احکام ومسائل
جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت: مرکز
الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان ای میل: markaz.dirasat@gmail.com
غیر مسلم سے تجارت کرنا
O میرا
ایک مرزائی سے کاروباری تعلق ہے‘ وہ اچھے کردار کا حامل ہے‘ شرعی طور پر کیا مجھے اجازت
ہے کہ اس کے ساتھ تجارتی لین دین کروں یا کاروبار میں اس کے ساتھ شریک رہوں؟ اس کی
وضاحت کر دیں۔
P دین اسلام‘ دنیاوی‘ تمدنی‘ معاشرتی اور اقتصادی معاملات
میں تعصب اور تنگ نظری سے کام نہیں لیتا بلکہ ایسے معاملات میں صرف انسانی مفاد کے
پیش نظر وسعت نظری کا مظاہرہ کرتا ہے اور مذہبی تعصب سے کام نہیں لیتا۔ اقتصادی معاملات
میں مسلم اور غیر مسلم کے لیے کوئی قدغن نہیں‘ البتہ عدل وانصاف کا مطالبہ مسلم اور
کافر دونوں سے ہے۔ عدل وانصاف اور ایک دوسرے سے ہمدردی ہر جگہ اور ہر شخص کے لیے ضروری
ہے۔ رسول اللہeنے خیبر فتح ہونے کے بعد یہود کے ساتھ مزارعت کا معاملہ کیا
تھا جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمرw بیان
کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے
یہودیوں کو خیبر کی زمین اس شرط پر کاشت کے لیے دی کہ وہ اس میں محنت کے ساتھ کاشت
کاری کریں۔ اس سے جو پیداوار ہو گی اس سے ان کو نصف ملے گا۔ (بخاری‘ الحدیث والمزارعۃ:
۲۳۳۱)
امام بخاریa نے
اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’یہود سے مزارعت کرنا۔‘‘ (بخاری‘ الحرث
والزراعۃ‘ باب نمبر ۱۱)
مرزائیوں کے ساتھ تجارتی معاملہ کرتے وقت‘ اس بات کا خیال رکھنا
ضروری ہے کہ وہ اس تجارت سے ہونے والے نفع کو اسلام اور اہل اسلام کے خلاف منفی سرگرمیوں
میں صرف نہ کریں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ایک مسلمان کو ان سے تجارتی معاملات سے گریز
کرنا چاہیے۔
صورت مسئولہ میں سائل اس بات کا خاص خیال رکھے‘ اگر وہ اسلام
کے خلاف سازشوں میںملوث ہے تو ایسے شخص کے ساتھ کاروبار نہیں کرنا چاہیے بصورت دیگر
غیر مسلم کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھے جا سکتے ہیں‘ لیکن عدل وانصاف اور ایک دوسرے سے
ہمدردی پھر بھی ضروری ہے۔ ہمارے رجحان کے پیش نظر سائل کو چاہیے کہ تجارتی لین دین
کے لیے کسی مرزائی کی بجائے مسلمان شخص کا انتخاب کرے کیونکہ اسلام کے خلاف مرزائیوں
کی ریشہ دوانیاں معروف ہیں۔ واللہ اعلم!
وساوس کا بکثرت آنا
O میں
اکثر وساوس کا شکار رہتی ہوں‘ دل میں بہت گندے اور برے خیالات آتے ہیں بعض دفعہ اسلام
کے خلاف بھی وسوسے آتے ہیں‘ اس کے لیے مجھے کیا کرنا ہو گا؟ کیا ایسے گندے خیالات پر
اللہ کے ہاں مؤاخذہ ہو گا؟
P انسان کے دل میں جو خیالات آتے ہیں‘ اگرو ہ برائی پر
آمادہ کریں تو انہیں وسوسہ کہا جاتا ہے اور اگر کارِ خیر کی دعوت دیں تو یہ الہام ہے۔
اس امت کی خصوصیت ہے کہ ان کے قلوب پر آنے والے خیالات ووساوس اور خطرات معاف ہیں جب
تک وہ دل میں پختہ نہ ہوں‘ یعنی ان پر عمل نہ کیا جائے اور نہ ہی انہیں زبان پر لایا
جائے۔ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہt بیان
کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے میری امت کو وہ معاملات معاف کر دیئے ہیں جو ان کے دلوں میں
وسوسے کے طور پر آئیں‘ جب تک وہ ان پر عمل نہ کریں یا زبان پر نہ لائیں۔‘‘ (بخاری‘
العتق: ۲۵۲۸)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر خیالات ووساوس دل میں جاگزیں ہو
جائیں اور قرار پکڑ لیں جیسا کہ حسد وغیرہ میں ہوتا ہے تو اس پر مؤاخذہ ہو گا۔ اسی
وجہ سے ھمّ (ارادہ) اور عزم میں فرق کیا جاتا ہے کیونکہ ھمّ (ارادہ) وہ ہے جو دل میں
آئے اور گذر جائے اور عزم وہ ہے جو دل میں آئے اور جگہ پکڑ لے۔
صورت مسئولہ میں اگر خیالات دل میں آتے ہیں اور نکل جاتے ہیں
تو ایسے خیالات پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہو گا خواہ وہ کتنے بھی گندے ہوں یا وہ دین اسلام
کے خلاف ہوں۔ وساوس کے علاج کے لیے درج ذیل دو کام کیے جائیں:
\ باوضوء رہا
جائے‘ ہمارا تجربہ ہے کہ باوضوء رہنے سے کافی حد تک وساوس اور دل میں آنے والے برے
خیالات سے بچاؤ رہتا ہے۔
\ سورۂ الفلق
اور سورۂ الناس کو بکثرت تلاوت کیا جائے‘ بہتر ہے کہ ان کے ترجمے کو ذہن میں رکھ کر
ان کی تلاوت کی جائے۔
امید ہے کہ یہ دو کام کرنے سے کافی حد تک وساوس اور بُرے خیالات
پر کنٹرول ہو جائے گا۔
اپنے مال کا دفاع کرنا
O میرا
گھر ایک غیر محفوظ جگہ پر ہے‘ اگر میرے گھر میں کوئی چور یا ڈاکو گھس آتا ہے تو مجھے
کیا کرنا چاہیے؟ کیا خاموشی کے ساتھ اپنا مال اس کے حوالے کر دوں یا مجھے شرعی طور
پر اپنے مال کا دفاع کرنا چاہیے؟ خواہ میرا نقصان ہو جائے‘ اس سلسلہ میں میری رہنمائی
کر دیں۔
P ایک مسلمان‘ اپنی ذات‘ عزت وآبرو اور مال ودولت کی حفاظت
کا پابند ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ اپنے ایمان کے بچاؤ کی فکر کرے اور اپنے اخلاق
وکردار کی حفاظت کرے‘ اپنے مال وغیرہ کی حفاظت کے لیے اسے خود کو ہر وقت تیار رکھنا
چاہیے۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمروw بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے تو وہ شہید ہے۔‘‘ (بخاری‘
المظالم: ۲۴۸۰)
اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو خود اپنا اور اپنے مال کا
دفاع کرنا چاہیے کیونکہ اگر خود قتل ہو گیا تو شہید اور اگر اس نے چور یا ڈاکو کو قتل
کر دیا تو اس پر دیت یا قصاص نہیں۔ ایک دوسری حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے‘ رسول اللہe کے
پاس ایک آدمی آیا اور عرض کرنے لگا‘ اللہ کے رسول! اگر کوئی چور مجھ سے میرا مال چھیننا
چاہے تو میں کیا کروں؟ آپe نے
فرمایا: ’’اسے اپنا مال مت دے۔‘‘ اس نے عرض کیا اگر وہ مجھے قتل کرنا چاہے؟ آپe نے
فرمایا: ’’تو اس سے قتال کر۔‘‘اس نے کہا اگر وہ مجھے قتل کر دے؟ تو آپe نے
فرمایا: ’’ایسی حالت میں تو شہید ہے۔‘‘ اس نے پھر عرض کیا: اگر میں اسے قتل کر دوں؟
رسول اللہe نے
فرمایا: ’’وہ آگ میں ہو گا۔‘‘ (مسلم‘ الایمان: ۳۶۰)
اس حدیث کا واضح مفہوم ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے مال پر ناجائز
قبضہ کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مال کا دفاع کرے خواہ وہ خود ہی کیوں نہ مارا
جائے اور اسے قتل ہی کیوں نہ کر دیا جائے۔ لیکن موجودہ حالات کے پیش نظر اسے خود کو
اپنے مال کی حفاظت یا دفاع کے لیے تیار کرنا ہو گا‘ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ وہ
خالی ہاتھ خود کو ڈاکو کے سامنے پیش کر دے اور وہ اسے گولی مار کر قتل کر دے‘ ایسے
حالات میں اپنے مال کو نظر انداز کر کے اپنی جان کو بچانے کی فکر کرنا چاہیے۔ واللہ
اعلم!
تحفہ مانگ کر لینا
O ہمارے
ہاں مشہور بات ہے کہ تحفہ وہ ہے جو کسی سے مانگے بغیر ملے‘ اگر کسی سے کوئی چیز مانگی
جائے اور طلب کرنے سے وہ حاصل ہو تواسے ہبہ نہیں کہتے‘ اس کی وضاحت مطلوب ہے کہ آیا
کسی سے تحفہ مانگ کر نہیں لینا چاہیے؟!
P تحفہ‘ ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک
بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب وسنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے‘ رسول اللہe کا
ارشاد گرامی ہے: ’’آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو‘ ایسے کرنے سے محبت بڑھتی
ہے اور دلوںسے نفرت دور ہوتی ہے۔‘‘ (الادب المفرد‘ حدیث نمبر: ۵۹۴)
نیز رسول اللہe کا
ارشاد گرامی ہے: ’’ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے‘ اور معمولی عطیہ
بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ (بخاری‘ الہبہ: ۲۵۶۶)
اگرچہ ہمارے ہاں یہی مشہور ہے کہ تحفہ مانگ کر نہیں لینا چاہیے‘
لیکن یہ کوئی کلی قاعدہ نہیں‘ بعض اوقات کسی کی حوصلہ افزائی کے لیے مانگ کر بھی تحفہ
لیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ سیدنا ابوسعید خدریt کا واقعہ ہے کہ انہوں نے کسی سردار کو دم کرنے کے لیے
بکریاں لینے کا مطالبہ کیا کیونکہ قبیلہ والوں نے ان کی مہمان نوازی نہیں کی تھی۔ حسب
پروگرام انہوں نے دم کر کے بکریاں لیں اور رسول اللہe کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس کے متعلق سوال کیا۔ رسول
اللہe نے
ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا: ’’ان بکریوں میں اپنے ساتھ میرا بھی حصہ رکھنا۔‘‘
(بخاری‘ الاجارہ: ۲۲۷۶)
امام بخاریa نے
ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’جو شخص اپنے ساتھیوں سے تحفہ طلب کرے۔‘‘ (بخاری‘
الہبہ‘ باب نمبر ۳)
پھر اس عنوان کو ثابت کرنے کے لیے چند ایک احادیث ذکر کی ہیں۔
بہرحال ساتھیوں کے بے تکلفانہ ماحول میںکسی چیز کی فرمائش کی جا سکتی ہے‘ دوست واحباب
میں تحائف لینے‘ دینے اور بعض اوقات خود فرمائش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ کتاب وسنت
سے اس کا جواز ثابت ہے۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment