تقاریب بخاری شریف کی تاریخی حیثیت
(قسط دوم) تحریر: جناب مولانا صاحبزادہ برق التوحیدی
حضرات محدثین و
علماء کا جب فرحت و مسرت میں یہی حال نہیں کہ وہ صرف کسی دعوت کا اہتمام کرتے بلکہ
اپنے مشائخ پر بھی محبت و عقیدت میں خوب گلہائے تحسین و آفرین نچھاور کرتے۔ چنانچہ
محمد بن صالح کہتے ہیں کہ جب امام ذہلی رحمہ اللہ شہید کر دیئے گئے تو لوگوں کو مجالس
حدیث سے روک دیا گیا‘ کسی کو ہمت نہ تھی کہ وہ حکم عدولی میں قلم دوات لے کر چلے۔ اس
صورتحال میں ابو عثمان الحیری نے لوگوں کو اپنی مسجد میں جمع کیا اور حکم دیا کہ تمام
لوگ اپنے ہاتھوں میں دواتیں اُٹھائے نکلیں۔ چنانچہ خود بھی اسی حالت میں لوگوں کے ساتھ
نکلے او ر ایک شخص کو اپنے آگے بٹھاکر مجلس حدیث شروع کر دی ۔ حاضرین کی تعداد کا
اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک ہزار دوات تھی تو
[فلمّا فرغ قاموا
فقبّلوا رأس أبی عثمان رحمہ اللہ، ونثر النّاس علیہم الدَّرَاہم والسُّکَّر، وذلک
فی سنۃ ثلاثٍ وسبعین ومائتین۔] (تاریخ اسلام للذھبی: ج ۲۲/۱۵۲)
’’ جب مجلس حدیث
برخاست ہوئی تو حاضرین وسامعین نے اپنے شیخ اور استاد ابو عثمانa تعالیٰ
کے سر کو بوسہ دیا او ر ان پر درہم اور مٹھائی نچھاور کی یہ ۲۷۳ھ کا واقعہ ہے۔ ‘‘
امام ابراہیم بن عبداللہ ابو مسلم الکجی کے متعلق آتا ہے کہ
بصرہ میں آپ کا ایک نمائندہ تھا جو وہاں سے کھجوریں بغداد بھیجتا اور خرید و فروخت
کرتا‘ ایک مرتبہ جب حدیث بیان کی تو اسے لکھا :
[إنی قد حدثت وصدّقت
فی حَدِیث رَسُول اللَّہﷺ فتصدق بما عندک من التمر أو بثمنہ إن کنت بعتہ شکرا للَّہ
تعالی علی ذلک۔] (المنتظم: ۱۳/۳۵)
’’میں نے نبی اکرم
e کی
حدیث بیان کی اور اس میں سچ بولا لہٰذا تم اس پر اللہ تعالیٰ کے شکر میں وہ تمام کھجوریں
صدقہ کر دو‘ اگر تم نے وہ کھجوریں فروخت کر دی ہوں تو ان کی قیمت صدقہ کر دیجیے۔‘‘
اسی طرح ان کے متعلق ہے کہ اُنہوں نے حدیث پاک میں ’’ السنن‘‘
لکھی جس کا بے شمار لوگوں نے ان سے سماع کیا ان میں ایک فاروق بن عبدالکبیر االخطابی
بھی ہیں وہ بتا تے ہیں :
[فلما فرغنا عن السنن
علی ابی مسلم عمل لنا مأدبۃ ، انفق فیہا الف دینار۔] (تاریخ اسلام ذہبی: ۲۲/۹۹، السیر:
۱۳/۴۲۵)
’’جب ہم ان سے
’’ السنن ‘‘ کے سماع سے فارغ ہوئے تو اُنہوں نے ایک ہزار دینار خرچ کرکے دسترخوان سجایا۔‘‘
جبکہ ابن مسلم ان کے متعلق کہتے ہیں :
[بلغنی ان ابا مسلم
کان نذر ان یتصدق اذا حدث بعشرۃ آلاف درہم۔] (تاریخ بغداد: ۶/۱۲۲، المنتظم:
۱۳/۳۴)
’’مجھ تک یہ بات
پہنچی کہ امام ابو مسلم الکجیa نے
نذر مان رکھی تھی کہ جب حدیث بیان کریں گے تو دس ہزار درہم صدقہ و خیرات کریں گے۔‘‘
گو یا حدیث کے طلبہ ہی کو مسرت و فرحت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے
مشائخ و اساتذہ کو بھی فرحت ومسرت کا اظہا کرنا چاہیے کہ اُنہیں یہ سعادت مل رہی ہے
کہ اُنہوں نے اتنی مرتبہ فلاں کتاب اور اتنی مرتبہ فلاں کتاب پڑھائی اور وہ اس پر تحسین
و آفریں کے مستحق ہیں۔
حدیث شریف کی تعلیم و تدریس میں حضرات محدثین کو کتنی گہر ی
دلچسپی رہی اس کا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ حافظ ابن حجرa نے ایک ہزار سے زائد مجالس املاء قائم کیں جبکہ ان کے
شیخ حافظ عراقی نے چار ہزار مجلس املاء کا انعقاد کیا۔ اسی طرح زین الدین بن عبدالرحیم
العراقی اور ابو الفضل احمد بن عبدالرحیم عراقی نے چھ سو سے زائد مجالس املاء کا انعقاد
کیا ۔ امام سیوطیa نے
ایک سو سے زائد جبکہ علامہ سخاویa چھ سو سے زائد مجالس املاء کا انعقاد کیا۔ (ختمات صحیح
البخاری ، یوسف الکتانی )
علامہ فیروز آبادی نے الا حادیث المشتہرہ کا ختم کیا اور علامہ
محمد مرتضی زبیدی نے مسند ابو دائود کا ختم کیا ۔
اسی طرح محمد بن جعفر الکتانی نے صحیح مسلم اور مو طا امام مالک
کا ختم کیا ، شیخ البطا روی نے مو طا کا ختم کیا ۔
برصغیر (پاک و ہند ) میں مسند ولی اللّٰہی کے جانشین اور سید
محمد اسحاقa کی
مسند حدیث کے وارث شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کی حدیث سے دلچسپی بالخصوص صحاح
ستہ کی تدریس و تعلیم سے محبت و مہارت قرون اولیٰ کے محدثین کی یاد زندہ کرتی ہے۔ اس
کے متعلق لکھا گیا ہے کہ
’’اب صحاح ستہ اور
جلا لین پورے ایک سال میں ختم کرتے ہیں اور فرمایا کرتے کہ میں پہلے حدیث ’’انما الاعمل
بالنیات‘‘ ہی کو ۲۷ روز میں پڑھاتا
تھا مگر اب وہ زمانہ نہیں بلکہ اب تو ہتھیلی پر سرسوں جماتا ہو ں … میں نے صحاح ستہ
کو گلستان بوستان کر دیا ہے۔ ‘‘ (الحیات بعد الممات: ص ۱۴۳)
علامہ سید عبدالحي لکھنوی شیخ الکل کے تعارف میں لکھتے ہیں
:
[وانی …حضرت دروسہ
فوجدتہ اماما جوالا فی الحدیث والقرآن، حسن العقیدۃ، ملازما للتدریس لیلا ونہارا
… (وقال) شیخنا حسین بن محسن الانصاری فی حق السید نذیر حسین …الامام الفرد الہمام…
فرد زمانہ ومسند وقتہ واوانہ ومن اجل علماء العصر، بل لاثانی لہ فی اقلیم الہند فی
علمہ وحلمہ وتقواہ وانہ من الہادین والمرشدین الی العمل بالکتاب والسنۃ والمعلمین لہما،
بل أجل علماء ہذا العصر المحققین فی ارض الہند اکثرہم من تلامذتہ وعقیدتہ موافقۃ لعقیدۃ
السلف الموافقۃ لکتاب والسنۃ۔] (الاعلام: ۸/۵۲۵)
میں ان کے دروس میں حاضر ہوا ہوں‘ میں نے ان کو قرآن و حدیث کا شاہسوار پایا ہے‘
وہ عمدہ عقیدہ کرنے والے اور رات دن تدریس
میں مصروف رہتے تھے … ہمارے شیخ حسین بن محسن انصاریa نے سید نذیر حسینa کے حق میں کہا ہے وہ یکتائے روز گار امام ذی شان ہیں
اپنے دور کے دریکتا اور مسند کے بے تاج بادشاہ اور اپنے تمام ہم عصر علماء سے بلند
وبالا ہیں بلکہ پورے ہند میں ان کے علم و فضل او ر حلم و تقوی میں ان کا کوئی ثانی
نہیں وہ قرآن و سنت پر عمل کے داعی اور راہنما ہیں اور ان دونوں کی تعلیم و تدریس
کرنے والوں میں سے ہیں جبکہ آج کے دور میں ہندوستان کے سب علمائِ محققین سے وہ اپنے
شاگردوں اور تلامذہ کی کثرت تعداد میں ممتاز ہیں اور ان کا عقیدہ سلف صالحین کے کتاب
و سنت کے موافق عقیدہ جیسا ہے ۔
جب بالعموم حدیث پاک کے حصول اور کتب حدیث کی تعلیم پر محدثین
کی یہ روایت ہے کہ وہ اس علم شریف کی عظمت و حرمت اور مقام و مرتبہ کی بنا اس کے حصول
پر یوں اظہار ِمسرت و فرحت کرتے ہیںکہ ان کا شاندار استقبال کیا جاتا ہے‘ ان پر محبت
و عقیدت اور اکرام و احترام کے پھو ل نچھاور کیے جاتے ہیں ۔ ابو حفص الزیات بتا تے
ہیں:
[لما ورد الفریابی
إلی بغداد استقبل بالطنبارات والزبازب ثم اوعد لہ الناس إلی شارع المنار لیسمعوا منہ
فحزر من حضر مجلسہ لسماع الحدیث فقیل کانوا نحو ثلاثین الفا وکان المستملون ثلاثمائۃ
وستۃ عشر۔] (تذکر ۃ الحفاظ: ۲/۶۹۳)
’’حافظ ابوبکر جعفر
بن محمد الفریابی جب بغداد تشریف لائے تو ان کا استقبال ستار اور طبلو ں سے کیا گیا
پھر لوگوں نے ان سے شارع انمار پر حدیث سننے کے لیے وقت لیا‘ چنانچہ حدیث کے لیے اس
مجلس سماع میں تیس ہزار آدمی حاضر ہوئے جن میں سے ۱۱۶ حضرات املا کرنے
والے تھے۔‘‘
پھر امام بخاریa کی
’’الجامع الصحیح‘‘ کی تعلیم وتدریس اور اس کی تکمیل پر تو اس قسم کا اظہار مسرت وفرحت
بالا ولیٰ ہونا چاہیے کہ جس طرح امام بخاریa کو تمام محدثین پر بوجوہ فضیلت و برتری حاصل ہے اور
وہ ’’امیر المؤمنین فی الحدیث‘‘ ہیں، اسی طرح ان کی کتاب ’’الجامع الصحیح‘‘ کو بھی
دیگر کتب حدیث پر اولویّت واولیّت حاصل ہے حتی کہ اسے۔ اصح الکتب بعد کتاب اللہ الجامع
الصحیح للبخاری۔ کتاب اللہ کے بعد سب سے صحیح ترین کتاب کہا گیا ہے ۔ چنانچہ جس طرح
امام بخاریa کو
اس کارنامہ پر اللہ تعالیٰ نے عزت مدام اور قبول عام نصیب فرمایا اور وہ واجعل لی لسان
صدق فی الآخرین کا مصداق و مظہر بنے۔ اسی طرح ان کی کتاب ’’الجامع الصحیح‘‘ کو بھی
شہرت دوام و قبول عام نصیب ہوا اگر لوگوں نے
ایک طرف امام بخاریa کا
یوں استقبال کیا ۔ کہ احمد بن منصور الشیرازی بتا تے ہیں:
[لما رجع ابوعبداللہ
البخاری الی بخاری نصبت لہ القباب علی فرسخ من البلد واستقبلہ عامۃ أہل البلد حتی
لم یبق مذکور ونثر علیہ الدراہم والدنانیر۔] (الھدی الساری: ۴۹۳)
جب امام بخاریa بخارا
واپس آئے تو شہر سے باہر کئی میل تک لوگوں نے خیمے لگا لیے اور سبھی شہر والے ان کے
استقبال کو نکلے اور ان پر درہم ودینار نچھاور کیے گئے۔
تو دوسری طرف جن لوگوں نے ان سے ’’ الجامع الصحیح ‘‘ کے سماع
کے لیے بھی دور دراز کا سفر طے کرکے امام بخاری سے شرف تلمذ پایا ۔ بقول امام فربری
ان کی تعداد ۹۰ ہزار ہے۔ چنانچہ
لوگوں نے ’’ الجامع الصحیح ‘‘ کے سماع کو بھی اپنے لیے غنیمت سمجھا اور اس کے سماع
سے حصولِ فرحت و مسرت کی سعادت پائی۔ یہی نہیں بلکہ قرآن کریم کی طرح اس کی قرأت
کو معمول بنانے کا شرف بھی پایا۔ جیسا کہ عظیم محدث امام ابو بکر غالب بن عبدالرحمن
ابن عطیہ الاندلسی المالکی م ۵۱۸ھ کے متعلق امام
ابن بشکوال نے لکھا ہے :
[کان حافظا للحدیث
وطرقہ وعللہ عارفا بالرجال، ذاکرالمتونہ ومعانیہ، قرأت بخط بعض أصحابنا أنہ سمعہ
یذکر أنہ کرر علی ’صحیح البخاری‘ سبعمائۃ مرۃ۔] (السیر: ۱۹/۵۸۷)
آپ حدیث اور اس کی اسناد و علل کے حافظ، رجال کی معرفت رکھنے والے اور متون و
معانی کو یاد رکھنے والے تھے ۔ میں نے اپنے بعض ساتھیوں کا لکھا ہوا پڑھا ہے کہ اس
نے ان کو یہ ذکر کرتے سنا ہے کہ اُنہوں نے صحیح بخاری کو سات سو مرتبہ پڑھا۔
ابو بکر بن محمد
بن عبداللہ القاھری الحنفی کے متعلق آتا ہے:
[انہ قرأ صحیح البخاری
الی سنۃ ثمانین خمسا و تسعین مرۃ وقرأہ بعد ذلک مرارا کثیرۃ۔] (الضوء اللامع:
۱۱/۷۱)
’’اُنہوں نے الجامع
الصحیح للبخاری کو ۸۰ھ تک پچانویں (۹۵ ) مرتبہ پڑھا اور
اس کے بعد بھی بہت مرتبہ پڑھا۔‘‘
سلیمان بن ابراہیم ابو الربیع الزھدی الحنفی الیمنی العلوی خود
اپنے متعلق کہتے ہیں :
[قرأت البخاری اکثر
من خمسین مرۃ۔] (الضوء اللامع: ۳/۲۳۱)
’’میں نے بخاری شریف
کو پچاس سے بھی زیادہ مرتبہ پڑھا ۔ ‘‘
بر صغیر میں مسند ولی اللّٰہی کے وارث شیخ الکل سید نذیر حسین
محدث دہلوی ؒکے متعلق ا ن کے سوانح نگار نے لکھا ہے۔ مولوی عزیز احمد صاحب اپنی یادداشت
میں لکھتے ہیں:
’’میں نے خود کئی
بار حضرت سے پو چھا کہ صحاح اور خصوصاً صحیح بخاری حضور نے کیَ مرتبہ (کتنی مرتبہ)
درس دی ہو گی ؟ ارشاد فرمایا: کیا شمار بتائوں، اللہ کو علم ہے، میری یاد صحیح ہے تو
کئی سو بار پڑھائی ہوگی۔‘‘ ( الحیات بعد الممات: ۵۴)
اسی بات کو فضیلۃ الشیخ ابو الا شبال صغیر احمد شاغف بہاریd نے
ان الفاظ میں ذکر کیا ہے:
[وقد کتب المولوی
عزیز احمد فی تذکرتہ، انا استفسرت میان صاحب عن تعداد تدریسہ صحیح البخاری فقال: واللہ
اعلم بالصواب لکن اذکر تعداد تدریسی ایاہ وہی قد تفضل علی المائۃ علی اقل۔] (قرۃ العین
فی حیاۃ السید نذیر حسین: ۳۵)
مولانا عزیز احمد نے کہا ہے کہ میں نے شیخ الکل سے پو چھا: آپ
نے بخاری شریف کتنی مرتبہ پڑھائی تو فرمایا: اللہ ہی صحیح جانتا ہے البتہ مجھے یاد
پڑتا ہے کہ میں نے کم از کم ۱۰۰ مرتبہ سے زیادہ مرتبہ صحیح بخاری پڑھائی ہے۔
شیخ الکل محدث دہلویa کے تلمیذ خاص استاذ ِپنجاب حافظ عبدالمنان وزیر آبادیa کے
متعلق مولانا سید عبدالحي لکھنوی لکھتے ہیں:
[انفرد بہ فی تلامذۃ
السید نذیر حسین المذکور، فلم یبلغ احد رتبتہ فی کثرۃ الدرس والا فادۃ ولم یقاربہ
… فدرّس الصحاح الستۃ اکثر من خمس وثلاثین مرۃ۔] (الاعلام: ۸/۳۳۲)
یعنی ’’سید نذیر حسینa کے
تمام تلامذہ میں سے حافظ عبدالمنان وزیر آبادیa بڑے منفرد ہیں کہ درس وتدریس اور فیض پہنچا نے میں اور
کوئی ان کے مرتبہ کو نہیں پہنچا ، مرتبہ کو پہنچنا تو دورکی بات ہے کوئی ان کے مرتبہ
ومقام کے قریب تک بھی نہیں گیا … اُنہوں نے پینتیس (۳۵ )مرتبہ سے زیادہ مرتبہ صحاح ستہ کو پڑھا یا ہے۔ ‘‘
جبکہ حافظ عبدالمنان وزیر آبادیa کے تلمیذ رشید اور خصوصی فیض یافتہ ہمارے شیخ ، خاتمہ
المحدثین شیخ المشائخ حضرت حافظ محمد گوندلویa نے بھی پچاس سے زائد مرتبہ بخاری شریف کا درس دیا کیونکہ
۱۹۳۲ء میں ان سے حضرت الحافظ محمد عبداللہ بڈھیالوی اور حضرت مولانا
محمد عطاء اللہ حنیفA نے
گوندالولہ میں بخاری شریف پڑھی اور آپ ۱۹۸۵ء کو رحلت فرماتے ہیں ۔ اگر مدینہ یونیورسٹی کے دو سال اور ایک سال بیماری میں
نا غہ کا نکال لیا جائے تو تدریس بخاری کا دورانیہ ۵۰ سال بنتا ہے ۔ جبکہ
ممکن ہے ان صاحبین کریمین سے پہلے بھی آپ نے درس بخاری دیا ہو ، ہمارے حضرت ممدوح
نے اس عرصہ میں گوند الا نوالہ کے علا وہ مدرسہ رحمانیہ دہلی ، اوڈ انوالہ ، جامعہ
سلفیہ ، جا معہ اسلامیہ گو جرانوالہ اور جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں درس بخاری شریف
دیا۔ راقم الحروف کو ۷۶-۱۹۷۵ء میں حضرت ممدو ح کے سامنے زانوے تلمذ طے کرکے درس بخاری لینے
اور اجازہ حدیث پانے کی سعادت نصیب ہوئی ۔
فللہ الحمد علی ذلک۔ …(جاری)
No comments:
Post a Comment