5 فروری ... یوم
یکجہتی کشمیر
تحریر: جناب عبدالشکور آزاد (مظفر
آباد)
۵ فروری اہل پاکستان
اور پاکستانی حکومت یوم یکجہتیٔ کشمیر کے طور پر مناتے ہیں۔ اس دن پاکستان اور آزاد
کشمیر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ یہ دن دنیا بھر میں مقیم پاکستانی اور کشمیری اس جذبے
کے ساتھ مناتے ہیں کہ مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر کے عوام جو ہندوستان کے خلاف جد وجہد
آزادی میں مصروف ہیں کے ساتھ اظہار یکجہتی ہو اور اس طرح کشمیری عوام کی حوصلہ افزائی
ہوتی ہے۔ اس دن سرکاری اور پرائیویٹ سطح پر جلسے جلوس‘ سیمینار اور پاکستان وآزاد کشمیر
کو ملانے والے (کوہالہ پُل) اور راستوں پر انسانی زنجیریں بنائی جاتی ہیں۔ اہل پاکستان
اور حکومت پاکستان مقبوضہ کشمیر کے ساتھ اخلاقی‘ سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھنے
کے اپنے عہد کا اعادہ کرتی ہے۔
یہ دن تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ ۱۹۷۴ء میں اندرا + عبداللہ ایکارڈ عمل میں آیا تھا۔ ہندوستان کا پہلا وزیر اعظم جواہر
لعل نہرو جو کام نہیں کر سکا تھا وہ اس کی بیٹی اندرا گاندھی نے کر دکھایا۔ برسوں کی
جد وجہد آزادی کو بالائے طاق رکھ کر شیخ محمد عبداللہ نے کشمیر ایکارڈ یا اندرا عبداللہ
معاہدہ قبول کیا اور اس کے بعد کشمیر میں شیخ عبداللہ اور نئی نسل کی راہیں الگ الگ
ہو گئیں۔ اس نام نہاد معاہدے کی رو سے ریاست جموں وکشمیر کو ہندوستان کا جزو قرار دیا
گیا اور ہندوستان اور کشمیر کے تعلقات ہندوستانی آئین کی دفعہ ۳۷۰ کے تابع کر دیا
گیا۔ اس موقع پر ہندوستان کی اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے سقوط ڈھاکہ کے بعد
ایک دفعہ پھر خوشی کا اظہار کیا۔ اس معاہدے کے بعد مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں اس وقت
کانگریس آئی کے ممبران اسمبلی نے شیخ عبداللہ کو قائد ایوان مقرر کیا اور آخر کار ۲۲ سال کی طویل جد
وجہد کے بعد وہ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف لینے پر مجبور ہو گیا۔ جبکہ ۱۹۵۳ء میں ہندوستانی سرکار نے شیخ صاحب کو گرفتار کیا تو اس وقت وہ ریاست جموں وکشمیر
کے وزیر اعظم تھے۔ لیکن یہ معاہدہ شیخ عبداللہ کی خواہش کے مطابق ۱۹۵۳ء میں برطرفی سے قبل کی پوزیشن پر واپس نہیں لا سکا۔ ۲۵ فروری ۱۹۷۵ء کو اندرا گانگریس نے شیخ عبداللہ کو مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں قائد ایوان تسلیم
کیا تو اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان اور آزاد کشمیر میں
۲۸ فروری ۱۹۷۵ء بروز جمعہ مکمل ہڑتال کی کال دی۔ بھٹو صاحب کا کہنا تھا کہ جمہوریت کے دعویدار
شیخ محمد عبداللہ ایک ایسی پارٹی کی حکومت کے سربراہ بننے جا رہے ہیں جس کے ساتھ ان
کا کوئی تعلق نہیں اور ایک ایسی اسمبلی کے ذریعے جس کے وہ ممبر بھی نہیں۔ بھٹو صاحب
کی اپیل پر ایک زبردست اور تاریخی ہڑتال ہوئی جسے مستقبل کا مؤرخ‘ پاکستان کے حق میں
ریاست جموں وکشمیر کے عوام کا حتمی فیصلہ قرار دے رہا ہے۔ اس موقع پر حکومت پاکستان
نے اقوام متحدہ پر واضح کیا کہ جموں وکشمیر کے بارے میں کشمیر ایکارڈ کوئی معنی نہیں
رکھتا اور اقوام متحدہ میں کشمیری عوام سے کیے گئے حق خود ارادیت کی قرار دادوں پر
عمل ہونا چاہیے۔ اس کے بعد ۱۹۹۰ء میں جب مقبوضہ
کشمیر میں مسلح تحریک کا آغاز ہوا تو کشمیری عوام نے اس کی بھر پور حمایت کی۔ لاکھوں
کی تعداد میں لوگ جلسے جلوسوں اور مظاہروں کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔
سری نگر میں اقوام متحدہ کے مرکزی دفتر تک لاکھوں کی تعداد میں کشمیری عوام نے تاریخی
مارچ کیا اور اپنے مطالبات میں
’’ہم کیا چاہتے … آزادی‘ آزادی کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ‘ پاکستان
سے رشتہ کیا لا الٰہ الا اللہ‘‘
کے فلک شگاف نعروںسے ساری وادی گونج اٹھی۔ اس سے قبل چوری چھپے
کشمیری عوام اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے تھے۔ یہ تبدیلی کی ابتدا تھی جس سے کشمیری
عوام نے ہندوستان اور اقوام عالم کو باور کرایا کہ اب انہیں آزادی سے کوئی نہیں روک
سکتا۔ یہ ریاست گیر انتفاضہ ہنوز جاری ہے۔ اس حق بجانب تحریک کو کچلنے کے لیے ہندوستان
نے ریاستی دہشت گردی کا بد ترین مظاہرہ کیا۔ آٹھ لاکھ کیل کانٹے سے لیس ہندوستان کی
نام نہاد فوج نے ظلم وبربریت کا بازار گرم کیے رکھا اور انسانی حقوق کے عالمی قوانین
پامال کیے گئے۔ اس دوران ایک لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ گھر گھر
تلاشی‘ شناختی پریڈ‘ بستیوں کی بستیاں خاکستر کی گئیں۔ ہزاروں کی تعداد میں کشمیری
نوجوانوں پر ٹارچر سلیوں میں بدترین مظالم ڈھائے گئے۔ عفت مآب خواتین کو بھی نہیں بخشا
گیا۔ کرفیو‘ کریک ڈاؤن‘ پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA)۔
)AFSPA) Armed Forces Security
Power Act.
جیسے کالے قوانین استعمال کیے گئے لیکن ان تمام تر مظالم کے
باوجود یہ تحریک جاری ہے۔ ان حالات میں جماعت اسلامی پاکستان کے اس وقت کے امیر قاضی
حسین احمد (مرحوم) نے ۵ فروری ۱۹۹۰ء کو کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ملک گیر ہڑتال کی کال دی تو اس وقت
کی وزیر اعظم پاکستان محترمہ بینظیر بھٹو اور پنجاب میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ میاں
محمد نواز شریف نے اس کال کی بھر پور حمایت کی اور اس کے بعد سے یہ دن ہر سال منایا
جاتا ہے۔ یہ یکجہتی کا دن اسی تسلسل کا حصہ ہے جو بھٹو صاحب نے ۱۹۷۵ء میں ۲۸ فروری کی کال دے
کر ثابت کیا تھا کہ اہل پاکستان کشمیری عوام کی جد وجہد آزادی کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے
ہیں۔
۸ جولائی ۲۰۱۶ء کو کشمیری نوجوان
برہان مظفر وانی کی شہادت نے تحریک آزادی کشمیر کو ایک ولولہ بخشا۔ لاکھوں کشمیری عوام
نے برہان وانی کے جنازہ میں شرکت کی اور ہندوستانی قابض افواج کی طرف سے لگائے گئے
کرفیو کے باوجود کشمیری عوام کے ہندوستان مخالف مظاہروں نے کٹھ پتلی انتظامیہ کی نیندیں
حرام کر دیں۔ اس انتفاضہ کے دوران ایک سو بیس کشمیری شہید ہو گئے۔
ہندوستانی قابض افواج نے ان مظاہروں کو کنٹرول کرنے کے لیے پیلٹ
گن کا استعمال کیا جس سے سینکڑوں نوجوانوں کی بینائی ضائع ہوئی لیکن اس کے باوجود یہ
تحریک جاری ہے۔ اس تحریک کے دوران مقبوضہ کشمیر میں ایثار وقربانی کا ایسا جذبہ پایا
گیا جس سے قرون اولیٰ کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ ہڑتال اور کرفیو کے دوران جب مقبوضہ
وادی میں کاروبار زندگی معطل رہا تو دیہی علاقوں سے لوگ راشن اور دیگر ضروری اشیاء
جمع کر کے ٹرانسپورٹ کے ذریعے شہری اور متاثرہ علاقوں کی طرف روانہ کرتے تھے۔ اس دوران
کشمیری نوجوان رضا کارانہ طور پر بخوشی یہ ڈیوٹی انجام دیتے رہے۔ جب یہ راشن کسی متاثرہ
علاقے میں پہنچایا جاتا تھا تو لوگ یہ کہہ کر راشن واپس کر دیتے کہ ہمارے پاس آج کے
لیے راشن موجود ہے‘ آگے کسی ضرورت مند تک یہ سامان پہنچائیں۔ اسی طرح کشمیری عوام کے
دلوں سے ہندوستانی فوج کا ڈر اور خوف ختم ہو چکا ہے۔ اب نہتے کشمیری بچے بھی ہندوستانی
فوج کا مقابلہ کرتے ہیں تو ایسی قوم کو آزادی کی نعمت سے ہندوستان کا کوئی بھی حربہ
نہیں روک سکتا۔
سال ۲۰۱۷ء اور ۲۰۱۸ء میں بھی کشمیری نوجوانوں کی طرف سے ایک اور کارنامہ سامنے آیا۔ پڑھے لکھے اور
اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اس تحریک میں شریک ہوئے اور تین پی ایچ ڈی سکالرز ڈاکٹر محمد
رفیق بٹ‘ ڈاکٹر عبدالمنان وانی اور ڈاکٹر عبدال احد گنائی نے گرم گرم لہو پیش کر کے
اپنا نام ہمیشہ کے لیے زندہ رکھا۔ ان تینوں نوجوانوں نے ہندوستانی فوج کے خلاف عسکری
محاذ کا انتخاب کیا اور ہندوستان اور پوری دنیا کو یہ باور کرایا کہ آزادی کی یہ تحریک
کوئی دہشت گردی کی تحریک نہیں بلکہ ہم کشمیر کی آزادی کے لیے ہر محاذ پر لڑنے کی صلاحیت
رکھتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں مقبوضہ کشمیر میں ایک اور کشمیری نوجوان شاہ
فیصل نے ہندوستان کی اعلیٰ ترین نوکری کو خیر باد کہا اور جواز یہ پیش کیا کہ کشمیر
میں ہندوستان ریاستی دہشت گردی کے ذریعے تحریک آزادی کو کچلنے کی ناکام کوشش کر رہا
ہے۔ یاد رہے شاہ فیصل نے ۲۰۱۰ء میں انڈین ایڈمنسٹریٹو
سروس (آئی اے ایس) کے امتحان میں پورا ہندوستان ٹاپ کیا تھا اور اس کے بعد وہ ہندوستان
میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہا۔
انہوں نے اپنی نوکری چھوڑ کر پیغام دیا ہے کہ ہندوستان کشمیر
میں ظلم وستم ڈھا رہا ہے۔ اب ہندوستان دنیا کے سامنے کیا جواب دے گا کہ جب ۲۰۱۶ء میں برہان مظفر وانی کو شہید کیا گیا تھا تو اس وقت ہندوستانی میڈیا نے ان کو
دہشت گرد قرار دیا تھا اب جبکہ شاہ فیصل نے ہندوستان کی اعلیٰ ترین سروس اس بات پر
چھوڑ دی کہ ہندوستان دہشت گردی کے ذریعے کشمیر کی تحریک کو کچلنے کی کوشش کر رہا ہے
تو اس پر ہندوستانی میڈیا پر کیا اخلاقی جواز باقی رہتا ہے؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ جب اس مسئلے کے دو اہم فریق پاکستان اور
کشمیری ایک صفحے پر ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہندوستان کشمیریوں کی اس تحریک کو کچلنے کے
لیے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لا رہا ہے۔ اس موقع پر ہمیں تحریک آزادئ کشمیر کو
منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ہم آہنگی‘ صبر اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کی طرف
سے ڈھائے جانے والے مظالم اور اقوام متحدہ میں اس کا وعدہ یاد دلانے کے لیے عالمی سطح
پر اس تحریک کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
No comments:
Post a Comment