مولانا حبیب الرحمٰن یزدانی شہید... چند یادیں
تحریر: جناب مولانا لیاقت علی باجوہ
کچھ لوگ دنیا میں ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی یاد ہروقت آتی رہتی
ہے، یہ اس لیے ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنا تن من دھن اللہ کے دین کے لیے وقف کیا ہوتا
ہے۔ ان میں سے ایک شخصیت شیر ربانی علامہ حبیب الرحمان یزدانیa کی
بھی ہے۔ آپ اپریل 1947ء بمطابق جمادی الاوّل ۱۳۶۷ھ کو ’’پل شاہدولہ‘‘ ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم کا نام مولانا
عبدالحلیمa تھا،
آپ کے دادا جان کا نام حافظ محمد عبداللہ تھا۔ یزدانی شہیدؒ نے ابتدائی تعلیم مڈل
تک گورنمنٹ سکول سخانہ باجوہ سے حاصل کی۔ دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدرسہ ضیاء القرآن
منڈی چشتیاں میں داخل ہوئے۔ بعد ازاں جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ اور پھر جامعہ محمدیہ
گوجرانوالہ پہنچے۔ اس کے بعد جامعہ سلفیہ فیصل آباد چلے گئے، کچھ وقت مدرسہ نصرۃ الحق
نسبت روڈ لاہور میں زیرتعلیم رہے، سب سے آخر میں دارالعلوم تقویۃ الاسلام لاہور میں
تشریف لے گئے اور یہیں سے فارغ التحصیل ہوئے۔
خطابت: تحصیل علم کے بعد یزدانی شہیدa منبر رسول کی زینت بنے، سب سے پہلے آپ حمید پورکلاں
ضلع گوجرانوالہ میں خطیب مقرر ہوئے اور چارسال تک وہاں اپنی خطابت کے جوہر دکھائے۔
۱۲ جولائی ۱۹۶۹ء کو آپ کے استاد محترم سید عبدالغنی شاہ خطیب کامونکی وفات پا گئے تو ان کی مسجد
میں مختلف علماء کرام خطبات جمعۃ المبارک کے لیے تشریف لاتے رہے لیکن سید صاحبؒ کی
جانشینی کا قرعہ یزدانی شہیدؒ کے نام نکلا جو اپنے استاد محترم شاہ صاحبؒ کے طرز خطابت
کو اپنائے ہوئے تھے۔ مولانا یزدانی شہید جامع مسجد اہلحدیث کے تاحیات خطیب رہے اور
جانشینی کا حق ادا کیا۔
سیاسی میدان
میں: کامونکی میں یزدانی شہیدؒ پاکستان جمہوری پارٹی میں بطور صدر شریک ہوئے، آپکی
قائدانہ صلاحیتوں کے پیش نظر ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام
مصطفی میں پاکستان قومی اتحاد کامونکی کا بھی آپ کو صدر منتخب کر دیا گیا۔ اسی اثناء
میں آپ کو علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ جیسا جری‘ بے باک، نڈر، باوفا اور صاحب علم و فضل
ہمراہی مل گیا۔ چنانچہ آپ نے ان کے ساتھ مل کر جمعیت اہل حدیث کو منظم کر کے اپنی
جماعت کا سیاسی اسٹیج بنانے کا پروگرام بنایا۔ چنانچہ علامہ احسان الٰہی ظہیرشہیدؒ
کے ساتھ مل کر آپ نے 18 اپریل 1986ء
کو موچی دروازہ، 2 مئی 1986ء کو سیالکوٹ اور گوجرانوالہ الغرض پورے ملک میں کامیاب ترین
اور تاریخی جلسہ ہائے عام منعقد کئے، جن میں لاکھوں اہل حدیث نے شرکت کر کے سیاسی طور
پر بھی اپنا لوہا منوا لیا۔
گرفتاریاں: آپ قرآن و حدیث،
توحید و سنت کی بات کرنے کے عادی تھے، اس معاملے میں کسی کی پروا نہیں کرتے تھے۔ اس
سلسلے میں آپ کو کئی دفعہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ 1977ء کی تحریک نظام
مصطفی کے سلسلے میں آپ ایک ماہ تک جھنگ جیل میں مقید رہے، آپ کو دوبارہ گرفتار کیا
گیا تو گوجرانوالہ جیل میں رکھا گیا، اس طرح دعوتِ توحید کی پاداش میں آپ پر بہت زیادہ
مقدمات بھی بنائے گئے۔
تکلیفیں: مولانا یزدانی
شہیدؒ کی دعوت پر پورے ملک میں ہزاروں لوگ مسلک حق اہل حدیث کو قبول کر رہے تھے۔ آپ
جس علاقے میں بھی جاتے اس علاقے کے بدعتی لوگ آپ کو ہر ممکن تکلیفیں پہنچانے کی کوشش
کرتے، خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیتے۔
چنانچہ 14 اگست 1984ء کو ایک منصوبے کے تحت آپ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا جس میں آپ
کو خنجروں کے دس انتہائی مہلک زخم آئے، آپ سر سے پائوں تک خون سے شرابور ہو چکے تھے۔
چنانچہ مارنے والے سے بچانے والا زیادہ طاقتور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچا لیا،
آپ کے دشمن ناکام و نامراد ہو گئے، دشمن نے پھر چال چلی اور آپ کے معصوم بیٹے انعام
الرحمان کو زہر کا ٹیکہ لگا کر شہید کر دیا۔
شہادت: 23 مارچ 1987ء کو مینار پاکستان کے قریب قلعہ لچھمن سنگھ کے فوارہ چوک میں سیرت
النبیؐ کے موضوع پر ایک جلسہ ہوا، جس میں یزدانی شہیدؒ نے سیرت النبیؐ پر تقریر کی،
اس کے بعد خطیب ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر تقریر کر رہے تھے کہ رات کے گیارہ بج کر
۳۵ منٹ پر ایک زور
دار دھماکہ ہوا جس میں مولانا حبیب الرحمانؒ کے پیٹ میں بم کے ٹکڑے گھس چکے تھے۔ چنانچہ
آپ 24 مارچ رات آٹھ بجے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سب سے جدا
ہو گئے۔ 25 مارچ کو نماز ظہر کے بعد کامونکی میں شیخ الحدیث مولانا محمد
عبداللہؒ نے نمازجنازہ پڑھائی اور آپ اپنے ابدی گھر منتقل ہو گئے۔ اللھم اغفرلہ وادخلہ
جنت الفردوس۔
No comments:
Post a Comment