ہر شخص ذمہ دار ہے!
امام الحرم المکی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر اُسامہ خیاط d
حمد و ثناء کے بعد!
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو! اس کا حکم بجا لاؤ، جن گناہوں اور
برائیوں سے اس نے منع کیا اور جھڑکا ہے، ان سے دور رہو۔ اس کی وافر نعمتوں کا تہہ دل
سے شکر ادا کرو، اس سے پیار کرو، اسے عظیم جانو اور اس سے ڈرو۔ اسی سے امیدیں وابستہ
کرو اور ہر کام پورے اخلاص کے ساتھ صرف اسی کے لیے کرو۔ اسی کی طرف رجوع کرو، اسی پر
بھروسہ کرو، زبان سے بھی شکر ادا کرو، اللہ کی حمد وثنا بیان کرو، کثرت سے اس کا ذکر
کرو، اس سے معافی مانگو، اس کی راہ کی طرف بلاؤ۔ اس کی کتاب کی تلاوت کرو، لوگوں کو
دین کے احکام سکھاؤ، انہیں اللہ کے غضب کے موجب اور اس کی سزاؤں کو دعوت دینے والے
کاموں سے خبردار کرو۔ اپنے اعمال سے بھی شاکر بنو۔ واجبات ادا کرو، فرضوں کا اہتمام
کرو، سب کام شریعت کے مطابق کرو اور سنت نبیe پر قائم رہو۔
اللہ کے بندو! اہل ایمان کی عظیم ترین صفات اور اللہ کے مخلص
پرہیز گار بندوں کی علامتوں میں سے ایک وہ علامت بھی ہے کہ جس سے وہ کافروں سے، اللہ
کے رسولوں اور اس کی آیات کے منکروں سے الگ ہو جاتے ہیں۔ اللہ اپنے ایسے بندوں کو زندہ
دلی سے نوازتا ہے، ان کی روحوں کو بلندی سے نوازتا ہے اور انہیں احساس جیسی عظیم نعمت
عطا فرماتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں ایمان کی صفت سے انہیں
پکارتا ہے، فرماتا ہے:
’’اے لوگو جو ایمان
لائے ہو۔‘‘ (البقرۃ: ۱۰۴)
تو وہ اس پکار کو پوری توجہ کے ساتھ سنتے ہیں، کان لگا کر، خشوع
سے بھرے دلوں سے، سمجھنے کے لیے تیار عقلوں سے اللہ کی بات سنتے ہیں۔ کیونکہ وہ خوب
جانتے ہیں کہ اس پکار کے بعد یا تو انہیں کسی خیر کا حکم دیا جائے گا، یا انہیں کسی
برائی سے روکا جائے گا۔
جن مقامات میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اس انداز میں مخاطب
کیا ہے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے، فرمانِ الٰہی ہے:
’’اے لوگو جو ایمان
لائے ہو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور
پتھر ہوں گے‘ جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے‘ جو کبھی اللہ کے حکم
کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔‘‘ (التحریم:
۶)
اللہ کے بندو! مخاطب کرنے کا یہ ایک عظیم انداز ہے۔ اس کے بعد
یہ بیان کیا گیا ہے کہ انسان اپنا بھی ذمہ دار ہے اور اپنے ما تحتوں کا بھی ذمہ دار
ہے، جن میں گھر والے، اولاد اور قریبی رشتہ دار شامل ہیں۔ یہ ذاتی اور خاندانی ذمہ
داری انسان پر لازم کرتی ہے کہ خود کو اور اپنے قریبی لوگوں کو اللہ کے عذاب سے بچائے
رکھے، سب کو اپنے ساتھ ایسے قلعے میں محفوظ کر لے جو قیامت کے دن اسے اور انہیں اللہ
کے عذاب سے بچا لے۔ کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کا اپنا نصیب اس کی گردن میں
لٹکا رکھا ہے۔ یعنی: وہ جو بھی اچھا یا برا کام کرتا ہے، وہ اس کے ساتھ چسپاں کر دیا
جاتا ہے۔ اسے اس کی سزا مل کر رہتی ہے، قیامت کے دن اس کا حساب کتاب ہوتا ہے تو وہ
اسے اپنے سامنے کھلے صحیفے میں موجود پاتا ہے۔ بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں
کی ذمہ داری کو بھی اس کے ساتھ جوڑ رکھا ہے جو اس کے ما تحت ہیں، یا جن کی نگہداشت
اس کے ذمے ہے، چاہے وہ گھر والے ہوں یا اس کی اپنی نسل ہو۔ رسول اللہ eکے فرمان میں،
(جسے امام بخاری اور امام مسلم نے سیدنا عبداللہ بن عمرw سے روایت کیا ہے) آتا ہے کہ آپe نے
فرمایا: سنو! تم سب ذمہ دار ہو اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے
گا۔ لوگوں کا سربراہ بھی ذمہ دار ہے اور اسے اپنی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے
گا۔ ہر شخص اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اور اسے اپنی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا
جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر کی اور اس کی اولاد کی ذمہ دار ہے اور اسے اپنی ذمہ
داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ غلام اپنے مالک کے مال کا ذمہ دار ہے اور اسے اس کی ذمہ
داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ سنو! تم میں سے ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی
ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ انتہائی اہم ذمہ داری اور عظیم
امانت ہے، جس کا ہر مؤمن سے یہ تقاضا ہے، جو اللہ پر ایمان رکھتا ہو، اس کی ملاقات
پر یقین رکھتا ہے، اس کی جزا، سزا، حساب اور عذاب کو سچ سمجھتا ہو، کہ وہ اپنے آپ کو
اور ان تمام لوگوں کو جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس کے ما تحت رکھا ہے، یعنی گھر والوں،
بیٹوں، بیٹیوں اور رشتہ داروں کو ان تمام کاموں سے بچائے جو قیامت کے دن انہیں جہنم
میں اور اس گرم، جلا دینے والی اور ہلاک کر دینے والی آگ میں دھکیلنے والے ہوں۔ یہ
کام تب ہی ہو سکتا ہے جب انسان خود اپنے آپ کو اور اپنے تمام گھر والوں کو اللہ اور
اس کے رسول کے احکام کا پابند بنا لے، ان کی نافرمانی سے دور کر لے۔ اس کام میں سب
سے زیادہ معین اور سب سے زیادہ اثر رکھنے والی چیز اللہ تعالیٰ کی توحید ہے۔ یعنی صرف
اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے، دعا ہو یا نماز، رکوع ہو یا سجود، روزہ ہو یا زکوٰۃ،
حج ہو یا نذرانہ، قربانی ہو یا قسم، محبت ہو یا خوف، امید ہو یا بھروسہ، رجوع ہو یا
انکساری، عاجزی ہو یا خضوع، یا عبادت کی کوئی شکل بھی ہو، سب پورے اخلاص کے ساتھ، صرف
اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے، اس کی شریعت کے مطابق اور اس کے رسول کے طریقے پر چلتے
ہوئے ادا کی جائے۔ اس کی نافرمانی سے بچا جائے۔ نافرمانی کی بد ترین شکل یہ ہے کہ اللہ
کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے، یہ ایسا جرم ہے کہ جس سے انسان کی عاقبت تباہ ہو جاتی
ہے۔ شرک یہ ہے کہ عبادت کی کوئی شکل غیر اللہ کے لیے کر لی جائے۔ یہ ایسا گناہ ہے کہ
اگر اسے کرتے ہوئے کوئی فوت ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف نہیں کرتا۔ فرمانِ الٰہی
ہے:
’’اللہ بس شرک ہی
کو معاف نہیں کرتا، اِس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف
کر دیتا ہے اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھہرایا اُس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ
تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی۔‘‘ (النساء: ۴۸)
اسی طرح اللہ
تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے تمام گناہوں اور غلطیوں سے سچی توبہ کرنی چاہیے۔
فرمانِ الٰہی ہے:
’’اے مومنو! تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے۔‘‘
(النور: ۳۱)
اسی طرح فرمایا:
’’اے لوگو جو ایمان
لائے ہو! اللہ سے توبہ کرو، خالص توبہ۔‘‘ (التحریم: ۸)
توبہ اسی صورت میں سچی ہو سکتی ہے جب گناہ کو چھوڑ دیا جائے،
اسے کرنے پر سچی ندامت ہو اور اس پر افسوس کیا جائے، اسے دوبارہ کبھی نہ کرنے کا پختہ
ارادہ کیا جائے۔ اگر گناہ حقوق العباد سے متعلقہ ہو تو لوگوں کے غصب کردہ حقوق اور
ظلم وزیادتی سے لی جانے والی متعلقات لوٹائی جائیں۔ چند چیزیں ایسی ہیں کہ جو اگر انسان
توبہ کے ساتھ انہیں بھی اپنا لے تو وہ خود کو جہنم کی آگ سے بچانے میں کامیاب ہو سکتا
ہے۔ ان چیزوں میں مکمل طریقے سے اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنا، باقاعدگی کے ساتھ خود کا
محاسبہ کرنا، پوری توجہ اور غور وفکر کے ساتھ تلاوت قرآن کرتے رہنا، فرض ادا کرنے کے
بعد نفل عبادتوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا، ایسے نیک لوگوں کے ساتھ رہنا
جو بھولنے کی صورت میں اسے یاد دہانی کرائیں، جب وہ توانا ہو تو نیکی میں اس کی مدد
کریں، پھر اہل ایمان کے لیے اچھی چیزیں پسند کرنا، انہیں اذیت دینے سے باز رہنا، ہر
طرح سے ان کا بھلا کرنے کی کوشش کرنا، ان کے ساتھ پر خلوص رویہ اپنانا اور انہیں مبالغہ
آرائی کی برائی اور احکام الٰہی کے سامنے سر کشی جیسے سنگین گناہوں سے منع کرنا۔ اللہ
تعالیٰ فرماتا ہے:
’’آخر کار جب انہوں
نے ہمیں غضب ناک کر دیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا۔‘‘ (الزخرف: ۵۵)
اللہ کو غضبناک کرنے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ انسان اللہ کی
پکڑ اور اس کے عذاب الیم کا مستحق بن جاتا ہے۔ جب انسان توبہ کے ساتھ ان نیکیوں کو
بھی اپنا لیتا ہے تو بڑی امید ہے کہ وہ جہنم کے عذاب سے بچنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
رہی بات اپنے گھر والوں، بیٹوں، بیٹیوں اور تمام ما تحتوں کی
تو انہیں جہنم سے بچانے کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں نیکی کا حکم دیا جائے، برائی سے منہ
کیا جائے، سکھایا جائے، رہنمائی کی جائے، ادب سکھایا جائے، ان کا دھیان رکھا جائے اور
نگرانی کی جائے، ان کے احوال کا جائزہ لیا جائے، وہ کس کے ساتھ بیٹھتے ہیں، کس کے ساتھ
رہتے ہیں، مگر یہ سب کام انتہائی حکمت والے انداز میں، جس میں عزم بھی ہو اور سختی
بھی ہو، نرمی بھی ہو، آسانی بھی ہو اور بردباری بھی ہو۔ ہر موقع کی مناسبت سے مختلف
طرز اپنایا جائے۔ سمجھدار وہ ہوتا ہے جو ہر چیز کو اس کی صحیح جگہ پر رکھتا ہے۔ حلال
اور اچھے کاموں کی حدود میں رہتے ہوئے حالات کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ وہ ایسے طبیب
کی مانند ہوتا ہے جومرض کو پہچان لیتا ہے اور اس کے مطابق مناسب مقدار اور مناسب وقت
پر دوا تجویز کر دیتا ہے۔ وہ خوب سمجھتا ہے کہ رسول اللہ e نے اچھے اور برے دوست کی مثال کیسی دی ہے۔ فرمانِ نبوی
ہے: اچھے اور برے ساتھی کی مثال ایسی ہی ہے جیسے عطر فروش اور بھٹی دھونکنے والا۔ مشک
فروش کے ساتھ بیٹھیں گے تو اس سے عطر خرید لیں گے یا اچھی خوشبو تو بہر حال نصیب ہو
ہی جائے گی، جبکہ بھٹی دھونکنے والے کے ساتھ بیٹھ کر آپ کے کپڑے جل جائیں گے یا اس
سے بدبو تو آتی ہی رہے گی۔
اس یاد دہانی میں ہر طرح کی محفلیں شامل ہیں، چاہے وہ عام اور
روایتی محفلیں ہوں یا سوشل میڈیا کے گروپس وغیرہ ہوں، یا محفل کی جدید شکلوں میں سے
کوئی سی بھی شکل ہو، جو انتہائی عام ہو چکی ہیں، بہت زیادہ استعمال ہوتی ہیں، جن کی
تاثیر بھی بہت زیادہ ہے اور عاقبت کے حوالے سے انتہائی خطرناک بھی ہیں۔ جو نبی اکرم
e کی
اس یاد دہانی سے منہ پھیر لیتا ہے، خواہش نفس کا پیروکار بن جاتا ہے اور اپنے ما تحتوں
کی ذمہ داری ضائع کر دیتا ہے تو اپنے آپ کو دنیا وآخرت کے گھاٹے میں ڈالتا ہے، کیونکہ
ماتحتوں کے حوالے سے عائد ہونے والی امانت میں خیانت کرتا ہے، ان کی اصلاح، رہنمائی
اور راہ حق پر ان کی تربیت میں کوتاہی کرتا ہے۔ وہ شخص اس لیے بھی ہلاکت میں پڑ جاتا
ہے کہ وہ اپنے اس رویے کی وجہ سے انہیں دور کر دیتا ہے، ان کے دلوں میں اس کے لیے نفرت
بیٹھ جاتی ہے اور وہ اس پر حملے کرنے لگتے ہیں۔ وہ اس کے جگری دوست بننے کی بجائے اس
کے بد ترین دشمن بن جاتے ہیں۔ بھلا اس سے بڑی مصیبت اور کیا ہو سکتی ہے، اس سے بڑی
ندامت اور کیا ہو سکتی ہے؟ وہ طویل مدت کے لیے افسوس کا شکار ہو جاتا ہے۔ اللہ کے بندو!
اللہ سے ڈرو! اپنے پروردگار کی اطاعت اور اس کی نافرمانی سے بچ کر اس کی خوشنودی اور
جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ بناؤ۔
دوسرا خطبہ
حمد وصلوٰۃ کے بعد:
اے اللہ کے بندو! امام ابو بکر بن العربی a اس
آیت کی تشریح اور وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’اے لوگو جو ایمان
لائے ہو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور
پتھر ہوں گے۔‘‘ (التحریم: ۶)
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے آپ کو دو رکر لو، اور مزید وضاحت
کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
یعنی اپنے اور اللہ کی آگ کے درمیان کوئی بچانے والی چیز حائل کر لو۔ رسول اللہ
e نے
بھی اسی مفہوم کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: آگ سے بچو، چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے،
اگر وہ بھی میسر نہ ہو تو اچھی بات کے ذریعے۔ (بخاری ومسلم)
پھر فرمایا: چنانچہ ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ فرماں برداری اختیار
کر کے اپنی اصلاح کرے، پھر اپنے گھر والوں کی اصلاح ویسے کرے جیسے کوئی رہنما اپنی
قوم کی کرتا ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ e نے فرمایا: تم سب ذمہ دار ہو اور ہر ایک سے اس کی ذمہ
داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ امام ذمہ دار ہے اور اس سے اپنی ذمہ داری کے بارے
میں پوچھا جائے کا، ہر بندہ ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا
جائے گا۔ … الی آخرہٖ۔
حسن بصریa اس
آیت کے بارے میں فرماتے ہیں:
یعنی اپنے گھر والوں کو بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔ عمرو بن شعیب نے اپنے
والد سے اور انہوں نے دادے سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ e نے فرمایا: سات سال کی عمر میں اپنے بچوں کو نماز کا
حکم دیا کرو۔ دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر سزا دیا کرو اور ان کے بستر بھی الگ
کر دو۔‘‘ (ابوداؤد)
اسی طرح ابن العربیa بیان کرتے ہیں:
یعنی وہ اپنے گھر والوں کو نماز کے اوقات بتائے، چاند کو دیکھ کر یہ بھی بتائے
کہ روزہ کب رکھنا ہے اور کب نہیں رکھنا۔ امام مسلم نے سیدنا عروہ t سے
اور انہوں نے سیدہ عائشہ r سے
روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا: رسول اللہ e رات کے وقت طاق عدد میں رکعتیں ادا کرتے۔ جب وتر پڑھ
لیتے تو فرماتے: ’’عائشہ! اٹھ کر وتر پڑھ لو۔‘‘ اسی طرح امام ابو داؤد، امام نسائی
اور امام احمد نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ t نے
بیان کیا کہ رسول اللہ e نے
فرمایا: ’’اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کے وقت اٹھ کر تہجد پڑھے اور اپنی بیوی
کو جگائے اور وہ بھی پڑھے۔ اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ اللہ اس عورت پر رحم کرے جو رات کے وقت اٹھ کر تہجد
پڑھے اور اپنے شوہر کو بھی جگائے اور وہ بھی پڑھے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے منہ پر
پانی کے چھینٹے مارے۔‘‘ اس حوالے سے آپ e کا یہ فرمان بھی ہے کہ ’’حجروں والیوں کو جگاؤ۔‘‘ یعنی،
امہات المؤمنین کو جگاؤ۔ یعنی تہجد کے لیے۔ ابن العربی بیان کرتے ہیں: یہ حکم اللہ
تعالیٰ کے اس عمومی حکم میں آتا ہے کہ
’’جو کام نیکی اور
خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں
کسی سے تعاون نہ کرو، اللہ سے ڈرو، اس کی سز ا بہت سخت ہے۔‘‘ (المائدہ: ۲)
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما! دین کے مرکز کی
حفاظت فرما! دشمنان دین کو اور تمام سرکشوں اور فسادیوں کو ہلاک فرما! مسلمانوں کے
دلوں کو جوڑ دے! ان کی صفوں کو درست فرما! ان کے حکمرانوں کی اصلاح فرما! اے پروردگار
عالم! انہیں حق پر اکٹھا فرما!
اے اللہ! اپنے دین، اپنی کتاب، سنت رسول e اور
اپنے مؤمن، مجاہد اور سچے بندوں کی مدد فرما۔ آمین!
No comments:
Post a Comment