احکام ومسائل
جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت: مرکز
الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان ای میل: markaz.dirasat@gmail.com
اِک مسئلہ وراثت
O میری
بیوی فوت ہو گئی ہے‘ پسماندگان میں دو بیٹے‘ ایک بیٹی‘ والدین اور میں (خاوند) موجود
ہوں‘ اس کے زیورات بطور ترکہ موجود ہیں جن کی مالیت تقریبا اڑتالیس ہزار روپے ہے‘ انہیں
کیسے تقسیم کیا جائے؟!
P مرنے کے فورا بعد میت کا ترکہ قابل تقسیم نہیں ہوتا
بلکہ تین قسم کے حقوق کی ادائیگی کے بعد تقسیم ترکہ کی نوبت آتی ہے‘ یعنی میت کی تجہیز
وتکفین اور تدفین پر اٹھنے والے اخراجات‘ وصیت کا نفاذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد ترکہ
کو تقسیم کیا جاتا ہے۔ اگر میت کے اس قسم کے اخراجات نہیں ہیں تو پھر تقسیم ترکہ میں
چنداں حرج نہیں۔
صورت مسئولہ میں اس قسم کی کوئی وضاحت نہیں لہٰذا اس کے ترکہ
کو کسی قسم کے اخراجات منہا کیے بغیر پسماندگان میں تقسیم کر دیا جائے۔ جس کی تفصیل
حسب ذیل ہے:
\ چونکہ مرنے
والی بیوی کی اولاد موجود ہے اس لیے خاوند کو کل جائیداد سے چوتھا حصہ دیا جائے گا۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر میت کی اولاد ہو تو اس کے ترکہ سے تمہارا چوتھا
حصہ ہے۔‘‘ (النساء: ۱۲)
\ والدین میں
سے ہر ایک کو چھٹا چھٹا حصہ دیا جائے‘ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور میت کے
ماں باپ یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکہ میں چھٹا چھٹا حصہ ہے۔‘‘ (النساء: ۱۱)
\ مقرر حصہ لینے
والوں کو ان کا حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے گا وہ مرنے والے کی اولاد کا ہے‘ جیسا
کہ حدیث میں ہے: ’’مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کا حصہ دو اور جو باقی بچے وہ میت کے
قریبی رشتہ داروں کے لیے ہے۔‘‘ (بخاری‘ الفرائض: ۶۷۳۵)
باقی ترکہ اولاد میں اس طرح تقسیم کیا جائے کہ لڑکے کو لڑکی
کے مقابلہ میں دوگناہ حصہ دیا جائے‘ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں
اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہو۔‘‘ (النساء:
۱۱)
سہولت کے پیش نظر ترکہ کے ۱۲ حصے کر لیے جائیں۔
ان میں سے چوتھا حصہ یعنی تین حصے خاوند کو‘ چھٹا‘ چھٹا حصہ یعنی دو دو حصے والدین
کو اور باقی پانچ حصے اولاد میں اس طرح تقسیم ہوں کہ لڑکے کو دو حصے اور لڑکی کو ایک
حصہ دیا جائے۔
خاوند
|
باپ
|
ماں
|
لڑکا
|
لڑکا
|
لڑکی
|
کل حصے
|
3
|
2
|
2
|
2
|
2
|
1
|
12
|
زیورات کی مالیت اڑتالیس ہزار ہے‘ اس مالیت کو بارہ پر تقسیم
کیا جائے تو چار ہزار کا ایک حصہ بنتا ہے۔ لہٰذا خاوند بارہ ہزار‘ باپ کو آٹھ ہزار‘
والدہ کو آٹھ ہزار‘ ایک لڑکے کو آٹھ ہزار‘ دوسرے کو بھی آٹھ ہزار اور لڑکی کو چار ہزار
دے دیا جائے۔ واللہ اعلم!
زمین فروخت کرنے کے بعد قیمت کا مصرف
O میں
نے کسی عالم دین سے سنا تھا کہ زمین یا مکان فروخت کرنے کے بعد اس کی قیمت کو زمین
وغیرہ کی خریداری پر خرچ کیا جائے بصورت دیگر اس میں برکت نہیں ہوتی۔ اس میں کیا حکمت
ہے؟ وضاحت کر دیں۔
P رسول اللہe ہماری رہنمائی کے لیے مبعوث ہوئے ہیں‘ آپ کے کچھ احکام
ایسے ہیں جن پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے اور کچھ احکام ایسے بھی ہیں کہ ان پر عمل کرنا
ضروری نہیں بلکہ بہتر ہوتا ہے۔ انہیں امور استحباب کہا جاتا ہے۔ اس کی تفصیل اصول فقہ
میں موجود ہے۔ سوال میں جو بات ایک عالم دین کے حوالے سے بیان ہوئی ہے وہ دراصل رسول
اللہe کا
ارشاد گرامی ہے۔ آپe نے
فرمایا: ’’جس نے کوئی گھر یا زمین کا ٹکڑا فروخت کیا اور اس کی قیمت کو اس جیسی چیز
میں خرچ نہ کیا تو وہ اس لائق ہے کہ اس میں برکت نہ دی جائے۔‘‘ (مسند امام احمد: ج۴‘ ص ۳۰۷)
ایک دوسرے صحابی سے یہ روایت بایں الفاظ مروی ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’جس نے مکان بیچا اور اس کی قیمت کو اس جیسی چیز میں خرچ نہ کیا تو اسے اس
میں برکت نہ ہو گی۔‘‘ (ابن ماجہ‘ الرہون: ۲۴۹۱)
سند کے اعتبار سے محدثین کرام نے ان دونوں پر کچھ کلام کی ہے
تا ہم مجموعی اعتبار سے یہ قابل حجت ہیں اور محدثین نے اس کا مفہوم بایں الفاظ بیان
کیا ہے کہ جائیداد کی دو اقسام حسب ذیل ہیں:
\ منقولہ: … جو جائیداد ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی جا سکے‘ جیسا کہ زمین کی پیداوار‘
باغ کے پھل اور نقدی وغیرہ۔
\ غیر منقولہ: … وہ جائیداد جو قابل انتقال نہ ہو جیسا کہ زمین‘ مکان اور
باغ وغیرہ۔ یہ ایک جگہ پر ہی قائم رہتی ہیں یہ ایسی جائیداد ہے جس میں نقصان کا اندیشہ
نہیں ہوتا اور نہ ہی چوری کا خطرہ ہوتا ہے اور اس میں کوئی خرچہ کرنے کی بھی ضرورت
نہیں ہوتی۔
رسول اللہe نے
ہماری رہنمائی کی ہے کہ اگر غیر منقولہ جائیداد کو فروخت کیا جائے تو اس سے حاصل ہونے
والی قیمت سے غیر منقولہ جائیداد ہی خرید لی جائے اور اس میں خیر وبرکت ہے اور نفع
کے زیادہ مواقع ہیں۔ اس کا قطعاً یہ مقصد نہیں کہ انسان اپنی زمین فروخت کر کے اسے
اپنی دیگر ضروریات میں صرف نہ کرے۔ لیکن اس میں افراط وتفریط سے کام نہ لے کہ غیر منقولہ
جائیداد کو فروخت کر کے اس سے حاصل ہونے والی قیمت کو خورد نوش اور لباس وپوش پر خرچ
کرتا رہے‘ ایسا کرنا خود کو خیر وبرکت سے محروم کرنا ہے۔ چنانچہ ہم اس بات کا مشاہدہ
کرتے ہیں کہ بڑے بڑے زمین دار اپنی زمین کو فروخت کر کے اپنی ضروریات پر خرچ کرتے رہتے
ہیں۔ آخر ایک دن وہ مفلوک الحال اور مفلس ہو جاتے ہیں۔ رسول اللہe نے
اس سلسلہ میں ہماری رہنمائی کی ہے کہ اپنی غیر منقولہ جائیداد پوری فروخت کر کے اسے
اپنی ضروریات زندگی پر صرف کرنے کی بجائے اس سے کوئی زمین پلاٹ یا مکان خرید لیا جائے
اور کچھ رقم کو اپنی ضروریات پر بھی خرچ کیا جا سکتا ہے۔ خریدی ہوئی زمین‘ پلاٹ یا
مکان کی قیمت خود بخود بڑھتی رہتی ہے۔ اس پر اضافی اخراجات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بہرحال
درج بالا احادیث میں بیان شدہ حکم امر ارشاد ہے جو ہمارے لیے خیر وبرکت کا باعث ہے۔
اس کا قطعاً یہ مقصد نہیں کہ انسان اپنا پلاٹ وغیرہ فروخت کر کے بچوں کی شادی وغیرہ
پر صرف نہیں کر سکتا۔ واللہ اعلم!
ایک حدیث کا مفہوم
O رسول
اللہ e کے
متعلق میں نے کسی حدیث میں پڑھا تھا کہ آپ ایسی جوتے پہنتے تھے جن پر بال نہ تھے اور
آپ ان میں وضوء فرماتے تھے۔ جوتوں میں وضوء کرنے کا کیا مفہوم ہے؟ اس کی وضاحت مطلوب
ہے۔
P سیدنا عبداللہ بن عمرw چونکہ شدید الاتباع تھے‘ وہ اکثر ایسا جوتا پہنتے تھے
جن پر بال نہیں ہوتے تھے۔ انہیں سبتی جوتے کہا جاتا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرw سے
کسی نے سوال کیا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ تو انہوں نے وہ جواب دیا جو سوال میں ذکر
کیا گیا ہے۔ (بخاری: ۱۶۶)
دراصل عرب لوگ فطری طور پر سادہ زندگی بسر کرنے کے عادی تھے۔
جوتوں کے متعلق ان کا عمومی ذوق یہ تھا کہ اونٹ‘ بکری کی کھال کو خشک کیا‘ پھر اسے
کاٹ کر اس میں تسمے لگا لیتے۔ ان کے اکثر جوتے یہی ہوتے تھے لیکن عرب کے علاوہ دوسرے
لوگ چمڑے کو دباغت سے خشک کرتے۔ ان کے بال وغیرہ دور کرتے پھر اس چمڑے کو جوتے میں
استعمال کرتے جن جوتوں پر بال نہیں ہوتے انہیں سبتی جوتا کہا جاتا ہے۔
رسول اللہe کے
پاس اس قسم کے سبتی جوتے بطور تحفہ آتے اور آپ انہیں استعمال فرماتے۔ سیدنا عبداللہ
بن عمرw بھی
اس قسم کا جوتا حاصل کرتے اور اسے آپe کی اتباع میں پہنتے تھے۔ آپt پر
جب اعتراض ہوا تو آپ نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہe کو اس قسم کے جوتے پہنتے دیکھا ہے۔ اس لیے میں بھی انہیں
پہنتا ہوں۔ پھر آپt نے
ضمناً یہ بات بھی بیان فرمائی کہ رسول اللہe ان میں وضوء کرتے تھے یعنی ان پر مسح نہیں کرتے تھے۔
امام بخاریa کا
حدیث لانے سے مقصود یہ ہے کہ وضوء کرتے وقت پاؤں کا وظیفہ انہیں دھونا ہے خواہ ان
میں جوتا ہی کیوں نہ پہنا ہو۔ اگر وضوء کرنے والا جوتا پہنے ہوئے ہے تو وضوء کے وقت
دو صورتیں ممکن ہیں:
\ جوتا پہنے ہوئے
پاؤں دھوئے جائیں۔ یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ پاؤں میں چپل‘ سوفٹی وغیرہ ہو کیونکہ
بند جوتے میں پاؤں نہیں دھوئے جا سکتے۔ رسول اللہe سے جوتا پہنے ہوئے پاؤں دھونا ثابت ہے۔ (ابوداؤد‘
الطہارہ: ۱۱۷)
\ دوسری صورت
یہ ہے کہ جوتا اتار کر پاؤں دھوئے جائیں۔ اس میں کوئی تکلف نہیں ہوتا بلکہ پاؤں دھونے
میں آسانی رہتی ہے۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment