زبان کی حفاظت
تحریر: جناب مولانا امیر افضل اعوان
اسلام میں زبان
کی حفاظت کرنے، سوچ سمجھ کر اور کم بولنے کی تلقین کی گئی ہے۔ بلکہ اس حوالہ سے یہاں
تک روایات ہیں کہ خاموشی کو عبادت سے عبارت کیا گیا ہے تاکہ کسی مسلمان کی زبان سے
ادا ہونے والے الفاظ کسی دوسرے شخص کی دل آزاری کا سبب نہ بنیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی
طے شدہ امر ہے کہ جب بھی کوئی غیر ضروری باتیں کرتا ہے تو اس شخص کی زبان درازی میں
عموماً فحش و لغو باتیں در آتی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق اللہ پاک بھی غیر ضروری باتیں
کرنا پسند نہیں فرماتے۔ ایسے ہی ہمارے پیارے نبی e بھی اس سے ممانعت کی تلقین فرماتے ہیں۔ ایک حدیث پاک
میں مرقوم ہے
سیدنا مسروقt سے
روایت ہے کہ آپ e نہ
تو بد زبان تھے اور نہ ہی بد زبانی کرتے تھے اور انہوں نے کہا کہ رسول اللہ e نے
فرمایا: ’’تم لوگوں میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم)
اس کے علاوہ متعدد احادیث مبارکہ میں بتایا گیاہے کہ مسلمان
وہ ہے کہ جو اپنے ہاتھ اور زبان کی حفاظت کرئے۔ اس سلسلہ میں ایک حدیث پاک میں منقول
ہے:
سیدنا جابرt فرماتے
ہیں کہ میں نے نبی کریمe سے
سنا آپ e فرما
رہے تھے کہ ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘ (مسلم)
واضح رہے کہ اس باب اور متن کے مدرجات کے ساتھ اور بھی متعدد
احادیث موجود ہیں کہ جن میں زبان درازی اور بدزبانی کی ممانعت کی گئی۔
بلاشبہ اپنی زبان کو بے لگام چھوڑ کر انسان ہمیشہ ہی مسائل و
مصائب سے دورچاررہتا ہے، جھوٹ اور وعدہ خلافی اور دیگر برائیاں بھی اس کے ہم رکاب رہتی
ہیں جبکہ سوچ سمجھ کر لب کھولنے والا یا کم گو شخص اس حوالہ سے ہمیشہ ہی فائدہ میں
رہتاہے، اسی لئے جھوٹ اور بدزبانی کو منافق کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔ اس بارے میں
ایک حدیث مبارکہ میں بیان ہے
سیدنا مسروق عبداللہ بن عمروt روایت کرتے ہیں کہ آپ e نے
فرمایا: ’’جس شخص میں چار باتیں ہوں گی، وہ منافق ہوگا یا جس شخص میں ان چاروں میں
سے کوئی خصلت ہو گی تو اس میں نفاق کی خصلت ہو گی، یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے: جب وہ
گفتگو کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے، اور جب معاہدہ کرے تو بے وفائی
کرے، اور جب جھگڑا کرے تو بد زبانی کرے۔‘‘ (صحیح بخاری)
زبان اور اس سے نکلے ہوئے الفاظ کی اس قدر اہمیت ہے کہ زبان
کی حفاظت پر مومن کے لئے جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ ایک حدیث پاک میں منقول ہے
سیدنا سہل بن سعدt سے روایت ہے کہ رسول اللہeنے فرمایا: ’’جو
شخص اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز
(یعنی شرمگاہ) کا ضامن ہو تومیں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری)
اس کے علاوہ صحیح بخاری، جلد سوم، حدیث 1195 میں
سیدنا ابوہریرہ سےt منقول
ہے جس میں غلط یا فحش بات کو زبان کا زنا قرار دیا گیا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمروt کہتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ رسول اللہ eکے اردگرد تھے جب
آپ eنے فتنہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’جب تم لوگوں کو دیکھو
کہ اپنے عہدوں کو توڑ رہے ہیں اور اپنی امانتداری کو چھوڑ دیں اور وہ ایسے ہوجائیں
(اختلاف کرتے ہوئے) آپ نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں ملادیا، عبداللہt کہتے
ہیں کہ میں کھڑا ہوا اور میں نے عرض کیا کہ (اللہ مجھے آپ eپر فدا کردے) میں
اس وقت کیا کروں؟ فرمایا کہ اپنے گھر کو لازم پکڑو اور اپنی زبان کو قابو میں رکھو،
جو بات (شرعی اعتبار سے) اچھی ہو اسے لے لو اور جسے غلط سمجھو اسے چھوڑ دو اور تم پر
خاص اپنے نفس کی اصلاح ضروری ہے۔‘‘(سنن ابوداؤد)
توجہ فرمائیے کہ اس حدیث مبارکہ میں زبان پر قابو نہ رکھنے کو
قیامت کے فتنوں میں شمار کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ زبان درازی کو سود سے عبارت کیا جارہا
ہے ، اس حوالہ سے ایک حدیث میں مرقوم ہے
سیدنا سعید بن زیدt سے روایت ہے کہ رسول اللہ e نے
فرمایا کہ سب سے بڑا سود یہ ہے کہ مسلمان کی عزت وآبرو پر ناحق زبان طعن کو دراز کیا
جائے(یعنی مسلمان کی تحقیر و تذلیل کی جائے۔ یہ بہت بڑا سود ہے جس طرح سود حرام ہے
یہ بھی حرام ہے۔ (سنن ابوداؤد)
یہاں زبان درازی کو سود کہاگیا ہے اور سود کے حوالہ سے اسلام
میںاللہ تعالیٰ سے جنگ کی بابت بیان ملتا ہے۔
اسلام میں زبان درازی، لغو باتوں اور گالی کو گناہ کبیرہ قرار
دیا گیا ہے تاکہ اس عادت بد سے مکمل طور پر بچا جاسکے۔ ایک حدیث مبارکہ میں اس حوالہ
سے منقول ہے:
سیدنا ابو ہریرہt بیان
کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے
فرمایا کہ ’’کسی مسلمان کی عزت کے بارے میں ناجائز زبان درازی کرنا کبیرہ گناہوں میں
سے ہے اور گالی کے بدلے دو گالیاں دینا بھی کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔‘‘ (سنن ابوداؤد)
غور فرمائیں کہ زبان کو بے قابو چھوڑنے یامعاشرہ میں اینٹ کا
جواب پتھر سے دینے کی مروجہ روش خود ہمارے لئے کس قدر خطرناک ہے۔ اسی لئے زبان پر قابو
رکھنے کو نجات سے تعبیر کیا گیا ہے:
سیدنا عقبہ بن عامرt سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ e! نجات کیا ہے؟ آپ
e نے
ارشاد فرمایا: ’’اپنی زبان قابو میں رکھو‘ اپنے گھر میں رہو اور اپنی غلطیوں پر رویا
کرو۔‘‘ (جامع ترمذی)
ہمارے مذہب میں خوش اخلاقی کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے، آپ
e نے
بھی قیامت کے روزخوش اخلاق مسلمان کو اپنے قرب کی بشارت دی اور زبان درازکو سخت ناپسند
فرمایا ، اس حوالہ سے ایک حدیث مبارکہ میں ذکر ہے:
سیدنا جابرt سے
روایت ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’قیامت کے دن میرے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ محبوب اور قریب بیٹھنے والے
لوگ وہ ہیں جو بہترین اخلاق والے ہیں اور سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور دور رہنے والے
لوگ وہ ہیں جو زیادہ باتیں کرنے والے، بلاسوچے سمجھے اور بلا احتیاط بولنے والے اور
تکبر کرنے والے ہیں۔‘‘ (جامع ترمذی)
سیدنا ابن عباسt سے
روایت ہے کہ نبی اکرمe یہ
دعا پڑھتے تھے، ’’اے میرے رب! میری مدد کر میرے خلاف دوسروں کی نہیں میری نصرت فرما،
میرے حق میں تدبیر فرما اور میرے خلاف کسی کی تدبیر کارگر نہ ہو، مجھے ہدایت دے اور
ہدایت پر چلنا میرے لئے آسان کر دے، مجھ پر ظلم کرنے والے کے خلاف میری مدد فرما،
اے میرے رب ! مجھے اپنا ایسا بندہ بنا کہ تیرا ہی شکر کرتا رہوں، تیرا ہی ذکر کروں،
تجھ سے ہی ڈروں، تیری ہی اطاعت کروں، تیرے ہی سامنے آہ وزاری کروں اور تیری ہی طرف
رجوع کروں‘ اے رب !توبہ قبول فرما، میرے گناہ دھودے، میری دعا قبول فرما اور میری حجت
کو ثابت کر، میری زبان کو برائیوں سے روک دے، میرے دل کو ہدایت دے اور میرے سینے سے
حسد کو نکال دے۔‘‘ (جامع ترمذی)
درج بالا احادیث مبارکہ امت محمدی کے لئے نہ صرف ایک آئینہ
ہیں بلکہ ان کے مطالعہ سے امت محمدی پر غور و فکر کے نئے در واء ہوجاتے ہیں کہ عصر
حاضر میں ہم زبان درازی، طعنہ زنی،فحش گوئی ، لغوگفتگواور گالی گلوچ کو کوئی اہمیت
دینے کے لئے قطعی تیار نہیں۔ معاشرہ میں بڑے بڑے دینی گھرانوں کے سپوت اس عادت بد کا
بری طرح شکار ہیں، ایسے بھی ہیں کہ جوکہ پنجگانہ نماز و روزہ کا بھی اہتمام کرتے ہیںاور
دین کے دیگر ارکان بھی پورے کئے جاتے ہیںمگر اس اہم مسئلہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی
جاتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس سنگین صورتحال کی طرف خود بھی توجہ دے کر اپنی اصلاح
کریں اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیں‘ ورنہ اگر ہمیں روز قیامت ہمارے خالق و مالک
اور ہمارے پیارے نبی نے ناپسندیدہ قرار دے دیا تو سوچیں کہ پھر ہمارے پاس کیا باقی
رہ جائے گااور اس وقت ہمارا دامن کس قدر خالی، خالی ہوگا…؟!
No comments:
Post a Comment