Saturday, June 22, 2019

درس قرآن وحدیث 08-2019


درسِ قرآن
اللہ کی نشانیوں سے اعراض
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْهَا١ؕ اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِيْنَ مُنْتَقِمُوْنَ۰۰۲۲﴾ (السجدة)
’’اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جسےٍ اللہ کی آیات سے وعظ کیا گیا پھر بھی ان سے اس نے منہ موڑ لیا (یقین مانو) کہ ہم بھی گنہگاروں سے انتقام لینے والے ہیں۔‘‘
انسانی معاشرہ میں احسان فراموشی بہت بڑا اخلاقی جرم سمجھا جاتا ہے اور فی الحقیقت انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ حسن سلوک اور احسان و نیکی والا رویہ رکھنے کے باوجود دوسرے فریق کا احسان مند ہونے کی بجائے منفی طرز عمل اپنانا واقعی بہت بڑا جرم ہے۔ انسانوں کے خالق ومالک کو بھی یہ رویہ پسند نہیں اور ایسا شخص جو اللہ کے احسانات کے بعد شکر گزاری اوررب کریم کا احسان مند ہونے کی بجائے مغرور اور متکبر بن جائے اور اس کی نشانیوں سے اعراض برتنے لگے تووہ شخص کسی اور پر نہیں بلکہ اپنے آپ پر ہی ظلم کر رہا ہے۔ اس ظلم کو کتاب ہدایت میں" بہت بڑا ظلم" قرار دیا گیا ہے اور اس کے عوض دردناک عذاب کی وعید بھی سنائی گئی ہے اور ایسا شخص ہدایت سے محروم رہتا ہے۔
﴿اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ يَّفْقَهُوْهُ وَ فِيْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا١ؕ وَ اِنْ تَدْعُهُمْ اِلَى الْهُدٰى فَلَنْ يَّهْتَدُوْۤا اِذًا اَبَدًا۰۰۵۷﴾ (الكهف)
’’بے شک ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں جس کی بناء پر وہ ہدایت کو نہیں سمجھ سکتے اور ان کے کانوں میں گرانی ہے۔ اب اگر آپ ان کو ہدایت کی طرف بلاتے بھی رہیں تو یہ کبھی بھی ہدایت قبول نہیں کریں گے۔‘‘
اللہ کی نشانیوں میں غوروفکر نہ کرنے اور اس کی ہدایت سےمنہ موڑنے ہی کا نتیجہ ہے کہ انسان حیران و پریشان کسی متاع گم گشتہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں لیکن مجال ہے کہ اسے آسودگی میسر ہو۔
﴿فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِيْنَۙ۰۰۴۹ كَاَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَةٌۙ۰۰۵۰﴾ (المدثر)
’’انہیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ نصیحت سے منہ موڑے ہوئے ہیں گو یا کہ وہ بدکے ہوئے گدھے ہیں۔‘‘
اقوام ماضی کو اسی رویہ لا پرواہی اور احسان فراموشی کی وجہ سے عذاب سخت نے آلیاتھا:
﴿فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَؕ۰۰۱۳﴾(فصلت)
’’اللہ کی طرف سے ہدایت کے آنے پر بھی اگر  یہ لوگ روگرداں ہوں تو کہہ دیجیے کہ میں تمہیں اس کڑک عذاب آسمانی سےڈراتا ہوں جو قوم عاد اور قوم ثمود پر نازل ہوا۔‘‘
ایسے متکبر انسان سے دور رہنے اور اس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے تاکہ ایک اچھے اور صالح معاشر ہ کے قیام کے لیے ایسے رویوں سے بچا جاسکے۔
﴿وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا۰۰۲۸﴾
’’اور دھيان رکھنا ایسے شخص کا کہا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی خواہشات کے پیچھے چل پڑا ہےاور جس کا معاملہ حد سے گزر چکا ہے۔‘‘

درسِ حدیث
تین وصیتیں
فرمان نبویﷺ ہے:
 [عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَوْصَانِي خَلِيلِيﷺ بِثَلاَثٍ: "صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِّنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَكْعَتَيِ الضُّحٰى، وَأَنْ أُوتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ".](متفق عليه)
سیدنا ابوہریرہt سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے میرے دوست(e) نے تین وصیتیں فرمائیں؛ ’’1 ہر مہینے میں تین روزے اور 2 چاشت کے وقت دو رکعتیں اور 3 سونے سے قبل وتر پڑھ لیا کروں۔‘‘ (بخاری مسلم)
اس حدیث میں رسول اکرمe کی تین وصیتوں کا ذکر ہے جو آپ نے اپنے شاگرد خاص سیدنا ابوہریرہ t کو فرمائی تھیں‘ وہ درج ذیل ہیں:
پہلی وصیت:
یہ ہے کہ ’’ہر مہینے تین روزے رکھوں۔‘‘ اس کی افادیت یہ ہے کہ ایک روزے کا ثواب دس روزے کے برابر ہے اور تین دن کے روزے کا ثواب ایک مہینے کے برابر ہوا‘ اس طرح ثواب کے لحاظ سے انسان ساری زندگی روزے دار کی حیثیت میں رہتا ہے۔ ہر قمری مہینے کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو روزے رکھے جائیں۔ ان دنوں کو ایام بیض کہا جاتا ہے‘ ایام بیض اس بنا پر کہ ان ایام کی راتیں مکمل طور پر چاند کی وجہ سے روشن یعنی سفید رہتی ہیں۔
دوسری وصیت:
یہ فرمائی کہ ’’سورج طلوع ہونے کے کچھ دیر بعد دو رکعت نفل ادا کروں۔‘‘ یہ وصیت خاص طور پر ان لوگوں کے لئے ہے جو اپنی کسی مجبوری کی بنا پر تہجد کی نماز کے لئے بیدار نہیں ہو سکتے وہ نماز فجر کے بعد ذکر اذکار کریں حتیٰ کہ سورج طلوع ہو جائے اور سورج نکلنے کے بعد دو رکعت نفل ادا کر لیں تو انہیں بہت زیادہ اجر وثواب حاصل ہوگا۔ ایک اور حدیث میں آپe نے فرمایا کہ ’’ہر انسان کے ہر جوڑ پر ہر روز صدقہ ہے‘ اس کی ادائیگی کا آسان طریقہ یہ ہے کہ وہ ہر روز طلوع آفتاب کے بعد دو رکعت نفل ادا کرے اس کی طرف سے صدقہ ادا ہو جائے گا۔‘‘ تہجد پڑھنے والا بھی اگر صبح کے دو نفل ادا کر لے تو اسے بھی اتنا ہی ثواب ہوگا۔
تیسری وصیت:
یہ فرمائی کہ ’’میں رات کو سونے سے قبل نماز وتر ادا کر لیا کروں۔‘‘ چونکہ سیدنا ابوہریرہt رات کو دیر تک تعلیم حدیث میں مشغول رہنے کی بنا پر جاگتے رہتے تھے اس لئے نماز تہجد کے لئے اٹھنا مشکل تھا‘ لہٰذا آپe نے انہیں فرمایا کہ ’’رات کو سونے سے قبل وتر پڑھ لیا کرو۔‘‘ یہ رعایت ہر اس شخص کے لئے ہے جو اپنی مصروفیت کی بنا پر نماز تہجد کے لئے اٹھ نہ سکے وہ سونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرے تا کہ وتر فوت نہ ہو جائیں‘ اگر کبھی فوت ہو جائیں تو اس کی قضا دی جائے اور قضا کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں۔

No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)