تو زمین کی پیداوار، جسے آدمی اور جانور
سب کھاتے ہیں، خوب گھنی ہو گئی، پھر عین اُس وقت جبکہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں
بنی سنوری کھڑی تھیں اور ان کے مالک یہ سمجھ رہے تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اُٹھانے
پر قادر ہیں، یکایک رات کو یا دن کو ہمارا حکم آ گیا اور ہم نے اسے ایسا غارت کر کے
رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ اس طرح ہم نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے
ہیں اُن لوگوں کے لیے جو سوچنے سمجھنے والے ہیں۔‘‘ (یونس: ۲۴)
اے مسلمانو! کائنات، ایک کھلی کتاب ہے جس کا مطالعہ کرنے اور اس پر غور و خوض کرنے
کی تلقین اللہ تعالی نے فرمائی ہے۔ مخلوقات پر تدبر کو عبادت شمار کرتے ہوئے فرمایا:
’’جو
لوگ عقل سے کام لیتے ہیں اُن کے لیے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم
ایک دوسرے کے بعد آنے میں، اُن کشتیوں میں جوا نسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤں
اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اُس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے
پھر اس کے ذریعے سے زمین کو زندگی بخشتا ہے اور اپنے اِسی انتظام کی بدولت زمین میں
ہر قسم کی جان دار مخلوق پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش میں، اور اُن بادلوں میں جو آسمان
اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں، بے شمار نشانیاں ہیں۔‘‘ (البقرہ:
۱۶۴)
اللہ کے بندو! ایسی کتنی تنگیاں ہیں جو لوگوں پر آئی اور اللہ کے سوا اسے دور کرنے
والا کوئی نہیں تھا، کتنی مصیبتیں آئیں جنہیں ختم کرنے والا اللہ کے سوا اور کوئی نہ
تھا، کتنی بلائیں آئیں جنہیں روکنے والا اللہ کے سوا اور کوئی نہ تھا؟!
’’کون
ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جبکہ وہ اُسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟
اور (کون ہے جو) تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی
(یہ کام کرنے والا) ہے؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو۔‘‘ (النمل: ۶۲)
ہمارا ماحول سخت گرمی کی تپش کا اور موسم گرما کی سخت خشکی کا شکار تھا، زمین خشک
سالی کا شکار تھی، جانور کمزور ہو چکے تھے، کنوؤں کا پانی نیچے اتر گیا تھا، درخت
سوکھ گئے تھے، پھول مرجھا گئے تھے، پھل کم ہو گئے تھے، کھیتیاں مر گئی تھیں اور جانوروں
کا دودھ بھی خشک ہونے لگا تھا، کہ اللہ تعالی نے احوال بدل دیے، اپنی رحمت کے نزول
سے پہلے بشارت دینے والی ہواؤں کو بھیجا، لوگوں کی مایوسی کے بعد اس نے بارشیں نازل
کردیں اور اپنی رحمت عام کر دی۔ وہی ولی ہے اور قابل تعریف ہے۔ اسی کی مشیت سے زمین
میں زندگی آگئی، اس نے خوبصورت لباس زیب تن کر لیا اور خوب سج گئی۔ زندگی مسکرانے لگی،
ماحول بدل گیا اور زمین میں رنگ بھر گئے۔ اللہ بڑا پاکیزہ ہے، وہی بادلوں کو بھیجنے
والا ہے، کھیتیاں نکالنے والا ہے اور مردہ زمین کو پھر سے زندہ کرنے والا ہے۔
’’بھلا
وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایا
پھر اس کے ذریعہ سے وہ خوشنما باغ اگائے جن کے درختوں کا اگانا تمہارے بس میں نہ تھا؟
کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا بھی (اِن کاموں میں شریک) ہے؟‘‘ (النمل: ۶۰)
بہت بالا و برتر ہے اللہ، بہت بالا و برتر ہے اللہ!
اللہ کے بندو! رحمت نازل ہونے کے بعد حالات بدلنے لگتے ہیں، امید پھر سے زندہ ہو
جاتی ہے، امنگیں پھر سے دل میں اٹھنے لگتی ہیں، خوشی، سرور اور فراخی عام ہو جاتی ہے۔
’’دیکھو
اللہ کی رحمت کے اثرات کہ مُردہ پڑی ہوئی زمین کو وہ کس طرح جِلا اٹھاتا ہے، یقیناً
وہ مُردوں کو زندگی بخشنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ (الروم: ۵۰)
اللہ کے بندو! اللہ کی نعمتیں ان گنت ہیں۔ اس کی عطاؤں کا شمار ممکن نہیں، جو کچھ
اللہ کے پاس ہے، وہ اس کی اطاعت، اس کی خوشنودی کی تلاش اور اس کی نعمتوں اور عطاؤں
کے شکر ہی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
’’اگر
بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین
سے برکتوں کے دروازے کھو ل دیتے۔‘‘ (الاعراف: ۹۶)
بندوں میں اللہ کا طریقہ یہ ہے:
’’یاد
رکھو، تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ
نوازوں گا اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔‘‘ (ابراہیم: ۷)
اے مسلمانو! نعمتوں کی ناشکری بلاؤں اور مصیبتوں کی آمد کی بنیادی وجہ ہے۔ اللہ
تعالی نے ناشکری سے ہمیں خبردار فرمایا ہے اور ہمیں مثالیں بھی دیں ہیں۔ فرمایا:
’’اللہ
ایک بستی کی مثال دیتا ہے‘ وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہر طرف سے
اس کو بافراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اُس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران شروع کر دیا‘ تب
اللہ نے اس کے باشندوں کو اُن کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں
ان پر چھا گئیں۔‘‘ (النحل: ۱۱۲)
قوم سبا کے قصے میں بھی بڑی عبرت ہے۔
’’سبا
کے لیے اُن کے اپنے مسکن ہی میں ایک نشانی موجود تھی، دو باغ دائیں اور بائیں کھاؤ
اپنے رب کا دیا ہوا رزق اور شکر بجا لاؤ اُس کا، ملک ہے عمدہ و پاکیزہ اور پروردگار
ہے بخشش فرمانے والا مگر وہ منہ موڑ گئے آخرکار ہم نے اُن پر بند توڑ سیلاب بھیج دیا
اور ان کے پچھلے دو باغوں کی جگہ دو اور باغ انہیں دیے جن میں کڑوے کسیلے پھل اور جھاؤ
کے درخت تھے اور کچھ تھوڑی سی بیریاں یہ تھا ان کے کفر کا بدلہ جو ہم نے ان کو دیا،
اور ناشکرے انسان کے سوا ایسا بدلہ ہم اور کسی کو نہیں دیتے۔‘‘ (سبأ: ۱۵-۲۷)
اسی طرح اللہ تعالی نے فرمایا:
’’انہوں
نے اپنے اوپر خود ظلم کیا‘ آخرکار ہم نے انہیں افسانہ بنا کر رکھ دیا اور انہیں بالکل
تتربتر کر ڈالا یقینا اس میں نشانیاں ہیں ہر اُس شخص کے لیے جو بڑا صابر و شاکر ہو۔‘‘
(سبأ: ۱۹)
تو اللہ کے بندو! اللہ کا شکر ادا کرو! اس کی تو اور عطاؤں کا شکر ادا کرو، وہ
تمہیں مزید عطا فرمائے گا۔ اس کے فضل و کرم اور احسان پر اس کی حمد و ثناء بیان کرو،
وہ آپ پر رحم کرے گا۔
’’اپنے
رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمہاری
موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا۔‘‘ (ہود: ۵۲)
’’اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر
آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا۔ تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمہارے لیے باغ پیدا
کرے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کر دے گا۔‘‘ (نوح: ۱۰-۱۲)
دوسرا خطبہ
حمد وصلوٰۃ کے بعد:
موسم سرما کی چھٹیوں کے دن، آرام اور تفریح کے دن بھی ہیں اور اگلے دنوں کی تیاری
کے دن بھی ہیں۔ بہت سے لوگ ان دنوں میں سیر و تفریح اور صحت کی طرف مائل رہتے ہیں‘
اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن ضرورت سے زیادہ اپنے وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہیے اور جائز
کاموں میں بھی ضرورت سے زیادہ محو نہیں ہونا چاہیے۔
اے مسلمانو! دین اسلام میں انسانوں کے تمام حالات کے متعلق احکام موجود ہیں، سفر
و اقامت کے احکام بھی پائے جاتے ہیں۔ مسلمان کو یہی زیب دیتا ہے کہ وہ سفر کے آداب
و احکام پر بھی ویسے ہی عبور رکھے جیسے اسے اقامت کے احکام پر عبور ہے۔ سفر کے احکام
و آداب میں سے یہ بھی ہے کہ گھر والوں کو خیر باد کہا جائے، گھر سے نکلنے کی دعا پڑھی
جائے اور سواری پر سوار ہوتے وقت بھی اللہ کو یاد کیا جائے۔
سیدنا ابن عمرw سے روایت ہے کہ رسول اللہe جب سفر کے لئے اپنی اونٹنی پر سوار ہو جاتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے اور
پھر کہتے:
[سُبْحٰنَ الَّذِیْ
سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَــــہٗ مُقْرِنِیْنَ]
’’پاک
ہے وہ جس نے ہمارے لیے اِن چیزوں کو مسخر کر دیا ورنہ ہم انہیں قابو میں لانے کی طاقت
نہ رکھتے تھے۔‘‘ (الزخرف: ۱۳)
اے اللہ! اس سفر میں ہم تجھ سے نیکی اور پرہیزگاری کا سوال کرتے ہیں۔ ان اعمال
کا سوال کرتے ہیں جن سے تو راضی ہوتا ہے۔ اے اللہ! سفر کو ہمارے لئے آسان کر دے اور
اس کی مسافت ہمارے لئے قریب کر دے۔ اے اللہ! سفر میں بھی تو ہی ہمارا ساتھی ہے اور
گھر والوں میں بھی تو ہی ہمارا خلیفہ ہے۔ اے اللہ! ہم سفر کی مشکلات سے، بدحالی سے،
گھر والوں اور مال کی مصیبتوں سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔
پھر جب سفر سے واپس آتے تو بھی یہی دعا پڑھتے اور ساتھ یہ بھی کہتے:
[آئبُوْنَ، تَاپبُوْنَ،
عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ]
’’لوٹ
آئی ہیں، اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں، اسی کی عبادت کرتے ہیں اور اسی کی حمد و ثنا بیان
کرتے ہیں۔‘‘
سفر کے آداب میں یہ بھی ہے کہ سفر کے لئے بہترین دن کا انتخاب کیا جائے۔ اگر جمعرات
کا دن ہو تو بہت بہتر۔ اسی طرح بہترین وقت کا انتخاب کرنا چاہئے۔ اگر صبح صبح کا وقت
ہو تو بہت اچھا۔
سیدنا کعب بن مالکt سے روایت ہے کہ کم ہی ہوتا کہ رسول اللہe جمعرات کے علاوہ کسی دوسرے دن میں اپنے سفر کا آغاز کرتے۔ اسی طرح آپe فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ! میری امت کو صبح کے وقت میں برکت عطا فرما۔
جب آپe کسی لشکر کو بھیجتے تو انہیں صبح صبح روانہ کرتے۔
سیدنا حسنt تجارت کرتے تھے اور اپنا مال صبح صبح روانہ کر دیتے تھے، یہی وجہ بنی کہ ان
کا مال بہت بڑھ گیا اور وہ خوب مالدار ہو گئے۔ (ترمذی‘ ابوداؤد)
سفر کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ اکیلے سفر نہ کیا جائے بلکہ نیک صحبت تلاش کی جائے۔
سیدنا عبد بن عمرw سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ تنہائی کتنی خطرناک ہے تو کبھی
کوئی شخص رات کے وقت اکیلا نہ چلے۔‘‘
اسی طرح سفر کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ فرائض ادا کئے جائیں۔ نماز میں ادا کی جائیں۔
اللہ تعالی نے نمازوں کو ضائع کرنے اور ان میں تاخیر کرنے سے خبردار فرمایا ہے۔ فرمایا:
’’پھر
تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لیے‘ جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں۔‘‘ (الماعون:
۴-۵)
سنت یہ ہے کہ سفر کے دوران چار رکعتوں والی نماز کی دو رکعتیں ادا کی جائیں۔ فرمان
الٰہی ہے:
’’جب
تم لوگ سفر کے لیے نکلو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر نماز میں اختصار کر دو۔‘‘ (النساء:
۱۰۱)
ظہر اور عصر، پھر مغرب اور عشاء کو اکٹھا بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ شریعت میں موزوں
پر مسح کرنے کی سہولت بھی رکھی گئی ہے۔ مقیم ایک دن اور ایک رات تک مسح کر سکتا ہے
جبکہ مسافر تین دن اور تین رات تک مسح کر سکتا ہے۔
اسی طرح ایک ادب یہ بھی ہے کہ ماحول کو آلودہ کرنے سے بچا جائے۔ کوڑا کرکٹ کو کوڑے
دانوں سے باہر پھینکنے سے اجتناب کیا جائے۔ سیروتفریح کرنے والوں کو تنگ نہ کیا جائے،
نگاہیں نیچی رکھی جائیں، کسی کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہ کی جائے۔ ان کے راستوں
میں نہ رکا جائے۔ استعمالِ عام کی چیزوں کو خراب نہ کیا جائے۔
اے مسلمانو! جو خشکی کے راستے میں یا صحراؤں میں سیر و تفریح کے لیے نکلنا چاہتا
ہو، اور اس کی مسافت قصر کی مسافت سے زیادہ ہو تو اسے نماز قصر اور جمع کرنے کی اجازت
ہے۔ اسلام، نرمی اور آسانی کا دین ہے۔
’’دین
میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔‘‘ (الحج: ۷۸)
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما۔ اے اللہ! شرک اور مشرکوں کو رسوا
کرنا۔ اے اللہ! ہر جگہ مسلمانوں کے احوال درست فرما۔ اے اللہ! ہر جگہ مسلمانوں کے احوال
درست فرما۔ اے اللہ! اس ملک کو اور تمام مسلم ممالک کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنا۔
آمین!
No comments:
Post a Comment