عدالت صحابہ کرام
تحریر: جناب ڈاکٹر شیخ محمد بن احمد
صالح
صحابہ کرام کا مقام
اتنا بلند اور اعلیٰ ہے کہ ان کی عظمت اور عدالت امر مسلم ہے، چاہے وہ مہاجرین میں
ہوں یا انصار یا جو بھی اس قافلہ میں ان کے ساتھ ایمان و استقامت کے ساتھ شامل رہے۔
ان کی عظمت کیلئے اللہ رب العزت کی شہادت ہی کافی ہے، اسی نے ان کی گواہی دی، اسی نے
ان کی پاکیزگی کی شہادت بیان کی۔ اسی نے ان کا تذکرہ قرآن مجید کی مختلف آیات میں
کیا اور متعدد احادیث میں ان کا ذکر وارد ہوا ہے، اس گواہی کے بعد انہیں مزید کسی گواہی
کی ضرورت نہیں۔ اس شہادت کے بعد کسی دوسری شہادت کی چنداں ضرورت نہیں، یہی وہ پاکیزہ
ہستیاں ہیں جنہوں نے ہجرت کی سعادت حاصل کی، یہی وہ بزرگ شخصیات ہیں جنہوں نے جہاد
میں حصہ لیا، اسلام کے دست و بازو بنے، اسلام کی خاطر اپنی دولت جان و مال لٹا دی۔
یہ سب کچھ ان کی دین سے محبت، ایمان میں پختگی اور عقیدہ کی سچائی کے بغیر ممکن نہیں۔
صحابہ کے اس جذبہ اور استقامت کی بنیاد پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جو ان کی شان میں
گستاخی اور بے ادبی کرے وہ زندیق ہے کیونکہ رسول اللہe برحق نبی ہیں، قرآن سچا کلام ہے اور جو کچھ اس میں
بیان کیا گیا وہ برحق ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ کچھ بے دین لوگ چاہتے ہیں کہ کتاب عزیز
اور سنت مطہرہ کو باطل اور غلط ٹھہرائیں حالانکہ رسول اللہe نے
انہیں عزت دی۔
امام ابومحمد بن حزمa فرماتے ہیں کہ صحابہ سب کے سب یقینی طور پر جنتی ہیں۔
فرمان الٰہی ہے:
{وَالسَّابِقُونَ
الاَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالاَنصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُم بِإِحْسَانٍ
رَّضِیَ اللّہُ عَنْہُمْ وَرَضُواْ عَنْہُ وَاَعَدَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ تَحْتِہَا
الاَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا اَبَداً ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ}
’’اور جو مہاجرین
اور انصار اسلام قبول کرنے میں سابق اور مقدم ہیں اور جو لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیروکار
ہیں۔ اللہ ان سب سے راضی ہوا۔ وہ لوگ سب اللہ سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کیلئے ایسے
باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، یہ
بڑی کامیابی ہے۔‘‘ (التوبۃ: ۱۰۰)
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
{لَا یَسْتَوِیْ
مِنکُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُوْلٰئِکَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَکُلّاً
وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنَی}
’’تم میں سے جن لوگوں
نے فتح مکہ سے قبل خرچ کیا اور قتال کیا اور جنہوں نے بعد میں خرچ کیا اور قتال کیا
دونوں برابر نہیں بلکہ پہلے گروہ کا درجہ اونچا ہے اگرچہ کہ دونوں کیلئے اللہ کی طرف
سے بھلائی کا وعدہ ہے۔‘‘ (الحدید: ۱۰)
ارشاد ربانی ہے:
{إِنَّ الَّذِیْنَ
سَبَقَتْ لَہُم مِّنَّا الْحُسْنٰی اُوْلٰئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُونَ} (الانبیاء:
۱۰۱)
’’جن لوگوں کیلئے
ہماری طرف سے نیکی پہلے ہی ٹھہر چکی ہے وہ سب جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔‘‘
یہ اور اس مفہوم کی متعدد آیات میں ان مہاجرین اور انصار کا
خصوصی ذکر ہے جنہوں نے ابتدا میں اسلام قبول کیا، پھر وہ لوگ جو اسلام قبول کرنے کے
بعد اپنے پیش روئوں کے ساتھ چمٹے رہے اور جو ہدایت کا نور انہیں دیا گیا اس سے وابستہ
رہے بلاشک و شبہ یہ فوز و فلاح سے ہمکنار ہونے والا گروہ ہے۔ ان میں مراتب، شرف اور
فضیلت میں اونچے حضرات ابوبکر، عمر بن خطاب، عثمان بن عفان اور علی بن ابی طالبy ہیں۔
پھر باقی عشرہ مبشرہ جنہیں زمین پر ہی جنت کی بشارت دی گئی تھی۔ ان کے بعد معرکۂ بدر
میں نبی کریمe کے
ساتھ شریک ہونے والے، پھر بیعت رضوان سے مشرف ہونے والے اور وہ تمام جو فتح مکہ سے
قبل دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ فرزندان امت اسلامیہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان عالی
ہمت بلند ہستیوں کو پہچانیں جنہوں نے امت کی شان بڑھائی، اس کی عظمت کو چار چاند لگائے۔
بلکہ حق تو یہ ہے کہ اس امت کی عظمت کا تذکرہ ان اولوالعزم ہستیوں کے بغیر نامکمل ہے،
ان ہستیوں کو الگ کر دیا جائے تو انسانیت بھی اپنی عظمت سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ امام
یوسفؒ نے فرمایا کہ بہت سے احکام کا تعلق انسان کے اپنے دین اور ذاتی اعمال کے ساتھ
ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جب کسی گواہی پر حکم لگایا جا سکے یا اس کی شہادت پر فیصلہ کیا
جائے تو اس کا نام اور نسب بھی معروف ہو، اس کی سچائی بھی مسلّم ہو اور اس کے حالات
کا علم ہو تو اسی وقت اس کی شہادت کی اہمیت ہوگی۔
خطیب بغدادیؒ نے فرمایا کہ کوئی بھی حدیث جس کی سند راوی سے
لے کر نبی کریمe تک
پہنچتی ہو، اس وقت تک قابل عمل نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس سند کے افراد کی عدالت ثابت
نہ ہو جائے۔ ان کے احوال معلوم ہونا ضروری ہیں سوائے صحابہ کرام کے، کیونکہ ان کی عدالت
امر مسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی پاکیزگی، عدالت اور تقویٰ کی گواہی دی ہے جو کہ
قرآن سے ثابت ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
{کُنتُمْ خَیْْرَ
أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ
وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ} (آل عمران: ۱۱۰)
’’تم بہترین امت
ہو جو لوگوں کیلئے ہی پیدا کی گئی ہے، کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں
سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
امام الحرمین الجوینیؒ نے فرمایا کہ مذکورہ آیت کا تعلق صحابہ
کرام کے ساتھ ہے، یہ بات مفسرین کے درمیان متفق علیہ ہے۔ لہٰذا ان پاک ہستیوں کی عدالت
قرآن سے ثابت ہے اور ان کا تزکیہ خود اللہ نے فرمایا ہے۔ مزید فرمایا:
{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ
أُمَّةً وَّسَطاً لِّتَکُونُواْ شُہَدَائَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْْکُمْ
شَہِیْداً}
’’اسی طرح ہم نے
تمہیں بہترین امت بنایا تا کہ تم لوگوں پر گواہ ہو جائو اور رسول اللہe تم
پر گواہ ہو جائیں۔‘‘ (بقرۃ: ۱۴۳)
شہادت انہی کی قبول کی جاتی ہے جو بذات خود عادل ہوں، آیت کریمہ
میں فرمایا گیا وسط یعنی عدالت سے متصف لوگ۔ مزید فرمایا:
{لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ
عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ إِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوبِہِمْ
فَأَنزَلَ السَّکِیْنَةَ عَلَیْہِمْ وَأَثَابَہُمْ فَتْحاً قَرِیْباً} (فتح: ۱۸)
’’یقینا اللہ تعالیٰ
مومن بندوں سے راضی ہو گیا جب درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے، ان کے دلوں میں
جو تھا اس سے وہ باخبر ہے اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریبی فتح عطا فرمائی۔‘‘
اللہ تعالیٰ جس سے راضی ہو جائے ان پر ناراضگی کیسے؟ اللہ نے
جس چیز کی خبر دی وہ غلط نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ جو کچھ ہوا اور ہونے والا ہے سب کا
علم رکھتا ہے۔ اگر اللہ کو معلوم تھا کہ وہ اپنے ایمان پر قائم نہیں رہیں گے تو کبھی
ان کی عدالت کی گواہی نہ دیتا۔ رہی بات سنت یا صحابہ کے مقام کی تو اس میں مختلف احادیث
موجود ہیں جن میں رسول اللہe نے
ان کی تعریف کی، ان کا تزکیہ فرمایا اور ان کے احترام و اکرام کا ہمیں حکم دیا بلکہ
ان کے ساتھ محبت ہمارے لئے ضروری قرار دی گئی اور ان کی شان میں بے ادبی ناروا ہے۔
ان کے ساتھ بغض اور نفرت حرام ہے کیونکہ ان سے محبت ایمان کی علامت ہے اور ان سے بغض
نفاق اور گمراہی ہے۔ از الغایۃ فی شرح الھدایۃ فی علم الروایۃ ۱/۳۸۲۔۳۸۱
عدالت صحابہ کے متعلق اہل
سنت کا عقیدہ
صحابہ کرام کی عدالت کا مسئلہ اہل سنت کے ہاں یقینی طور پر عقیدہ
کے مسائل اور ضروریات دین میں سے ہے، لہٰذا اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے کہ صحابہ کرام
کے ساتھ محبت دین کا حصہ ہے اور ہم ان کی فضیلت کا صریح اقرار کرتے ہیں۔ اس مسئلہ میں
کتاب و سنت کی متعدد دلیلیں ہیں۔ از الغایۃ فی شرح الھدایۃ فی علم الروایۃ (حوالہ مذکور)
۱/۳۸۲۔۳۸۱
فرمان الٰہی ہے:
{لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ
عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ إِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوبِہِمْ
فَأَنزَلَ السَّکِیْنَةَ عَلَیْْہِمْ وَأَثَابَہُمْ فَتْحاً قَرِیْباً} (فتح:
۱۸)
اس آیت کے ظاہری مفہوم سے صحابہ کرام کا تزکیہ ہو رہا ہے بلکہ اس میں ان کے باطن
اور قلوب کا بھی تزکیہ اور صفائی بیان کی گئی ہے۔ اس کی مزید تاکید رسول اللہe کے
ارشاد گرامی سے ہوتی ہے:
[لا یدخل النار ان
شاء اللہ من اصحاب الشجرۃ احد من الذین بایعوا تحتھا۔] (مسلم کتاب فضائل الصحابہ حدیث
نمبر: ۲۴۹۶)
’’آپe نے
فرمایا کہ جن لوگوں نے درخت کے سایہ میں بیعت کی (ان شاء اللہ) ان میں سے کوئی بھی
جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘
پھر آپ درج ذیل آیت پڑھئے اور دیکھئے کہ ان کا کس شان سے تذکرہ
کیا گیا ہے:
{مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ
اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ
رُکَّعاً سُجَّداً یَّبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَاناً سِیْمَاہُمْ فِیْ
وُجُوہِہِم مِّنْ اَثَرِ السُّجُودِ ذَلِکَ مَثَلُہُمْ فِیْ التَّوْرَاةِ وَمَثَلُہُمْ
فِیْ الإِنجِیْلِ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْأَہُ فَآزَرَہُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَی
عَلَی سُوقِہِ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ وَعَدَ اللَّہُ
الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْہُم مَّغْفِرَةً وَّاَجْراً عَظِیْماً٭}
(الفتح: ۲۹)
’’محمدe اللہ
کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت ہیں آپس میں مہربان ہیں۔
آپ انہیں رکوع اور سجدے کرتے ہوئے دیکھیں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور خوشنودی
کی جستجو میں ہیں۔ ان کے نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہیں۔ ان کی یہی مثال
تورات میں ہے۔ اور ان کی مثال انجیل میں مثل کھیتی کے ہے جس نے اپنا پٹھا نکالا پھر
اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا ہو گیا پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہو گیا اور کسانوں کو
خوش کرنے لگا تا کہ کافر غیض و غضب میں مبتلا ہوں ان ایمان والوں سے اور باعمل لوگوں
سے اللہ نے بخشش اور بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے۔ ‘‘
مال فئے کے متعلق کہا کہ یہ ان مہاجر مسکینوں کے لئے ہے جو اپنے
گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکال دئیے گئے، وہ اللہ کے فضل اور خوشنودی کے طلب گار
ہیں، وہ اللہ کی اور رسول اللہe کی
مدد کرتے ہیں، یہی راست باز لوگ ہیں اور ان کے لئے جنہوں نے مدینہ میں پہلے سے جگہ
بنا رکھی ہے (انصار مدینہ) اور اپنی طرف ہجرت کر کے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں، مہاجرین
کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وہ اپنے دلوں میں تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر
انہیں ترجیح دیتے ہیں۔ خواہ خود کو کتنی ہی ضرورت ہو، یقینا جو اپنے نفس کے بخل سے
بچایا گیا، وہی کامیاب ہے اور ان کے بعد آنے والے جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار
ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں، اور ہمارے
دلوں میں کینہ اور دشمنی نہ ڈال، ان کے خلاف جو ایمان لا چکے ہیں۔
ان آیات کی تلاوت کے بعد حکم الٰہی کو سمجھنا آسان ہو جاتا
ہے کہ رسول اللہe کو
صحابہ کرام کے ساتھ عفو و درگزر اور نرمی کامعاملہ کرنے کا حکم کیوں دیا گیا۔
{فَبِمَا رَحْمَةٍ
مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ
مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِیْ الأَمْرِ}
’’اللہ تعالیٰ کی
رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں ورنہ اگر آپ بدزبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ
سے دور ہو جاتے، سو آپ ان سے درگزر کریں اور ان کیلئے استغفار کریں اور ان سے کام
کا مشورہ کیا کریں۔‘‘ (آل عمران: ۱۵۹)
مذکورہ آیات قرآنی پڑھنے کے بعد اگر کوئی شخص ان صحابہ کرامؓ
کی شان میں بے ادبی کرے، انہیں گالی گلوچ دے یا ان کی توہین کرے تو گویا اس نے اللہ
رب العالمین کی حکم عدولی کی اور اللہ کی وصیت سے انحراف کیا۔ اور یہ ایک کلمہ گو مسلمان
کیلئے کیسے سزاوار ہے کہ وہ ان نفوس قدسیہ کے خلاف لب کشائی کی جرأت کرے جبکہ وہ فضائل
اور خیر کے کاموں میں ہم سے سبقت لے جانے والے تھے۔
{وَالسَّابِقُونَ
الاَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالاَنصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُم بِإِحْسَانٍ
رَّضِیَ اللّہُ عَنْہُمْ وَرَضُواْ عَنْہُ وَاَعَدَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا
الاَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا اَبَداً ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ} (التوبۃ:
۱۰۰)
اس آیت کریمہ میں لشکر اسلام کے دوبازو انصار و مہاجرین کا
جس انداز میں ذکر کیا گیا ہے اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگلی آیت پر بھی نظر ڈال لیجئے:
{لَقَدْ تَّابَ اللّٰہُ
عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہَاجِرِیْنَ وَالاَنصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُ فِیْ سَاعَةِ
الْعُسْرَۃِ مِن بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیْغُ قُلُوبُ فَرِیْقٍ مِّنْہُمْ ثُمَّ تَابَ
عَلَیْہِمْ إِنَّہُ بِہِمْ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ} (التوبۃ: ۱۱۷)
’’اللہ تعالیٰ نے
پیغمبر کے حال پر توجہ فرمائی اور مہاجرین و انصار کے حال پر بھی جنہوں نے تنگی کے
وقت پیغمبر کا ساتھ دیا۔ اس کے بعد کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل میں تزلزل پیدا ہو
چکا تھا پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی بیشک وہ بڑا مشفق و مہربان ہے۔‘‘
امام احمد بن حنبلa نے ان گرانقدر ہستیوں صحابہ کرام کی فضیلت کے متعلق
تقریباً دو ہزار احادیث اور آثار جمع کیے ہیں اور ان محترم ہستیوں کی فضیلت سے واقفیت
کیلئے یہ انتہائی اہم مجموعہ ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ عدالت صحابہ کا حکم اللہ تعالیٰ اور رسول
اللہe کی
شہادت پر مبنی ہے، اس عظیم شہادت کے بعد ان بزرگوں کے متعلق مزید کسی دوسرے کی شہادت
کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی۔ مأخوذ از موسوعۃ الدفاع من صحابۃ رسول اللہﷺ ۱/۱۳۳)
No comments:
Post a Comment