اپنی ملّت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر!
تحریر: جناب پروفیسر عبدالعظیم جانباز
(سیالکوٹ)
اگر مسلم معاشرے
کو موجودہ معاشرے کے تناظر میں دیکھاجائے تو جابجا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا مسلم
معاشرہ دراصل ایک انتہائی بگڑی ہوئی شکل کا نام ہے۔ مسلم معاشرے کو ہمارے آقائوں نے
توڑ پھوڑ دیاہے، اس کی مثال چند ایک واقعات سے ہم اخذ کر سکتے ہیں،جب صلیبیوں نے ترکی
کو شکست دی، خلافت کو ختم کیا، مسلمانوں کو چھوٹے چھوٹے ملکوں میں بانٹ دیا تو ساتھ
ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ ہم نے مسلم معاشرے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔ اتاترک نے ترکی
میں اسلام کی ساری کی ساری معاشرت کو ریاستی جبر سے ختم کیا اور اس کی جگہ مغرب زدہ
شیطانی وصیہونی معاشرت کو رائج کر دیا، جس کو آج تک سنبھلنے کا موقع نہیں مل سکا۔
کچھ مدت پہلے ایسی ہی کوشش کا ذکر بھارت میں کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی نے کیا
اور کہا تھا کہ مسلمانوں کی تہذیب وتمدن کو ہم نے ختم کر دیا۔ اسی طرح یہودیوں کے پروٹو
کول میں بھی درج ہے کہ فلاں وقت تک ہم نے میڈیا پر کنٹرول حاصل کرناہے جو اب انہوں
نے حاصل کر لیا ہے جس پر عمل کرتے ہوئے اس وقت دنیا کی تمام بڑی بڑی خبر رساں ایجنسیاں
اور الیکٹرونک میڈیا یہودیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ دنیا اور خصوصاً مسلم معاشرے میں وہی
خبر آتی ہے جو وہ چھان بین کر اپنے مطلب کی بنا کر نشر کرتے یا پیش کرتے ہیں۔ دوسری
طرف مسلم دنیا میں میڈیا پر کوئی خاص پیش رفت
نہیں کی گئی، جس وجہ سے مغربی میڈیا جس رخ پر مسلم معاشرہ کو چاہتا ہے ہانک کر لے جاتا
ہے، بلکہ مسلم حکومتوں میں ڈالرز کی چمک دکھا کر میڈ یا کے لوگوں کو خریدا جاتا ہے
جس کی خبریں ہمیں پاکستان میں بھی اکثر ملتی رہتی ہیں۔
حقیقی مسلم معاشرہ ہمارے نبی مہربانe کے ہاتھوں مدینے میں قائم ہوا تھا جسے دنیا کی شیطانی
وطاغوتی قوتیں ہر دور میں ختم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، مگر وہ اسے بالکل ختم نہیں
کر پائے، صرف اس میں بگاڑ پیدا کر سکے ہیں۔ میڈیا نام ہے معلومات کے ابلاغ کا، الیکٹرونک،
پرنٹ یاز بانی ہو، میڈیا کے ذریعے معاشرے پر اثر انداز ہونا، معاشرے کی نشوونما پر
میڈیا کا اثر ہر زمانے میں مانا گیا ہے۔ اسلام سے پہلے بادشاہوں کے دور میں یہ کام
بادشاہ کے قصہ گو زبانی عوام تک بادشاہ کی خبریں پہنچاتے تھے جس میں اللہ سے ڈرنے کے
بجائے بادشاہ سے ڈراتے تھے۔ رسول کائناتe نے جہاں دنیا کے سارے غلط چلن ختم کیے وہاں میڈیا کی
سمت بھی درست کی، خبر کو عام کرنے کے لیے مقدس جگہ مسجد تھی، رسول اللہe مسجد
نبوی کے منبر پر بیٹھ کر (خبر) احکامات دیا کرتے تھے جو معاشرے میں اللہ کے حکم کا
درجہ رکھتے تھے، اس پر ہر مسلمان کا عمل فرض قرار دیا گیا تھا، اسی مسجد کے میڈیا کے
ذریعے مسلم معاشرہ قائم ہوا تھا۔ عام مسلمان کسی بھی خبر کو پہلے تحقیق کر کے آگے
بیان کیا کرتا تھا، کسی کے جھوٹے ہونے کے لیے یہ کافی تھا کہ اِدھر سے بات سنی، اُدھر
بغیر تحقیق کے آگے پھیلا دی۔ مسلم معاشرہ اسی دنیا میں خلفائے راشدینؓ کے دور تک قائم
تھا، مساجد میں خطیب اللہ کی کبریائی جو سب سے بڑی خبر ہے کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرے
کی نشوونما اور اخلاق سدھارنے کی ذمہ داری بھی ادا کرتے تھے۔ سارا مسلم معاشرہ ایک
مسلم قومیت پر زعم ہو گیا تھا، اسی مسلم معاشرے پر شاعر اسلام ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ
نے کہا تھا:
اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی
پھر اس مسلم معاشرے میں تبدیلی آنا شروع ہوئی، خلافت عام مسلمانوںکی
رائے کی بجائے اپنے خاندان میں قائم ہونے لگی، خزانہ حکمرانوں کی ذاتی ملکیت میں چلا
گیا۔ وفاداری کامعیار اللہ اور رسول اللہe کی بجائے حکمرانوں کے ساتھ منسلک ہو گیا، فردکی آزادی
کم سے کم ہوتی گئی، مسجد جو اس وقت کا سب سے بڑا میڈیا کا ذریعہ تھی، حکمرانوں کے کنٹرول
میں چلاگیا، اب وہی بات صحیح مانی گئی جو حکمرانوں نے کہی، جس نے حق وسچ بیان کرنے
کی کوشش کی اس کے گلے کاٹے گئے اور پسِ دیوارِ زنداں ڈالے گئے۔
پھر دنیا میں فاصلے کم ہونا شروع ہوئے، ابلاغ میں آسانی پیدا
ہوئی، سفری سہولتیں جانوروں کی بجائے مشین کے ذریعے حاصل ہو گئیں، موٹر کار اور ہوائی
جہاز نے آسانیاں پیدا کر دیں۔ ساتھ ہی ساتھ ذرائع ابلاغ نے ترقی کی اور چھاپا خانے
وجود میں آئے، اس کے بعد ریڈیو ایجاد ہوا، فلم جس میں انسان کی شکل سامنے دیکھی جا
سکتی تھی ایجاد ہوئی، ٹیلی ویژن ایجاد ہوا، بالآخر آج انٹر نیٹ نے توانقلاب برپا
کر دیا ہے۔ ایک شخص زمین کے ایک کونے سے اپنی بات براہِ راست پوری دنیا کو سنانے کے
قابل ہو گیا ہے، ان آسانیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مقتدر قوموں اور حکومتوں نے اپنے
مقصد کے لیے اپنے مخالفین کے اندر نفوذ کرنا شروع کیا، جدید میڈیا سے خوف کی فضاء پیدا
کی گئی، جیسے افغان جہاد میں اس کے حواری ڈراتے تھے کہ روس ایک دفعہ جس ملک میں داخل
ہوا واپس نہیں گیا، اب یہودی کنٹرولڈ میڈیا امریکہ سے کمزور قوموں کو ڈرا رہا ہے، اسی
میڈیا کے ذریعے اپنی تہذیب کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں۔ اپنے فن کاروں سے ڈراموں
کے ذریعے پرانی تہذیبوں کا مذاق اڑایا گیا اور اس کی جگہ اپنی تہذیب کو ترقی کے لیے
زینے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اسی میڈیا کے زور سے کمزور قوموں کی معاشرت کو ختم
کر کے اپنی معاشرت کو پروان چڑھایا جاتا ہے، مختلف قسم کے ایام منائے جاتے ہیں جیسے
ویلنٹائن ڈے منایا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ذریعے بھی یہ کام کیا
جارہا ہے۔ مسلم معاشرے، خاص کر پاکستان میں ان تمام ذرائع کو استعمال کیا جا رہا ہے،
مغربی شیطانی معاشرہ جس میں بے حیائی عام ہے، عورت جو اسلام میں ماں، بہن، بیٹی کے
روپ میں تقدس کی مالک ہے، مغرب میں اسے شمعِ محفل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ معاشی
ضرورت کے لیے اسے نیم عریاں کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔ سرمایہ دار کا کوئی پروڈکٹ جب
تک عورت کاحسین وجمیل چہرہ نہ پیش کیا جائے فروخت ہی نہیں ہوتا۔ ہوٹلوں اور کلبوں میں
عورتیں مکمل عریاں ہو کر ڈانس پیش کرتی ہیں۔ فعل قوم لوط کو عام کر دیا گیا ہے، بلکہ
مغرب نے اس قبیح فعل کو آئین وقانون کا حصہ بنا دیا ہے۔ پچھلے دنوں ہمارے دوست نما
دشمن امریکہ کے سفارت خانے میں ہم جنسوں کا اجتماع ہوا تھا جو ہمارے مذہب اور معاشرت
پر حملہ ہے۔
غیر مخصوص طریقے سے ہمارے تعلیمی اداروں میں بے حیائی کو فروغ
دیا جا رہا ہے۔ مغرب میں ایک ہی پانی کے حوض میں باپ بھائی ماں بیوی بہن نیم عریاں
نہانے کے لباس میں نہاتے ہیں جس سے بے حیائی پھیلتی ہے، جب کہ مسلم معاشرے میں عریانی
نام کی کوئی چیز نہیں، بلکہ سوسائٹی میں پردے کا حکم ہے۔ مغربی معاشرے میں عورت کو
بھی کمائی میں لگا دیا ہے، جب کہ اسلام میں گھر کی معاشی ضروریات کا ذمہ دار مرد ہے،
عورت پر معاشی ذمہ داری نہیں ہے، ان غلط کاموں کی وجہ سے مغرب کا معاشرہ بے حیائی والا
معاشرہ بن گیا ہے۔ باپ کے سامنے نوجوان بیٹی کہتی ہے اوکے ڈیڈ میں اپنے بوائے فرینڈ
کے ساتھ جا رہی ہوں۔ ان کے خاندانی نظام کا یہ حال ہے کہ مرد کارخانے سے شام کو کام
سے واپس آتا ہے بیوی کی طرف سے میز پر تحریر پڑی ہوتی ہے کہ میں تمہارے ساتھ نہیں
رہنا چاہتی ہوں کل کورٹ میں فیصلے کے لیے آ جانا۔ مغرب کے اپنے سروے کے مطابق مغربی
معاشرے میں چالیس فیصد حرامی بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اس جدید شیطانی معاشرے کی کیا کیا
خامیاں بیان کی جائیں، مغربی معاشرہ مکمل تباہ ہو چکا ہے، اسی معاشرے کو جدید میڈیا
مسلم دنیا اور پاکستان میں خاص طور پر پیش کر رہا ہے۔ حکومتیں جن کا کام عوام کی حفاظت
کے ساتھ ان کی تہذیب کی بھی رکھوالی ہوتی ہے، بری طرح اس جدید میڈیا کے شکنجے میں پھنسی
ہوئی ہیں۔ اس کی وجہ بیرون ملکوں سے قرضوں کا حصول ہے جو قرض دیتے ہیں وہ اپنی شیطانی
تہذیب بھی مسلط کرتے ہیں۔ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا گھنٹو ں فلمی ایکٹرسوں کی موت
ان کی عمر اور ان کی کارکردگی پر شو پیش کرتے ہیں اس کے مقابلے میں قوم کے ہیروز کو
وقت نہیں دیا جاتا، جو پاکستانی مسلم تہذیب کے مخالف ہیں انہیں زمین سے آسمان کی بلندیوں
تک پہنچا دیا جاتا ہے جیسے حال ہی میں ملالہ کوپوری دنیا کا لیڈر بنا دیا گیا ہے۔
مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ میڈیا کو خریدنے کے لیے فنڈ ز
مختص کرتے ہیں‘ اس سے پاکستانی میڈیا بھی مستفیض ہوا ہے‘ اسی لیے اس کو امریکی فنڈز
میڈیا کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف امن کی آشا کے نام پر بھارتی ہندوانہ تہذیب کو پاکستان
پر زبردستی ٹھونسا جا رہا ہے‘ یہ اسی جدید میڈیا کا کردار ہے جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ
ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، اب ایک ایک کر کے اسلامی قدروں کو ختم کیا جا رہا ہے، اس میں
پاکستانی حکومت بین الاقوامی قوانین کے تحت پابند ہے، اقوامِ متحدہ کے بین الاقوامی
ادارے جو مغربی صلیبی ملکوں کے قبضے میں ہیں جو خود شیطانی تہذیب کے معمار ہیں وہ دنیا
میں کبھی ماں کا دن، باپ کا دن، بچوں کا دن، عورتوں اور ویلنٹائن ڈے منانے کے ذریعے
اپنی تہذیب مسلط کر رہے ہیں۔ یہ جدید میڈیا کا کردار ہے جس نے مسلم معاشرے کو اسلام
سے دور کیاہے۔ بے حیائی کو عام کیا جا رہا ہے، بانی پاکستان قائد اعظم کے اسلامی پاکستان
کے ویژن کے خلاف سکولرزم کے پرچار کرنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے، پر امن اسلام کو دہشت
گرد بنا دیا ہے۔ کل کے وفاداروں کو غدار بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، یہ ہے مسلم معاشرے
پر جدید میڈیا کا کردار۔
No comments:
Post a Comment