Thursday, May 16, 2019

Mazmoon05-03-2019


اہل بیت اور صحابہ کرام ؓ

(دوسری وآخری قسط) تحریر: جناب مولانا محمد نعمان فاروقی
پنجم: فضائل اہل بیت:
رسول اللّٰہe کا فرمان ہے:
[حُسَیْنُ مِنِّی وَاَنَا مِنْ حُسَیْن۔] (جامع الترمذی: ۳۷۷۴)
’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔‘‘
اسی طرح نبیe نے سیدنا علیt کے بارے میں بھی فرمایا:
[اَمَّا عَلَیٌّ فَہُوَ مِنِّی وَ اَنَا مِنْہُ۔] (المستدرک للحاکم: ۳/۱۳۰)
’’رہے علی! تو وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔‘‘
 فضائل صحابہ:
نبی مکرّم e نے فرمایا:
[إِنَّ الْاَشْعَرِیِّینَ إِذَا اَرْمَلُوا فِی الْغَزْوِ، اَوْ قَلَّ طَعَامُ عِیَالِہِمْ بِالْمَدِینَةِ جَمَعُوا مَا کَانَ عِنْدَہُمْ فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ اقْتَسَمُوا بَیْنَہُمْ فِی إِنَاءٍ وَاحِدٍ بِالسَّوِیَّةِ، فَہُمْ مِنِّی وَاَنَا مِنْہُمْ۔] (صحیح البخاری: ۲۴۸۶)
’’اشعری قبیلے کے افراد ایسے ہیں کہ انہیں سفر میں کوئی ضرورت پیش آجائے یا شہر میں رہتے ہوئے ان کا کھانا کنبے کو پورا نہ آسکے تو وہ جتنے افراد ہوں ان کے پاس جو جو بھی ہو وہ کپڑے میں جمع کر لیتے ہیں پھر ایک برتن سے بھر بھر کر آپس میں برابر تقسیم کرلیتے ہیں۔ لہٰذا وہ مجھ سے اور میں ان سے ہوں۔‘‘
موازنہ: [ہُوَ مِنِّی وَاَنَا مِنْہُ] اظہارِ محبت کا ایک کلمہ ہے جوکسی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے عربی میں مستعمل ہے۔ اگر یہ صرف سیدنا حسین tکے بارے میں زبانِ نبوت سے جاری ہوتا تو اس سے نہ جانے کیا کیا مطلب اخذ کیا جاتا۔ یہ جملہ آپe نے کئی صحابہ کرام کے بارے میں فرمایا ہے اور اپنے اسی تعلق کا اظہار کئی احادیثِ مبارکہ میں بعد والے اُمتیوں کے بارے میں بھی فرمایا ہے۔اس قسم کے الفاظ صرف صحابہ کے لیے نہیں بعد والوں کے حق میں بھی آپe نے ارشاد فرمائے‘ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:
’’اور جس نے حکمرانوں کے جھوٹ میں ان کی تصدیق نہ کی اور ظلم و جور پر ان کی مدد نہ کی تو ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا: [ہُم مِنِّی وَ اَنَا مِنْہُمْ۔] ’’وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل: ۳/۳۲۱)
زبانِ نبوت سے صادر ہونے والے ایک ہی طرح کے کلمات جو متعدد شخصیات کے بارے میں ہوں، ان سے علیحدہ علیحدہ مفہوم لینا درست نہیں۔
 ششم: فضائل اہل بیت:
حدیثِ مذکور میں یہ الفاظ بھی ہیں:
[اَحَبَّ اللّٰـہُ مَنْ اَحَبَّ حُسَیْنًا۔] (جامع الترمذی: ۳۷۷۵۔ حسن)
’’اللّٰہ اس سے محبت کرے جو حسینt سے محبت کرتا ہے۔‘‘
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ نبیe نے فرمایا:
[إِنِّی اُحِبُّہُمَا فَاَحِبَّہُمَا وَاَحِبَّ مَنْ یُحِبُّہُمَا] (جامع الترمذی: ۳۷۶۹)
’’بے شک میں ان دونوں (حسن و حسین w) سے محبت کرتا ہوں، لہٰذا اے اللّٰہ! تو بھی ان سے محبت کر اور اس سے بھی محبت کر جو ان دونوں سے محبت کرے۔‘‘
 فضائل صحابہ:
نبی کریمe نے سیدنا ابوہریرہ t کے بارے میں فرمایا:
[اَللّٰہُمَّ حَبِّبْ عُبَیْدَکَ ہٰذَا! یَعْنِی اَبَا ہُرَیْرَةَ! وَاُمَّہُ إِلَی عِبَادِکَ الْـمُؤْمِنِینَ وَحَبِّبْ إِلَیْہِمُ الْـمُؤْمِنِینَ۔] (صحیح مسلم: ۲۴۹۱)
’’اے اللّٰہ! اپنے اس عاجز سے بندے کو اور اس کی والدہ کو اپنے مومن بندوں کے ہاں محبوب بنا دے اور ان کے ہاں مؤمنوں کو محبوب بنا دے۔‘‘
سیدنا ابوہریرہt یہ حدیث بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’قیامت تک جو بھی مؤمن آئے گا ،وہ مجھے دیکھے گا تو نہیں لیکن مجھ سے محبت ضرور کرے گا۔ ‘‘
اسی طرح آپe نے انصار کے متعلق فرمایا:
[فَمَنْ اَحَبَّہُمْ اَحَبَّہُ اللّٰہُ، وَمَنْ اَبْغَضَہُمْ اَبْغَضَہُ اللّٰہُ۔] (صحیح البخاری: ۳۷۸۳)
’’جو ان سے محبت کرے اللّٰہ بھی ان سے محبت کرے اور جو ان سے بغض رکھے، اللّٰہ بھی ان سے دشمنی رکھے۔‘‘
ایک حدیث میں تو آپe نے سیدنا حسن اور سیدنا اسامہ بن زیدw کے لیے وہی دعا فرمائی جو اوپر مذکور ہے:
[اللَّہُمَّ اَحِبَّہُمَا، فَإِنِّی اُحِبُّہُمَا۔] (صحیح البخاری: ۳۷۳۵)
موازنہ: اگر ایک طرف اللّٰہ تعالیٰ سے محبت کا حصول سیدنا حسین tکی محبت سے وابستہ کیا گیا ہے تو دوسری طرف، سیدنا اُسامہ بن زیدw اور جملہ انصار کو بھی اس بلند مقام پر فائز کیا گیا کہ جو ان سے محبت کرتا ہے اللّٰہ اس سے محبت کرے۔ لیکن ایک فرق ضرور ہے کہ انصار کے تذکرے میں انصار سے محبت کے ساتھ ساتھ ان سے بغض و عداوت کی سزا بھی بتائی گئی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ سیدنا حسین tسے بغض رکھنے والے نہیں ہوں گے مگر انصار اور دیگر صحابہ کرام )سے بغض رکھنے والے موجود ہوں گے۔ اگر دیکھا جائے تو سیدنا حسین t کے لیے یہ دعائے نبوی اس لیے نہیں تھی کہ باقی کسی سے اللّٰہ کی محبت نہ ہو بلکہ بعض اوقات کسی خاص پس منظر میں بات ہوتی ہے، اسی طرح اگر انصارکے بارے میں آپ نے یہ فرمایا تو اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ مہاجرین سے محبت کرنے والوں سے اللّٰہ محبت نہ کرے۔
 ہفتم: فضائل اہل بیت
نبیe نے سیدہ فاطمہr سے سرگوشی کی تو وہ رونے لگیں، دوبارہ سرگوشی کی تو ہنسنے لگیں۔ ان کے رونے کا سبب یہ تھا کہ آپe نے دنیا سے اپنی رخصتی کا بتایا تھا اور خوش اس لیے ہوئیں کہ آپe نے انہیں بشارت دی کہ
[اَنِّی اَوَّلُ مَنْ یَتْبَعُہُ مِنْ اَہْلِہِ فَضَحِکْتُ۔] (صحیح مسلم: ۶۳۱۲)
’’میں اہل بیت میں سے پہلی ہوں گی جو آپe کے پیچھے (دنیا سے) جاؤں گی، تو میں ہنسنے لگی۔‘‘
 فضائل صحابہ:
اہل سنّت کے تمام مسالک کے نزدیک اُمّہات المؤمنین اہل بیت میں شامل ہیں مگر شیعہ انہیں ان میں شمار نہیں کرتے۔ ذیل کا تقابل انہی کے لیے کیا جارہا ہے۔ اس لیے سیدہ زینبr کا شمار صحابہ میں کیا ہے۔
آپe نے فرمایا:
[اَسْرَعُکُنَّ لِحَاقًا بِی اَطْوَلُکُنَّ یَدًا۔] (صحیح مسلم: ۶۳۱۶)
’’تم میں سے سب سے جلدی مجھ سے ملنے والی وہ ہوں گی جن کا ہاتھ کھلا ہے۔‘‘
موازنہ: نبی کریمe نے اہل بیت میں سے سیدہ فاطمہr کو نامزد کرکے بشارت دی مگر ازواج کو اشارۃً بشارت دی۔ اور اس بشارت میں دونوں کی بابت اپنے اپنے وقت پر دنیاسے رخصت ہو کر آپe سے ملنے کا تذکرہ ہے۔ ازواجِ مطہراتg کو نبیe سے ملنے کا شوق تھا، وہ اس اعزاز کے لیے اپنا جائزہ لیتی رہیں۔ پھر جب نبیe کی وفات کے بعد سیدہ زینب بنت جحشr کی وفات ہوئی تو انہیں پتہ چلا۔ سیدہ زینب کے ہاتھ بہت کھلے تھے یعنی وہ اپنے ہاتھوں سے سخاوت بہت کیا کرتی تھیں۔ الغرض! دونوں کے لیے بشارت تھی اور یہ بشارت دونوں کے لیے اعزاز تھی۔ یہ حدیث دوسری ازواج کے آپ سے دارِ آخرت میں ملنے اور جنت میں آپe کی معیت میں ہونے کی بھی واضح دلیل ہے۔
 ہشتم: فضائل اہل بیت
نبیe نے فرمایا:
[سَیِّدُ الشُّہَدَائِ حَمْزَةُ۔] (السلسلۃ الصحیحۃ: ۳۷۴)
’’سیدنا حمزہt شہداء کے سردار ہیں۔‘‘
 فضائل اُمّت :
حدیثِ مذکور کا دوسرا حصہ یہ ہے :
[وَرَجُلٌ قَامَ إِلٰی إِمَامٍ جَائِرٍ فَأَمَرَہُ وَنَہَاہُ فَقَتَلَہُ۔] (السلسلۃ الصحیحۃ: ۳۷۴)
’’اور وہ شخص بھی شہداء کا سردار ہے جو کسی ظالم و جابر حکمران کو نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے تووہ حکمران اسے قتل کر دے۔‘‘
موازنہ: سید الشہداء  کا شرف اور اعزاز یقینا سیدنا حمزہt کے لیے بہت قابل قدر ہے مگر یہ اعزاز مذکورہ صفات کے حامل شخص کے لیے بھی ہے۔
 نہم: فضائل اہل بیت
سیدنا علیt فرماتے ہیں کہ نبیe نے مجھ سے وعدہ کیا کہ
[لَا یُحِبُّنِی إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا یُبْغِضُنِی إِلَّا مُنَافِقٌ۔] (صحیح مسلم: ۲۴۹)
’’ مجھ سے مؤمن ہی محبت کرے گا اور مجھ سے منافق ہی بغض رکھے گا۔‘‘
 فضائل صحابہ:
نبیe نے انصار کے بارے میں فرمایا:
[الاَنْصَارُ لاَ یُحِبُّہُمْ إِلاَّ مُؤْمِنٌ، وَلاَ یُبْغِضُہُمْ إِلاَّ مُنَافِقٌ۔] (البخاری: ۳۷۸۳)
’’انصار سے محض مؤمن ہی محبت کرے گا اور منافق ہی بغض رکھے گا۔‘‘
موازنہ: سیدنا علی t بھی ایمان و نفاق کا پیمانہ ہیں تو دوسری طرف تمام انصار صحابۂ کرام بھی ایمان ونفاق کی کسوٹی ہیں۔ دونوں کو زبانِ نبوت سے یہ اعزاز ملا ہے۔ اگر اہمیت زبانِ نبوت کو ہو تو دونوں کے اس اعزاز کو منظر عام پر لایا جائے۔ کسی بھی ایک طرف کو بہت اہمیت دینا اور دوسری طرف کا تذکرہ نہ کرنا بلکہ نعوذباللّٰہ انھی کو ہی منافق قرار دینا جو زبانِ نبوت سے ایمان و نفاق معلوم کرنے کی کسوٹی قرار پائے! یہ عدل وانصاف سے بالکل ہٹی ہوئی بات ہے۔ یہاں یہ فرق بھی ضروری ہے کہ اگر کسی نامناسب موقف کی تردید دلائل کی روشنی میں کی جارہی ہو تو اسے سیدنا علی t یا اہل بیت کے کسی فرد سے بغض تصور نہ کیا جائے۔
 دہم: فضائل اہل بیت: 
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
{إِنَّما یُریدُ اللّٰہُ لِیُذہِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اَہلَ البَیتِ وَیُطَہِّرَکُم تَطہیرًا} (الأحزاب)
’’اہل بیت! اللّٰہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی ناپاکی دور کر دے اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے۔‘‘
 اُمّت کے فضائل:
عمومی طور پر اُمّتِ مسلمہ کے متعلق فرمایا:
{وَلـٰکِن یُریدُ لِیُطَہِّرَکُم وَلِیُتِمَّ نِعمَتَہُ عَلَیکُم} (المائدۃ)
’’اور لیکن اللّٰہ تعالیٰ ارادہ رکھتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور تم پر اپنی نعمت پوری کرے۔‘‘
موازنہ: اہل بیت، جن میں ازواج النبیe بھی شامل ہیں، ان کو آیتِ مذکور میں خاص اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ اگرچہ سورہ نساء کی آیت میں انداز بعینہٖ وہی تو نہیں مگر خاصی حد تک ملتا جلتا ہے۔ اہل بیت اور عام اُمتی کا کوئی تقابل نہیں لیکن یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ باقی مسلمان اور خصوصاً جو قرآن کے اوّلین مخاطبین تھے، وہ بھی تطہیر کے عمل سے گزرے تھے۔ اس لیے پانچ کو پاک قرار دینا اور باقی اصحاب کے بارے میں نامناسب رویہ اختیار کرنا کسی طور درست نہیں۔ کیونکہ فرقِ مراتب کے باوجود تطہیر کا ارادہ الٰہی ساری امت سے بھی ہے۔
یازدہم: فضائل اہل بیت:
سیدنا علی t کی کعبہ میں ولادت کی بات مشہور ہے، گو یہ مستند ذریعے سے ثابت نہیں۔ تاہم اس کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو اس سے کوئی خاص فضیلت ثابت نہیں ہوتی۔
فضائل صحابہ:
سیدنا حکیم بن حزامt کی کعبہ میں ولادت ہوئی۔ (سیر اعلام النبلاء: ۳/۴۶)
موازنہ: سیدنا علی tکی ولادت کی دلیل کتب سے تو ہمیں نہیں ملی۔ بالفرض اس کو مان بھی لیا جائے، توپھر بھی یہ سعادت دیگر صحابہ کو بھی حاصل ہوئی۔ اگر یہ ایسے کسی اعزاز کی بات ہوتی تو کم از کم نبیe کی ولادت بھی تو کعبۃ اللّٰہ میں ہونی چاہیے تھی۔
 دوازہم: فضائل اہل بیت:
سیدنا علیt کے بارے میں نبیe نے فرمایا:
[مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ اللّٰہُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ۔] (مسند احمد بن حنبل: ۱/۱۱۹)
’’جس جس کا میں دوست ہوں، علی بھی اس کے دوست ہیں۔ اے اللّٰہ! جو اسے دوست رکھے اسے تو بھی دوست رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے تو بھی اس سے دشمنی رکھ۔‘‘
اسی حدیث کے پیش نظر علی مولا کا نعرہ عام ہے۔
 فضائل صحابہ:
سیدنا زید بن حارثہw کے متعلق رسول اللّٰہe نے فرمایا:
[اَنْتَ اَخُونَا وَمَوْلَانَا۔] (المستدرک للحاکم: ۳/۱۳۰)
’’تم ہمارے بھائی اور ہمارے دوست ہو۔‘‘
علاوہ ازیں نبیe نے جنہیں اپنا دوست بنائے رکھا اورسفر و حضر، مشکل و آسانی، جلوت اور خلوت میں جو ساتھ رہے۔ جن کے بارے میں خود سیدنا علی tکہتے ہیں کہ میں نبیe سے اکثر سنا کرتا تھا کہ میں، ابوبکر اور عمر گئے۔ میں، ابوبکر اور عمر آئے۔ وہ بھی تو نبیe کے دوست تھے۔ ایسے دوست کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ساتھ جگہ بھی نصیب فرما دی۔
موازنہ: مولا کے لغت میں معانی درج ہیں۔ سیدنا علیt کے لیے ان نبوی الفاظ کے معنی دوست کے ہیں جیسا کہ آخری دعائیہ الفاظ مفہوم متعین کر رہے ہیں کیونکہ وہاں وَالِ کے مقابلے میں عادِ استعمال ہوا ہے۔ اور مولا کے الفاظ نبیe نے سیدنا زید کے بارے میں بھی فرمائے۔
مَولیٰ کے ایک معنی آزاد کردہ غلام کے بھی ہیں اور سیدنا زید آزاد کردہ غلام تو تھے ہی لیکن حدیثِ مذکور میں آپe سیدنا زید کو اضافی اعزاز مرحمت فرما رہے تھے کیونکہ جو مرتبہ پہلے سے حاصل تھا، اس کے اظہار کا کوئی مطلب نہیں بنتا۔
 سیزدہم: فضائل اہل بیت:
سیدنا حسین t کی شہادت کی پیش گوئی نبیe نے فرمائی۔ ارشادِ نبوی ہے:
[قَامَ مِنْ عِنْدِی جِبْرِیلُ قَبْلُ فَحَدَّثَنِی اَنَّ الْحُسَیْنَ یُقْتَلُ بِشَطِّ الْفُرَاتِ۔] (السلسلۃ الصحیحۃ: ۱۱۷۱)
’’اس سے پہلے جبریل میرے پاس سے اُٹھ کر گئے ہیں، اُنہوں نے مجھے بتایا ہے کہ حسین tکو فرات کے ساحل پر شہید کیا جائے گا۔‘‘
 فضائل صحابہ:
آپ e نے سیدنا عمر اور سیدنا عثمانw کی شہادت کی پیش گوئی فرمائی۔ نبی کریمe، ابوبکر، عمر اور عثمان اُحد پہاڑ پر تھے کہ پہاڑ پر لرزہ طاری ہوگیا۔ نبیe نے فرمایا:
[اُسْکُنْ اُحُدُ فَلَیْسَ عَلَیْکَ إِلَّا نَبِیٌّ وَصِدِّیقٌ وَ شَہِیدَانِ۔] (صحیح البخاری: ۳۶۹۹)
’’احد! حرکت بند کردے۔ تجھ پر اس وقت ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔‘‘
موازنہ: صحابۂ کرام آپe کی مبارک زندگی میں بھی شہید ہوئے اور کئی صحابہ اور اہل بیت کے بارے میں آپ نے شہادت کی پیش گوئی بھی فرمائی۔ یہ شہدائے کرام کے لیے اعزاز بھی تھا۔ اگر شہادت کی پیش گوئی اہل بیت کی بابت تھی، توصحابہ کی بابت بھی تھی۔ ایک کی شہادت پر بے انتہا خوشی اور ایک کی شہادت پر حد سے زیادہ غم کس بات کی غمازی کرتا ہے؟
 چہاردہم: فضائل اہل بیت:
نبیe نے سیدنا علی tکے قاتل کو بدبخت ترین قرار دیا۔ آپe نے سیدنا علی tسے فرمایا:
[یا أبا تراب! ألا أحدثکما بأشقی الناس رجلین؟ قلنا: بلی یا رسول اللہ! قال: أحیمر ثمود الذی عقر الناقة، والذی یضربک علی ہذہ (یعنی قرن علی) حتی تبتلّ ہذہ من الدم! یعنی لحیتہ۔] (السلسلة الصحیحة: ۱۷۴۳)
’’کیا میں تمہیں دو انتہائی بدبخت لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں اے رسول اللہ … اور دوسرا شخص وہ ہے (پھر آپe نے سیدنا علی t کے سرکی چوٹی پر ہاتھ رکھا) اور فرمایا: جو یہاں ضرب لگائے گا اور جس سے یہ داڑھی خون سے تر ہو جائے گی۔ ‘‘
 فضائل دیگر:
اسی حدیث میں مذکور ،پہلا شخص یہ ہے:
’’اور پہلا بدبخت ترین شخص وہ ثمودی ہے جس نے صالح u کی اونٹنی کی کونچیں کاٹیں۔ (اور وہ جانبر نہ ہوسکی)۔‘‘ (السلسلۃ الصحیحہ: ۱۷۴۳)
موازنہ: ایک کی بدبختی یہ ہے کہ اس نے سیدنا علی tکو شہید کیا، دوسرے کی بدبختی یہ ہے کہ اس نے صالح u کی اونٹنی کی کونچیں کاٹیں۔ اس فرمانِ نبوی سے سیدنا علی t اور صالح u کی اونٹنی کی اہمیت اور فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
 پانزدہم: فضائل اہل بیت
نبی کریمe نے سیدنا علی tسے فرمایا:
[اَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ ہَارُونَ مِنْ مُّوسیٰ إِلَّا اَنَّہُ لَا نَبِیَّ بَعْدِی۔] (سنن ابن ماجہ: ۱۲۱)
’’تمہارا میرے ہاں وہی مقام ہے جو سیدنا موسیٰu کے ہاں سیدنا ہارونu کا تھا مگر بات یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔‘‘
 فضائل صحابہ:
نبیe نے سیدنا عمر t کے بارے میں فرمایا:
[لَوْ کَانَ نَبِیٌّ بَعْدِی لَکَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ۔] (جامع الترمذی: ۳۶۸۶)
’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہونا ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔‘‘
موازنہ: مذکورہ احادیث سے سیدنا علی کی اشارۃً اور سیدنا عمر کی صراحۃً فضیلت ثابت ہورہی ہے۔ سیدنا علی سے کہا جا رہا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور سیدنا عمر سے کہا جا رہا ہے کہ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتے تو عمر بن خطاب ہوتے۔ اسلوبِ کلام میں قدرے فرق ہے لیکن نتیجہ ایک ہے۔ اور اظہار محبت بھی دونوں سے ہے۔
آخری بات: سابقہ روایات کے مطالعے سے کئی اُمور سامنے آتے ہیں:
1      اگر اہل سنت کے ہاں اہل بیت کے لیے کوئی نفرت ہوتی تو ان کے ہاں متفقہ کتب حدیث میں ایسی کوئی حدیث نہ ہوتی۔ لیکن آپ نے دیکھا کہ متقدمین اور متاخرین سبھی نے اہل بیت سے متعلقہ احادیث کو بیان کیا ہے۔
2      اہل بیت کا مقام و مرتبہ یقیناً بہت زیادہ ہے، مگر ان کے بارے میں احادیثِ مبارکہ یا آیاتِ قرآنیہ سے من مانے مفہوم لیے جاتے ہیں، وہ اس لیے درست نہیں کہ اس جیسے یا اس سے ملتے جلتے فضائل اللّٰہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو بھی دلوائے ہیں۔
3      مذکورہ تقابل کا مطلب اہل بیت کی شان گھٹانا قطعاً نہیں اور نہ کوئی اس سے یہ سمجھے۔ بس اس کا مقصد یہ ہے کہ اس سے کوئی من مانا مفہوم نہ لیا جائے۔ اگر حیثیت زبانِ نبوت کو دی گئی ہے تو ایک ایک حرفِ نبوت کی لاج رکھی جائے۔
4      عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ اہل بیت کی شان میں استعمال کیے گئے الفاظ دیگر صحابہ کرام کے لیے مستعمل نہیں تو یہاں اس موقف کی تردید بھی ضروری تھی۔
یہ تقابل کوئی حرفِ آخر یا آخری فیصلہ نہیں۔ یہ تودعوت کا ایک اُسلوب اور بحث کا ایک نیا رخ ہے اور لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کرانی ہے کہ اگر اہمیت وحی کو ہے تو وحی میں آنے والے جملہ فضائل جس جس کے لیے ثابت ہیں ان کا بلا تعصب علیٰ الاعلان اظہار کیا جائے۔ اس طرح طرفین کی غلط فہمیاں دور ہونے کے امکانات بھی نظر آتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)