دینی مدارس ... کردار واہمیت
تحریر: جناب مولانا عبدالغفار ریحان
کفار اور ملحدین کی پیروی کرتے ہوئے بعض حلقوں کی طرف سے دینی
مدارس کے خلاف وقتاً فوقتاً ہرزہ سرائی اور خبث باطن کا اظہار کیا جاتا ہے جو سب اسلام
اور اسلامی اداروں کے خلاف اسلام دشمنوں کے منفی پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے۔ اس کا محرک
صرف اسلام دشمنی ہوتا ہے‘ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی قوم اسلام کے بارے میں
جذباتی قسم کا تعلق رکھتی ہے‘ دینی مدارس اور اسلامی ادارے مسلمانوں میں دینی شعور
بیدار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں‘ لہٰذا جب دینی مدارس نہ ہوں گے تو دینی شعور
بھی ختم ہو جائے گا۔ یہی اسلام دشمنوں کا ہدف ہے کہ مسلمانوں کو بے دین کر دیا جائے۔
فرمان الٰہی ہے:
{وَدَّ کَثِیْرٌ
مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا٭}
(البقرہ: ۱۰۹)
’’بہت سارے اہل کتاب
چاہتے ہیں کہ تمہیں تمہارے ایمان کے بعد پھر کافر بنا دیں۔‘‘
اسلام میں علم کی اہمیت:
اسلام علم کا دین ہے‘ اسلام میں علم کی صرف اہمیت ہی نہیں بتائی
گئی بلکہ ہر مسلمان پر علم کا حصول فرض کیا گیا ہے۔ پہلی وحی جو آنحضرتe پر
نازل ہوئی وہ علم کے حصول کی تھی:
{اِقْرَاْ بِاسْمِ
رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ٭} (العلق)
’’اپنے رب کے نام
سے پڑھیے جس نے پیدا کیا۔‘‘
علم کا حصول عمل پر مقدم رکھا گیا۔
{فَاعْلَمْ اَنَّہٗ
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ٭} (محمد: ۱۹)
’’جان لو کہ اللہ
کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘
ارشاد نبویe ہے:
’’علم کا حصول ہر
مسلمان پر فرض ہے۔‘‘ (ابن ماجہ‘ مقدمہ‘ باب فضل العلماء)
ہر وہ علم جو قرآن وحدیث کے تابع ہو‘ اسلام اور مسلمانوں کے
لیے مفید ہو۔ مسلمانوں کے لیے حسب استطاعت وضرورت اس کا سیکھنا ضروری ہے۔
اسلامی درسگاہیں
اور ان کا کردار:
قرونِ اولیٰ میںمسجد ہی درسگاہ ہوا کرتی تھی‘ پھر حسب ضرورت
مسجد کے ساتھ ملحقہ مکتب یا مدرسہ کے نام سے درسگاہوں کا سلسلہ دراز ہوتے ہوئے موجودہ
مدارس اور جامعات کی شکل میں علم اور اہل علم کا مرکز بن گئی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں
کہ انہی مکاتب ومدارس سے فارغ ہونے والے دنیا کی رہنمائی اور کائنات کو تسخیر کر رہے
ہیں۔ مسجد یا مدرسہ وہی‘ استاد بھی وہی ہیں مگر کوئی محدث بن کر نکل رہا ہے‘ کوئی فقیہ
بن رہا ہے‘ کوئی سائنسدان اور کوئی ڈاکٹر بن رہا ہے۔ بنیادی طور پر ہر ایک قرآن وحدیث
کا عالم ہے۔ منبع سب کا قرآن وسنت ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ اسلام انسانیت کا عالمگیر
مذہب ہے‘ جو تمام شعبہ حیات میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ حجاز‘ بغداد اور اندلس کی
جامعات نے انسانیت کی تمام شعبہ حیات میں جو خدمت کی ہے اس کا انکار ممکن نہیں‘ یورپ
کو علم کی روشنی انہی جامعات سے ملی۔ یورپ کو اسلام اور مسلمانوں کا شکر گزار ہونا
چاہیے تھا کہ اسے زندگی کے طور طریقے مسلمان اساتذہ نے سکھائے۔ الٹا وہ اسلام دشمنی
کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہیں شرماتے۔
دینی مدارس کے
خلاف پروپیگنڈہ:
عموماً دینی مدارس کے خلاف پروپیگنڈہ کے ضمن میں دینی مدارس
اور دینی تعلیم کی اہمیت کم کرنے اور دینی مدارس میں پڑھنے پڑھانے والوں کو مزاح کا
نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کبھی انہیں قدامت پسند‘ شدت پسند‘ رجعت پسند اور بنیاد پرست کہا
جاتا ہے۔ کبھی انہیں عقل وشعور سے عاری قرار دیا جاتا ہے۔ کبھی انہیں معاشرے پر بوجھ
قرار دیا جاتا ہے‘ کبھی کہا جاتا ہے کہ ان کا مستقبل کوئی نہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ
دینی مدارس سے فارغ التحصیل کوئی کام نہیں کر سکتے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ دینی مدارس
میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ اور اس طرح کا مزید زہر بھی اُگلا جاتا ہے۔
حالانکہ اگر بنظر غائر دیکھا جائے اور دینی مدارس اور دنیاوی تعلیم کے مراکز کا تقابل
کیا جائے تو حیران کن متضاد نتائج سامنے آتے ہیں۔ جس طرح اسلامی مدارس کے خلاف پروپیگنڈہ
کیا جاتا ہے‘ صورت حال اس کے برعکس نظر آتی ہے۔
رہی بات یہ کہ وہ رجعت پسند‘ قدامت پسند‘ بنیاد پرست اور شدت
پسند ہوتے ہیں تو اگر کسی کو زندگی گذارنے کے لیے اسلام جیسی بنیاد میسر آ جائے تو
اس سے بڑی نعمت اور کیا ہو سکتی ہے؟ ہر شخص اپنے مستقبل کے لیے مضبوط بنیاد ہی تلاش
کرتا ہے ان لوگوں کو قرآن وحدیث جیسی بنیاد مل گئی ہے تو ان سے بڑھ کر کون خوش نصیب
ہو سکتا ہے؟ قرآن وحدیث پر عمل کرنے والے کو اس طرح کے طعنے وہی دے سکتا ہے جس کے پاس
خود کوئی مضبوط بنیاد نہ ہو۔
عقل وشعور بھی دینی تعلیم ہی سکھاتی ہے‘ قرآن وحدیث کی ٹھوس
بنیاد یعنی ان کی نصوص کو سامنے رکھ کر پیش آمدہ مسائل کا حل دینی تعلیم ہی سکھاتی
ہے۔ اس لیے اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے‘ وہ شعور کیا جو دینی تعلیم کے بغیر ہو؟ وہ عقل
کیسی جو دین سے بیگانہ ہو؟
رہی یہ بات کہ دینی تعلیم کا مستقبل کوئی نہیں ہوتا‘ یہ بھی
کوتاہ نظری ہے وگرنہ مستقبل ہوتا ہی دینی تعلیم کا ہے۔ دینی تعلیم حاصل ہی مستقبل کے
لیے کی جاتی ہے اور مستقبل اس سے سنورتا ہے‘ خواہ وہ دنیوی ہو یا آخروی۔ دینی تعلیم
کے حصول کا مقصد دنیاوی لالچ یا وقتی مفاد نہیں ہوتا اور نہ ہونا چاہیے۔ لیکن اس اعتراض
کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دینی تعلیم پڑھے ہوئے کو ملازمت نہیں ملتی تو اس میں حقیقت یہ
ہے کہ کفار نے سازش ہی ایسی کی ہے کہ ملازمت اس کو دی جائے جو دنیاوی تعلیم پڑھا ہوا
ہو اور دینی تعلیم پڑھے ہوئے کو ملازمت نہ مل سکے۔ نتیجتاً لوگ دنیاوی تعلیم کی طرف
راغب ہوں اور دینی تعلیم ختم ہو جائے۔ لیکن اس تفریق کے باوجود لوگ دینی تعلیم کی طرف
بہت زیادہ رغبت رکھتے ہیں‘ کچھ عرصہ قبل جہاں دینی مدارس میں بیسیوں طلبہ پڑھتے تھے
اب سینکڑوں زیر تعلیم ہیں اور بیسیوں ہر سال مدارس سے فراغت پاتے ہیں۔ فراغت کے بعد
کوئی درس وتدریس میں مشغول ہو جاتا ہے تو کوئی تحریر وتقریر میں۔ استاد تلاش کرنے جاؤ
تو استاد نہیں ملتا۔ خطیب کی ضرورت ہو تو خطیب میسر نہیں آتا۔ الغرض دینی مدارس کے
فارغ طلبہ کی انتہائی طلب رہتی ہے۔ دوسری طرف دنیاوی تعلیم حاصل ہی ملازمت کے لیے کی
جاتی ہے‘ اب تو وہ بھی پیسے یا سفارش سے ملتی ہے وگرنہ خودکشی تو ہے۔ آپ دینی مدارس
سے فارغ کسی کو خود کشی کرتے ہوئے نہیں پائیں گے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے ملازمت
نہیں ملی تو اس نے خودکشی کر لی۔ یہ جتنے خودکشی کے واقعات ہیں ان لوگوں کے ہیں جنہوں
نے ملازمت کے لیے تعلیم حاصل کی‘ مگر جب ملازمت نہ ملی تو بے روزگاری کے ہاتھوں خودکشی
کر بیٹھے۔ بے شمار ہاتھوں میں اسناد لیے پھرتے ہیں اور در بدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔
یہ جو کہا جاتا ہے کہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل بے کار ہوتے
ہیں‘ کچھ کام نہیں کر سکتے‘ یہ بھی سراسر مغالطہ ہے‘ وگرنہ کئی بی اے پاس ریڑھی لگائے
روزی تلاش کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایم اے پاس دو وقت کی روٹی کے عوض دفتروں میں صفائی
اور چائے پکانے کا کام کرتے ہیں۔ بعض پڑھ کر اپنے باپ کے ساتھ دکان میں کام کرتے ہیں‘
اگر دنیاوی تعلیم پڑھا ہوا ایم اے پاس باپ کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹا سکتا ہے تو دینی
تعلیم پڑھا ہوا کیا باپ کے ساتھ کاروبار میں ہاتھ نہیں بٹا سکتا؟ بلکہ دینی تعلیم پڑھا
ہوا دنیاوی تعلیم پڑھے ہوئے کی نسبت بہتر طور پر دینی شعور کے ساتھ کام کر سکتا ہے
اور حلال وحرام کا شعور تو دینی تعلیم ہی سکھاتی ہے۔ اگر کام نہ کر سکنے سے مراد ان
کی یہ ہے کہ ان میں چالاکی‘ ہوشیاری‘ لڑائی‘ جھگڑا‘ دھوکہ دہی اور فراڈ والی صفات نہیں
ہوتیں تو شاید اعتراض کرنے والوں کی بات درست ہو۔
دینی مدارس معاشرے پر بوجھ نہیں۔ یہ بات اللہ پر ایمان میں کمی
کا عکس تو ہو سکتی ہے‘ حقیقت میں یہ بات درست نہیں۔ ایک دینی مدرسہ کے طالب علم اور
ایک دنیاوی سکول میں پڑھنے والے طالب علم دونوں کے ایک ہی عرصہ تک پڑھائی کے خرچ کا
حساب لگائیں۔ یقینا دنیاوی تعلیم کا خرچ کئی گنا زیادہ ہو گا۔ نتیجہ کے اعتبار سے بھی
دنیاوی سکول سے فارغ ہونے والے نوے فیصد بے کار نظر آتے ہیں اور صرف دس فیصد ہی کہیں
کھپ یا سما پاتے ہیں۔ پھر دینی تعلیم پانے والے کے تلفظ میں آپ غلطی کم پائیں گے جبکہ
دنیاوی تعلیم پانے والے کا اردو تلفظ عموما غلط ہی ہوتا ہے۔
ذیل میں دینی ادارے اور دنیاوی سکول کے طلبہ کے حالات وکوائف
کے حوالے سے ایک تقابلی جائزہ پیش کیا جاتا ہے جو یقینا قابل مسرت ہے:
1 دینی مدارس میں پڑھنے
والے عموما دینی شعور سے بہرہ ور ہوتے ہیں اور یہی لوگ معاشرے کی اصلاح کا فریضہ انجام
دیتے ہیں۔ کیونکہ دین کے بغیر معاشرے کی اصلاح ممکن نہیں جبکہ دنیاوی اداروں سے فارغ
عموما دینی شعور سے ناواقف ہوتے ہیں۔
2 دینی مدارس کے طلبہ
کا اپنے اساتذہ کے ساتھ کبھی شاید ہی لڑائی جھگڑا ہوا ہو جبکہ دنیاوی تعلیمی اداروں
کے طلبہ کے اپنے اساتذہ کے ساتھ لڑائی جھگڑوں کے واقعات عموما ہوتے ہیں۔ حتی کہ بعض
ذمہ داروں کی مارپیٹ تک کے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور کئی کئی روز تک دنیاوی تعلیمی
ادارے احتجاجا بند کرنے پڑتے ہیں۔
3 دینی مدارس سے شاید
کبھی اسلحہ پکڑا گیا ہو‘ جبکہ دنیاوی تعلیمی اداروں سے اکثر اسلحہ برآمد ہوتا رہتا
ہے۔
4 اسلامی اداروں کے
طلبہ کے درمیان شاذ ونادر ہی لڑائی جھگڑے کے واقعات ہوتے ہیں جبکہ دنیاوی تعلیمی اداروں
کے طلبہ کی تنظیموں کے درمیان قتل وغارت کے واقعات عموما ہوتے رہتے ہیں۔
5 دینی مدارس کے طلبہ
گاڑیوں اور بسوں کی توڑ پھوڑ ان کے ڈرائیور اور کنڈکٹر حضرات کے ساتھ جھگڑے میں ملوث
نہیں پائے گئے جبکہ دنیاوی تعلیمی اداروں کے طلبہ کی بسوں اور گاڑیوں کی توڑ پھوڑ اور
ڈرائیور کنڈکٹر کے ساتھ لڑائی کے واقعات کی خبریں روزانہ اخبار میں ملاحظہ کی جا سکتی
ہیں۔
6 دینی طلبہ رشوت‘ ناجائز
سفارش‘ دھوکہ دہی‘ منشیات کی لعنت‘ قانون کی خلاف ورزی‘ لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ‘ آوارہ
گردی‘ صوبائی لسانی بنیادوں پر دنگا فساد اور دیگر معاشرتی برائیوں میں شاید ہی کبھی
ملوث پائے گئے ہوں۔ جبکہ دنیاوی تعلیمی اداروں کے طلبہ اکثر مذکورہ بالا معاشرتی برائیوں
میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اس کے باوجود اگر کوئی شخص دینی مدارس میں پڑھنے والوں کو دہشت
گردی کا طعنہ دے تو اس کی عقل کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
7 دینی مدارس سے فراغت
پانے والے عموما صاحب روزگار ہوتے ہیں‘ خواہ کسی سطح پر ہوں اور وہ خودکشی بھی نہیں
کرتے‘ جبکہ دنیاوی تعلیمی اداروں سے فراغت پانے والے اکثر اسناد لیے بے روزگار پھرتے
رہتے ہیں‘ اگر پیسہ یا سفارش میسر نہ آ سکے تو خودکشی کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔
8 دینی علم دنیاوی رہنمائی
کے ساتھ آخرت کا توشہ بھی فراہم کرتا ہے جبکہ دنیاوی علوم صرف دنیاوی مفاد ہی فراہم
کر سکتے ہیں‘ وہ بھی کسی کسی کو۔
9 دینی مدارس کے طلبہ
اسلامی معلومات میں دنیاوی تعلیمی اداروں سے فراغت پانے والوں سے پختہ ہوتے ہیں۔
0 انسانیت کی رہنمائی
کے لیے انہی اسلامی اداروں نے قیادت فراہم کی ہے کیونکہ اسلام خیر وبھلائی کا مذہب
ہے۔ ہاں اگر دنیاوی تعلیم سے آراستہ کچھ لوگوں نے یہ کام انجام دیا ہے تو یقینا انہوں
نے دینی تعلیم سے بھی استفادہ کیا ہے۔ تلک عشرۃ کاملۃ!
اس تقابلی خاکہ سے عبرت حاصل کریں اور دینی مدارس کے خلاف سازشیں
اور شرارتیں کرنا چھوڑ دیں‘ ایسے لوگوں کے ہاتھ بدبختی اور خسارے کے سوا کچھ نہیں آئے
گا۔ اگر دینی مدارس کو بند کر دیا جائے تو معاشرے میں جو بگاڑ‘ افراتفری‘ انانیت‘ اللہ
سے دوری اور اسلام سے بے گانگی پیدا ہو گی اس کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ اگر
کسی کے ذہن میں ہو کہ جس طرح روس‘ ترکی‘ اور کئی ملکوں میں دینی اداروں کو ختم کرنے
کی آڑ میں دین کو مٹانے اور لوگوں کو دین سے دور کرنے کی مذموم کوششیں کی گئیں اس طرح
وہ پاکستان میں یہ کام انجام دے لیں گے تو انہیں کسی ماہر نفسیات سے اپنا چیک اپ کروانا
چاہیے۔ وہ تو روس اور ترکی وغیرہ میں بھی اتنی کوششوں کے باوجود اسلام کی محبت مسلمانوں
کے دلوں سے نہیں نکال سکے۔ ہاں البتہ دینی مدارس میں بعض مفید جدید علوم شامل کر کے
ان کے نصاب کو بہتر تو بنایا جا سکتا ہے مگر دینی مدارس اور دینی تعلیم سے انکار نہیں
کیا جا سکتا۔ یہی اسلامی ادارے اسلام کے مضبوط قلعے ہیں جو اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے
میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ انہی مدارس سے فارغ ہونے والے علماء‘
فقہاء اور محدثین نے اسلام کے پھیلانے اور شرک وبدعت کی گمراہیوں میں انسانیت کی رہنمائی
کا کام سرانجام دیا ہے۔ اس وقت دنیا میں جو علم کی روشنی‘ دین کا شعور‘ نیکی سے محبت‘
برائی سے نفرت‘ سائنسی ترقی اور ایجادات نظر آ رہی ہیں انہی علماء اور سائنس دانوں
کی محنت اور فراہم کردہ مضبوط بنیادوں کا نتیجہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیمی
اداروں میں بھی دینی تعلیم کا بھر پور اہتمام ہونا چاہیے تا کہ ان اداروں سے فارغ ہونے
والے افراد میں بھی اللہ کا ڈر‘ آخرت کا خوف‘ ذمہ داری کا احساس‘ توکل علی اللہ اور
امانت ودیانت جیسی صفات ہوں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار!
No comments:
Post a Comment