درسِ قرآن
حسنِ اخلاق
ارشادِ باری تعالیٰ
ہے:
﴿وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ۰۰۴﴾ (القلم)
’’بے شک آپ اخلاق
کے بڑے مرتبہ پر ہو۔‘‘
سیدہ عائشہ صدیقہr سے آپ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:
[کَانَ خُلُقُهُ القُرْآن] آپe کا
خلق قرآن کریم ہے۔ یعنی آپ کی پوری زندگی قرآن حکیم کے احکام اور اوامر ونواہی کے
مطابق گزرتی ہے۔
دوسرے مقام میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ
مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ١ۚ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا
مِنْ حَوْلِكَ﴾ (ال عمران: 159)
’’اے پیغمبر! یہ
اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں
تم تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گرد وپیش سے چھٹ جاتے۔‘‘
آپ کی اخلاقی تعلیمات کے بارے تین احادیث کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے:
پہلی روایت:
سیدنا ابوہریرہt فرماتے
ہیں کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
’’بے شک میں اچھے
اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔‘‘ (بخاری فی الادب المفرد: 273)
دوسری روایت:
سیدنا ابوہریرہt سے
روایت ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
’’سب سے زیادہ کامل
ایمان والے وہ ہیں جو مسلمانوں میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے ہیں۔‘‘ (ابوداود: 4082)
تیسری روایت:
سیدنا ابوالدرداءt سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہe کو
فرماتے ہوئے سنا:
’’میزان میں (قیامت
کے دن) حسن اخلاق سے زیادہ وزنی اور بھاری کوئی چیز نہ رکھی جائے گی‘ یقیناً حسن اخلاق
والا شخص روزے دار اور نماز پڑھنے والے کا درجہ پا لیتا ہے۔‘‘
قارئین کرام! مذکورہ بالا آیات اور احادیث کے ترجمہ سے معلوم
ہوتا ہے کہ اسلام میں اعلیٰ اخلاق اور عمدہ اخلاق کی کتنی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمدہ اخلاق اور حسن اخلاق کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
درسِ حدیث
شکر اور صبر
فرمان نبویﷺ ہے:
[عَنْ صُهَيْبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ،
إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ
أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ،
صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ". ] (رواہ مسلم)
سیدنا صہیبt سے
روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہe نے فرمایا: ’’مومن کا معاملہ بھی بڑا خوش کن ہے اس کے
کام میں ہر قسم کی بھلائی ہے یہ بات مومن کے علاوہ کسی اور کے لئے نہیں ہے اگر اسے
کوئی خوشی نصیب ہوتی ہے وہ اس پر شکر ادا کرتا ہے تو وہ اس کے لئے بھلائی ہے اور اگر
اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس پر صبر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لئے بہتر ہے۔‘‘ (مسلم)
اس حدیث میں رسول اکرمe نے ایماندار بندے کی بڑے خوبصورت انداز میں تعریف فرمائی
ہے کہ ایماندار بندے کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہے اور اس کے ہر معاملے میں اس کے لئے
بھلائی ہے اور یہ انعام ایماندار بندے کے سوا کسی اور کو نصیب نہیں ہوتا۔ ایماندار
بندہ ہر حال میں خوش رہتا ہے اور اپنے مالک کا فرمانبردار بن کر زندگی گزارتا ہے۔ اس
کی خوبی یہ ہے کہ جب اسے کوئی خوشی ملتی ہے تو اس پر اتراتا نہیں اور نہ وہ آپ سے
باہر ہو کر خلاف شریعت کام کرتا ہے بلکہ اس نعمت کے مل جانے پر اپنے مالک کا شکر ادا
کرتا ہے جس کے نتیجے میں اس پر اللہ تعالیٰ مزید انعام دیتا ہے کسی خوشی کے میسر آنے
پر شکر گزار بن جانا بہت بڑی نیکی ہے۔ جس کا اسے دنیا میں بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے اور
آخرت میں بھی اجر پائے گا۔ دوسری خوبی ایماندار بندے کی یہ ہے کہ جب اسے کوئی پریشانی
لاحق ہوتی ہے تو اس پر گھبراہٹ کا اظہار کرنے کے بجائے صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے حق
میں بہتر ہے۔ مومن کے معاملات ہمیشہ درست اور منظم ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ غمی کے
موقعہ پر غم سے نڈھال ہو کر بیٹھ نہیں جاتا بلکہ اس پریشانی پر صبر کرتا ہے اور خوشی
ملنے کی صورت میں اپنے آپ کو کنٹرول کرتا ہے۔ آپے سے باہر ہو کر بے ہودہ اور غیر
شائستہ حرکات نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مومن بندہ پر سکون زندگی بسر کرتا ہے رسول
اکرمﷺ نے ہر معاملے میں اعتدال کی راہ اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے اس حدیث میں بھی
خوشی اور غمی کے لمحات میں اعتدال پسندی کی تعلیم ہے۔ جو لوگ پریشانی کے عالم میں ہمت
ہار جاتے ہیں وہ مزید پریشان ہوتے ہیں لہٰذا پریشانی اور مشکل کے وقت صبر کا دامن تھامنے
کی کوشش کی جائے۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے کچھ حاصل کرنے کے لئے کچھ کرنا
پڑتا ہے۔ لہٰذا بھلائی اور خیر کے متلاشی پر لازم ہے کہ وہ مشکلات پر صبر کرے اور نعمت
مل جانے پر شکر کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس نعمت سے مالا مال فرما دے۔ آمین!
No comments:
Post a Comment