اسلام ... امن وسلامتی کا دین!
امام الحرم المکی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر اُسامہ خیاط d
حمد و ثناء کے بعد!
اے مؤمنو! میں خود کو اور آپ سب کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت
کرتا ہوں۔ بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اس سے یوں ڈریں جیسے ڈرنے کا حق ہے۔ اس
کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے سوا کسی پر بھروسہ نہ کریں۔
’’اے لوگو جو ایمان
لائے ہو! اللہ سے ڈرو، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ تم کو موت نہ آئے، مگر اس حال
میں کہ تم مسلم ہو۔‘‘ (آل عمران: ۱۰۲)
اے امت اسلام! جب اللہ تعالیٰ نے آدمu کو پیدا کیا تو ان سے فرمایا: اِن فرشتوں کو جا کر سلام
کرو اور دیکھو کہ وہ تمہیں کس طرح سلام کرتے ہیں۔ یہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا طریقۂ
سلام ہے۔ آدم نے کہا: السلام علیکم۔ فرشتوں نے جواب دیا: السلام علیک ورحمۃ اللہـ۔ (بخاری)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سلام ہی آدم کا اور ان کے بعد آنے والے
انبیاء کا خوش آمدید کہنے کا طریقہ ہے۔ یہی وہ سلام ہے جس جنت میں فرشتے اہل ایمان
کا استقبال کریں گے۔ یہی اہل ایمان کا سلام ہو گا، جب وہ اپنے پروردگار سے ملاقات کریں
گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’جس روز وہ اس سے
ملیں گے اُن کا استقبال سلام سے ہو گا اور اُن کے لیے اللہ نے بڑا با عزت اجر فراہم
کر رکھا ہے۔‘‘ (الاحزاب: ۴۴)
چونکہ اس شاندار انداز استقبال میں بہترین معانی ہیں اور انتہائی
نیک مقاصد ہیں، چونکہ اس سے لوگوں کے دل جڑ جاتے ہیں اور صفیں مضبوط ہو جاتی ہیں، تو
اللہ تعالیٰ نے اسے اہل ایمان کا شعار بنا دیا اور اہل اسلام کا طریقۂ استقبال بنا
دیا۔
رسول اللہe نے
فرمایا: جب تک تم مؤمن نہیں ہو گے، جنت میں نہیں جاؤ گے، جب تک ایک دوسرے کے ساتھ محبت
نہیں کرو گے، مؤمن نہیں ہو گے۔ کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں، جسے اگر تم کر لو
تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے؟ سلام کو عام کرو۔ (مسلم)
اللہ کے بندو! سلام، اللہ تعالیٰ کا ایک نام ہے۔ اللہ، صاحب
جلال اور پاکیزہ ناموں والا خود سلام ہے اور وہی سب کو سلامتی دینے والا ہے۔ وہی دار
السلام کی طرف بلاتا ہے۔
’’اللہ تمہیں دار
السلام کی طرف دعوت دے رہا ہے (ہدایت اُس کے اختیار میں ہے)جس کو وہ چاہتا ہے سیدھا
راستہ دکھا دیتا ہے۔‘‘ (یونس: ۲۵)
دین اسلام کا نام بھی سلام اور امن سے نکلا ہوا ہے۔ سلامتی ہی
اسلام کا عنوان اور اس کا شعار ہے۔ اس کا منہج اور اس کی دعوت ہے۔ یہی وہ دین ہے جو
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے پسند فرمایا ہے۔
’’آج میں نے تمہارے
دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے
اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔‘‘ (المائدہ: ۳)
خاتم الانبیاء اور رسولوں کے سردار محمدe امن
وسلامتی کا پرچم اٹھانے والے تھے۔ آپe کا ایک معمول یہ تھا کہ جب آپ نماز ختم کرتے تو امت
کو یاد دلاتے کہ سلامتی بھی اللہ کی ایک نعمت ہے جس کی امید رکھنی چاہیے اور جسے اللہ
سے مانگنا چاہیے۔ دعا کرتے: اے اللہ! تو سرا سرا سلامتی ہے، تو ہی سلامتی دینے والا
ہے، اے رب ذو الجلال! تو ہی سب سے پاکیزہ ہے۔ (مسلم)
اے مؤمنو! جو نبی کریمe کی سیرت کا مطالعہ کرتا ہے، وہ دیکھتا ہے کہ آپ کی سیرت
میں امن وسلامتی اور ان کی طرف بلانا اور انہیں پیدا کرنے کی کوشش کرنا بڑا واضح نظر
آتا ہے۔ نبوت سے پہلے اور اس کے بعد بھی آپ سلامتی عام کرنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔
آپ اپنے ہم عمروں کے ساتھ معاشرے کی سلامتی کے لیے توانا دکھائی دیتے ہیں۔ اچھے اخلاق
میں سب کا ساتھ دیتے ہیں۔ لوگوں کے درمیان اصلاح کراتے ہیں اور مظلوموں کی مدد کرتے
ہیں۔ آپe نے
حلفِ فضول میں حصہ لیا اور اس کے متعلق فرمایا: عبد اللہ بن جُدعان کے گھر میں ایک
ایسے معاہدے میں شریک تھا جو مجھے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ پسند ہے۔ اگر اسلام کے دور
میں مجھے ویسے کسی معاہدے کی طرف بلایا جائے تو میں ضرور شریک ہو جاؤں۔ (سنن کبریٰ
للبیہقی)
نبوت کے بعد تو آپ کا پیغام ہی سراسر رحمت، امن اور سلامتی کا
پیغام تھا۔ ارشاد ہوتا ہے:
’’اے محمد! ہم نے
جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔‘‘ (الأنبیاء:
۱۰۷)
صحیح بخاری میں ہے کہ حدیبیہ کے موقع پر جب آپe کی
سواری قصواء حدیبیہ کے مقام پر ہی بیٹھ گئی اور مشرکین نے آپe کو
عمرے کی ادائیگی سے روک لیا تو آپe نے فرمایا: اس کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! اللہ
کی حرمتوں کا احترام کرتے ہوئے یہ لوگ مجھ سے جو معاہدہ بھی کریں گے، میں اسے قبول
کر لوں گا، پھر فرمایا کہ ہم کسی سے جنگ کرنے کے لیے نہیں آئے! ہم تو بس عمرے کے لیے
آئے ہیں، اس کے باوجود قریش نے آپe کو حرم میں نہ جانے دیا، تو آپe نے
ان کے ساتھ ایسا معاہدہ کیا جس کی شقیں صاف بتا رہی تھیں کہ آپe امن
پسند اور سلامتی کے خواہاں ہیں۔
’’اے نبی! اگر دشمن
صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسہ
کرو، یقینا وہی سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘ (الانفال: ۶۱)
اے مؤمنو! یہ ہے آپe کی معطر سیرت، دیکھنے والوں کے لیے واضح ہے۔ آپe جنگ
کے داعی نہیں تھے، لڑائیوں کی طرف نہیں بلاتے تھے، جھگڑوں اور لڑائیوں کی طرف نہیں
بلاتے تھے۔ بلکہ وہ انتہائی نرم دل، انتہائی، رحم دل اور معاف کرنے والے تھے۔ مکہ مکرمہ
میں دعوت کے شروع میں جب آپe کو
بہت زیادہ سختیاں سہنا پڑیں تو پہاڑوں کے فرشتے نے آکر آپe سے
اجازت طلب کی کہ وہ قریش کو مکہ کے دونوں پہاڑوں میں کچل دے تو بھی آپe نے
امن وسلامتی کا راستہ اختیار کیا۔ فرمایا: بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ ان کی نسل میں
ایسے لوگ پیدا ہوں جو صرف اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔
(بخاری ومسلم)
مخالفین کے ساتھ آپe کا تعلق صرف عدل، سلامت پسندی اور رحمت کا تعلق نہیں
تھا، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ تعلق احسان، نیکی اور صلہ رحمی کا تعلق تھا۔
صحیح بخاری میں ہے کہ ایک یہودی غلام رسول اللہe کی
خدمت کیا کرتا تھا۔ پھر وہ بیمار ہو گیا تو آپe اس کی عیادت کے لیے گئے۔ اس کے سر کے پاس بیٹھ کر کہنے
لگے: اسلام قبول کر لو، وہ اپنے والد کی طرف دیکھنے لگا تو اس کے والد نے کہا: ابو
القاسم کی بات مان لو۔ جب آپe وہاں
سے نکلے تو فرما رہے تھے: تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اسے آگ سے بچا لیا ہے۔
اسی طرح مسند امام احمد میں ہے کہ ایک یہودی نے رسول اللہe کو
جو کی روٹی اور بدبو دار چربی کی دعوت دی تو آپ نے وہ بھی قبول فرمائی۔
ایمانی بھائیو! رسول اللہe کے یہ عظیم واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ اسلام کا منہج
کیا ہے۔ وہ کس طرح مخالفوں کے ساتھ بھی امن وسلامتی والا معاملہ کرنے کی دعوت دیتا
ہے۔ اگر وہ جنگجو اور ظالم نہ ہوں تو اسلام ان کے ساتھ بھی منصفانہ اور عادلانہ رویہ
اختیار کرنے، بلکہ ان کے ساتھ احسان کرے اور ان کا حسن جوار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ان
کی دعوتیں قبول کرنا اور ان کے دین سے دور رہتے ہوئے ان کے تحفے وصول کرنا دین اسلام
کی اولین تعلیمات میں سے ہے۔
صحابہ کرام نے یہ بات خوب
سمجھ لی تھی۔ اسی لیے وہ اپنے مشرک رشتہ داروں اور ہمسایوں کے ساتھ بھی صلہ رحمی کرتے
تھے اور امید رکھتے تھے کہ انہیں بھی ہدایت مل جائے گی۔ (بخاری)
میں ہے کہ سیدنا عمرt نے مکہ میں اپنے ایک مشرک بھائی کو ایک پوشاک تحفے میں
دی۔ اسی طرح اسماء بنت ابی بکرw فرماتی
ہیں: میری ماں ابھی مشرکہ تھی۔ وہ میرے پاس آئی تو میں نے اللہ کے رسول سے کہا: اے
اللہ کے رسول! میری ماں اپنی خوشی سے میرے پاس آئی ہے۔ کیا میں اس سے اچھا سلوک کروں؟
آپe نے
فرمایا: جی ہاں! اس سے صلہ رحمی کرو۔ (بخاری ومسلم)
اسی طرح سنن ترمذی میں ہے کہ ابن عمرw کے گھر ایک بکری ذبح کی گئی۔ جب وہ گھر لوٹے تو انہوں
نے کہا: کیا تم نے یہودی ہمسائے کو اس بکری کا کوئی حصہ تحفے کے طور پر دیا ہے؟ میں
نے رسول اللہe کو
فرماتے ہوئے سنا: جبریل مجھے ہمسائے کے بارے میں نصیحت کرتا رہا، یہاں تک کہ مجھے لگا
کہ وہ اسے وارث بھی بنا دے گا، اللہ کے بندو! اسلام رواداری اور سلامتی کا دین ہے۔
نرمی اور رحمت کا دین ہے۔ یہ محبت اور الفت پیدا کرنے کے لیے آیا ہے۔ یہ صفیں درست
کرنے اور لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے آیا ہے۔ یہ ایک ایسا صالح معاشرہ پیدا کرنے کے
لیے آیا ہے جو ایک عظیم پیغام کا حامل بنے گا۔ اسلام عقیدہ اور دین ہے، یہ ڈھنگ اور
رویہ ہے۔
دوسرا خطبہ
حمد وصلوٰۃ کے بعد:
اے مؤمنو! آج ہم جو نفرت انگیز اور شدت پسندی والے الفاظ سن
رہے ہیں، چاہے وہ کسی جنس کے بارے میں ہوں، کسی رنگ کے بارے میں ہوں اور کسی دین کے
بارے میں ہوں، یہ دہشتگردی اور انتہاپسندی کی وہ شکل ہے جسے تمام آسمانی مذاہب اور
تمام عقلیں در کرتی ہیں۔ کیونکہ اس کی وجہ سے معاشروں میں بدنظمی پھیلتی ہے۔ اس کی
وجہ سے لوگوں کی عزتیں پامال ہوتی ہیں۔ اے مؤمنو! کوئی شک نہیں کہ امن وسلامتی کے رواج
سے لوگوں میں محبت اور مودت پھیل جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے مددگار بن جاتے ہیں،
اس طرح ہر قوم اپنی تعمیر وترقی کے خواب حقیقت میں بدلتا دیکھ لیتی ہے۔ امن وسلامتی
کے بغیر کوئی معاشرہ سدھر نہیں سکتا۔ اسی لیے اسلام نے انسان کی پانچ بنیادی ضرورتوں
کی حفاظت کے لیے اپنے احکام نازل کیے۔ وہ بنیادی ضرورتیں ہیں: انسان کا دین، اس کا
نفس، اس کی عقل، اس کا مال اور اس کی نسل۔ انسانی نفس بڑی مکرّم ومحترم چیز ہے۔
’’یہ تو ہماری عنایت
ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان
کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔‘‘ (الاسراء:
۷۰)
اسی طرح (صحیح بخاری اور صحیح مسلم)میں ہے کہ نبی اکرمe کے
پاس سے ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے کہا: یہ ایک یہودی کا جنازہ ہے۔ آپe نے
فرمایا: وہ بھی تو ایک انسان ہی تھا‘ اس لیے کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی
نفس پر ظلم کرے یا اس کے کسی بھی حق پر غیر صحیح طریقے سے ہاتھ ڈالے۔ اسلام تو ظلم
کی تمام شکلوں کو مسترد کرتا ہے۔ اسلام کا عدل مطلق ہے۔ اسے کہیں کم اور کہیں زیادہ
نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن کریم میں ہے:
’’قیامت کے روز ہم
ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے، پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا۔‘‘
(الأنبیاء: ۴۷)
صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ جب رسول اللہe نے
معاذ کو یمن بھیجا تو فرمایا: مظلوم کی بد دعا سے بچنا۔ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی
پردہ حائل نہیں ہوتا، اس وقت ابھی اہل یمن دین اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ اس سے
معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام ایک عظیم دین ہے جو چاہتا ہے کہ لوگ اپنے ملکوں میں امن
کے ساتھ رہیں۔ ان کے نفس امن میں ہوں، مال محفوظ ہوں، عزتیں محفوظ ہوں۔ چاہے وہ کسی
بھی دین کو ماننے والے ہوں، کسی بھی نسل سے ہوں یا کسی بھی رنگ کے ہوں۔ سب انسان آدم
کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنائے گئے تھے۔
’’لوگو! ہم نے تم
کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ
تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے
جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے‘ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر
ہے۔‘‘ (الحجرات: ۱۳)
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما! اے اللہ! اسلام
اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما! اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما! شرک اور
مشرکوں کو رسوا فرما! دین کے مرکز کی حفاظت فرما اس ملک کو اور تمام مسلمان ممالک کو
امن وسلامتی نصیب فرما۔
No comments:
Post a Comment