Saturday, June 15, 2019

Ahkam23-2019


احکام ومسائل

جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت:  مرکز الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان  ای میل:  markaz.dirasat@gmail.com

بحالت وضوء سونے کی فضیلت
O حدیث میں بحالت وضوء سونے کی فضیلت آئی ہے‘ وہ کیا ہے؟ نیز مذکورہ فضیلت کا حق دار صرف وہ شخص ہو گا جو سونے سے پہلے وضوء کرے یا اسے بھی یہ فضیلت ملے گی جو پہلے سے باوضوء ہو اور سو جائے؟
P سیدنا براء بن عازبt بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے مجھے فرمایا: ’’جب تم اپنی خوابگاہ میں جاؤ تو پہلے نماز کا سا وضوء کرو پھر دائیں پہلو پر لیٹ کر یہ دعا پڑھو: [اَللّٰہُمَّ اَسْلَمْتُ وَجْہِیْ اِلَیْکَ وَفَوَّضْتُ اَمْرِیْ اِلَیْکَ وَاَلْجَاْتُ ظَہْرِیْ اِلَیْکَ رَغْبَۃً وَّرَہْبَۃً اِلَیْکَ لَا مَلْجَاَ وَلَا مَنْجَاَ اِلَّا اِلَیْکَ، اَللّٰہُمَّ اٰمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِیْ اَنْزَلْتَ وَنَبِیِّکَ الَّذِیْ اَرْسَلْتَ] (بخاری‘ الوضوء: ۲۴۸) نیز ’’یہ دعائیہ کلمات اپنی سب باتوں سے فارغ ہو کر بالکل سوتے وقت پڑھو‘ اب اگر تم اسی رات مر جاؤ تو فطرتِ اسلام پر مرو گے۔ ‘‘
فطرت اسلام پر مرنے کا مطلب یہ ہے کہ جس فطری حالت میں انسان گناہوں کے بغیر دنیا میں آیا تھا‘ اسی حالت پر گناہوں کی آلائش کے بغیر واپس لوٹ جائے گا۔ ایک روایت میں رسول اللہe کا یہ معمول بھی بیان ہوا ہے۔ (بخاری‘ الدعوات: ۶۳۱۵)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’بستر پر دراز ہونے سے پہلے اپنے ازار اور چادر سے بستر کو جھاڑے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے بستر پر کونسی چیز آئی ہے۔‘‘ (بخاری‘ الدعوات: ۶۳۲۰)
اب ہم مذکورہ سوال کی طرف آتے ہیں کہ اگر کوئی شخص پہلے سے باوضوء ہے تو کیا وہ بھی سونے سے قبل دوبارہ وضوء کرے؟ اس کے متعلق حافظ ابن حجرa لکھتے ہیں: ’’حدیث کے ظاہری الفاظ سے تو تجدید وضوء کا مفہوم معلوم ہوتا ہے یعنی اگرچہ وہ طہارت سے ہو پھر بھی وضوء کرے تا ہم احتمال اس امر کا بھی ہے کہ نیند سے قبل وضوء حالت حدث کے ساتھ خاص ہو۔‘‘ (فتح الباری: ج۱‘ ص ۴۶۵)
البتہ علامہ عینیa کی رائے حسب ذیل ہے: ’’اگر پہلے سے باوضوء ہے تو اسے پہلا وضوء ہی کافی ہے کیونکہ مقصود طہارت کی حالت میں ہونا ہے۔ مبادا اگر رات کو موت آ جائے تو بے طہارت مرے نیز اس وضوء کی برکت سے اسے اچھے اور سچے خواب نظر آئیں گے۔ نیز وہ شیطانی اثرات سے بھی محفوظ رہے گا۔‘‘ (عمدۃ القاری: ج۲‘ ص ۶۹۸)
مختصر یہ کہ حدیث میں ذکر کردہ فضیلت حاصل کرنے کے لیے درج ذیل کام کرنے ہوں گے:
1          سونے سے قبل اسے باوضوء ہونا چاہیے تا کہ حالت پاکیزگی میں نیند کرے۔
2          اپنی چادر کے کنارے سے بستر کو جھاڑ لے تا کہ اسے کوئی موذی چیز تکلیف نہ دے۔
3          اپنی بات چیت ختم کر کے حدیث میں مذکور دعا حضور قلب سے پڑھے۔
4          پھر وہ اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جائے اور کسی قسم کی گفتگو میں مصروف نہ ہو۔ واللہ اعلم!
کھاتے وقت چھری کانٹے کا استعمال
O میں ایک دعوتِ ولیمہ میں شریک تھا اور گوشت کو چھری سے کاٹ کاٹ کر کھا رہا تھا‘ مجھے ایک دوست نے منع کیا کہ اس طرح کھانا اسلامی آداب کے خلاف ہے‘ یہ عجمی لوگوں کا طریقہ ہے‘ اس سلسلہ میں ہماری رہنمائی کریں۔
P ہمارا دین اسلام ہر اعتبار سے مکمل ہے‘ اس میں ہر شعبہ زندگی کے آداب اور اس سے متعلقہ ہدایات بیان ہوئی ہیں۔ کھانے پینے کے آداب سے بھی اس میں آگاہی موجود ہے‘ کھانے کے آداب سے ہے کہ دائیں ہاٹھ سے کھایا جائے۔ البتہ گوشت وغیرہ کو چھری سے کاٹنے کی کوئی ممانعت نہیں‘ بلکہ رسول اللہe سے ثابت ہے کہ آپe نے ایک دفعہ گوشت چھری سے کاٹ کر تناول فرمایا تھا۔ چنانچہ سیدنا عمرو بن امیہt بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہt کو دیکھا‘ آپ بکری کے شانے سے گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے۔ دریں اثناء آپ کو نماز کے لیے بلایا گیا تو آپe نے چھری رکھ دی‘ نماز پڑھی اور آپe نے نیا وضوء نہیں کیا۔ (بخاری‘ الوضوء: ۲۰۸)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چھری سے کاٹ کر گوشت کھانا جائز ہے۔ چنانچہ امام بخاریa نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’گوشت کا چھری سے کاٹنا۔‘‘ (بخاری‘ الاطعمہ‘ باب نمبر ۲۰)… البتہ اس سلسلہ میں سیدہ عائشہr سے مروی ایک حدیث بایں الفاظ بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہe نے چھری سے گوشت کاٹ کر تناول کرنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ یہ عجمی لوگوں کا انداز ہے۔ (ابوداؤد‘ الاطعمہ: ۳۷۷۸)
یہ حدیث صحیح نہیں‘ چنانچہ امام ابوداؤدa نے اسے بیان کرنے کے بعد لکھا ہے: اس کی سند مضبوط نہیں۔
امام ابن جوزیa نے اسے خود ساختہ احادیث میں بیان کیا ہے‘ حافظ ابن حجرa لکھتے ہیں: ’’ضرورت کے پیش نظر چھری وغیرہ کا استعمال درست ہے لیکن بلاوجہ چھری سے گوشت کاٹ کاٹ کر کھانا اعاجم اور عیش پسند لوگوں کی عادت ہے جسے شریعت نے پسند نہیں کیا۔‘‘ (فتح الباری: ج۱‘ ص ۴۰۷)
چھری سے کاٹ کر کھانے کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب گوشت اچھی طرح پکا ہوا نہ ہو یعنی سخت ہو اور اس کے ٹکڑے بڑے بڑے ہوں تو ایسے حالات میں گوشت کو چھری سے کاٹ کر کھایا جا سکتا ہے البتہ ہمیشہ کے لیے اسے معمول بنا لینا عجمیوں کی عادت ہے جسے شریعت نے پسند نہیں کیا۔ واللہ اعلم!
اونٹ کا گوشت ناقض وضوء ہے؟!
O ایک منکر حدیث نے اعتراض کیا ہے کہ احادیث کے مطابق اونٹ کا گوشت کھانے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے‘ یہ بات عقل کے خلاف ہے۔ کیا واقعی احادیث میں ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے؟!
P دور قدیم میں معتزلہ کی عادت تھی کہ وہ احادیث کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتے تھے‘ جو عقل کے خلاف ہوتی اسے ناقابل اعتبار ٹھہرا دیتے۔ کتنی ہی ایسی احادیث ہیں جو ان کے ہاں خلاف عقل ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں ہیں۔ ہمارے نزدیک تو اللہ اور اس کے رسول e کا حکم ہی معیار ہے۔ صحابہ کرام کا بھی یہی وطیرہ تھا کہ وہ احادیث کے سامنے سپر انداز ہو جاتے تھے۔ بہرحال اونٹ کا گوشت کھانے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ چنانچہ ایک آدمی رسول اللہe کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا‘ اللہ کے رسول! کیا بکری کا گوشت کھانے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے؟ تو آپe نے فرمایا: ’’اس کے بعد وضوء نہیں۔‘‘ لیکن اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد آپe نے وضوء کرنے کا حکم دیا۔ (ابوداؤد‘ الطہارۃ: ۱۸۴) … اس حدیث میں اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضوء کرنے کی صراحت ہے‘ اس وضوء سے لغوی وضوء مراد لینا یعنی کلی کرنا یا اس حکم کو استحباب پر محمول کرنا صحیح نہیں‘ جیسا کہ کچھ اہل علم اس قسم کی توجیہات پیش کرتے ہیں۔
بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق اونٹ کا گوشت کھانے سے وضوء دوبارہ کرنا پڑتا ہے۔ نقض وضوء کے قائل امام احمد بن حنبل‘ امام اسحاق بن راہویہ‘ امام یحییٰ بن منذر اور امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ علیہم ہیں۔ کچھ اہل علم نے اس سلسلہ میں تشدد بھی کیا ہے کہ اونٹ کے گوشت کو محض ہاتھ لگانا ہی نقض وضوء کا باعث ہے لیکن یہ موقف انتہائی محل نظر ہے۔ چنانچہ امام ابوداؤدa نے اس موقف کی تردید کے لیے ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے اور اسے غلط قرار دیا ہے۔ (ابوداؤد‘ الطہارہ: ۱۸۵)
شاہ ولی اللہ محدث دہلویa لکھتے ہیں کہ اس کے متعلق نقض وضوء کا حکم ابتدائے اسلام میں تھا پھر منسوخ ہو گیا کیونکہ فقہائے صحابہ اور تابعین میں سے کوئی بھی اس سے نقض وضوء کا قائل نہیں۔ (حجۃ اللہ البالغہ: ج۱‘ ص ۵۴۷) … لیکن محدثانہ نقطہ نظر کے مطابق اس کے منسوخ ہونے کا قطعی فیصلہ دشوار ہے‘ اس لیے احتیاط کا پہلو اختیار کرنا چاہیے۔ واللہ اعلم!
غلیل سے شکار کرنا
O مجھے شکار کرنے کا شوق ہے لیکن غربت کی وجہ سے بندوق کی بجائے غلیل سے شکار کرتا ہوں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میں پرندے کو ذبح کر لیتا ہوں لیکن بعض اوقات غلیل لگنے سے پرندہ مر جاتا ہے‘ اس قسم کے شکار کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟!
P دین اسلام میں شکار کرنا جائز ہے۔ اگرچہ اس کی کچھ حدود وقیود ہیں تا ہم شریعت میں اس کی ممانعت نہیں۔ سیدنا ابوثعلبہ الخشنیt اور سیدنا عدی بن حاتمt تیروں اور شکاری کتوں سے شکار کرتے تھے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے رسول اللہe سے کچھ ہدایات بھی لیں جن کی تفصیل کتب حدیث میں موجود ہے۔ صورت مسئولہ میں غلیل سے شکار کرنے کے متعلق دریافت کیا گیا ہے‘ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ غلیل میں پتھر رکھ کر پھینکا جاتا ہے‘ اس پتھر کو غلیلہ کہتے ہیں۔ بعض اوقات غلیلہ لگنے سے پرندہ مر جاتا ہے۔ اس طرح اگر پرندہ مر جائے تو وہ مردار ہے‘ اسے کھانا جائز نہیں۔ خواہ غلیلہ پھینکتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر ہی کیوں نہ پڑھ لیا جائے۔ امام بخاریa نے سیدنا ابن عمرw کے متعلق بیان کیا ہے کہ انہوں نے غلیلے سے مرے ہوئے شکار کے متعلق فرمایا کہ وہ موقوذہ ہے جس کی حرمت قرآن نے بیان کی ہے۔ (بخاری‘ الذبائح قبل حدیث: ۵۴۷۶)
اس کے حرام ہونے کی بنیاد سیدنا عدی بن حاتمt سے مروی ایک حدیث ہے‘ انہوں نے رسول اللہe سے نوکدار لکڑی سے شکار کے متعلق پوچھاتو آپe نے فرمایا: ’’جب تم اس کی نوک سے شکار مار لو تو اسے کھاؤ لیکن وہ لکڑی اگر عرض کے بل لگے اور جانور مر جائے تو وہ مردار ہے اسے نہ کھاؤ۔‘‘ (بخاری‘ الذبائح: ۵۴۷۶)
ان دونوں صورتوں میں فرق یہ ہے کہ لکڑی کی نوک یا تیز دھار لگنے سے شکار کٹ جاتا ہے جبکہ چوڑائی کے بل لگنے سے کٹتا نہیں بلکہ پھٹ جاتا ہے۔ کٹنے سے خون بہتا ہے۔ یہ ذبح کے حکم میں ہے جبکہ جلد پھٹ جانے سے ایسا نہیں ہوتا۔
اس حدیث سے غلیل سے کیے ہوئے شکار کے متعلق ہدایات ملتی ہیں کہ اگر غلیلہ لگنے سے پرندہ مرتا نہیں بلکہ زندہ رہتا ہے تو اسے ذبح کر لیا جائے اور اگر غلیلہ جسم سے ٹکرا کر سخت چوٹ سے پرندے کو مار دیتا ہے تو شریعت نے اسے مردار قرار دیا ہے اسے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ دور حاضر کی بندوق جس میں کارتوس پڑتا ہے اور اس میں لوہے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوتے ہیں جنہیں شرے کہا جاتا ہے جو جسم کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں اگر اس سے شکار کیا جائے تو ایسا جانور کھانا جائز ہے بشرطیکہ تکبیر پڑھ کر بندوق چلائی جائے۔ بہرحال صورت مسئولہ میں اگر جانور زندہ مل جائے تو اسے ذبح کر لیا جائے اور مرنے کی صورت میں اسے استعمال نہ کیا جائے۔ واللہ اعلم!

No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)