Sunday, July 14, 2019

درس قرآن وحدیث 15-2019


درسِ قرآن
حقوق اللہ اور حقوق العباد
ارشادِ باری ہے:
﴿وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَيْـًٔا وَّ بِالْوَالِدَيْنِ۠ اِحْسَانًا وَّ بِذِي الْقُرْبٰى وَ الْيَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِيْنِ وَ الْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِيْلِ١ۙ وَ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙ۰۰۳۶﴾ (النسآء)
’’اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اورماں باپ کے ساتھ حسن سلوک اور احسان والا رویہ رکھو اور رشتہ، یتیموں، مسکینوں، قرابت دار ہمسایوں اور اجنبی ہمسایوں کے ساتھ اور پہلو کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے اور جن کے تم مالک ہو ان سب سے بھی حسن سلوک سے پیش آؤ (یادرکھوکہ) اللہ تعالیٰ تکبر کرنےوالوں اور شیخی خوروں کوپسند نہیں فرماتے۔‘‘
اللہ کی بندگی اور اطاعت‘ دین کی اساس جبکہ شرک گمراہی کی بنیاد اور اسا س ہے۔ آیت مذکورہ میں بھی اسی گناہ سے دور رہنے اورصرف اللہ کی بندگی اور اطاعت میں رہنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ _اللہ تعالیٰ جو اس انسان کے خالق ہیں اور دنیا کی بیش بہا نعمتوں میں اس کی پرورش کرنے والے اور اس کے رزق کا اہتمام کرنے والے بھی ہیں۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ انسان اسی کی بندگی اور اطاعت کرے اور اسے کے سامنے سجدہ ریز ہو‘ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے کیونکہ کمال مطلق اسی کی ذات کو حاصل ہے‘ وہی آسمان و زمین کے تمام معاملات کو مکمل حکمت وتدبیر کےساتھ چلا رہا ہے۔ اسی لیے تمام معاملات میں اسی کی رضا مطلوب ہونی چاہیے‘ جاہ حشمت کے حصول یا لوگوں کا مدح اور تعریف کے لیے کسی عمل کی بجاآوری بھی شرک ہی کے زمرہ میں آتی ہے۔
نبی کریمe سے عرب کے ایک نیک اور سخی شخص عبد اللہ بن جدعان کے متعلق پوچھا گیا کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا؟ فرمایا: ’’اس نے کبھی بھی اپنے پروردگار سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب نہ کی تھی۔‘‘ اس جرم کی سنگینی کا اندازہ درج ذیل آیت مبارکہ سے کیجیے:
﴿وَ لَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَ اِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ١ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۰۰۶۵﴾ (الزمر)
’’یقینا تمہاری طرف بھی اورتم سے پہلے کے تمام نبیوں کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر آپ نے بھی شرک کا ارتکاب کیا تو آپ کا عمل بھی ضائع ہو جائے گا۔‘‘
اپنی عبادات کو اللہ کے لیے خاص کرنے اور شرک سے دور رہنے کے حکم کے بعد آیت مذکورہ میں ’’حقوق العباد‘‘ کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اللہ کی عبادت کے حکم کے ساتھ حقوق العباد کا آنا اس بات کی دلیل ہے کہ حقوق العباد میں کوتاہی بھی ایک سنگین جرم ہے۔ حقوق العباد میں سب سے پہلے والدین کے حقوق کا تذکرہ ہے۔ اُن کے ساتھ نیکی اور احسان کا حکم دیا گیا ہے اور والدین کے ساتھ نیکی کامطلب ان کے نان ونفقہ کا اہتمام، ان کی خدمت، ان کے حقوق کی بجا آوری، لطافت اور نرمی سے پیش آنا، ان کا ادب و احترام بجالانااور بڑھاپے میں ان کا سہارا بننا اور ان کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد والدین کے دوستوں سے میل جول اور ان سے احسان کا معاملہ کرنا یہ تمام چیزیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کے زمرہ میں آتی ہیں۔

درسِ حدیث
فضیلتِ شعبان
فرمان نبویﷺ ہے:
[عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "كَانَﷺ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ، كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ إِلَّا قَلِيلًا".] (متفق عليه)
سیدہ عائشہr سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ نبی کریمe کبھی پورا شعبان روزے رکھ کر گذارتے اور کبھی شعبان کے چند دنوں کے سوا پورا شعبان روزے رکھا کرتے تھے۔‘‘
شعبان کا مہینہ بڑا بابرکت مہینہ ہے۔ اس ماہ میں لوگوں کے اعمال اللہ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ اسی بنا پر آپe تقریباً پورا شعبان روزے رکھتے رہتے۔ اس خیال سے کہ جب میرے اعمال اللہ کے سامنے پیش ہوں تو میں روزے کی حالت میں ہوں۔ آپe خود تو شعبان کے مہینے میں کثرت سے نفلی روزے رکھتے تھے مگر امت کو تعلیم فرمائی کہ نصف شعبان تک نفلی روزے رکھ لیا کرو بعد میں نہ رکھو۔ اس کا سبب بھی بیان فرما دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ نفلی روزے رکھ کر کمزور ہو جاؤ اور رمضان کے فرض روزے نہ رکھ سکو۔ خاص طور پر آپe نے استقبال رمضان کے روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے مگر ہماری قوم اس حکم کی مخالفت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اکثر لوگ جو بڑے دیندار بھی ہیں استقبال رمضان کے روزے رکھتے ہیں۔ شعبان کی پندرھویں رات کو لوگوں نے شب براءت کا نام دیا ہے جبکہ حدیث کی کسی کتاب میں یہ نام پایا نہیں جاتا۔ شب براءت فارسی ترکیب ہے جس کا معنی ہے آزادی۔ یعنی بری ہونے کی رات۔ ایسا کوئی مفہوم قرآن وسنت سے ثابت نہیں البتہ لیلۃ القدر کا ذکر موجود ہے‘ یہ رات تمام راتوں سے افضل ہے۔
شب براءت اسلامی تہوار نہیں‘ صرف اتنی بات بعض روایات سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ شعبان کی نصف رات یعنی پندرھویں رات کو اہل زمین پر خصوصی توجہ کرتا ہے‘ اہل ایمان کو بخش دیتا ہے۔ کافروں کو توبہ کرنے کی مہلت دیتا ہے۔ شرک وکینہ اور بغض رکھنے والے کو معاف نہیں کرتا۔ شب براءت کو منانے میں جو کام ہمارے معاشرے میں کیے جاتے ہیں ان کا احادیث سے کوئی تعلق نہیں۔ مثلاً چراغاں کرنا‘ آتش بازی‘ حلوہ پوری کا اہتمام‘ نئے کپڑے پہننا‘ گھروں کی صفائی کرنا‘ مردوں کی روحوں کا گھروں کو آنا‘ شب بیداری کرنا‘ یہ سب کام شب براءت سے تعلق نہیں رکھتے۔ رات کی عبادت اور دن کے روزے والی روایت بھی ضعیف ہے اور نہ ہی کوئی خاص دعا حدیث سے ثابت ہے۔ صحابہ کرام ہم سے زیادہ نیک اعمال کی طرف راغب تھے‘ اگر کوئی عمل ایسا ہوتا جس سے صحابہ کرام کو کوئی فائدہ ہونے کی توقع ہوتی تو وہ ضرور کرتے مگر اس رات انہوں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو ہماری قوم کر رہی ہے‘ یہ تمام رسومات ہیں ان سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔



No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)