یادِ رفتگان ... مولانا حکیم محمد ابراہیم طارق
تحریر: جناب ڈاکٹر سعید احمد چنیوٹی
افسوس کہ میرے رفیق
قدیم‘ صدیق حمیم اور کلاس فیلو مختصر علالت کے بعد ۹ مئی کو دستور دنیا کی پابندی کرتے
ہوئے حیات مستعار گذار کر رحلت فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!
افسوس کہ میرے تعلیمی عہد محبت کا یہ نخل بار آور عمر کی ۶۷
بہاریں گذار کر مرجھا گیا۔
مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے اوصاف حمیدہ سے نوازا تھا‘ بظاہر
حسن وجمال‘ وجاہت اور خوب روئی‘ خندہ پیشانی‘ مسکراہٹ کے ساتھ اللہ نے انہیں میل ومروت‘
وضع داری‘ اخلاق حسنہ‘ تواضع وانکساری جیسے اوصاف حمیدہ سے بھی آراستہ فرمایا تھا۔
مرحوم صفدر آباد (منڈی ڈھاباں سنگھ) کی جامع مسجد کے خطیب اور
پیشہ کے اعتبار سے طبیب تھے۔ یہ دونوں شعبے عوامی رابطے کے مؤثر ترین ذرائع ہیں۔ خاندانی
شرافت‘ حسن اخلاق‘ دینی فرائض اور امور طبابت کے ذریعے انہوں نے علاقہ بھر میں اپنا
علمی‘ دینی‘ سیاسی اور سماجی مقام منوا لیا تھا۔
منڈی صفدر آباد میں کوئی سیاسی‘ دینی اور سماجی کام اور اہم
پروگرام ان کی شرکت کے بغیر تشنہ ہوتا‘ بلکہ انہیں نظر انداز کرنا دشوار تھا۔
یہ مقام انہیں گدی نشینی‘ صاحبزادگی کے ذریعے نہیں ملا بلکہ
تگ وتاز‘ مسلسل کارکردگی‘ محنت اور جد وجہد‘ عمل پیہم‘ جماعتی رابطہ اور عوامی مہم
کے ذریعے طویل زندگی کا حصہ گذار کر حاصل کیا۔
خدمات دینیہ‘ کتاب وسنت کی اشاعت میں سرگرمی اور جد وجہد اور
اخلاق حسنہ ان کے آثار باقیات میں سے ہیں جو ان کی رحلت کے بعد بھی صدقہ جاریہ ہیں۔
لوگوں کے دلوں میں‘ احباب کے سینوں میں ان کی خدمات کے ان مٹ نقوش پائندہ وتابندہ رہیں
گے اور ان کی یاد فصل بہار کی طرح تازہ رہے گی۔
جلیل آساں نہیں آباد کرنا گھر محبت کا
یہ ان کا کام ہے جو زندگی برباد کرتے ہیں
خاندانی پس منظر
اور تعلیم:
حکیم محمد ابراہیم بن حاجی محمد حسین بن حاجی محمد اسحاق
۱۹۵۱ء میں حکیم صاحب کے والد اور والدہ فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے گئے تو اسی دوران
مدینہ منورہ میں ان کی ولادت ہوئی۔ ان کا وطنی تعلق صفدر آباد ضلع شیخوپورہ سے ہے۔
صفدر آباد کی جامع مسجد اہل حدیث سے دینی تعلیم اور وہاں کے گورنمنٹ سکول سے مڈل اور
میٹرک کیا۔ پھر مئی ۱۹۶۷ء کو وہاں کی مسجد کے خطیب حکیم محمد حنیف امرتسری نے انہیں
فیصل آباد مدرسہ دار القرآن والحدیث میں داخل کروا دیا۔ بس یہیں سے میری اور ان کی
شناخت‘ رفاقت اور ہم کلاس ہونے کا آغاز ہوا جو مسلسل چار برس رہا۔ میں ان سے ایک ماہ
قبل جب مدرسہ میں داخل ہوا تو کلاس میں اکیلا تھا‘ حکیم محمد ابراہیم طارق کے آنے سے
ہم دو ہو گئے۔ پھر اکالگڑھ تحصیل جڑانوالہ کے ایک طالب محمد یوسف کے داخل ہونے سے تین
ہو گئے۔ حکیم صاحب ذہین وفطین تھے تو کلاس میں علمی مقابلہ شروع ہوا۔ کبھی سالانہ امتحان
میں وہ اول ہوتے کبھی راقم الحروف۔ بہرحال یہ چار سال لمحوں میں گزر گئے۔ ذوق وشوق
کے ان خوشگوار لمحات کی یاد کبھی کبھی محسوس ہوتی ہے۔
دور طالب علمی فقر ودرویشی کے باوجود شاہانہ دور ہوتا ہے‘ بعد
کی زندگی ہزار آسائشوں کے باوجود اس کے مقابل ہیچ ہے۔ بحرحال آغاز تعلیم میں با ذوق
ذہین کلاس فیلو زندگی کا خوشگوار تجربہ تھا۔ پھر حکیم صاحب جامعہ سلفیہ چلے گئے۔ شیخ
الحدیث حافظ عبداللہ بڈھیمالویa سے
صحیح بخاری پڑھی اور ۱۹۷۲ء میں سند فراغت حاصل کی۔ پھر حضرت حافظ محمد گوندلویa کے
سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا اور فراغت کے بعد عملی‘ تدریسی‘ خطابتی اور معاشی زندگی میں
مصروف ہو گئے لیکن ہر میدان میں جد وجہد اور استقامت سے اپنا مقام بنایا۔
جماعتی زندگی ومسلکی خدمات:
حکیم صاحب کی خوش قسمتی ہے کہ بچپن سے ہی انہیں ایک مشفق اور
جہاندیدہ والد محترم اور ان کے باذوق‘ باہمت رفیق خاص کی سرپرستی حاصل رہی۔ ان کے والد
محمد حسین کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ اس لیے انہوں نے تجارت کا پیشہ اختیار کیا‘ ان
کے والد کے رفیق خاص حکیم محمد حنیف امرتسری منڈی صفدر آباد کی جانی پہچانی شخصیت تھی
جو بیک وقت طبابت اور خطابت کے مجمع البحرین تھے اور علماء کرام کے ساتھ ربط وتعلق
رہتا۔ خصوصا فیصل آباد میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ ویرووالوی اور مولانا
حکیم عبدالرحیم اشرف رحمہما اللہ کے ہاں ہر ماہ ملاقات کے لیے حاضری دینا ان کا معمول
تھا۔ جس سے ان کے دینی رجحان اور ذوق کا پتہ چلتا ہے۔ مرحوم میں طبابت کا رجحان بھی
حکیم محمد حنیف صاحب کیو جہ سے پیدا ہوا۔ درسی تعلیم سے فارغ ہو کر حافظ عبدالحق صدیقیa آف
ساہیوال کی مسجد میں امامت وتدریس کے ساتھ علم طب پڑھا اور وہیں چوک گھاس منڈی میں
دواخانہ کھول دیا۔ حضرت حافظ عبدالحق صدیقیa کی وفات کے بعد صفدر آباد واپس آگئے اور والد گرامی
کے ساتھ کپڑے کی دکان پر ان کے معاون بنے۔ ان کے ساتھ برادر اصغر حافظ محمد یوسف بھی
تھے جنہوں نے بعد میں آرمی جائن کر لی اور اب کرنل کے عہدہ پر فائز ہیں۔
۱۹۸۰ء میں حکیم محمد حنیف نے منڈی صفدر آباد میں ادارہ تبلیغ القرآن
قائم کیا جس کے تحت گرد ونواح کی اہل حدیث مساجد اور مدارس کی نگرانی کا سلسلہ جاری
تھا۔
۱۹۹۴ء میں حکیم صاحب کی وفات کے بعد پورا انتظام حکیم محمد ابراہیم
طارق کے سپرد ہوا جسے انہوں نے بخوبی اور احسن انداز سے نبھایا بلکہ آگے بڑھایا۔ ان
کی تبلیغی مساعی سے علاقہ بھر میں ۴۰ کے قریب مساجد تعمیر ہوئیں۔
۱۹۸۵ء میں صفدر آباد مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر منتخب ہوئے اور پھر
مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ وہ کئی سال سے دل کے مرض میں مبتلا ہونے کے
باوجود سرگرمی اور تندہی سے کتاب وسنت کی اشاعت وخدمت میں مصروف عمل رہے۔ سیاسی اور
رفاہی کاموں میں دلچسپی لینے کی وجہ سے صفدر آباد بلدیہ کے کونسلر بھی رہے۔ بہرحال
مرحوم نے بھر پور جماعتی‘ رفاہی‘ سماجی اور سیاسی زندگی گزاری جس کا اندازہ نماز جنازہ
کے جم غفیر سے ہوا۔
رمضان المبارک اور دوپہر گرمی کے باوجود صفدر آباد تاریخ کا
عظیم جنازہ تھا۔ مولانا حافظ مسعود عالمd نے نماز جنازہ پڑھائی۔ جامعہ سلفیہ کے اساتذہ‘ مولانا
محمد انس مدنی‘ میاں محمد جمیل‘ ڈاکٹر عبدالغفور راشد‘ حافظ فاروق الرحمن یزدانی اور
شاہد محمود سعیدی نے شرکت فرمائی۔ پسماندگان میں تین بیٹے اور چار بیٹیاں سوگوار ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں کو معاف فرما کر جنت الفردوس عطا فرمائے۔ آمین!
No comments:
Post a Comment