تقاریب بخاری شریف کی تاریخی حیثیت
(قسط اول) تحریر: جناب مولانا صاحبزادہ برق التوحیدی
انسانی جبلت اور
فطرت میں ہے کہ جب اسے کوئی خوشی اور مسرت و فرحت حاصل ہوتی ہے تو اس کی اندرونی کیفیت
سرور کا اظہار اس کے ظاہر سے بھی نمایاں ہوتا ہے۔ جس طرح غم اور پر یشان کا اثر بھی
اس کے چہرے پر آجا تا ہے گو یا قلب کی ان کیفیات سے قالب بھی متاثر ہوتا ہے بلکہ ترجمان
بن جا تا ہے۔ انسان بسا اوقات قلب و قالب کے تعلق سے پیدا ہونے والے تاثر کو چھپانے
کی کوشش کر تا بھی ہے تو ناکام رہتا ہے۔ خود آنحضرت e کی ایسی کیفیات کاذکر کتب حدیث و سیرت میں ملتا ہے کہ
آپ e کے
رُخ انور کو دیکھ کر ہی ازواج مطہراتg اور حضرات صحابہ حالات کا اندازہ
لگا لیتے اور پھر اس کا پس منظر پوچھتے‘ البتہ خوشی اور فرحت و مسرت یا غم و الم اور
پریشانی کا معیار ہر شخص کے مزاج و حالات کے مطابق ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم سمجھتے ہیں کہ
مختلف لوگ اپنے اپنے مزاج کے مطابق جس موقعہ یا مرحلہ کو اپنے لیے خوشی اور فرحت ومسرت
کا ذریعہ سمجھتے ہیں تو اظہار مسرت میں حسب ما حول تقریب منعقد کرتے ہیں ۔ مثلا ً کسی
کے ہاں اولاد ہو تو وہ مسنون عقیقہ کے موقع پر دوست احباب اور عزیز و اقارب کی دعوت
کرتا ہے ۔
کوئی مکان بنائے تو اس کی تکمیل پر خوشی میں دوست احباب کی دعوت
کرتا ہے ۔ اسی طرح سفر حج یا جہاد سے واپسی پر دعوت و تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے
۔
آنحضرت e کے
متعلق سیدنا جابرt فرماتے
ہیں:
[ان رسول اللہ ﷺ
لما قدم المدینۃ نحر جزورا أو بقرۃ۔] (بخاری:
۳۰۸۹)
’’رسول اللہ e جب
(سفر سے ) مدینہ طیبہ (واپس ) لوٹے تو اونٹ یا گائے ذبح کی۔‘‘
بظا ہر اگر چہ یہ سفرِ جہاد سے واپسی تھی تاہم اس کے تحت سفرِ
حج بھی آجاتا ہے‘ ابن بطال اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں :
[فیہ اطعام الامام
والرئیس أصحابہ عندا لقدوم من السفر وہو مستحب عندا لسلف۔] (الفتح: ۶/۱۹۴)
’’اس حدیث میں امام
اور سر براہ کا سفر سے واپسی پر اپنے ساتھیوں کو کھانا کھلانے کا ذکر ہے اور یہ سلف
کے نزدیک مستحب ہے۔‘‘
مگر یہ امام یا سربراہ سے خاص نہیں بلکہ یہ استحباب سبھی کے
لیے ہے ۔
اسی طرح مشہور تابعی حضرت عروہ بن زبیر بن عوام رحمہ اللہ کے
متعلق ان کے بیٹے ہشام کہتے ہیں:
[لما فرغ أبی من
بناء قصرہ بالعقیق وحفر بئرہ دعا جماعۃ فأ طعمہم۔] (تاریخ اسلام، ذہبیؒ: ۶/۴۲۸)
’’جب میرے والد عقیق
میں اپنے محل کی تعمیر اور اس کے کنویں بنانے سے فارغ ہوئے تو دوست احباب کو بلا کر
ان کو کھانا کھلایا۔‘‘
اسی طرح کسی کو امتحان یا کسی اور مہم میں کامیابی حاصل ہو تو
اس خوشی میں تقریب و دعوت کا انتظام کرتا ہے۔
اس قسم کی عمومی دعوت اور تقریب کے مشروع و مسنون ہونے کا دعوی
تو نہیں کیا جا سکتا تا ہم اس کو بدعت بھی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس میں کسی شرعی
نص یا ہدایت کی مخالفت نہیں بلکہ شادی کے موقع پر۔ [أولم لو بشاۃ] یا تقریب عقیقہ کی سنیّت ایسی تقریبات کے جواز بلکہ استحباب
و استحسان کی بنیادہیں۔ جب دنیاوی نعمتوں کے حصول پر ایسی تقریبات کا انعقاد ہے تو
پھر روحانی انعامات کے حصول پر تو بالا ولیٰ ایسی تقریبات کا انعقاد ہونا چاہیے اور
ان روحانی انعامات میں سے علم کا حصول ایک بہت بڑی سعادت ہے جو انسان کو حیوانات ہی
سے ممتاز نہیں کرتی بلکہ خود انسانوں میں بھی وجہ تفاوت ہے کہ ۔
{قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ
الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُون} (الزمر: ۹)
’’کیا عالم اور جاہل
برابر ہیں ؟‘‘
کیونکہ علم اصل ہے باقی تمام کچھ اس کی فرع ہے ابو العیناءؒ
کہتے ہیں :
[کنت عند ابراہیم
بن العباس وہو یکتب کتابا فنقط من القلم نقطۃ مفسدۃ فمسحہا بکمہ، فتعجبت من ذلک، فقال:
لا تعجب، المال فرع والقلم أصل، ومن ہذا السواد جائت ہذہ الثیاب، والاصل أحوج الی
المراعاۃ من الفرع۔] (الاغانی: ۱۰/۶۱)
’’میں ابراہیم بن
عباس الصولی کے پاس تھا آپ لکھ رہے تھے کہ قلم سے ایک غلط حرف لکھا گیا ۔ آپ نے اپنے
(قمیص کے ) کف سے اسے مٹایا جس پر میں بڑا متعجب ہوا ، آپ نے فرمایا : تعجب مت کیجیے
، مال فر ع ہے اور قلم اصل ہے‘ اسی سیاہی (کی برکت ) سے یہ کپڑے ملے ہیں اور اصل ،
فر ع کی نسبت حفاظت اور رعایت کا زیادہ حقدار ہے۔ ‘‘
یہ بڑی پر حکمت اور فلسفیانہ بات ہے جو [علّم بالقلم] کے تنا
ظر میں ہر علم کے متعلق کہی جا سکتی ہے کہ علم کی نعمت اور دولت سے ہر دولت اور نعمت
کو پایا جا سکتا ہے۔
جبکہ علم ِ نا فع یعنی علم ِ شرعی کا حصول تو اور بھی بڑی نعمت
ہے ۔ جس سے دنیا و آخرت کی ہر نعمت و سعادت ملتی ہے۔ علمِ شرعی میں براہ راست قرآن
و حدیث کے علم کے بعد دیگر معاون علوم کا درجہ ہے جو انسان کو ظلمت سے نکال کر نور
کی طرف اور ضلالت سے نکال کر ہدایت کی طرف لاتے ہیں۔ جبکہ ایک سعید الفطرت انسان کے
لیے سب سے زیادہ خوشی کا سامان یہ ہے کہ اسے معرفت باری تعالیٰ حاصل ہو جائے اور جادہ
مستقیم مل جائے ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کا قول ذکر کیا ہے:
{وَقَالُواْ الْحَمْدُ
لِلّہِ الَّذِیْ ہَدَانَا لِہَـذَا وَمَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلا اَنْ ہَدَانَا
اللّہ} (الاعراف: ۴۳)
’’اور وہ کہتے ہیں
کہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے تعریف ہے جس نے ہمیں اس (ایمان )کی ہدایت دی اگر اللہ تعالیٰ
ہمیں ہدایت نہ دیتا تو ہم ہدایت نہ پا سکتے تھے۔ ‘‘
بلکہ فرمایا :
{یَمُنُّونَ عَلَیْْکَ
اَنْ اَسْلَمُوا قُل لَّا تَمُنُّوا عَلَیَّ اِسْلَامَکُم بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیْْکُمْ
اَنْ ہَدَاکُمْ لِلاِیْمَانِ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ} (الحجرات: ۱۷)
’’وہ آپ e پر
احسان جتلاتے ہیں کہ وہ ایمان لے آئے فرما دیجیے اپنے اسلام کا مجھ پر احسان نہ جتلائو
بلکہ اللہ تعالیٰ تم پر احسان جتلا تا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت دی ، اگر تم
سچے ہو۔‘‘
اور اسی پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے جناب پیغمبرe کو
احسان سے تعبیر فرمایا ہے کہ
{لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ
عَلَی الْمُؤمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْ اَنفُسِہِمْ} (آل عمران:
۱۶۴)
’’یقینا اللہ تعالیٰ
نے اہل ایمان پر احسان کیا کہ ان ہی سے ان میں رسول (e) بھیجا۔‘‘
یہ احسان اگرچہ روحانی و معنوی اور نفسیاتی ہے لیکن اس حقیقت
سے کس کو انکار ہے کہ ما دی احسا نات و انعامات کم از کم اپنی لذت و منفعت میں اسی
کے تابع ہیں اگر کسی شخص کو روحانی اور ذہنی و نفسانی سکون اور فرحت و مسرت حاصل نہ
ہو تو دنیا کی ہر نعمت و دولت او ر فرحت و مسرت اس کے ہاں بے معنی اور بے لذت رہتی
ہے ۔ ہاں البتہ اسے یہ روحانی اور نفسانی فرحت وسکون مل جائے تو مادی مسرت سے محرومی
کا احساس اس کی لذت ِ حیات کو متاثر نہیں کرتا ۔
اسی پس منظر میں آتا ہے کہ جب عراق سے خراج اونٹوں وغیرہ کی
صورت میں مدینہ طیبہ کے بیت المال میں پہنچا تو امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروقt اپنے
غلام کے ساتھ جائزہ لیتے جاتے اور فرماتے: الحمد للہ تعالیٰ! غلام نے عرض کیا :
[ہذا واللہ من فضل
اللہ ورحمتہ۔]
’’بخدا یہ تو اللہ
تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہے۔‘‘
سیدنا عمرt نے
یہ سن کر فرمایا :
[کذبت لیس ہذا، ہو
الذی یقول اللہ تعالیٰ: {قُلْ بِفَضْلِ اللّہِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُواْ
ہُوَ خَیْْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُون}۔] (تفسیرابنِ کثیر، یونس: ۵۸)
’’تم غلط کہہ رہے
ہو، اللہ تعالیٰ کا فضل و رحمت تووہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل و رحمت کہا اور
اہل ایمان کو ا سی پر فرحت و مسرت کا اظہار کرتے ہوئے خوش ہونا چاہیے اور وہ اس سب
کچھ سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘
وہ فضل و رحمت کیا ہے؟ قرآن کریم کا سیاق و سباق ہی بتاتا ہے
کہ ا س سے مراد ہدایت ، دین حق اور قرآن کریم نیز اسلام اور پیغمبر اسلام e ہیں
۔ چنانچہ قرآن کریم کا علم اور حفظ کی سعادت پانا بھی بہت بڑی خوشی اور فرحت ہے جس
پر ۔
{وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ
رَبِّکَ فَحَدِّث} (والضحیٰ: ۱۱)
’’اور اپنے رب کی
نعمت کو بیان کرو۔‘‘
کے تحت اظہا ر ِمسرت و خوشی جائز ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا عمرt کے
متعلق آتا ہے :
[تعلم عمر بن الخطاب
البقرۃ فی اثنتی عشرۃ سنۃ فلما ختمہا نحر جزورا۔] (شعب الایمان للبیہقی: ۳/۳۶۴، تاریخ
دمشق: ۴۱/۲۸۶، تاریخ اسلام ذہبی: ۳/۲۶۷)
’’سیدنا عمرt نے
بارہ سال میں سورۃ بقرہ (کی تفسیر ) سیکھی‘ جب سورت (کی تعلیم ) ختم ہوئی تو اُونٹ
ذبح کیے۔ ‘‘
ایسا ہو نا بھی چاہیے تھا کہ نبی اکرم e کے
بقول:
[خیرکم من تعلّم
القرآن وعلّمہ۔]
’’تم میں سے بہتر
وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور سکھایا۔‘‘ (بخاری: ۵۰۲۷)
یہ بہت بڑی سعادت تھی جس کے حصول پر فرحت و مسرت کا حصول اور
اظہار بھی ہوا ۔ حضرت امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے متعلق یعقوب روایت کرتے ہیں کہ
[کان یختم القرآن
من جمعۃ الی جمعۃ واذا ختم ، دعا ، ونحن نؤمّن ، فلما کان عذاۃ جمعۃ وجہ الی و الی
اخی فلما ختم جعل یدعو ونحن نؤمّن۔] (السیر: ۱۱/۲۷۶)
’’آپ ہر جمعہ کو
قرآن کریم کا دور مکمل کرتے جب دور مکمل ہو تا تو آپ دعا کرتے اور ہم آمین کہتے‘
ایک جمعہ کی صبح مجھے اور میرے بھائی کو بلا یا‘ قرآن کریم ختم کرکے آپ دعا کرنے
لگے اور ہم آمین کہتے تھے۔ ‘‘
حفظ ِقرآن کی طرح قرآن کریم کی کسی اعتبار سے خد مت بھی بہت
بڑی سعادت ہے جو کسی بھی فضل و شرف سے کم نہیں تو اس کے حصول پر فر حت و مسرت کے اظہار
میں تقریب بھی حفظ ِ قرآن پر تقریب کی طرح مستحسن ہے۔ خدمت قرآن کریم میں تفسیر بھی
ایک اہم پہلو ہے سیدنا ابن عباسw کے
متعلق آنحضرت e نے
مفسر قرآن بننے کی خصوصی دعا کی تو وہ سب سے بڑے مفسر قرآن قرار پائے ۔ بہرحال جن
علماء امت نے خدمت قرآن کریم میں تفسیر قرآن کی سعادت پائی ان میں امام ابن الجوزیa کا
نام بھی بڑا ممتاز ہے وہ خود اپنے متعلق بتاتے ہیں:
[انتہی تفسیری للقرآن
فی المجلس علی المنبرالی أن تم ، فسجدت علی المنبر سجدۃ الشکر، وقلت ماعرفت أن واعظا
فسر القرآن کلہ فی مجلس الوعظ منذ نزل القرآن ثم ابتدأت یومئذ فی ختمۃ۔ أفسرہا
علی الترتیب واللہ قادر علی الانعام والا تمام ولزیادۃ من فضلہ۔] (التاج المکلل: ص
۵۶)
یعنی ’’میں نے سر منبر قرآن کریم کی تفسیر مکمل کی تو منبر پر ہی سجدہ شکر کیا
اور میں کہتا ہوں کہ مجھے معلوم نہیں قرآن کریم کے نزول سے لے کر آج تک کسی واعظ
و مبلغ نے پورے قرآن کی تفسیر وعظ کی مجالس میں مکمل کی ہو ، تو میں نے اسی دن سے
اس کو ختم کرنے کی ابتدا کی تو بالترتیب تفسیر کرتا رہا ۔ اللہ تعالیٰ ہی انعام کرنے
اور اسے پورا کرنے پر قادر ہے اور وہی اپنے فضل میں اضافہ کرنے والا ہے۔‘‘
امام ابن الجوزیa نے
یہ بات اپنے دور کے متعلق کی ہے جبکہ اب تو بہت سے علماء تاریخ میں ایسے ملتے ہیں جنہوں
نے مجالس وعظ و درس میں متعدد بار تفسیر کو مکمل کیا ہے۔
امام ابن الجو زیa کے بقول اگر چہ ان سے پہلے وعظ و تبلیغ میں کسی نے تفسیر
قرآن کو مکمل نہیں کیا مگر ان کے بعد تو متعدد علماء کے متعلق آتا ہے جنہوں نے خطبات
جمعہ میں یا تبلیغی دروس میں تفسیر قرآن کو مکمل کیا۔ چنانچہ ہمارے ممدو ح حضرت مولانا
محمد اسحاق بھٹیa نے
اس موضوع پر تفصیلاً لکھا ہے ۔ پاکستان میں جن علماء ِ کرام کو یہ سعادت و اعزاز حاصل
ہے کہ اُنہوں نے مسند ِ درس و وعظ پر مکمل قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر بیان کی ان
میں حضرت مولانا احمد علی لاہوریa بھی ہیں ان کا درس قرآن بلکہ دورہ تفسیر بڑا مشہور
تھا۔ اسی طرح متکلم اسلام حضرت مولانا محمد حنیف ندویa نے بھی مسجد مبارک اہلحدیث اسلامیہ کالج لاہور میں اپنے
دروس میں ایک مرتبہ مکمل ترجمہ قرآن اور تفسیر بیان کی اور دوسری مرتبہ یہی سلسلہ
شروع کیا مگر افسوس مکمل نہ کر سکے ۔ اسی طرح شیخ التفسیر والحدیث حضرت مولانا محمد
اسماعیل سلفی گوجرانوالہa نے
بھی اسی طرز پر ترجمہ و تفسیر قرآن کریم کا سلسلہ شروع کیا جو اُنیسویں پارہ سے آگے
جا ری نہ رہ سکا ۔ اُن کے جانشین شیخ التفسیر والحدیث حضرت مولانا محمد عبداللہؒ گوجرانوالہ
نے اسی مسند پر دو مرتبہ دروس میں ترجمہ و تفسیر مکمل کیا جبکہ تیسری مرتبہ تقریباً
دسویں پارے پر یہ سلسلہ منقطع ہو گیا، فضیلۃ الاستاذ حضرت مولانا حافظ عبدالمنان نور
پوریa نے
بھی خطبات ِ جمعۃ المبارک میں بھی یہ سلسلہ تفسیر شروع کیا لیکن مکمل نہ کر سکے ۔ ہمارے
مخدوم و محترم بابا ئے تبلیغ حضرت مولانا محمد عبداللہ گورداسپوریa (بورے والا ) نے
تقریباً آٹھ مرتبہ نماز ِ فجر کے بعد دروس میں ترجمہ و تفسیر مکمل کرنے کی منفرد سعادت
پائی، اُن کے بقول اُنہوں نے ایک مرتبہ ترجمہ و تفسیر دھاری وال انڈیا میں مکمل کیا
پھر دوسری مرتبہ پاکستان میں بورے والا آکر ایک مرتبہ ۱۹۴۹ء تا ۱۹۵۷ء میں، دوسری مرتبہ ۱۹۵۷ء تا ۱۹۶۳ء میں، تیسری مرتبہ ۱۹۶۳ء تا ۱۹۶۹ء میں، چوتھی مرتبہ ۱۹۶۹ء تا ۱۹۷۵ء میں، پانچویں مرتبہ ۱۹۷۵ء تا ۱۹۹۱ء میں، چھٹی مرتبہ ۱۹۹۱ء تا ۱۹۹۸ء میں اور ساتویں مرتبہ ۱۹۹۸ء میں یہ سلسلہ دروس بیماری کی بنا پر نماز ِ عصر کے بعد شروع کیا گیالیکن افسوس
اس مرتبہ یہ سلسلہ دروس مکمل ہونے سے قبل ہی بابائے تبلیغ مسند ِ حضرت امام العصر میر
سیالکوٹی ؒکے وارث حضرت مولانا ممدوح ۷ مئی ۱۹۱۲ء کو اپنا سفر
ِ حیا ت مکمل کر گئے ۔ انا للہ و انا علیہ راجعون۔
بقول بابا ئے تبلیغ رحمہ اللہ تعالیٰ ان دروس کی تیاری میں تفسیر
ابنِ کثیر کے علاوہ تفسیر جلالین، جامع البیان، خازن اور تفسیرکبیر سے استفادہ کرتے
تھے۔
ہمارے استادِ مکرم فضیلۃ الشیخ حضرت العلام محدث العصرمولانا
ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ تعالیٰ نے بھی نماز ِ فجر کے بعد درس میں یہ سلسلہ ترجمہ
و تفسیر شروع کیا جو سور ہ الاعراف سے آگے جاری نہ رہ سکا ۔ اب اُنہوں نے اسی سلسلہ
کو خطبات ِ جمعۃ المبارک میں شروع کر رکھا ہے اور اس سلسلہ میں سورہ یٰس، سورہ الصفات
، سورہ الزمر اور سورہ ق ٓ کی تفسیر مکمل بلکہ شائع ہو چکی ہے۔ الحمد للہ! دعا ہے کہ
اللہ تعالیٰ شیخ محترم کو صحت و عافیت کی طویل زندگی عطا فرمائے تاکہ وہ یہ سلسلہ خیر
مکمل کر سکیں۔
تحدیثِ نعمت کے طور پر عرض ہے کہ فضیلۃ الشیخd کے
نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے راقم الحروف نے بھی نماز فجر کے بعد قرآن کریم کے ترجمہ و
تفسیر کا سلسلہ شروع کیا تھا جسے ، ’’ تدریس القرآن ‘‘ کے نام پر ضبط تحریر میں بھی
لا یا گیا ۔ جب پہلی مرتبہ تقریبا ً پندرہ سال قبل یہ سلسلہ مکمل ہوا تو حضرات علماء
و فضلاء اور احباب جماعت کی دعوت کا اہتمام کیا گیا جس میں آخری سورتوں (معوذتین)
پر درس فضیلۃ الشیخ استاذ محترم محقق العصر حضرت مولانا ارشاد الحق اثریd نے
ارشاد فرمایا، اس موقع پر بابائے تبلیغ حضرت مولانا عبداللہ گورداسپوریa خصوصی
طور پر تشریف لائے۔ تب اس تقریب پر تیس ہزار روپے صرف ہوئے۔ اس کے بعد بھی الحمد للہ!
یہ سلسلہ جاری رہا اور اب تک مزید دو مرتبہ نماز ِ فجر کے بعددروس میں ترجمہ قرآن
و تفسیر مکمل کیا جا چکا ہے اور ہر مرتبہ تقریب کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔
قارئیں سے درخواست ہے کہ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس خدمت
کو قبول فرمائے اور تاحینِ حیات بار بار تکمیل ِ ترجمہ و تفسیر کی سعادت نصیب فرمائے۔
آمین۔
بہرحال قرآن کریم کے حفظ و تعلیم کی طرح اس کی تفسیر کی تکمیل
بھی بہت بڑا اعزاز ہے جس پر خوشی میں دعوت
و تقریب کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔ چنانچہ نوا ب والا جاہ صدیق حسن خان قنو جی رحمہ
اللہ کے متعلق آتا ہے کہ اُنہوں نے جب قرآن کریم کی تفسیر فتح البیان طبع کی تو خود
فرماتے ہیں :
[عملت ولیمۃ عظیمۃ
علی تفسیری ’فتح البیان فی مقاصد القرآن‘ عند ما ختم بھوبال المحمیۃ وجمعت علماء البلد
وطلبتہ … وفرقت علی الجماعۃ الحاضرۃ مبالغ الفضۃ کثیرۃ وکان جملۃ المصروف فی أمر ہذا
التفسیر خمسۃ وعشرین ألف ربیۃ وللہ الحمد ، فکا نت تلک الولیمۃ علی شرح الحدیث ’أی
ولیمۃ فتح الباری‘ وہذہ علی تفسیر الکتاب العزیز، وانما عملت ہذا کلہ تشبہا بالأئمۃ
الکبار وقدوۃ أہل الحدیث الابرار… وتشبہوا ان لم تکونوا مثلہم ان التشبیہ بالکرام
فلاح۔] (التاج المکلل: ص ۳۷۰)
’’میں نے اپنی تفسیر
’’فتح البیان فی مقاصد القرآن‘‘ کے مکمل کرنے پر بھو پال میں ایک بڑی دعوت کا اہتمام
کیا جس میں شہر کے علماء اور طلبہ کو جمع کیا گیا جبکہ اس تقریب میں رئیسہ بھو پال
بیگم شاہجہاں نے بنفس نفیس شرکت کی اور حاضرین تقریب پر چاندی کے سکے نچھاور کیے گئے
اور تفسیر پر تقریباً پچیس ہزار روپے خرچ ہوئے قرآن کریم کی تفسیر کی تکمیل پر یہ
دعوت میں نے شرح حدیث (فتح الباری) پر دعوت وتقریب کو دیکھتے ہوئے کی اور أئمہ کبار
کی مشابہت نیز اہل حدیث کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایسا کیا ۔ ان کی مشابہت اختیار کیجیے
اگرچہ آپ ان جیسے نہ بھی ہوں کیونکہ باوقار و معزز لوگوں سے مشابہت بھی کامیابی ہے۔
بلا شبہ قرآن کریم کے بعد علم کی دنیا میں علم حدیث سے افضل
علم کوئی نہیں‘ چنانچہ اس کا حصول بھی بہت بڑی سعادت ہے۔
اگر کسی خوش نصیب کو حدیث مل جائے اور حدیث پاک کا علم حاصل
ہو جائے تو اسے بھی فرحت و مسرت حاصل ہوتی ہے جس کا اظہار بھی کوئی معیوب نہیں بلکہ
مستحسن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے محدثین رحمہم اللہ تعالیٰ کے متعلق آتا ہے کہ جب
وہ اپنے کسی شیخ اور استاذ سے حدیث پڑھتے اور کتاب کے سماع سے فارغ ہوتے تو خوشی اور
مسرت و فرحت کا اظہار کرتے۔
حدیث ہی نہیں قرآن و حدیث فہمی کے معاون علوم و فنون کے کسی
مرحلہ کو عبور کرنے پر بھی خوشی اور مسرت و فرحت میں تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے
۔ چنانچہ علامہ مرتضی الزبیدی کے متعلق آتا ہے کہ جب اُنہوں نے لغت کی معروف کتاب
’’ تاج العروس من جواہر القاموس ‘‘ کی پہلی جلد مکمل کی تو تقریب اور دعوت کا اہتمام
کیا :
[اولم ولیمۃ حافلۃ
جمع فیہا طلاب العلم واشیاخ الوقت بغیط المعد یۃ وذلک فی سنۃ احدی وثما نین و مائۃ
والف واطلعہم علیہ واغتبطوا بہ وشہدوا بفضلہ وسعۃ اطلاعۃ ورسوخہ فی علم اللغۃ وکتبوا
علیہ تقاریظہم نظما ونثرا۔] (الخطط التوفیقیۃ، علی مبارک: ۲/۲۴۳)
یعنی ’’اُنہوں نے ۱۱۸۱ھ کو اس موقعہ پر مشائخ اور طلبہ کے لیے ایک بہت بڑی دعوت کا
اہتمام کیا جس میں سبھی حضرات نے بڑی دلچسپی سے شرکت کی اور اُنہوں نے علامہ زبیدی
رحمہ اللہ کے علم وفضل اور وسعت و ثقاہت کا اعتراف کیا بلکہ نظم ونثر میں تالیف و مولف
کی تعریف بھی کی۔‘‘
ابن فارس نے ابن العمید سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں دنیا
میں وزارت و ریاست اور حکمرانی سے بڑھ کر کسی چیز میں لذت و حلاوت نہیں سمجھتا تھا
یہاں تک کہ میں نے امام طبرانی اور امام ابو بکر جعابی رحمہما اللہ کے درمیان حدیث
پر مذاکرہ سنا جس میں امام طبرانی ؒ ان پر
اپنی قوت حافظ کی بنا پر غالب رہے جبکہ امام جعابی ؒ ان پر قوت فطانت سے غالب تھے
۔ علم حدیث سے متعلق اس مذاکرہ میں ان کی آوازیں بلند ہوئیں تو جعابی ؒ نے کہا :
[عندی حد یث لیس
فی الدنیا الاعندی۔]
’’میرے پاس ایک حدیث
ہے جو دنیا میں میرے علاوہ کسی کے پاس نہیں۔‘‘
امام طبرانیؒ نے کہا کہ بتائیے! وہ کون سی حدیث ہے؟ اُنہوں نے
سند پڑھی:
[انا ابوخلیفۃ انا
سلیمان بن ایوب وحدث بحدیث۔]
جس پر امام طبرانی نے کہا :
[انا سلیمان بن ایوب
و منی سمعہ ابوخلیفۃ فاسمعہ منی عا لیا۔]
’’سلیمان بن ایوب
میں ہی ہوں اور ابو خلیفہ نے مجھ ہی سے یہ حدیث سنی اب تم بھی مجھ سے سنو کہ تمہاری
سند عالی ہو جائے۔‘‘
اس منظر پر ابن العمید کہتے ہیں:
[فخجل الجعابی فوددت
ان الوزارۃ لم تکن وکنت انا الطبرانی وفرحت کفرحہ۔] (تذکرۃ الحفاظ: ۳/۹۱۵)
’’امام جعابی شرمندہ
ہو گئے اور میں چاہتا ہوں کہ میں وزیر کی بجائے امام طبرانی ہوتا کہ میں بھی اسی طرح
خوش اور مسرور و فر حاں ہوتا جس طرح طبرانی ہوئے۔‘‘
خطیب بغدادی نے علامہ الازھری کے حوالہ سے لکھا ہے:
[یذکران بعض الوزراء
دخل بغداد ففرق مالا کثیرا علی أہل العلم وکان ابن رزقویہ ممن وجہ الیہ من ذلک المال
فقبلوا کلہم سواہ فانہ ردہ تورعاوظلف نفس۔]
’’بیان کیا جاتا
ہے کہ کوئی وزیر بغداد آیا اور اس نے اہل ِعلم میں بہت سامال تقسیم کیا ، ابن رزقویہ
کی طرف بھی کچھ مال بھیجا گیا سب نے وہ مال قبو ل کر لیا لیکن ابن رزقویہ نے اپنی پاکیزگی
اور طہارت ِنفس کی بنا پر مال لینے سے انکار کر دیا۔‘‘
یہ امام محمد بن احمد بن رزقویہ (م ۴۱۲ھ) علامہ خطیب بغداد ی کے پہلے استاذ ہیں ان کے متعلق علامہ خطیب کہتے ہیں :
[سمعتہ یقول واللہ
ما احب الحیاۃ فی الدنیا لکسب ولا تجارۃ ولکن احبہا لذکر اللہ، ولقرأ تی علیکم الحدیث۔]
(تاریخ بغداد: ۱/۳۵۲)
’’میں نے اُنہیں
یہ فرماتے سنا ہے کہ : اللہ کی قسم میں دنیا کی زندگی کو کسی کا روبار اور تجارت کے
لیے پسند نہیں کرتا بلکہ دنیا کی زندگی کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے یا پھر تمہیں
حدیث پڑھانے کے لیے پسند کرتا ہوں۔‘‘
نظام الملک الحسن بن علی بن اسحاق ابو علی الطو سی کے متعلق
آتا ہے کہ
[وکان یقول: انی
لأعلم أنی لست أہلا للراویۃ ، ولکنی أرید أن أربط نفسی علی قطار النقلۃ لحدیث
رسول اللہﷺ۔] (المنتظم: ۱۶/۳۰۴)
’’وہ کہا کرتے تھے
، مجھے معلوم ہے کہ میں روایت ِ حدیث کا اہل تو نہیں لیکن یہ چاہتا ہوں کہ خود کو جناب
رسول اللہ e کی
حدیث بیان کرنے والوں میں شمار کروالوں۔‘‘
بلکہ عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے عمر بن حبیب سے جب حدیث سنی
تو کہا تھا :
[فانی کنت أحب أن
أقعد علی کرسی ویقال لی: من حدثک؟ فاقول: حدثئی فلان۔]
’’میں چاہتا تھا
کہ میں بھی مسند پر بیٹھا ہوتا اور مجھے کہا جاتا آپ کو یہ حدیث کس نے سنائی ہے تو
میں کہتا : مجھے فلاں نے حدیث بیان کی ہے۔‘‘ (تاریخ بغداد: ۱۱/۱۹۹)
یعنی میں بھی سلسلہ سند پڑھتا اور حدیث روایت کرتا۔
ظاہر ہے جو لذت و عزت علم حدیث کے حصول میں ہے وہ وزارت و ریاست
میں کہاں ؟ یہی وجہ ہے کہ محدثین طلب حدیث میں دور دراز کا پر مشقت سفر کرتے اور جب
اُنہیں کوئی حدیث مل جاتی تو وہ فرحت و مسرت سے شاداں ہوتے۔
محمد بن احمد ابو جعفر النسفی (م ۴۱۴ھ ) مشہور حنفی فقیہ گزرے ہیں‘ موصوف بڑے متقی اور زاہد و عابد تھے‘ ان کے متعلق
آتا ہے کہ ایک رات وہ بڑے متفکر و پریشان تھے کہ :
[فوقع لہ فرع من
فروع مذہبہ، فأعجب بہ فقام قائما یرقص فی دارہ، یقول: این الملوک (وابناء الملوک)
فسألتہ زوجتہ عن حالہ، فاخبرہا فتعجبت۔]
’’ان کو اپنے مذہب
کی ایک فرع سجھائی جس پر وہ بہت خوش ہوئے اور کھڑے ہو کر رقص شروع کر دیا اور یہ کہتے
جا رہے تھے کہ بادشاہ اور ان کے شہزادوں کی کیا حیثیت ہے‘ یہ کیفیت دیکھ کر ا ن کی
بیوی نے ان سے اس کیفیت کا پس منظر پو چھا، جب اُنہوں نے اپنی بیوی کو اپنی خوشی اور
اس فرحت و مسرت کی کیفیت کا پس منظر بتا یا تو وہ بہت حیران ہوئی۔‘‘ (المنتظم: ۱۵/۱۶۲، رقم: ۳۱۲۱)
جب یہ علوم قرآن و حدیث کے معاون یا مکتسبہ علوم کی بات ہے
تو قرآن و حدیث کے براہ علم پر کیا کیفیت ہوتی ہے یا ہونی چاہیے اس کا اندازہ اس سے
لگائیے کہ جلیل القدر اور عظیم محدث امام شعبہa کے متعلق الا صمعی نے کہا ہے :
[کان شعبۃ اذا جاء
بالحدیث الحسن صاح: اوہ، أفرق من جودتہ۔] (تذکرۃ الحفاظ: ۱/۱۹۵)
’’امام شعبہ جب کوئی
عمدہ حدیث بیان کرتے تو واہ واہ پکارتے اور فرماتے ہیں کہ میں اس کی عمد گی سے خوش
ہو رہا ہوں۔ ……… (جاری)
No comments:
Post a Comment