نماز میں خشوع وخضوع کی اہمیت
(قسط دوم۔ آخری)
تحریر: جناب الشیخ
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ
عدم اطمینان کی صورت میں نماز کا دوبارہ پڑھنا واجب ہے:
امام ابن تیمیہa سے
سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص اطمینان کے ساتھ نماز نہیں پڑھتا تو اس کی نماز کیسی
ہو گی؟ امام صاحب نے فرمایا:
’’نماز کو اطمینان
کے ساتھ پڑھنا واجب ہے اور اطمینان سے نہ پڑھنے والا نماز کو بگاڑنے والا ہے‘ وہ مسیء
الصلوٰۃ ہے‘ محسن الصلوٰۃ نہیں۔ بلکہ وہ گنہگار اور واجب کا تارک ہے۔ جمہور ائمہ اسلام‘
امام مالک‘ شافعی‘ احمد‘ اسحاق‘ ابویوسف‘ محمد (اصحاب ابوحنیفہ) اور خود امام ابوحنیفہ
کا اس بات پر اتفاق ہے۔ ان کے علاوہ دیگر ائمہ اس بات کے قائل ہیں کہ ایسے شخص کے لیے
نماز کا لوٹانا واجب ہے اور اس کی دلیل وہ احادیث ہیں جو صحیحین (بخاری ومسلم) اور
دیگر کتب حدیث میں ہیں۔ اس کے بعد امام صاحب نے حدیث مسیء الصلوٰۃ سمیت وہ احادیث بیان
فرمائی ہیں جو گذشتہ قسط میں بیان ہوئی ہیں۔ (دیکھیے‘ مجموع الفتاویٰ: ۲۲/۱ تا ۶۰۳)
وجوب اطمینان‘
قرآن کریم کی روشنی میں:
گذشتہ قسط میں احادیث کی رو سے نماز میں اطمینان اور اعتدال
ارکان کا وجوب ثابت کیا گیا ہے‘ اس کے بعد امام ابن تیمیہa نے دسیوں آیات قرآنیہ سے نماز میں وجوب اطمینان کا اثبات
کیا ہے جو ان کے غزارت علم‘ وفور دلائل اور قوت استنباط واستخراج کی دلیل ہیں۔ یہ صفحات
ان کی مکمل بحث کو نقل کرنے کے متحمل نہیں‘ تا ہم ہم ایک دو مقامات کا خلاصہ ذیل میں
پیش کرتے ہیں تا کہ مسئلہ زیر بحث کے کچھ قرآنی دلائل بھی سامنے آجائیں۔
Ý امام صاحب اور
قرآن کی آیت:
{وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوۃِ۱
وَ اِنَّہَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ٭} (البقرہ: ۳۵)
’’نماز اور صبر سے
مدد طلب کرو اور یہ نماز بڑی بھاری ہے‘ البتہ خشوع کرنے والوں پر بھاری نہیں۔‘‘
بیان کر کے فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی اس آیت کا اقتضا یہ ہے
کہ جو نماز میں خشوع کرنے والے نہیں وہ قابل مذمت ہیں‘ جیسے اللہ تعالیٰ نے تحویل قبلہ
کے حکم کے وقت فرمایا تھا:
{وَ اِنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَۃً اِلَّا عَلَی الَّذِیْنَ
ہَدَی اللّٰہُ٭} (البقرہ: ۱۴۳)
’’یہ حکم یقینا بڑا
بھاری ہے سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ نے ہدایت سے نواز دیا ہے۔‘‘
یا جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوْہُمْ
اِلَیْہِ٭}
’’مشرکین پر وہ بات
بہت بھاری (گراں) ہے جس کی طرف (اے پیغمبر!) آپ ان کو بلاتے ہیں۔‘‘ (شوریٰ)
پس اللہ عز وجل کی کتاب ایسے افراد کی نشاندہی کر رہی ہے جن
پر وہ بات گراں گذرتی ہے جس کو اللہ پسند فرماتا ہے اور جس کی وجہ سے ایسے لوگ دین
میں قابل مذمت اور ناراضی کے مستحق ہیں اور مذمت اور ناراضی کی وجہ کسی واجب کا ترک
یا کسی حرام کا ارتکاب ہی ہوتا ہے۔ جب غیر خاشعین مذموم (قابل مذمت) ہیں تو یہ بات
اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ نماز میں خشوع واجب ہے۔
Þ امام صاحب مزید
آیات قرآنیہ سے خشوع کا وجوب ثابت کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’جب نماز میں خشوع
واجب ہے اور جس کا مطلب عاجزی اور سکون سے نماز پڑھنا ہے تو جو شخص کوّے کی طرح ٹھونگے
مارتے ہوئے نماز پڑھتا ہے تو اس نے سجدے میں خشوع نہیں کیا‘ اسی طرح جو شخص رکوع سے
سر اٹھا کر سجدے کے لیے جھکنے سے پہلے اطمینان سے سیدھا کھڑا نہیں ہوا (اس نے استقرار
نہیں کیا) تو اس نے سکون نہیں کیا جو اطمینان ہی کا نام ہے۔ پس جس نے اطمینان نہیں
کیا‘ اس نے سکون نہیں کیا اور جس نے سکون نہیں کیا تو اس نے نہ اپنے رکوع میں خشوع
کیا اور نہ اپنے سجدے میں اور جس نے خشوع نہیں کیا‘ وہ گنہکار اور نافرمان ہوا۔ (نہ
کہ فرماں بردار اور اطاعت شعار)‘‘
اس کے بعد امام صاحب نے نماز میں وجوب خشوع پر دلالت کرنے والی
احادیث بیان کی ہیں‘ مثلاً جو لوگ نماز میں اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں‘ ان
کی بابت آپ نے سخت وعید بیان فرمائی:
[لینتہین عن ذلک او لتخطفن ابصارہم] (بخاری:
۸۵۰)
’’وہ (آسمان کی طرف
نگاہیں اٹھانے سے) باز آجائیں ورنہ ان کی نگاہیں اُچک لی جائیں گی۔‘‘
ایک روایت کے الفاظ ہیں: ’’یا ان کی طرف ان کی نگاہیں واپس نہیں
آئیں گی۔‘‘
بعض روایات میں آتا ہے کہ جب
{قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ٭ الَّذِیْنَ ہُمْ
فِیْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ٭} (المؤمنون: ۱، ۲)
’’وہ مومن فلاح پا
گئے جو اپنی نمازوں میں خشوع کا اہتمام کرتے ہیں۔‘‘
آیت نازل ہوئی تو اس کے بعد نبی کریمe کی نگاہ سجدے والی جگہ سے تجاوز نہیں کرتی تھی۔ (الناسخ
والمنسوخ للامام احمد)
جب آسمان کی طرف نگاہ اٹھانا بھی خشوع کے منافی ہوا تو نبی e نے
اس کو حرام کر دیا اور اس پر سخت وعید بیان فرمائی۔
ß امام ابن تیمیہa کا
ایک اور قرآنی استدلال ملاحظہ فرمائیں‘ فرماتے ہیں:
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا
وَ اسْجُدُوْا٭} (الحج: ۸۸) وغیرہا من الآیات
’’اے ایمان والو!
رکوع اور سجدہ کرو۔‘‘
اور اس قسم کی دیگر آیات نقل فرما کر لکھتے ہیں:
’’جب اللہ تعالیٰ
نے اپنے لیے رکوع اور سجدہ کرنے کو اپنی کتاب میں فرض کیا ہے جیسے اس نے نماز کو فرض
کیا ہے اور نبی e کتاب
مبین میں نازل کردہ احکام کے مبین ومفسر ہیں اور آپe کی سنتیں کتاب اللہ کی تفسیر وتوضیح کرتی ہیں اور آپe کا
عمل کسی حکم الٰہی کی تعمیل یا اس کے کسی مجمل حکم کی تفسیر ہی پر مبنی ہوتا ہے او
آپ کا حکم بھی اللہ کے حکم کی تعمیل اور اس کی تفسیر ہی ہوا۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے
نبی کریمe ہر
رکعت میں ایک رکوع اور دو سجدے کرتے تھے۔ تو یہ دونوں ہی چیزیں واجب ہوئیں اور یہ اللہ
کے اس حکم کی تعمیل ہے جو اللہ نے رکوع اور سجدہ کرنے کی صورت میں دیا اور اس اجمال
کی تفسیر ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے۔ اسی طرح سجدے کی کیفیت معلوم کرنے کے لیے بھی آپe کی
سنت ہی مرجع ہے اور نبی e فرض
اور نقل دونوں ہی نمازیں ادا فرماتے تھے اور لوگ بھی آپ کے زمانے میں نمازیں پڑھتے
تھے اور آپ نے رکوع اور سجدے میں اعتدال کے بغیر اور نماز کے دیگر افعال میں اطمینان
کے بغیر نماز ہی نہیں پڑھی۔ چاہے فرض نماز ہوتی یا نفل نماز اور لوگ بھی آپ کے عہد
میں نماز پڑھتے تھے اور وہ بھی رکوع وسجود میں اعتدال اور دیگر افعال نماز میں اطمینان
کے بغیر نماز نہیں پڑہتے تھے۔ یہ طرز عمل اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ نماز کے تمام
افعال میں سکون اور اطمینان واجب ہے جس طرح ان کا عدد واجب ہے یعنی ہر رکعت میں ایک
رکوع اور دو سجدے۔‘‘
نیز آپe کا
اس طرز عمل پر مداومت (ہمیشگی) کرنا‘ یعنی ہر روز ہر نماز میں اعتدال وسکون کا خیال
رکھنا‘ اس کے وجوب پر بہت قوی دلیل ہے۔ اگر اطمینان واجب نہ ہوتا تو آپe کبھی
تو اعتدال واطمینان کے بغیر نماز پڑھ لیتے‘ چاہے زندگی میں ایک مرتبہ ہی سہی تا کہ
اس کا جواز واضح ہو جاتا۔ یا اس کے ترک کا جواز ہی واضح کرنے کے لیے آپ کوئی اشارہ
فرما دیتے۔ پس جب آپe نے
اطمینان کے ترک کا جواز نہ اپنے عمل سے واضح کیا اور نہ اپنے فرمان سے‘ باوجود اس کے
کہ آپe نے
نماز پر مداومت فرمائی تو یہ اس بات پر دلیل ہے کہ نماز کو اطمینان کے ساتھ پڑھنا واجب
ہے۔
علاوہ ازیں نبی کریمe نے سیدنا مالک بن حویرثt اور
ان کے ساتھی کو فرمایا تھا:
’’جب نماز کا وقت
ہو جائے تو تم اذان دو اور تکبیر کہو اور تم دونوں میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرائے
اور تم نماز اس طرح پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘ (بخاری: ۶۵۸)
پس آپ نے ان کو یہی حکم دیا کہ وہ نماز اس طرح پڑھیں جیسے انہوں
نے آپe کو
نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔
ائمہ مساجد کی ذمہ داری:
یہ امر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ امام لوگوں کو نماز اس طرح
پڑھائے جس طرح رسول اللہe لوگوں
کو نماز پڑھاتے تھے اور اس کی کوئی اور بات معارض ہے نہ مخصص‘ اس لیے کہ امام کی ذمہ
داری مقتدی اور منفرد سے زیادہ ہے۔ صحیحین میں یہ حدیث ہے کہ نبی کریمe نے
ایک مرتبہ منبر پر نماز پڑھائی (سوائے سجدے کے‘ وہ آپ منبر سے اتر کر کرتے۔) نماز سے
فراغت کے بعد آپ e نے
فرمایا: ’’میں نے یہ (منبر پر چڑھ کر نماز پڑھانا) اس لیے کیا کہ [لتأتمونی
ولتعلموا صلاتی] ’’تا کہ تم میری
اقتداء کرو اور میرا طریقہ نماز جان لو۔‘‘ (بخاری: ۹۱۸‘ مسلم: ۵۴۴)
ابوداؤد‘ نسائی میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعودt نے
ہمیں اطمینان وسکون اور اعتدال ارکان کے ساتھ چار رکعتیں پڑھائیں اور پھر فرمایا:
’’ہم نے اس طرح ہی
رسول اللہe کو
نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘ (ابوداؤد‘ نسائی)
اور اس طریقہ نماز پر صحابہ کرام کا اجماع ہے‘ اس
لیے کہ وہ سب نہایت اطمینان سے نماز پڑھتے تھے اور جب وہ کسی ایسے شخص کو دیکھتے جو
اطمینان سے نماز نہ پڑھتا تو وہ اس پر نکیر کرتے اور اس کو اس سے منع فرماتے اور کوئی
صحابی اس منع کرنے والے صحابی کو اس سے نہ روکتا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قولا اور
فعلا صحابہ کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ نماز میں سکون اور اطمینان واجب ہے۔
اگر یہ سکون واجب نہ ہوتا تو صحابہ کرام کبھی تو اس سکون
واطمینان کو ترک کر دیتے جیسے وہ غیر واجب چیزوں کو (بعض دفعہ) چھوڑ دیتے تھے۔
علاوہ ازیں لغت عرب میں رکوع اور سجود کا معنی ومفہوم اس وقت
ہی متحقق ہوتا ہے جب رکوع کے لیے جھکتے وقت اور چہرے کو زمین پر رکھتے وقت سکون واطمینان
کا اہتمام کیا جائے ورنہ محض جھک جانا اور سر کو زمین پر رکھ کر اٹھا لینا‘ اس کا نام
نہ رکوع ہے اور نہ سجدہ۔ اور جو اس کو رکوع اور سجدہ قرار دیتا ہے‘ وہ لغت عرب کے خلاف
بات کرتا ہے۔ اس سے یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ لغت عرب سے اس کی دلیل پیش کرے‘ لیکن
وہ ایسا نہیں کر سکتا‘ کیونکہ اس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں اور نہ اپنے موقف کے
اثبات کے لیے اس کے پاس کوئی راستہ ہے۔ اس موقف کا قائل بغیر علم کے اللہ کی کتاب پر
بھی حرف زنی کرتا ہے اور لغت عربی پر بھی۔ اور جب اس امر ہی میں شک پڑ جائے کہ واقعی
یہ سجدہ کرنے والا ہے یا سجدہ کرنے والا نہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا شخص بالاتفاق
حکم سجدہ کی تعمیل کرنے والا نہیں۔ اس لیے کہ یہ بات تو معلوم ہے کہ سجدہ واجب ہے‘
لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ سجدہ کرنے والے نے اس وجوب پر عمل کر لیا ہے۔ جیسے کسی شخص
کو یہ یقین ہو کہ نماز یا زکوٰۃ اس پر واجب ہے‘ لیکن اس کو یہ شک ہو کہ اس نے نماز
پڑھ لی یا زکوٰۃ ادا کر دی۔ مزید برآں‘ اللہ تعالیٰ نے نماز کی حفاظت اور اس پر مداومت
(ہمیشگی) کو واجب کیا ہے اور نماز کے ضائع کرنے اور اس سے تساہل برتنے کی مذمت کی ہے۔
جیسے سورۂ مومنون اور سورۂ معارج وغیرہ کی آیات میں ان کا بیان ہے۔ (امام صاحب نے
یہ یہاں آیات نقل فرمائی ہیں اور ان کے بعد فرمایا ہے کہ) یہ آیات اس امر پر دلالت
کرتی ہیں کہ جو شخص نماز کے واجبات میں سے کوئی ایک چیز بھی چھوڑتا ہے تو وہ قابل مذمت
ہے۔ (نہ کہ قابل مدح) چاہے ظاہری طور پر وہ نماز پڑھنے والا ہی ہو‘ جیسے کوئی شخص کسی
وقت واجب کو چھوڑ دے یا نماز کے ظاہری وباطنی اعمال میں سے ان کی شرائط وارکان کی تکمیل
کو ترک کر دے۔ (ملخص از مجموع الفتاویٰ: ۲۲/۵۴۷-۵۷۲)
امام کے لیے تخفیف کے حکم کا مطلب:
ایک نہایت اہم مسئلہ یہ ہے کہ نبی کریمe نے
فرمایا ہے:
’’جب تم میں سے کوئی
شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی نماز پڑھائے‘ اس لیے کہ نمازیوں میں ضعیف‘ بیمار‘
بوڑھے بھی ہوتے ہیں اور جب خود (تنہا) نماز پڑھے تو جتنی چاہے لمبی پڑھے۔‘‘ (بخاری)
یہ مسئلہ بھی اکثر وبیشتر خلجان کا باعث بنتا ہے اور تخفیف کے
نام پر نماز کا حلیہ بھی بگاڑ دیا جاتا ہے‘ چنانچہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہa نے
اپنے بے مثال فہم وتفقہ سے نہایت عمدہ پیرائے میں اس مسئلے کو بھی حل فرمایا ہے۔ امام
صاحب فرماتے ہیں:
تخفیف ایک اضافی اور نسبی امر ہے‘ اس کی کوئی حد نہ لغت میں ہے اور نہ عرف میں۔
اس لیے کہ ایک چیز کچھ لوگوں کو لمبی لگتی ہے جب کہ کچھ دوسرے اس کو ہلکا سمجھتے ہیں۔
کسی چیز کو بعض ہلکا سمجھتے ہیں جبکہ دوسروں کے نزدیک وہ لمبی ہوتی ہے۔ پس یہ ایسا
معاملہ ہے کہ لوگوں کی عادات اور عبادات کی مقادیر کے اختلاف کے ساتھ ساتھ مختلف ہوتا
ہے۔ اس لیے مسلمان کے لیے یہ ضروری ہے کہ تخفیف اور طوالت کا فیصلہ بھی وہ سنت نبوی
e ہی
کی روشنی میں کرے اور سنت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی کریمe کا
تخفیف کا حکم‘ آپe کے
تطویل کے حکم کے منافی نہیں۔ یعنی دونوں حکموں میں منافات یا تضاد نہیں‘ دونوں کا اپنا
اپنا محل ہے۔ اس محل اور پس منظر ہی میں دونوں حکموں کو رکھ کر دیکھنا چاہیے۔ جیسے
سیدنا عمارt سے
مروی حدیث میں نبی کریمe نے
فرمایا:
’’آدمی کا لمبی نماز
پڑھنا اور خطبہ مختصر دینا‘ اس کے سمجھ دار ہونے کی علامت ہے‘ پس تم نماز لمبی نہ کرو
اور خطبہ مختصر کرو۔‘‘ (صحیح مسلم)
اس حدیث میں نماز کو لمبا کرنے کا جب کہ اس سے ما قبل کی حدیث
میں تخفیف (ہلکی کرنے) کا حکم تھا‘ ان میں منافات (ایک دوسرے سے تضاد) نہیں۔ اس لیے
کہ طوالت کا حکم خطبے کے مقابلے میں ہے اور ما قبل کی حدیث میں تخفیف کا حکم ان بعض
ائمہ کے طرز عمل کے مقابلے میں ہے جس کا اظہار نبی کریمe کے زمانے میں ان سے ہوا کہ انہوں نے عشاء کی نماز میں
سورۂ بقرہ کی تلاوت کی۔ اس لیے آپe نے ان سے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص تنہا نماز
پڑھے تو جتنی چاہے لمبی نماز پڑھے۔‘‘ اور سیدنا معاذt کو‘ جنہوں نے عشاء کی نماز میں سورۂ بقرہ پڑھی تھی‘
فرمایا: ’’کیا تم لوگوں کو فتنے میں ڈالنا چاہتے ہو؟ تم سورۂ اللیل‘ سورۂ الشمس وغیرہ
پڑھا کرو۔‘‘
لوگوں نے طوالت کی مقدار کو بھی نہیں پہچانا اور نہ اس طوالت
کو سمجھا جس سے نبی کریمe نے
منع فرمایا تھا اور اپنی طرف سے ایک متعین مقدار کو مستحب قرار دے لیا‘ جیسے رکوع‘
سجود میں کم از کم تین مرتبہ تسبیحات پڑھنا‘ حالانکہ امام کے لیے تین مرتبہ تسبیحات
پر اکتفا کرنے کو سنت قرار دینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ رکوع کے بعد اعتدال
کو لمبا نہ کرنا سنت ہے یا نماز کو آخری وقت تک مؤخر کرنا سنت ہے۔ وغیرہ۔ جب کہ واقعہ
یہ ہے کہ ان کے پاس ان کاموں کو سنت قرار دینے کی کوئی اصل نہیں بلکہ صحیح احادیث سے
ثابت ہے کہ آپe اپنی
غالب (اکثر) نمازوں میں تین مرتبہ سے زیادہ تسبیحات (سبحان ربی العظیم‘ سبحان ربی الاعلی)
پڑھتے تھے۔
سیدنا عمر بن عبدالعزیزa خلیفہ بننے سے پہلے جب مدینے کے گورنر بنے (ولید بن
عبدالملک کی خلافت میں) تو سیدنا انسt نے ان کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے فرمایا: ’’نبی
کریمe کے
بعد کسی کے پیچھے اس نوجوان (عمر بن عبدالعزیزؒ) جیسی ناز نہیں پڑھی جو اس سے زیادہ
رسول اللہe کی
نماز کے مشابہ ہو۔ انہوں نے کہا: ہم نے اندازہ لگایا کہ انہوں نے رکوع میں بھی دس تسبیحات
پڑھیں اور سجدے میں بھی دس تسبیحات پڑھیں۔ (ابوداؤد‘ نسائی۔ (ملخص از فتاویٰ شیخ الاسلام
ابن تیمیہ: ۲۲/۵۹۴ تا ۵۹۷) طبع قدیم)
امام صاحب کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز ہر صورت میں اعتدال
واطمینان کے ساتھ پڑھنا ہے اور پڑھانا بھی ہے۔ البتہ اکیلے پڑھتے وقت اعتدال کی کوئی
حد نہیں۔
نبی کریمe کا
قیام‘ رکوع‘ قومہ‘ سجدہ‘ دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا‘ یہ سارے ارکان عام طور پر تقریبا
برابر ہوتے تھے جیسا کہ احادیث میں اس کی وضاحت ہے اور جب کوئی امام ہو تو اس وقت مقتدیوں
کا خیال رکھتے ہوئے نماز پڑھانی چاہیے۔ کیونکہ ان میں ضعیف‘ بیمار‘ بوڑھے اور ضرورت
مند بھی ہوتے ہیں۔ خود نبی کریمe معمول
کے مطابق نماز پوری یکسوئی کے ساتھ پڑھانے کا ارادہ رکھتے تھے‘ لیکن جب آپe کو
بچے کے رونے کی آواز آجاتی تو آپe نماز میں تخفیف فرما دیتے تھے۔ لیکن تخفیف کا مطلب وہ
نہیں جو آج کل سمجھ لیا گیا ہے کہ پوری نماز ’تو چل میں آیا‘ کے انداز میں پڑھا دی
جائے‘ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ مقتدیوںکا خیال رکھنے کی تاکید کے باوجود نماز میں اعتدال
واطمینان کا خیال رکھے اور تخفیف کے نام پر اعتدال ارکان کی اہمیت کو نظر انداز نہ
کرے۔
نبی کریمe کا
جو یہ فرمان ہے کہ ’’نماز کو لمبا کرنا اور خطبے میں اختصار کرنا سمجھداری کی علامت
ہے۔‘‘ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نماز خطبے سے لمبی اور خطبہ نماز سے مختصر ہو۔ ان
کا بھی آپس میں تقابل نہیں بلکہ یہ دو الگ الگ حکم ہیں اور ان کے الگ الگ تقاضے ہیں۔
نماز جب بھی پڑھی یا پڑھائی جائے‘ لمبی یعنی اعتدال وسکون کے ساتھ پڑھی اور پڑھائی
جائے اور خطبہ اور وعظ جب بھی ارشاد فرمایا جائے‘ اس میں طوالت کی بجائے اختصار اور
جامعیت سے کام لیا جائے۔
جو شخص ان دونوں چیزوں میں ان پہلوؤں کو ملحوظ رکھے گا‘ وہ
یقینا فہم وتفقہ سے بہرہ ور ہے۔ [رزقنا اللہ منہ] بصورت دیگر وہ اس
خوبی سے محروم ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔
مفسدات نماز:
یہ المیہ بھی کچھ کم افسوسناک نہیں کہ ایک قلیل تعداد‘ جو نماز
کی پابندی تو کرتی ہے مگر ان کی ایک بہت بڑی تعداد نماز سنت نبویe کے
مطابق ادا نہیں کرتی۔ حالانکہ نبی کریمe نے فرمایا ہے: [صلوا
کما رأیتمونی اصلی] (بخاری: ۶۳۱)
’’تم نماز اس طرح
پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘
آپe کے
اس فرمان کے مطابق ہر مسلمان کو نماز کے آداب‘ ارکان وشرائط معلوم ہونے چاہئیں کہ کس
طرح سے آپe نے
ان ارکان کو ادا فرمایا تا کہ ہماری نمازیں صحیح معنوں میں اللہ کی بارگاہ میں شرف
قبولیت پا سکیں۔
مفسدات نماز کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم تو وہ ہے جس سے نماز ہی فاسد اور باطل ہو جاتی ہے اور
نماز دوبارہ دہرانا پڑتی ہے۔ جیسے:
\ کھانا پینا۔
نماز میں اگر کھا پی لیا جائے تو نماز باطل ہو جائے گی۔
\ عمدا گفتگو
کرنا۔ اس سے بھی نماز باطل ہو جائے گی‘ ہاں بھول چوک میں زبان سے کوئی لفظ غیر ارادی
طور پر نکل جائے تو معاف ہے‘ بعض فقہاء‘ بھول سے بھی بولنے پر نماز کے باطل ہونے کے
قائل ہیں۔
\ عمل کثیر۔ نماز
کی حالت میں کوئی اور کام کرنا۔ اس سے بھی نماز باطل ہو جائے گی۔ البتہ عمل کثیر کی
تعریف اور اس کی حد میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ فقہائے احناف معمولی حرکت واقدام
کو بھی عمل کثیر قرار دیتے ہیں لیکن یہ صحیح نہیں۔ مثلاً صف کے خلا کو پر کرنے کے لیے
نماز کی حالت میں تھوڑا سا چلنا تھوڑا آگے پیچھے ہونا جائز ہے‘ اس سے نماز میں کوئی
بگاڑ نہیں آتا‘ تا ہم اس حرکت میں قبلہ کے رخ سے انحراف نہ ہو۔
\ کوئی رکن یا
شرط فوت ہو جائے‘ تب بھی نماز باطل ہو جائے گی‘ جیسے کوئی شخص وضوء ہی نہ کرے یا رکوع‘
یا سجدہ ترک کر دے تو ایسی نماز بھی دہرانا پڑے گی‘ یا قیام میں سورۂ فاتحہ چھوٹ جائے
تو ایسی رکعت بھی نہیں ہو گی۔ اسی لیے مدرک رکوع کی رکعت نہیں ہو گی۔ کیونکہ اس سے
قیام اور سورۂ فاتحہ دو رکن فوت ہو گئے۔ کھلکھلا کر ہنسنے سے بھی نماز باطل ہو جاتی
ہے۔ البتہ مسکراہٹ یا معمولی سے ہنسنے سے نماز باطل نہیں ہو گی۔
مفسدات نماز کی دوسری قسم:
جس پر فقہاء نماز کے باطل ہونے کا فتویٰ تو نہیں دیتے لیکن ان
سے اجتناب صحت نماز کے لیے بہت ضروری ہے۔ کیونکہ رسول اللہe نے نماز میں ان کا بڑا اہتمام فرمایا اور امت کو بھی
ان کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ مثلاً:
\ صف بندی کا
اہتمام۔ سیدنا نعمان بن بشیرt بیان
کرتے ہیں کہ رسول اللہe ہماری
صفوں کو اس طرح درست فرماتے تھے جس طرح تیر کو سیدھا کیا جاتا ہے۔ حتی کہ ایک روز آپ
نے ایک شخص کا سینہ صف سے باہر نکلے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ’’اللہ کے بندو! اپنی صفوں
کو درست کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان اختلاف ڈال دے گا۔‘‘ (مسلم: ۹۷۸)
اسی طرح
نبی کریمe نے
فرمایا: ’’اپنی صفیں درست کرو اس لیے کہ صفوں کا درست کرنا نماز کو مکمل کرنا ہے۔
(بخاری: ۸۲۳)
ایک اور
حدیث میں آپe نے
فرمایا: ’’اپنی صفیں درست کرو‘ اپنے کندھے برابر کر لو اور صفوں کے درمیان شگاف بند
کر لو‘ اپنے بھائیوں کے ہاتھوں کے لیے نرم ہو جاؤ اور شیطان کے لیے درمیان میںشگاف
نہ چھوڑو۔‘‘ (سنن ابوداؤد)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ صف میں خلا چھوڑنا شیطان کو خلل اندازی
کا موقع مہیا کرنا ہے۔
\ اسی طرح تعدیل
ارکان بہت ضروری ہے جیسا کہ تفصیل گزری۔ تعدیل ارکان کا مطلب ہے کہ رکوع‘ سجدہ‘ قومہ
اور جلسہ وغیرہ اطمینان سے کیا جائے۔ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ رکوع
میں سر جھکاتے ہی فوراً اٹھا لیتے ہیں‘ اسی طرح سجدہ کرتے ہیں کہ پیشانی زمین پر ٹیکتے
ہی اٹھا لیتے ہیں‘ رکوع کے بعد قومہ ہوتا ہے‘ جس کی بابت حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریمe اتنی
دیر تک رکوع سے اٹھنے کے بعد کھڑے رہتے کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر لوٹ آتی‘ لیکن بہت سے
لوگ رکوع سے اُٹھ کر کچھ دیر کھڑے ہو کر مسنون دعا:
[سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد حمدا کثیرا
طیبا مبارکا فیہ]
پڑھنا
تو کجا‘ سرے سے سیدھے کھڑے ہی نہیں ہوتے بلکہ خمیدہ خمیدہ ہی سجدے میں چلے جاتے ہیں۔
یہی کیفیت دو سجدوں کے درمیان جلسہ کی ہے جس میں نبی کریمe یہ دعا پڑھتے تھے:
[اللہم اغفر لی وارحمنی واجبرنی واہدنی وعافنی
وارزقنی]
لیکن
بہت سے لوگ سجدے سے پیشانی اٹھاتے ہی دوسرا سجدہ کر لیتے ہیں‘ درمیان میں جلسہ ہی نہیں
کرتے۔ دعا پڑھنا تو بڑی دور کی بات ہے۔ یہ نماز جس میں تعدیل ارکان کا خیال نہ رکھا
گیا ہو‘ سنت نبوی کے خلاف ہے‘ ہر مسلمان کو نماز کا ہر رکن پورے اطمینان اور سکون کے
ساتھ ادا کرنا چاہیے۔
\ اسی طرح بہت
سے مرد حضرات نماز پڑھتے ہیں لیکن ان کی شلوار‘ پاجامہ‘ تہبند وغیرہ ٹخنے سے نیچے لٹک
رہا ہوتا ہے۔ حالانکہ نبی کریمe کا
فرمان ہے کہ ’’جس شخص کا لباس ٹخنے سے نیچے ہو گا وہ جہنم میں جائے گا۔‘‘ (بخاری: ۵۷۸۷)
بعض علماء
کے نزدیک ایسے شخص کی نماز بھی مقبول نہیں۔ دوسری حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنا کپڑا
غرور کی وجہ سے گھسیٹتا ہوا چلے گا‘ قیامت کے دن اس کی طرف اللہ تعالیٰ نظر نہیں کرے
گا۔ (بخاری: ۵۷۸۸‘ مسلم: ۵۴۵۳)
نوٹ: عورتیں اپنے ٹخنے ہر حال میں ڈھانپ کر رکھیں۔
\ بہت سے لوگ
نماز کو اتنا مؤخر کر دیتے ہیں کہ کراہت کے وقت میں ادا کرتے ہیں اور پھر جلدی جلدی
نہایت عجلت میں پڑھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بابت حدیث میں کہا گیا ہے کہ یہ لوگ کوّے
کی طرح ٹھونگے مارتے ہیں۔ اعاذنا اللہ منہ!
\ اسی طرح بہت
سے لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ جماعت میں امام کی متابعت صحیح طریقے سے نہیں کرتے
بلکہ مسابقت کرتے ہیں۔ یعنی امام سے پہلے رکوع‘ سجود میں چلے جاتے ہیں‘ ایسے لوگوں
کے بارے میں نبی کریمe نے
فرمایا ہے کہ ’’اندیشہ ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ ان کے سر کو گدھے کا سر نہ بنا دے۔‘‘
\ فی زمانہ ایک
مسئلہ موبائل فون کا بھی ہے۔ بہت سے لوگ مسجد میں فون بند نہیں کرتے اور گھنٹی بجنے
پر سب کی نماز میں خلل پڑتا ہے۔ ایسے لوگوں کوچاہیے کہ فون کی گھنٹی بجتے ہی اس کو
بند کر دیں۔ لیکن فون کی گھنٹی بجنے پر نمبر دیکھ کر موبائل بند کرنے سے نماز کے خراب
ہونے کا اندیشہ ہے۔
بہرحال یہ اور اس قسم کی کوتاہیاں نمازیوں میں جن سے نماز میں
فساد اور خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں بہت عام ہیں اور ان کی طرف کسی کی توجہ ہی نہیں
جاتی‘ ائمہ مساجد بھی بالعموم ان کی طرف لوگوں کو توجہ نہیں دلاتے۔ کوشش کرنا چاہیے
کہ ہر مسلمان کی نماز مذکورہ مفاسد سے پاک اور سنت نبویe کے مطابق ہو۔
No comments:
Post a Comment