Sunday, July 14, 2019

درس قرآن وحدیث 12-2019


درسِ قرآن
ذخیرہ اندوزی
ارشادِ باری ہے:
﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾
’’اے ایمان والو! اپنے آپس كے مال نا جائز طریقہ سے مت کھاؤ۔‘‘
ہمارے معاشرے میں اشیاء خورد نوش کی ذخیرہ اندوزی کی صورت میں ایک نئے گناہ نے جنم لیا ہے اور اس عادت اور وطیرہ کو خاص مواقع کے ساتھ ایسےمختص کر دیا گیا ہے جیسےیہ کوئی گناہ نہیں بلکہ کاروباری  دانش مندی ہے جس سے زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کیا جاتا ہے۔ مثلا ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ ماہ رمضان آتے ہی یوٹیلٹی سٹوروں اور بازاروں سے عام استعمال کی غذائی  اشیا  غائب کر دی جاتی ہیں اور اس کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ غریب لوگوں اور عوام الناس کو تکلیف  میں مبتلا کر کے ان کو مہنگے داموں فروخت کریں ۔
احتکار عربی کا ایک خاص لفظ ہے جس کی تعریف ہے کہ: اشیاء ضرورت کو خرید کر رکھ چھوڑنا اور بازار میں مصنوعی قلت کی فضاء پیدا کرنا،اور لوگوں کو اذیت اور تکلیف میں مبتلاکرنا،  اس نیت سے کہ طلب اور مانگ بڑھ جائے تاکہ منہ مانگے داموں فروخت کرکے زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کیا جائے ، اور یہ ایسے وقت میں کیا جائے جب لوگ شدت سے اس چیز کے حاجت مند ہوں۔
مخلوق خدا کو مہنگائی کے اس دور میں گراں فروشی کی غرض سے اشیاء خوردنوش کی ذخیرہ اندوزی کر کے تکلیف اور قحط میں مبتلا کرنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے شریعت نے اس کی مذمت بیان کی ہے اور اس قابل نفرت فعل میں مبتلا ہونے والا شخص شریعت کی نظر میں انتہائی نا پسندیدہ ہے۔ اس بارے میں بے شمار احادیث وارد ہیں، اسی لیے حضور اکرم e نے فرمایا  ہے کہ ’’ذخیرہ اندوزی صرف گنہگار ہی کرتا ہے۔‘‘
اور دوسری روایت میں کچھ یوں ہے: [المحتکر ملعون] ’’ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے۔‘‘ ایک  اور روایت میں آپe نے فرمایا: [الجالب مرزوق والمحتکر ملعون] ’’تاجر کو رزق دیا جاتا ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے۔‘‘
اس لیے ہمیں چاہیے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام کے زریں اصولوں کو اپناتے ہوئے اپنے لیے دنیاو آخرت کی بھلائی کا سامان کریں ، کاروبار اور تجارت میں بھی ایسے ذرائع اپنائیں جن سے انسانیت بھی خو ش حال ہو اور آخرت میں کامیابی نصیب ہو، نہ کہ ایسے ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں جن سے لوگوں کے اموال کو غلط او رنامناسب طریقوں سے ہتھیا کر اپنے لیے رسوائی اور ناکامی کا خود ہی سامان کرتے رہیں ۔

درسِ حدیث
جنت اور جہنم میں لے جانے والے اسباب
فرمان نبویﷺ ہے:
[عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: مَا اَكْثَرُ مَا يُدْخِلُ الْجَنَّةَ؟ قَالَ: "تَقْوَى اللهِ، وَحُسْنُ الْخُلُقِ"، قَالَ: وَمَا اَكْثَرُ مَا يُدْخِلُ النَّارَ؟ قَالَ: "الْأَجْوَفَانِ: الْفَمُ وَالْفَرْجُ". ]
سیدنا ابوہریرہt سے روایت ہے کہ رسول اللہe سے پوچھا گیا کہ کون سے اعمال زیادہ تر جنت میں داخلے کا باعث ہیں؟ آپe نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کا خوف اور حسن اخلاق۔‘‘ انہوں نے دریافت کیا: وہ کونسا عمل ہے جو دوزخ میں جانے کا زیادہ سبب ہے؟ آپe نے فرمایا: ’’دو پیٹ (کے متعلق چیزیں) ایک زبان دوسری شرمگاہ۔‘‘ (الادب المفرد للبخاری‘ البانی: حسن)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ جولوگ اس کی عبادت سے منہ موڑتے ہیں وہ انہیں سزا دے گا اور جو اس کی بندگی کرتے ہیں انہیں اپنی نعمتوں سے نوازے گا۔ رسول اکرمe نے ایسے اعمال کی نشاندہی فرما دی جن پر عمل کر کے انسان کامیاب ہو گا اور ان کاموں کی مخالفت کے نتیجے میں عذاب الٰہی میں مبتلا ہو گا۔ مذکورہ حدیث میں یہی توجہ دلائی گئی ہے کہ جنت میں لے جانے والے اعمال کر کے اپنے آپ کو جہنم سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
جنت میں داخلے کے دو راستے اس حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ ایک اللہ کا خوف اور دوسرا حسن اخلاق۔ جس شخص کو اللہ کے سامنے پیش ہونے کا خوف ہو گا وہ ہر قسم کے برے اعمال سے بچنے کی کوشش کرے گا اور ان اعمال کی طرف رغبت کرے گا جن سے اللہ راضی ہوتا ہے‘ جس کے نتیجے میں جنت میں داخل ہو گا اور ہر قسم کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو گا۔ جنت میں لے جانے والا دوسرا عمل عمدہ اخلاق ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس کے بارے میں نبی مکرمe نے فرمایا کہ ’’میری بعثت کا مقصد عمدہ اخلاق کی تکمیل ہے۔‘‘ مزید فرمایا کہ ’’قیامت کے دن میرے قریب بیٹھنے والے وہی لوگ ہوں گے جن کے اخلاق اچھے ہوں گے۔‘‘ آپe نے لوگوں کے سامنے عمدہ اخلاق کا مظاہرہ فرمایا جس کے نتیجے میں آپe کے مخالف بھی آپe کے گرویدہ ہو گئے۔ اسی بات کی تعلیم حضور اقدسe نے اپنی امت کو دی ہے اور عمدہ اخلاق کو جنت میں داخلے کا سبب قرار دیا ہے۔
جہنم میں لے جانے والے اعمال میں سے دو جسمانی اعضاء کا ذکر فرمایا جن کی حفاظت نہ کرنے کے نتیجے میں لوگ جہنم میں داخل ہوں گے وہ زبان اور شرم گاہ ہے۔ زبان کی حفاظت نہ کرنے والا انسان جھوٹ‘ بہتان‘ گالی گلوچ‘ الزام تراشی‘ وعدہ خلافی اور دیگر کئی برائیوں کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ زبان کے غلط استعمال کے نتیجے میں لوگ الٹے منہ جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ لہٰذا اپنی گفتگو میں بہت احتیاط کرنی چاہیے بلا مقصد گفتگو کرنے سے خاموشی بہتر ہے۔ دوسرا سبب جہنم میں لے جانے والا عزت کی حفاظت نہ کرنا ہے۔ یہ کبیرہ گناہ ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی دیگر صفات کے ساتھ یہ صفت بھی بیان فرمائی ہے کہ ’’وہ اپنی عزت کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘ عزت کی حفاظت کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ معاشرے کی خرابی کے اسباب میں بھی بڑا سبب یہی ہے کہ اپنی عزت کی حفاظت نہ کی جائے۔ ایسا انسان جہنم واصل ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو جہنم سے محفوظ فرمائے۔آمین!


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)