خودکشی ... ایک سنگین جرم
تحریر: جناب مولانا نعیم الغفور
خود کشی‘ بزدلی اور کم ہمتی کی دلیل ہے۔ یہ کمزور ا ورمایوس
لوگوں کے لیے زندگی کے مسائل و مشکلات سے راہ فرارختیار کرنے کا ایک غیر اسلامی اور
غیر اخلاقی طریقہ ہے۔بد قسمتی سے پوری د نیا میں خود کشی کا رجحان روز بروز بڑھتا جا
رہا ہے۔ عالمی ادا رہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہرسال دس لاکھ لوگ خود کشی کرتے
ہیں۔ یہ شرح ایک لاکھ افراد میں سولہ فیصد بنتی ہے اور اس حساب سے دنیا میں چالیس سیکنڈ
کے بعد ایک شخص خود کشی کرتا ہے۔ دنیا کی کل اموات میں خود کشی کے باعث ہونے والی اموات
کی شرح ایک اشاریہ آٹھ فیصد ہے۔اور اس شرح
میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
زندگی اور اس کے مسائل کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر موجود
ہے جوکہ دیگر مذاہب کے مقابلے میں یکسر مختلف ہے۔ اسلام میں زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف
سے قیمتی امانت ہے‘ وہی اس کا حقیقی مالک ہے۔ اس دنیا میں انسان خود سے نہیں آیا بلکہ
اللہ تعالیٰ نے اس کو وجود بخشا ہے۔ لہٰذا انسان کو یہ فیصلہ کرنے کا حق نہیں کہ اسے
کب تک دنیا میں رہنا ہے اور کب یہاں سے کوچ کرنا ہے جس نے زندگی دی ہے وہی فیصلہ کرے
گا کہ زندگی کب واپس لی جائے گی۔ لہٰذ ا اس ز ندگی کا تحفظ کرنا انسان پر لازم وضروری
ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی انسان کی جان کتنی محترم اور اس کا وجود اس دنیا میں
کتنا ضروری ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ تنگدستی
اور غربت کے خوف سے اولاد کو قتل کر دیتے تھے تاکہ ان کی پرورش کے بوجھ سے آزاد رہیں۔
مگر اسلام نے نہ صرف اس کی مخالفت کی بلکہ اس فعل کو حرا م قرار دیا اور فرمایا ’’
نہ قتل کرو اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے ہم ہی روزی دیتے ہیں ان کو اور تم کو بھی‘
بے شک ان کو مارنا بڑی خطاء ہے ‘‘ (بنی اسرائیل :۳۱)
اس طرح ایک اور مقام پرصراحتاً خودکشی سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
’’تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔‘‘ (النساء:۲۹) دوسری جگہ فرمایا: ’’تم اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔‘‘ (البقرہ:۱۹۵) اس طرح کے اور بہت سے احکام قرآن مجید میں موجود ہیں جن سے بخوبی اندازہ لگایا
جا سکتا ہے کہ انسان کو اس بات کا اختیار ہی نہیں کہ وہ خودکشی جیسے قبیح فعل کا مرتکب
ہو ۔
رسول اللہ e نے
یہ بھی اصول مقرر کر دیا فرمایا کہ ’’ نہ اپنے آپ کو نقصان پہنچائو ‘‘(سنن ابن ماجہ:۲۳۴۰) لہٰذا ایسے جتنے بھی کام جن سے انسان کو نقصان پہنچ سکتا ہے یا اس کی بربادی کا
سبب بن سکتے ہوں وہ سب حرام ہیں۔ شریعت اسلامیہ میں خود کشی کرنا کتنا بڑا جرم ہے اس
کا اندازہ اس حدیث سے کیا جا سکتا ہے ۔
سیدنا جندب بن عبداللہt بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہe نے
ارشادفرمایا: ــ’’تم میں سے پہلی امت میں ایک شخص تھا جسے زخم لگا تو وہ اسے
بر داشت نہ کر سکا، چنانچہ اس نے چھری اٹھائی اور اپناہاتھ کاٹ ڈالا‘ اس سے اس کا خون
بہنے لگا اور وہ مر گیا۔ اللہ تعالی نے اس
کے بارے میں فرمایا: ’’میرے بندے نے اپنی جان
کے بارے میں جلدبازی کی(تکلیف کو برداشت نہ کیا اور خود ہی اپنے آپ کو مار ڈالا)اس
پر میں نے جنت کو حرام کر دیا۔(صحیح بخاری:۳۴۶۳)
جو لوگ دنیاوی مصیبتوں اور آزمائشوں سے تنگ آجاتے ہیںان کی
سوچ یہ ہوتی ہے کہ میں اپنے آپ کو مار دوں،ہرقسم کی پریشانیوں سے نجات مل جائے گی۔یہ
سوچ بہت خطرناک ہے کیونکہ انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ قدم اٹھانے کے بعد وہ کتنی
بڑی مصیبت میں گرفتار ہوجائیں گے۔اللہ تعالی انہیں کتنے بڑے عذاب میں مبتلا کر دے گا‘
قبر میں کیا ہو گا اور قیامت کے روز ان سے کیا سلوک کیا جائے گا؟
اس سلسلے میں رسول اکرم کریمe کی حدیث ملاحظہ فرمائیں۔
آپ e کا
ارشاد گرامی ہے:
’’جو شخص کسی پہاڑ سے خود کو گرا کر مار ڈالے تو وہ جہنم کی آگ میں
ہے اور برابر اپنے آپ کو اس میں نیچے گرا رہا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہے گا او
ر جو شخص زہر پی کر اپنے آپ کو مار ڈالے ( جیسا کہ آجکل ایسے واقعات بہت زیادہ رونما
ہو رہے ہیں) تو وہ اپنی زہر اپنے ہاتھ میں لئے جہنم میں چلا جاتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ
کے لئے اس میں رہے گا۔‘‘(صحیح بخاری :۵۷۷۸)
جو شخص خود کشی کرنا چاہتا ہے اس کو اس فعل سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہیے کہ کیا وہ اس طرح کا
اقدام کر کے مشکلات و مصائب سے نجات پا سکے گا ؟ یا دنیاوی مشکلات سے بڑھ کر کہیں بڑے
عذاب میں مبتلا ہو جائے گا ؟ اور جو لوگ اپنا گلا دبا کر ما جاتے ہیں یا گولی مار کر
خودکشی کر لیتے ہیں ان کا یہ جرم کس قدر سنگین ہے ۔
اس کا اندازہ نبی کر یمe کے اس ارشاد سے کیا جا سکتا ہے:
’’جو شخص اپنا گلا
گھونٹا ہے وہ جہنم کی آگ میں بھی اسے گھونٹے گا اور جو شخص اپنے آپ کو ( کسی چیز
کے ساتھ) نشانہ بنا تا ہے وہ جہنم کی آگ میں بھی اسے (اسی چیز کے ساتھ) نشانہ بنائے
گا۔‘‘( صحیح بخاری : ۱۳۶۵)
ایک اور حدیث میں نبی کریم e کا ارشاد ہے:
’’جو آدمی دنیا
میں اپنے آپ کو کسی چیز کے ساتھ مارے گا تو اسے قیامت کے روز اسی چیز کے ساتھ عذاب
دیا جائے گا۔‘‘
ان تمام احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ خودکشی چاہے کسی بھی طرح
سے کی جائے حرام ہے اور اپنے آپ کو مارنا بہت بڑا گناہ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید
میں، رسول اللہ e نے
احادیث مبارکہ میں اس کی حرمت کو بالکل واضح فرما دیا لہٰذا کسی بھی انسان کو اس طرح
کے اقدام کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہیے ۔
یہ سچ ہے کہ زندگی کے سفر میں کبھی ایسے موڑ بھی آجاتے ہیں
جب انسان نا امید ہو جا تا ہے‘ کیوں کہ زندگی کے نشیب و فراز میں جہاں خوشی و مسرت
ہے وہیں غم ،دکھ اور پریشانیاں بھی ہیں ایسے موقع پر کامیاب شخص وہ ہے جو ہمت اور حوصلے
کے ساتھ ان حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرے ،دل ہارنے کی بجائے پامردی واستقلال کا ثبوت
پیش کرے ۔
غور کیا جائے تو مسلمانوں میں خودکشی کی بڑھتی ہوئی شرح کے اسباب
میں سے ایک بنیادی سبب اسلام اور اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ
اپنے بندوں کو آزمائش میںڈال کر ان کے گناہوں کو مٹا تا ہے اور درجات کو بلند کرتا
ہے۔جو لوگ آزمائش میں پورا اترتے ہیں وہ اللہ کی رحمتوں کے سائے میں آجاتے ہیں اور
جو ناکام ہو جاتے ہیںوہ خودکشی کو راہ نجات سمجھتے ہوئے اپنا خاتمہ کر لیتے ہیں‘ وہ
نہ صرف اپنا دنیاوی نقصان کرتے ہیں بلکہ اپنی آخرت بھی تباہ کر لیتے ہیں ۔انسان کو
اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ ہونا چاہیے اور یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ سب تکلیفوں
اور مصیبتوں کو ختم کرنے والی ذات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہے ۔صبر کا مظاہر ہ کرتے
ہوئے اس قبیح فعل کو انجام نہیں دینا چاہیے اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ڈٹ
کرتمام مشکلات کا مقابلہ کرنا چاہیے ۔انسان جن پریشانیوں میں مبتلا ہوتا ہے ان میں
بعض کا تعلق ماضی کے ساتھ ہوتا ہے اور بعض کا تعلق حال کے ساتھ اور بعض کا تعلق مستقبل
کی فکر کے ساتھ ہوتا ہے ۔
اگر ان کا تعلق ماضی کے ساتھ ہو مثلا ً گذرے ہوئے زمانہ میں
کسی نے اس پر ظلم کیا ہو یا کسی بڑی مصیبت سے دوچار ہوا ہو اور ماضی کی مشکلات اور
آزمائشوں کے بارے میں سوچ سوچ کر وہ ہر وقت غمزدہ رہتاہو‘ آخر کار یہ فیصلہ کرے اب
اس کے زندہ رہنے کا کوئی فائدہ نہیں تو یہ عقلمندی نہیں۔ ماضی میں جو کچھ ہوا اسے بھول
جائیں اور پرانی باتوں کو اپنے ذہن میں جگہ نہ دیں۔ جہاں تک تعلق حال کا ہے اگر کوئی
انسان کسی آزمائش یا تکلیف میں مبتلا ہو تو اسے برداشت کرنا چاہیے او ر اللہ تعالیٰ
سے اس کے ازالے کی بار بار دعا کرنی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور نہیں
جو اس کی پریشانیوں کو ختم کر سکے ،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’بھلا کون ہے جو
لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتاہے
‘‘(النمل:۶۲)
جہاں تک مستقبل کا تعلق ہے تو آنے والی زندگی کے بارے میں انسان
خواہ مخواہ پریشان ہو جاتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان آنے والے ایک لمحہ کے
بارے میں بھی نہیں جانتا کہ اس میں کیا ہوگا ۔اس لئے اسے اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ
کرنا چاہیے اور اس پر حسن ظن رکھتے ہوئے اس سے خیر کی امید رکھنی چاہیے کیونکہ تمام
امور اللہ ہی کے ہاتھ میں او ر وہی مدبر اور مسبب الاسباب ہے۔
No comments:
Post a Comment