شہزادہ محمد بن سلمان
تحریر: جناب ڈاکٹر علی عوض عسیری
(سابق سعودی سفیر)
گذشتہ دنوں سعودی
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان کے دورے پر آئے۔ وہ پاکستانی معیشت میں تاریخی
سعودی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ ان کا پاکستان کا دوسرا دورہ تھا جو دو برادر
ملکوں کے درمیان تعلقات میں ایک نیا معاشی باب رقم کرے گا کیونکہ دونوں ممالک ہمیشہ
مذہبی، ثقافتی اور سماجی اقدار پر ایک دوسرے کا ساتھ دیتے رہے ہیں۔
پاکستانی ایک عظیم قوم ہیں۔میں نے یہاں ۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۹ء تک بطورسعودی سفیر کے خدمات انجام دیں۔ میں اس بات کا گواہ
ہوں کہ نائن الیون کے بعد پاکستان نے دہشتگردی کے خلا ف جنگ میں پیدا ہونے والی آزمائشوں
اور سر اٹھانے والے فتنوں کا کس طرح سے مقابلہ کیا۔ میرے اسلام آباد کے دور سفارت
میںمجھے یہ جاننے کا موقع ملا کہ ۲۰ کروڑ کی آبادی والے اس ملک نے انتہائی کامیابی سے دہشت گردی
کا سامنا کیا اور انتہا پسندی کے خلاف مؤثر کارروائی کی۔ سعودی عرب دنیا کے تمام مسلمانوں
کے لئے مذہبی طور پر خاص اہمیت رکھتا ہے لیکن اس دائمی مذہبی رابطے کے علاوہ سعودی
عرب اور پاکستان کے درمیان باہمی محبت اور احترام کے رشتے کو لفظوں میں بیان نہیں کیا
جاسکتا۔ میں نے لبنان میں بھی بطورسعودی سفیر خدمات انجام دی ہیں اور جب میں نے سفارتکاری
سے ریٹائرمنٹ لی تب سے اب تک جب بھی میں اپنے سفر کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے اسلام
آباد میں گزارا اپنا وقت بہت یاد آتا ہے، خاص طور پر وہ جو نہ ختم ہونے والا میرا
تعلق پاکستانی دوستوں سے ہے وہ میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ لہٰذا ایک دہائی کے بعد اس
عظیم ملک میں واپس آ نے پر میرا جس گرم جوشی سے استقبال کیا گیا ایسا لگا جیسے میں
اپنے گھر واپس آگیا ہوں۔ میں ریاض نژاد بین الاقوامی ادارہ برائے ایرانی مطالعہ کے
ایک وفد کا حصہ تھا جو نہ صرف مختلف پاکستانی تھنک ٹینکس کے ساتھ رابطے میں تھا بلکہ
اسکاپبلک سیکٹر یونیورسٹی کے ساتھ معاہدہ بھی تھا۔اس دوران سعودیہ کے پڑھے لکھے طبقے
اور ریاستی حکام کو اندازہ ہوا کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی،جنوبی تجارتی کوریڈورزکے جغرافیائی
محل وقوع میں پاکستان کی اہمیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اسکی اہمیت کا اندازہ انہیں اس
وقت ہوا جب پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ سی پیک عمل میں آیا۔
سعودی عرب چین، وسطی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے ساتھ اپنے
عالمی اقتصادی تعلقات میں بھی تبدیلی لا رہا ہے‘ تبھی انہیں بحیرہ عرب میں پاکستان
کے گوادر پورٹ کی سٹریٹجک اہمیت سمجھ میں آئی۔ لہذا انہیں ادراک ہوا کہ جنوب مغربی
ایشیائی اقتصادی جغرافیائی محل وقوع پر سی پیک ایک ایسا موقع ہے جس سے مستقبل میںپاکستان
میں سرمایہ کاری کر کے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ روایتی طور پر سعودی پاک اقتصادی
راہداری کے حوالے سے سازگار تبادلہ خیال کیا گیا۔ سعودی عرب اور پاکستان نے افغانستان،
کشمیر میں علاقائی امن اور استحکام کو عمل میں لانے جیسے مقاصد پرتعاون کیا۔ وہ ہمیشہ
مشکل وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے ہیں۔ جیسے کہ پہلی
خلیجی جنگ کے دوران پاکستانی مسلح افواج نے سعودی سرحدوں کی حفاظت کی۔ ۲۰۰۵ء کے زلزلہ کے بعد سعودی عرب نے کشمیر کے متاثرین کو ہنگامی امداد فراہم کرنے کے
لئے ایک فضائی گزر گاہ قائم کی۔خیر سگالی کی یہ روایت خواہ ۴۱ رکنی اسلامی فوجی
اتحاد کا دہشت گردی سے لڑنا ہو یا آئندہ سعودی سرمایہ کاری کے پیکیج کا اعلان ہو ہرصورت
یونہی برقرار رہے گی۔
ماضی میں پاکستان نے سعودی عرب کو ضرورت کے وقت سکیورٹی امداد
فراہم کی جبکہ سعودی عرب نے مشکل وقت میںپاکستان کی معیشت کو سنبھالنے میں تعاون کیا۔تعلقات
کو برقرار رکھنے کا یہ عمل یونہی جاری رہے گا خواہ پاکستانی سیاست میں حکومتی قیادت
میں کسی بھی قسم کی تبدیلی رونماہو‘ سعودی حمایت ہمیشہ غیرمشروط ہی رہے گی۔ پاکستان
کو چونکہ ایک بار پھر سے اقتصادی مسائل کا سامنا ہے‘ اس سے نمٹنے کے لئے سعودی حکومت
نے پاکستان کو ۶ ارب ڈالرکی امداد
دی جس پر سال بھر کے برآمدی تیل پر ۳ ارب ڈالر کی چھوٹ بھی دی گئی۔
اب سعودی عرب پاکستان کے اقتصادی شعبوں میں طویل مدتی سرمایہ
کاری کرنے جارہا ہے۔ اس اقدام کو سعودی ریاست اور نجی کاروباری ادارے قابل تعمیل خیال
کر رہے ہیں۔ یہ سعودی عرب کی ایشیائی ممالک خاص طورپاکستان میں اقتصادی رابطوں کو متنوع
کرنیکی کاوشوں کا حصہ ہے جن سے وہ اپنی روایتی دوستی اور اقتصادی روابط برقرار رکھ
سکیں۔اس مقصد کے لئے سعودی ریاستی حکام اور تاجروں کے اعلیٰ سطحی وفد نے توانائی کے
وزیر خالد بن عبدالعزیز کی قیادت میں گزشتہ ماہ پاکستان کا دورہ کیا جس میںپاکستان
کے ساتھ آئل ریفائننگ، پیٹرو کیمیکل، کان کنی اور قابل تجدید انرجی کے شعبوں میںمختلف
معاہدوں اور طریقہ کار پر دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کو فروغ دینے کوحتمی شکل دی۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ان معاہدوں جیسے کہ گوادر میں ۱۰ ارب ڈالر مالیت
کی آئل ریفائنری، پیٹرو کیمیکل کمپلیکس، کان کنی‘ قابل تجدید توانائی اور دیگر شعبوں
پر مزید سرمایہ کاری کے معاہدے کو انجام دینگے۔ یہ دونوںممالک کے درمیان ایوان تجارت
اور تجارت میں دو طرفہ روابط کومضبوط کرنے کی مشترکہ کاوش ہے۔ دونوں ممالک کے مابین
گزشتہ برس اکتوبر میں دو طرفہ تجارت کی سطح کو بڑھانے کے لئے سالانہ ۳ بلین ڈالر کاحجم برقرار رکھنے کے لئے ایک آزادانہ تجارتی معاہدے
پر بات چیت پر بھی اتفاق ہوا تھا۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی ویژنری لیڈرشپ کے تحت سعودی
عرب بڑے پیمانے پر تجدید ی ویژن ۲۰۳۰ء پر کام رہا ہے
جو پاکستان کی افرادی قوت رکھنے والے اداروں خاص طور پر آئی ٹی کے شعبے کو سعودی صنعت
اور مستقبل کے پراجیکٹس جیسے کہ NEOM میں کام کرنے کے مواقع فراہم کرے گا۔
سعودی عرب کی طرح پاکستانی تعلیم یافتہ شہری نوجوان طبقہ اس
وقت اقتصادی مشکلات سے دوچار ہے۔سعودی عرب میں ملازمین کا یہ تخلیقی اور باصلاحیت طبقہ
اگر سعودی عرب میں کام کرے تو وہ برطانیہ میں کام کرنے والے ملازمین کی سالانہ آمدنی
سے زیادہ کما سکتے ہیں۔
آخر میں میں یہی کہوں گا کہ پاک سعودی تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ
مضبوط ہوتے جا رہے ہیں اور یہ تمام چیزیں اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ باہمی تجارت
اور سرمایہ کاری کے ذریعے ہم اپنے مستقبل میں ٹھوس پیش رفت کر سکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment