یادِ رفتگان ... مولانا قاری منظور احمد
تحریر: جناب رحمت اللہ بھوپال (پپلی
والہ‘ گوجرانوالہ)
جدائی کا غم وصدمہ
بہت ہی تکلیف دہ ہوتا ہے اور یہ فطری چیز ہے۔ رحمت دو عالمe کے لخت جگر سیدنا ابراہیمt آپ
کی گود میں تھے کہ داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے مالک حقیقی سے جا ملے۔ رحمت دو عالم
e کی
آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے‘ آنکھیں پر نم ہوئیں اور دل غمگین ہوا۔ صدمہ پر صبر وتحمل اور
بردباری سے دامن کو تھامے رکھنا اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر صبر کرنا نہایت ہمت کی بات
ہے۔ جہان فانی میں بقا ودوام تو کسی کو حاصل نہیں۔ ہر ذی روح نے دنیائے فانی سے واپس
لوٹنا ہے۔ ’’یہ سنت اللہ ہے۔‘‘
محترم قاری منظور احمد صاحب ۳۱ جولائی ۲۰۱۸ء بروز سوموار عشاء کی نماز پڑھا کر گھر تشریف لے گئے۔ تقریبا ساڑھے گیارہ بجے
سانس کے عارضہ میں مبتلا ہونے پر گھر والوں نے قاری صاحب کے شاگرد خاص عزیزم طلحہ کو
بلایا۔ اس نے حالت زار دیکھ کر تگ ودو شروع کر دی۔ ڈاکٹر کو بلا کر لایا‘ اس نے اپنی
بساط کے مطابق علاج معالجہ کیا‘ مگر اب کائنات کا فیصلہ اٹل ہو چکا تھا۔ اللہ رب العزت
کا فیصلہ نہ تبدیل ہونے والا ہوتا ہے۔ پتہ چلا کہ عارضہ کے دوران اپنی محترمہ اہلیہ
سے معافی طلب کرتے رہے‘ کلمہ طیبہ‘ کلمہ شہادت کا ورد کرتے رہے اور آسمان کی طرف ہاتھ
اٹھا کر استغفار کرتے رہے۔ اسی حالت میں لیٹ گئے اور لیٹتے ہی داعی اجل کو لبیک کہتے
ہوئے اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! اللہم اغفر لہ وارحمہ!
آخری وقت خالق کائنات نے بہت بڑے انعام سے نوازا‘ کوئی بھی بقایا
نماز اپنے ذمے لے کر نہیں گئے۔ اشکوں کے طلاطم میں ہر ایک پیر وجواں تھا‘ قاری صاحب
کی جدائی میں لوگ آنسو بہا رہے تھے۔ فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالسلام بھٹویd نے
نماز جنازہ پڑھائی اور شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک بھنڈرd نے
قبر پر ثابت قدمی کے لیے دعا کی۔ قبر پر دعا کی کیفیت جنازہ والی تھی‘ لوگوں کی آنکھیں
پر نم تھیں۔
احباب جماعت کے علاوہ بڑے بڑے خطباء‘ علماء اور شیوخ الحدیث
نماز جنازہ میں شریک ہوئے۔ جنازہ میں شرکت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے۔
محترم قاری صاحب کا حصول علم اور دعوت وتبلیغ کا عرصہ کم وبیش
نصف صدی پر محیط ہے۔ جب قاری صاحب مرحوم پپلی والا تشریف لائے تو کتنے اشخاص عقیدۂ
توحید پر تھے۔ میں اتنے وثوق سے نہیں کہہ سکتا مگر میری کمزور یادداشت کے مطابق تین
چار لوگ ہی ہوں گے۔ آج یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پپلی والا گاؤں میں اہل
توحید کی ۵ مساجد ہیں اور ان
میں پانچ وقت کی باجماعت نمازیں اور الحمد للہ نماز جمعہ کا اجتماع ہوتا ہے۔ یہ سب
قاری صاحب کی تبلیغ کا ثمر ہے۔ جتنے لوگوں نے قاری صاحب کی تبلیغ سے عقیدہ توحید اپنایا
ان سب کا ثواب قاری صاحب کو پہنچے گا اور ان کے درجات بلند ہوں گے۔ ایک مرتبہ کامونکی
مدنی مسجد اہل حدیث میں جلسہ تھا‘ مولانا محمد حسین شیخوپوریa کی تقریر تھی۔ پہلے قاری منظور صاحب نے تقریر کرنا تھی
بعد میں مولانا صاحب نے‘ دوران تقریر قاری صاحب کی تقریر کو بہت سراہا اور کہا کہ
’’واہ واہ! کیا گوہر نایاب ہے۔‘‘
اسی طرح ایک مرتبہ جامع مسجد نیائیں چوک گوجرانوالہ میں شیخ
الحدیث مولانا محمد عبداللہ صاحبa کی
موجودگی میں قاضی عبدالرشید صاحب کے ساتھ ’’فاتحہ خلف الامام‘‘ پر مناظرہ تھا‘ مناظرہ
کے اختتام پر مولانا محمد عبداللہa نے فرمایا کہ قاری منظور صاحب کے دلائل بہت قوی تھے۔
جماعتی احباب ودیگر احباب قاری منظور صاحب کے انتقال پُر حزن
وملال کا اظہار کرتے ہوئے ان کی دینی خدمات پر زبردست خراج تحسین وعقیدت پیش کرتے تھے۔
قاری صاحب کتاب اللہ وسنت رسول اللہ e کی
بالا دستی کے لیے گراں قدر خدمات انجام دے کر دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔ اللہ رب العزت
توحید ورسالت کے چمن کو تا قیامت سرسبز وشاداب رکھے‘ توحید وسنت کے چمن کی بہاروں کو
ہمیشہ قائم رکھے اور باد خزاں‘ آزمائشوں اور فتنوںسے محفوظ رکھے۔ آمین!
اے اللہ خالق کائنات! ہماری تمام مساجد سے شب وروز لیل ونہار
قال اللہ وقال الرسول e کی
صدائیں بلند ہوتی رہیں۔ آمین!
مولانا مرحوم نے طبیعت علیل ہونے کی وجہ سے کمزوری ونقاہت کے
باوجود اپنی ذمہ داریوں میں کمی نہیں آنے دی۔ پانچوں وقت کی نمازیں اپنے مقررہ وقت
پر پڑھاتے رہے۔ آپ کا کوئی بھی نائب نہیں تھا۔ مسجد کے تمام کام بھی خود ہی انجام دیتے
تھے۔
سوائے عیدین کے دنوں کے درس قرآن کا ناغہ نہیں کرتے تھے۔ جمعہ
کے روز بھی درس میں جمعہ کی فضیلت بیاں کرتے اور جلدی آنے کی ترغیب دلاتے تھے۔
دروس اور خطبوں میں باطل عقائد رکھنے والوں کی بڑی جرأت سے
مدلل تردید کرتے تھے۔ توحید وسنت رسول اللہ e کے علاوہ تمام مصنوعی دینی عقائد کا قلع قمع کرتے تھے
اور سب باطل عقائد رکھنے والوں کے لیے سیف بے نیام تھے۔
اپنی زندگی میں ایمان کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔ اس میں سستی
نہیں آنے دی جیسے اکثر لوگ پھسل جاتے ہیں۔ مسجد کی ہر چیز کو امانت سمجھا اور اپنے
دامن کو داغدار نہ ہونے دیا۔ جب بڑے سپیکر چلتے تھے تو گرد ونواح کے گاؤں والے لوگ
کہتے کہ ہم فجر کا درس اپنی چھتوں پر بیٹھ کر سنا کرتے تھے۔
قاری صاحبa کی
وفات سے بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا اور اس خلاء کو پر کرنے کے لیے زیادہ دیر ہمیں سرگرداں
نہ ہونا پڑا۔ راقم نے ایک دن عزیزم حافظ نعمان سے مختصر انداز میں بات کی‘ اللہ رب
العزت انہیں جزائے خیر دے‘ انہوں نے میری بات بلا تامل قبول کرتے ہوئے سعودیہ کی تمام
آسائشوں اور کثیر آمدنی کو قربان کرتے ہوئے ہماری بات مان لی اور اپنے والد مرحوم کی
جانشینی سنبھالنے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ لہٰذا اب قاری صاحب مرحوم کی جگہ ان کے فرزند
ارجمند دین ومسلک کی ترویج واشاعت کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ رب العزت قاری صاحب مرحوم کی تمام دینی
خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے اور بشری لغزشوں سے درگزر فرماتے ہوئے انہیں جنت الفردوس
میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو اس صدمہ پر صبر جمیل کی توفیق سے نوازے۔
آمین!
No comments:
Post a Comment