سعودی حکمرانوں کی پاکستان سے محبت
تحریر: جناب سینیٹر پروفیسر ساجد میر
حفظہ اللہ
شاہ عبدالعزیز بن
عبدالرحمن آل سعود نے ۱۹۳۲ء میں عرب دنیا کے سب سے بڑے ملک سعودی عرب کی بنیاد رکھی۔ ۷۸ ہزار مربع میل پر
پھیلے ہوئے ہوئے اس خطہ میں ایک جدید مثالی مملکت کا قیام عمل میں آیا۔نبی مکرمe نے
فاران کی چوٹیوں پراپنے پہلے وعظ میں فرمایا تھا کہ لاالٰہ الااللہ کواپنالوتواللہ
تمہیں عرب وعجم کامالک بنادیگا۔ آل سعود نے شیخ الاسلام امام محمد بن عبدالوہاب ؒکی
رہنمائی میں دعوت حق کا پرچم بلند کیا۔عرب معاشرے سے شرک وضلالت کی تاریکیوں کا قلع
قمع کیا۔ اس کلمے کی خاطر اس خاندان نے اپنے اقتدارتک کودائوپرلگایاتوآج رب ذوالجلال
نے اپنے دین کی خدمت کیلئے حجازمقدس اورعظیم مملکت سعودی عرب کے اقتدارکی چابیاں انہیں
تھمادیں۔ آل سعود کی وجہ امتیاز یہ ہے کہ دیگر بادشاہوں کی طرح انہوں نے صرف شہری
ترقی پر توجہ نہیں دی بلکہ دینی اصلاح وتطہیر کو بھی پیش نظر رکھا اور مسلمانوں کے
دینی جمود کا علاج کیا‘ جس کے نتیجے میں خطے میں پھیلے شرک بدعات وخرافات کا خاتمہ
ہوا۔اسی وجہ سے حجاز مقدس ہماری عقیدتوں کا محور اور روحانیت کا مرکز ہے۔ ہمارے دل
اسکی محبت میں دھڑکتے ہیں، اس سے تعلقِ خاطر ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ دل و دماغ کی تمام
وسعتیں‘ گہرائیاں اور حرمین شریفین کی محبت سے معمور روح کی ساری پنہائیاں اس سے لبریز
ہیں۔سعودی عرب کے حکمران، جس اخلاص اور فراخ دلی سے اسلام کی خدمت اور دنیا بھر کے
مسلمانوں کی معاونت کرتے ہیں، اسکے باعث بھی ہمارے خراجِ تحسین و عقیدت کے حق دار قرار
پاتے ہیں جبکہ بحیثیت پاکستانی ہم پر سعودی عرب کا اکرام یوں بھی لازم ہے کہ پوری دنیا
میں مملکتِ خداداد پاکستان سے مخلصانہ دوستی جس طرح سعودی عرب نے نبھائی ہے اور نبھا
رہا ہے، وہ کہیں اور دکھائی نہیں دیتی۔ سعودی عرب ایک ایسا ملک ہے جس کا دستور قرآن
وسنت ہے اور سعودی عرب کے حکمرانوں کا مقصد نظام اسلام کا قیام اور مسلمانان عالم کیلئے
ملی تشخص کا جذبہ ہے۔ خادم حرمین شریفین نے امت مسلمہ کیلئے جو خدمات انجام دی ہیں
وہ تاریخ کا سنہرا باب ہے۔ اسلام اور امت مسلمہ کیلئے سعودی حکومت کی مخلصانہ و ہمدردانہ
خدمات کو امت مسلمہ کبھی فراموش نہیں کریگی۔ پاکستانی عوام سعودی عرب اور خادم حرمین
شریفین سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں اور سعودی عرب کی ترقی وخوشحالی کو اپنی ترقی وخوشحالی
سمجھتے ہیں۔ آج یہ مملکت اسلام اور مسلمانوں کا قلعہ ہے جس کی مقدس سر زمین پر قبلہ
اور حرمین شریفین موجود ہیں۔ سعودی حکمرانوں کے اخلاص کی بدولت ملک میں قانون الٰہی
کی عملداری اور امن و سکون کا دور دورہ ہے اور اسکے باشندے اپنی مقبول قیادت سے محبت
اور وفاداری کے باعث خوشحال اور پرمسرت زندگی گزار رہے ہیں۔
جب ہم شاہ سلمان کی سیرت پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ ہمیں ایک انتہائی
تجربہ کار عام روش سے ہٹ کر ایک عبقری شخصیت نظر آتے ہیں۔ ۱۹۳۵ء میں انکی پیدائش ہوئی اور اپنے والد شاہ عبد العزیز کے زیر سایہ پروان چڑھے۔
صرف دس سال کی عمر میں انہوں نے قرآن کریم حفظ کرلیا۔ بعد ازاں حرم مکی کے امام اور
سعودی شہزادوں کے مربی خاص شیخ عبد اللہ خیاطa کی زیر نگرانی شرعی علوم سے آراستہ ہو کر کاروبار سلطنت
میں ہاتھ بٹانے لگے۔ چنانچہ ان کی ہونہاری کی بنا پر ۱۹۵۵ء میں صرف بیس سال کی عمر میں انہیں سعودی دار الحکومت ریاض کا گورنر بنا دیا گیا
اور وہ پچاس سال سے زیادہ عرصے تک اس منصب پر برقرار رہے۔
اپنی بادشاہت کے پہلے ہی دن انہوں نے جو سب سے پہلا خطاب کیا
اس میں یہ بات واضح کردی کہ سعودی عرب اپنی اصل بنیاد سے کسی قیمت پر نہ ہٹے گا اور
نہ ہی اپنے ان اصولوں سے دستبردار ہوگاجن پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ چنانچہ فرمایا:
ہم اللہ رب العزت کی نصرت ومدد کے سہارے اپنے اصول ومنہج پر قائم رہیں گے، اور اس سلطنت
کے بانی والد محترم شاہ عبد العزیز کے زمانے سے جو منہج حیات وسیاست چلی آرہی ہے نہ
صرف اسکی پاسداری کرینگے بلکہ اس سے کسی صورت رو گردانی نہ کرتے ہوئے کتاب وسنت کے
قانون کی بالا دستی قائم رکھیں گے۔
امام محمد بن سعودa سے لیکر شاہ سلمان بن عبدالعزیزd تک
اس عظیم خاندان نے سعودی عرب کو ایک مکمل فلاحی اسلامی مملکت بنانے میں نہ صرف عظیم
قربانیاں دی ہیں بلکہ ایک طویل جدوجہد کے ذریعے اسلامی معاشرہ قائم کر دیا ہے۔ ایک
دوسرے کا احترام جان ومال کا تخفظ و آبرو امن و امان کی شاندار مثال سعودی عرب میں
دیکھی جاتی ہے۔ سعودی عرب اسلامی عقائد اور دینی اقدار کے تحفظ کیلئے فعال کردار اداکررہا
ہے۔ وہ مسلم دنیا کو ذرائع ابلاغ کے میدان میں آگے لانے کی سعی کے تحت اس بات پر زور
دے رہا ہے کہ اسلامی ممالک زیادہ سے زیادہ اسلامی ٹی وی چینلز قائم کریں تاکہ اغیار
کی تہذیبی وثقافتی میدان میں جاری یلغار کا مقابلہ کیا جاسکے۔
سعودی عرب کے حکمرانوں کی پاکستان سے محبت اور چاہت کسی سے ڈھکی
چھپی نہیں تھی۔ وہ پوری امت مسلمہ سے انتہائی عقیدت و محبت رکھتے تھے۔وہ پاکستان کو
اپنا بھائی اور دوسرا گھر سمجھتے تھے۔پاکستان سے محبت اور تعلق کا اظہار انہوں نے متعدد
بار دو ٹوک انداز میں کیا۔ انہوں نے اپنے عمل سے بھی یہ ثابت کیا کہ وہ واقعی پاکستان
کے عوام سے محبت رکھتے ہیں۔ پاکستان نے ہندوستان کے جواب میں ایٹمی دھماکے کیے توپورا
مغرب پاکستان سے ناراض اور اقتصادی پابندیاں عائد کرنے پر آمادہ تھا‘ اس نازک اور
مشکل وقت میں ساتھ دینے والا ملک سعودی عرب تھا۔ پاکستان کو ڈیفرڈ ادائیگی پر تیل فراہم
کرنیوالے شاہ عبد اللہ مرحوم ہی تھے جنہوں نے دنیا کی پروا کیے بغیر پاکستان کو تنہا
نہیں چھوڑا اور علانیہ، بلا ڈر و خوف پاکستان کا ساتھ دیا۔ ڈیفرڈ ادائیگی پر تیل کی
فراہمی تقریباً مفت میں تیل کی فراہمی کے برابر تھی۔ اقتصادی طور پر پاکستان کیلئے
یہ مشکل گھڑی تھی، دنیا کے اکثر ممالک ایٹمی دھماکوں پر پاکستان سے خوش نہ تھے۔
بہت سے ملکوں نے پاکستان کی امداد بند یا مختصر کردی تھی۔ اس
مشکل وقت میں شاہ عبداللہ کا پاکستان کی حمایت کرنا اس بات کا ثبوت ہی تو تھا کہ وہ
پاکستان کو اپنا دوسرا گھر تصور کرتے تھے۔اْس وقت شاہ عبد اللہ نے جس وقت کہ وہ بھارت
کے دورہ پر تھے کسی صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کیلئے زندگی
اور موت کے اس مرحلے پر آپ نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ ہم اسے تنہا چھوڑ دینگے۔شاہ عبد
اللہ مرحوم سعودی عرب کے ان سربراہان میں سے تھے جنہیں نیک نام اور اچھے بادشاہ کے
طور پر یاد کیاجاتا ہے۔
پاکستان (۱۹۷۱ء) دو لخت ہوا تو
سعودی عرب کا بوڑھا حکمران (شاہ فیصل شہید ؒ)بچوں کی طرح ہچکیاں لے لے کر روتا رہا
کہ آج اسلام کا قلعہ دو لخت ہو گیا ہے۔ پاکستان نے بھارت کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے
کئے تو استعماری طاقتوں اور دُنیا کے ممالک نے پاکستان پر پابندیاں لگا دیں۔ سعودی
عرب نے کہا تھا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہمارے خزانوں کے مُنہ پاکستان کیلئے کھلے
ہیں۔ ۳۰ لاکھ افغان مجاہدین
کا بوجھ ہو یا دُنیا کی مہنگی ترین سیاچن گلیشیر کی لڑائی کا خرچ، ایف ۱۶ طیاروں کی قیمت
ہو یا کہوٹہ پلانٹ کے معاملات‘ محصور پاکستانیوں کی آباد کاری سے لیکر موجودہ دور
میں ڈالر کی بڑھٹی ہوئی قیمت یا عرصہ دراز تک مفت تیل کی سپلائی،سعودی عرب نے ہر معاملے
اور ہر مرحلہ پر پاکستان اور پاکستانیوں کی بے لوث اور بھر پور امداد و اعانت کرکے
اپنی محبت اور مخلصانہ دوستی کا مظاہرہ کیا ہے۔
سعودی عرب میں آج جتنا عدل انصاف ہے، اتنا کہیں بھی نہیں۔اسکی
اہم وجہ یہ ہے کہ وہاں آسمان سے نازل نظام عدل موجودہے جس کی بنا پر وہاں جرائم کی
شرح پوری دنیاسے کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ عدل اونصاف کی بدولت وہاں مثالی امن
وامان قائم ہے۔ برطانیہ جوعدل وانصاف کے حوالے سے خود کو رول ماڈل کہتاہے‘ بی بی سی
کی رپورٹ کے مطابق وہاں سولہ سے انسٹھ سال کی ۴ لاکھ خواتین ہربرس زیادتی کاشکار ہوتی ہیں اور ان میں سے ۸۵ فیصد اپنی رپورٹ
بھی درج نہیں کراسکتیں۔ لبرل اور دنیا کی سپرپاور اسٹیٹ امریکہ میں جرائم کی شرح برطانیہ
سے ۲۰ فیصد زیادہ ہے۔
امریکی شعبہ انصاف کی رپورٹ کیمطابق ہر ۴۵ سیکنڈ کے بعدایک
عورت پر مجرمانہ حملہ کیاجاتاہے۔
سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کا دوٹوک
الفاظ میںیہ کہنا کہ سعودی عرب کے خلاف سازش کرنیوالے خفیہ ہاتھ کاٹ دینگے‘ ہمیں حجاج
کرام کی خدمت سے کوئی نہیں روک سکتا۔ سعودی عرب میں بد امنی،سیاسی انارکی،فرقہ واریت
یا عالم اسلام میں انتشار پھیلا کر ہمارے ملک کو کمزور نہیں کیا جا سکتا اور نہ کسی
دشمن ملک کی سازشوں سے سعودی عرب کے حجاج ومعتمرین کرام کی خدمت کے فریضے کی انجام
دہی میں کسی قسم کی منفی اثرات مرتب کیے جاسکتے ہیں۔ ان کا ملک کسی خفیہ ہاتھ کو اپنی
مکروہ سازشوں کو آگے بڑھانے کی اجازت نہیں دیگا۔ سعودی عرب کی حکومت اور عوام نے تمام
تر صلاحیتیں اللہ کے مہمانوں کی خدمت اور ان کے تحفظ وسلامتی کیلئے وقف کر رکھی ہیں۔
سعودی عرب کا کوئی دشمن ہمیں حجاج کرام کی خدمت سے نہیں روک سکتا۔
شہزادہ محمد بن سلمان کا حالیہ دورہ پاکستان انہی دیرینہ تعلقات
کی ایک کڑی ہے جس سے دونوں برادر ملکوں کے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔ سعودی سرمایہ
کاری سے وطن عزیز میں خوشحالی آئے گی اور ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ اس موقع پر ۲ ہزار سے زائد پاکستانی قیدیوں کی رہائی کا ولی عہد کا حکم نامہ
نہایت خوش آئند اقدام ہے۔
No comments:
Post a Comment