ملک بشیر احمد رحمہ اللہ (پاکیزہ شہد والے)
تحریر: مدیر اعلیٰ کے قلم سے
اللہ تعالیٰ نے
انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے۔ اس کی زندگی اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ وہ جب
چاہے‘ جہاں چاہے اور جس طرح چاہے واپس لے لیتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ انسان ہر لمحہ
موت کے قریب جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{کل من علیہا فان} ’’ہر جاندار فانی ہے۔‘‘
موت اس کا مقدر ہے۔ بقاء ودوام صرف اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات
کو حاصل ہے۔
انسان کا دنیا میں آنا اس کے جانے کی تمہید ہے۔ اس کی کامیابی
کا دار ومدار اس بات پر ہے کہ وہ آسمانی ضابطۂ حیات کے مطابق زندگی بسر کرے۔ حقوق
اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی کا مرتکب نہ ہو۔ کیونکہ ان حقوق کی کما
حقہ ادائیگی پر معاشرہ کی صحت اور حسن کا دار ومدار ہے۔
ملک بشیر احمدa نے
بڑی صالح زندگی گذاری‘ ان کی کتب ’’پاکیزہ شہد‘‘… ’’پاکیزہ زندگی‘‘… ’’علامہ محمد یوسف
کلکتوی‘‘… ’’عجیب وغریب واقعات‘‘… ’’مسنون انداز سے ۲۴ گھنٹے کیسے گزاریں؟‘‘
پھر خالص شہد کے تاجر ہونے کے حوالہ سے بڑے معروف تھے۔
یہی کتابیں میرا ان سے غائبانہ تعارف کا ذریعہ بنیں۔ وہ گاہے
گاہے مجھے خالص شہد بھیجا کرتے تھے جسے گھر کے سب افراد بڑے شوق سے استعمال کرتے۔ ایک
روز فون پر ان کی بیمار پرسی کی اور ان کی عنایات کا شکریہ ادا کیا۔ کہنے لگے شکریہ
کی کوئی بات نہیں۔ احباب کی خدمت میں بڑا لطف آتا ہے۔ مگر یہ بتائیں کہ یہ تعارف
’’غائبانہ‘‘ کب تک رہے گا؟ بالمشافہ ملاقات بھی ہونی چاہیے۔ میں نے حاضری کا وعدہ کر
لیا اور دو تین ہفتے کے بعد رفقاء کے ہمراہ چھانگا مانگا کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔
منزل کے قریب پہنچ کر فون پر گھر کا پتہ پوچھا اور آسانی کے ساتھ در دولت پر پہنچ گئے۔
بڑی خندہ پیشانی سے ملے۔ میانہ قد‘ گندمی رنگ‘ گول چہرہ‘ گھنی داڑھی‘ کھلی پیشانی‘
سادہ مزاج‘ مہمان نواز اور بڑے خوش اخلاق تھے۔ یہ ملک بشیر احمد صاحب تھے جن سے مل
کر بڑی خوشی ہوئی مگر وہ بعارضہ فالج چلنے پھرنے سے معذور تھے۔ چار پائی پر ٹیک لگائے
بیٹھے رہے اور گفتگو بھی کرتے رہے۔
انہوں نے علالت کے باوجود اس کا احساس نہیں ہونے دیا۔ بڑے صبر
وشکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے صحت کاملہ وعاجلہ کے لیے دعا گو پایا۔ اتنی دیر میں مولانا
شفیق الرحمن فرخ دودھ اور شہد لے آئے۔ بڑے شوق سے پیا اور بڑا لطف آیا۔ وہ بھی شریک
گفتگو ہو گئے۔ ملک صاحب نے بتایا کہ مجلہ ’’اہل حدیث‘‘ باقاعدہ پہنچ رہا ہے۔ اچھے مضامین‘
خطبۂ حرم‘ احکام ومسائل کے ساتھ ساتھ جماعتی نشاطات‘ قائدین کی دینی وسیاسی سرگرمیوں
سے آگاہی رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ منتظمین کو زیادہ سے زیادہ خدمت کی توفیق دے۔
حقیقت یہ ہے کہ امیر محترم سینیٹر پروفیسر ساجد میرd اور
ناظم اعلیٰ سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم صاحب کی قیادت نے جماعت کو بہت سی کامیابیوں
سے ہمکنار کیا ہے۔ جب میں نے واپسی کے لیے اجازت چاہی تو انہوں نے ڈھیروں دعاؤں کے
ساتھ رخصت کیا اور کہا کہ مجلہ ’’اہل حدیث‘‘ اور ’’الاسلام‘‘ ڈائری کے لیے محنت جاری
رکھیں۔
یاد رہے کہ مجھے ’’الاسلام‘‘ ڈائری کے لیے ان کا مختلف انداز
میں تعاون میسر رہا۔ اسی طرح اب ان کے صاحبزادے مولانا شفیق الرحمن فرخ جو جامعہ شیخ
الاسلام ابن تیمیہ لاہور میں درس وتدریس کے ساتھ ساتھ سہ ماہی مجلہ ’’نداء الجامعہ‘‘
کی ادارت کا فریضہ بھی انجام دے رہے۔
ان کے د وسرے بیٹے حافظ عتیق الرحمن جامعہ علامہ احسان الٰہی
ظہیر لارنس روڈ لاہور میں استاذ اور العتیق ٹریول اینڈ ٹوورز لاہور کے نام سے لوگوں
کو حج وعمرہ کے لیے مکہ مکرمہ لے جانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان صاحبزادوں کا ہمارے اداروں
اور جماعت کے ساتھ تعاون جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے۔
ملک صاحب کا ایک صاحبزادہ ملک خالد بشیر ۲۰۱۱ء میں فوت ہو گیا تھا۔ وہ حافظ قرآن تھا اور حافظ محمد شریف فیصل آباد‘ حافظ عبدالغفار
روپڑی اور حافظ حسن محمود کمیر پوری پتوکی کے کلاس فیلو تھے۔ باقی دو بیٹے ملک طارق
بشیر اور ملک عبدالرؤف اپنی اپنی جگہ پر مصروفِ کار ہیں۔
مرحوم کے داماد حافظ عبدالوحید صاحب جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ
سے فارغ التحصیل ہیں۔ ان کی اہلیہ جو ملک صاحب کی صاحبزادی ہیں نے تین سالہ معہد اللغہ
جامعہ ام القریٰ سے تعلیم کے اختتام پر چار گولڈ میڈل حاصل کیے۔ اب یہ فیملی الریاض
سعودی عرب میں مقیم ہے۔ اللہم زد فزد!
یہ اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہے کہ ملک صاحب کا گھرانہ ابتداء
سے ہی قرآن مجید کی تعلیم وتدریس کا مسکن رہا ہے۔ پہلے مرحوم کی والدہ مرحومہ دس سال
تک محلے کے بچے بچیوں کو ناظرہ قرآن مجید کی تعلیم دیتی رہیں۔ ان کے بعد ملک صاحب کی
اہلیہ مرحومہ نے تین سال تک یہ خدمت انجام دی۔ دو سال تک گھر میں مرحوم کی صاحبزادی
نے اس ذمہ داری کو نبھایا اور اب مولانا شفیق الرحمن فرخ صاحب کی اہلیہ جو کہ ما شاء
اللہ دینی وعصری تعلیم سے آراستہ ہیں وہ ناظرہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ترجمۃ القرآن اور
عربی گرائمر کے اسباق پڑھا رہی ہیں۔ گویا نصف صدی سے یہ علمی فیض جاری وساری ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جس گھر میں قرآن مجید پڑھا جاتا ہو اور اس کی
تعلیم دی جاتی ہو وہاں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔ دعا ہے کہ
اللہ تعالیٰ اس چشمۂ فیض کو تا قیامت جاری رکھے۔ آمین!
یہ کتنی بڑی سعادت ہے کہ ملک صاحب کے دس پوتے اور نواسے حافظ
قرآن ہیں۔ باقی سب دینی وعصری تعلیم سے بہرہ ور ہو رہے ہیں۔
احباب جانتے ہیں کہ ملک صاحب علماء کرام کے قدردان‘ علم سے لگاؤ‘
نیکی اور نیک لوگوں سے محبت اور تعلق خاطر رکھتے تھے۔ دینی کاموں میں معاون تھے۔ دیانتدار
تاجر تھے۔ آپ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدa سے بڑی محبت رکھتے تھے۔ علامہ صاحب نے جب لارنس روڈ
پر پہلے خطبہ جمعۃ المبارک میں مرکز کے لیے لارنس روڈ پر جگہ خریدنے کے لیے اپنی کاوشوں
اور جماعتی پالیسی کا اعلان کیا تو ملک صاحب جمعہ کے اس اجتماع میں موجود تھے۔ علامہ
صاحب کی کتاب ’’بریلویت‘‘ جب شائع ہوئی تو علامہ صاحب نے جمعہ میں اعلان کیا کہ میری
یہ کتاب آپ احباب کے لیے تحفہ ہے۔ باہر سے اپنا اپنا نسخہ لیتے جائیں۔ لیکن بعض لوگ
مکمل کارٹن ہی اٹھا کر لے گئے۔ ملک صاحب کو معروف خطیب اور سیاسی رہنما مولانا محمد
یوسف کلکتوی کے ساتھ دس سال رفاقت کا موقع ملا۔ انہوں نے ’’مولانا محمد یوسف کلکتوی‘‘
کتاب لکھی جس میں مولانا کلکتوی کے علمی‘ دینی‘ سیاسی اور علمی کارناموں کا بھر پور
تذکرہ بھی کیا۔ یہ کتاب اولاً مجلہ نداء الجامعہ میں قسط وار شائع ہوتی رہی بعد ازاں
قارئین کے اصرار پر مرحوم کے صاحبزادے حافظ شفیق الرحمن نے مرتب کر کے مزید اضافوں
کے ساتھ اسے کتابی صورت میں شائع کیا۔
وفات: افسوس کہ ان کے اُٹھ جانے سے چھانگا مانگا اداس ہو گیا
اور دینی حلقوں میں یہ خبر بڑے حزن وملال کے ساتھ سنی گئی کہ ملک بشیر احمد ۱۷ جولائی ۲۰۱۸ء کو طویل علالت کے بعد ۸۷ سال کی عمر میں اپنے گھر چھانگا مانگا میں علی الصبح وفات پا
گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!
ان کی نماز جنازہ شیخ الحدیث مولانا حافظ مسعود عالمd نے
پڑھائی اور انہیں مقامی بڑے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ حافظ محمد یحییٰ آف جڑانوالہ
نے قبر پر دعا کرائی۔ علماء کرام‘ علم دین کے طلبہ‘ شہد کے تاجر طبقہ اور احباب جماعت
سے گہرے تعلقات کی وجہ سے دور دراز سے ہزاروں لوگ نماز جنازہ میں شریک ہوئے۔ مرحوم
نے اپنے پیچھے ایک صاحبزادی‘ چار بیٹے اور ۲۶ نواسے پوتے مذکر
ومؤنث سوگوار چھوڑے۔
یہ بڑی اطمینان بخش بات ہے کہ مرحوم نے اپنی تاجرانہ زندگی کے
باوجود وفات سے پہلے ہی لوگوں سے اپنا لین دین صاف کر لیا تھا۔ مرحوم نے اللہ تعالیٰ
کی توفیق سے تقویٰ وطہارت‘ صالحیت اور صبر واستقامت سے زندگی گذاری۔ اللہ تعالیٰ ان
کی حسنات قبول فرمائے اور بشری لغزشوں سے درگذر فرماتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ
مقام عطاء فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔ آمین!
No comments:
Post a Comment