شرک ... نا قابل معافی جرم
تحریر: جناب مولانا محمد صہیب
ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک جتنے ادیان و مذاہب اس روئے
زمین پر نمودار ہوئے بحمداللہ مذہب اسلام کو جو مرتبہ حاصل ہوا وہ کسی دوسرے مذہب کو
نہ مل سکا۔ جس کی بابت خداوند قدوس خود فرماتے ہیں:
{إِنَّ الدِّیْنَ
عِندَ اللّہِ الإِسْلاَمُ}(آل عمران: ۱۹)
’’اللہ کے نزدیک
سب سے محبوب دین اسلام ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ
آئے دن ہزاروں کی تعداد میں لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں اور اللہ رب العزت
کے اس فرمان {ادخلوا فی السلم کافۃ} ’’تم سلامتی میں پورے پورے داخل ہو جائو‘‘ کو عملی
جامہ پہنا رہے ہیں۔ مگر افسوس کہ اتنی بڑی نعمت پانے کے باوجود آج کتنے بدنصیب مسلمان
اسلام کے صحیح تقاضوں سے غافل اور اس کے حقوق کو پامال کئے بیٹھے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ
نے کھلے لفظوں میں فرما دیا:
{وَمَا خَلَقْتُ
الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ} (الذاریات: ۵۶)
’’میں نے جن و انس
کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔‘‘
اللہ نے ہماری پیدائش کا مقصد ہی عبادت و بندگی قرار دے دیا،
اس کے باوجود ہم مسلمان اس اہم ذمہ داری سے کوسوں دور ہیں اور اس عظیم مقصد کو کھو
دیا ہے، اللہ کے ذکر سے غافل ہیں۔ ہماری انہی کوتاہیوں کی وجہ سے آج کتنی مسجدیں ویران
ہیں، جس کی پاداش میں ہمیں آئے دن طرح طرح کی آفات و مصائب سے دوچار ہونا پڑ رہا
ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{وَلاَ تَہِنُوا
وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ} (آل عمران:
۱۳۹)
’’غم اور فکر مت
کرو یقینا تم ہی سربلند ہو گے اگر تم مومن ہو۔‘‘
لیکن ہم نے اللہ کو اور اس کے نبی کے فرمودات کو بھلا دیا ہے،
اسی وجہ سے آج ہمیں ہر موڑ پر ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اگر ہم تھوڑی بہت عبادت کرتے بھی ہیں تو اس میں بدعت و شرک کی
آمیزش ہوتی ہے جسے ہم اور آپ پرکھ نہیں سکتے۔ ملک پاکستان کی آبادی کروڑوں مسلمانوں
پر مبنی ہے جو اپنے آپ کو صحیح مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اکثریت شرک و بدعت
میں ملوث ہے جس کے سلسلے میں اللہ کا قطعی فیصلہ ہے:
{إِنَّ اللّہَ لاَ
یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یَشَائُ} (النساء:
۴۸)
’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ
شرک ہر گز نہیں معاف کرے گا البتہ اس کے علاوہ گناہ جس کے لئے چاہے معاف فرما دے گا۔‘‘
اس آیت کریمہ سے صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ شرک کے علاوہ دوسرے
گناہ تو معاف ہو سکتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں مگر شرک اللہ کی نظر میں
ایسا بدترین جرم ہے جس کو اللہ تعالیٰ کبھی بھی معاف نہ کریں گے اور ایسے بدکاروں کے
لئے جنت حرام کر دی گئی ہے اور جہنم ان کی دائمی پناہ گاہ ہوگی۔ ارشاد باری تعالیٰ
ہے:
{إِنَّہُ مَن یُشْرِکْ
بِاللّہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَأْوَاہُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ
مِنْ أَنصَارٍ} (المائدۃ: ۷۲)
’’بلاشبہ جو شخص
اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے تو اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے
اور ظالموں (مشرکوں) کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔‘‘
اللہ تبارک و تعالیٰ نے شرک کو دوسرے مقامات پر ظلم سے تعبیر
کیا ہے۔ ارشاد ہے:
{إِنَّ الشِّرْکَ
لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ} (سورۃ لقمان: ۱۳)
’’یقینا شرک بہت
بڑا ظلم ہے۔‘‘
اس سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر کسی نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک
ٹھہرایا تو اس کے سارے اعمال ضائع و برباد ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
{وَلَقَدْ أُوحِیَ
إِلَیْْکَ وَإِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَئِنْ أَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ
وَلَتَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ } (الزمر: ۶۵)
’’یقینا آپ کی طرف
اور آپ سے پہلے (پیغمبروں میں سے ہر پیغمبر) کی طرف یہ وحی کی گئی کہ اگر تم نے شرک
کا ارتکاب کیا تو تمہارے اعمال برباد ہو جائیں گے اور تم نقصان اٹھانے والوں میں سے
ہو جائو گے۔‘‘
ان واضح آیات کے باوجود بھی اگر ہم سوئے رہے تو ہمارا شمار
مسلمانوں میں نہیں بلکہ کافروں اور مشرکوں میں ہوگا اور ہمارے سارے اعمال برباد ہو
جائیں گے، جس کا اشارہ سورۂ انعام میں کچھ اس طرح ہے:
{وَلَوْ أَشْرَکُواْ
لَحَبِطَ عَنْہُم مَّا کَانُواْ یَعْمَلُون} (الانعام: ۸۸)
’’اگر ان سے شرک
کا ارتکاب ہو جاتا تو ان کے سارے اعمال اکارت جاتے۔ ‘‘
شرک ایک ایسا گناہ ہے جو ہمارے سارے اعمال ضائع و اکارت کر دے
گا اور جہنم کے ایسے گڑھے میں پھینک دے گا جہاں سے واپسی ممکن نہ ہوگی اور ہماری اخروی
زندگی تباہ ہو جائے گی۔ اس وقت ہمارے کف افسوس ملنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا اور ہم ہمیشہ
کے لئے جہنم کی خوراک ہو جائیں گے۔ انبیاء کرام سے شرک سرزد ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں
ہوتا کیونکہ انبیاء علیہم السلام معصوم عن الخطا ہیں، اس کے باوجود اللہ نے پیغمبروں
کا نام لے کر یہاں تک کہ سیدنا محمد عربیe سے فرما دیا کہ شرک کی وجہ سے سارے اعمال اکارت و برباد
ہو جائیں گے۔ یہاں مراد ان کی امتیں اور اخیر میں امت محمدیہ ہے کہ شرک نہایت خطرناک
عمل ہے۔ شرک کی مثال دیمک کی ہے جس طرح دیمک ہماری محنتوں کو چاٹ جاتا ہے، ٹھیک اسی
طرح شرک ہمارے اچھے اعمال کا صفایا کر دیتا ہے، جو بھی اس میں ملوث ہو گیا وہ تباہ
ہو گیا۔ نبی کریمe نے
حضرت معاذؓ کو ایک وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا:
[لا تشرک باللہ شیئا
وان قتلت أو حرقت] (مسند احمد)
’’اللہ کے ساتھ کسی
چیز کو شریک نہ کرنا، اگرچہ تجھے قتل کر دیا جائے یا جلا دیا جائے۔‘‘
ان زندہ و جاوید صراحتوں کے بعد بھی ہماری آنکھیں بند ہیں،
ہم عقل سلیم کا استعمال نہیں کرتے، آخر ہم کب بیدار ہوں گے، ہماری آنکھوںپر کب تک
پردہ پڑا رہے گا؟ قرآن کی واضح آیات اور نبی کی سچی شریعت ہمارے سامنے ہے، اس کے
باوجود ہم شرکیہ و احمقانہ نعرے کیوں بلند کرتے ہیں، جبکہ قرآن پاک پکار پکار کر یہ
کہہ رہا ہے:
{ذَلِکَ بِأَنَّ
اللَّہَ ہُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا یَدْعُونَ مِن دُونِہِ ہُوَ الْبَاطِلُ} (الحج:
۶۲)
’’یہ اس لئے کہ اللہ
ہی حق ہے اور اس کے سوا جن کو وہ پکارتے ہیں باطل ہیں۔‘‘
اب ضرورت ہے کہ ہم قرآن کریم کے مفاہیم کو اچھی طرح سمجھیں
اور اسی نسخہ کیمیا کی ہدایات کے مطابق اپنی زندگی گزاریں اور قرآن کی اس آیت کو
اپنا لائحہ عمل تصور کریں۔
{وَاعْبُدُواْ اللّہَ
وَلاَ تُشْرِکُواْ بِہِ شَیْْئاً} (النساء:
۳۶)
’’تم اللہ کی عبادت
کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔‘‘
ورنہ ہمارے اور کفار کے مابین جو حد فاصل ہے وہ فوت ہو جائے
گا اور اس طرح سے ہمارا طرۂ امتیاز ہم سے کھو جائے گا اور ہم زمرۂ اسلام سے خارج
ہو جائیں گے۔ مسلمان کے گھر میں جنم لینے یا کلمہ ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘
زبان سے ادا کرنے سے ایک انسان مسلمان نہیں ہو جاتا بلکہ اس کے کچھ تقاضے ہیں جن کی
تکمیل کے بعد ہی ایک سچا مسلمان ہو سکتا ہے۔ ورنہ ہمارے یہ دعوے خام خیالی پر مبنی
ہوں گے اور روز محشر ہم شرمندہ ہوں گے، اس دن ہماری چیخ و پکار بے سود ہوگی۔ اس دن
ہمارے معبودان باطلہ کچھ کام نہ آئیں گے بلکہ وہ قہرالٰہی سے پریشان ہوں گے اور ہم
خائب و خاسر ہوں گے۔
شرک ایک تباہ کن مرض ہے جس کی دوا قرآن کریم کی تابندہ آیتیں
اور معالج نیک و صالح علماء ہیں۔ شرک ایسا خطرناک مرض ہے جس کی تشخیص ایک ماہر معالج
ہی کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{وَمَا یُؤْمِنُ
أَکْثَرُہُمْ بِاللّہِ إِلاَّ وَہُم مُّشْرِکُونَ} (سورۂ یوسف: ۱۰۶)
’’اللہ کو ماننے
والے اکثر مشرک ہیں۔‘‘
اللہ کا یہ فرمان
کافی اہمیت کا حامل ہے اور ہمیں ایک نئی سمت کی طرف لے جاتا ہے کہ شرک کی تشخیص اتنی
آسانی سے نہیں ہو سکتی اور ایک سچا مومن بھی اپنے آپ کو شرک کے پھندے سے محفوظ نہیں
کر سکتا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اس سے آگاہ کیا ہے۔ ارشاد ہے:
{فَلاَ تَجْعَلُواْ
لِلّہِ أَندَاداً } (البقرۃ: ۲۲)
’’تم اللہ کے لئے
کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔‘‘
تو پھر ہمیں غیروں کے پاس جانے یا ان کے سامنے سرجھکانے کی کیا
ضرورت ہے جبکہ اگر ان سے پوچھا جائے کہ آسمان و زمین کس کی تخلیق ہے تو یقینا ان کی
زبان پر اللہ کا ہی نام آئے گا۔ جیسا کہ اللہ رب العزت خود فرماتے ہیں:
{وَلَئِن سَأَلْتَہُم
مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَیَقُولُنَّ خَلَقَہُنَّ الْعَزِیْزُ الْعَلِیْمُ}
(زخرف: ۹)
’’اگر آپ ان سے
پوچھیں کہ زمین و آسمان کس نے پیدا کئے؟ تو یقینا وہ کہیں گے کہ اللہ نے پیدا کیا۔
‘‘
رہی وسیلہ کی بات تو اس کے بارے میں صراحتاً ارشاد ہے:
{وَابْتَغُواْ إِلَیْہِ
الْوَسِیْلَۃَ } (المائدۃ: ۳۵ )
’’تم اس کی طرف وسیلہ
تلاش کرو۔ ‘‘
یعنی اعمال صالحہ کے ذریعہ سے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش
کرو نہ کہ بزرگوں کے عمل سے، جب اللہ نے کھلے لفظوں میں فرما دیا کہ
{نحن أقرب الیہ
من حبل الورید}
میں تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں تو پھر غیر اللہ سے مانگنے کی کیا ضرورت
ہے…؟؟
افسوس ان واضح آیات کے بعد بھی آج مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت
مشرکین عرب کی طرح توحید ربوبیت کی تو قائل ہے لیکن توحید الوہیت کی منکر ہے۔ اسی وجہ
سے وہ مافوق الاسباب طریقے سے غیراللہ سے امیدیں وابستہ رکھتی ہے اور غیراللہ کے نام
کی نذر و نیاز دیتی ہے۔ ان سے استمداد اور استغاثہ کرتی ہے۔ جبکہ قرآن عظیم علی الاعلان
کہتا ہے:
{وَقَالَ رَبُّکُمُ
ادْعُونِیْ أَسْتَجِبْ لَکُمْ } (غافر: ۶۰)
’’تمہارا رب کہتا
ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔‘‘
دوسرے مقام پر
کچھ یوں کہا گیا ہے:
{وَإِذَا سَأَلَکَ
عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ}
(البقرۃ: ۱۸۶)
’’میرے بندے تم سے
میرے بارے میں پوچھتے ہیں تو میں قریب ہوں، پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو اسے سنتا
ہوں۔‘‘
بہت ساری سہولیات اور نعمتوں کے باوجود آج کتنے مسلمان شرک
و بدعات میں مبتلا ہیں، انہوں نے اللہ کے فرمودات اور نبیe کی شریعت کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ آج مسجدیں تو ویران
ہیں لیکن شرک کے مراکز آباد ہیں۔ سجدے جو اللہ کے لئے خاص ہیں غیراللہ کیلئے کیے جا
رہے ہیں۔ فریاد رسی اللہ کے بجائے غیراللہ سے کی جاتی ہے اور اس کے بعد ہم اللہ کی
رحمتوں اور نعمتوں کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ اللہ ہدایت دے ایسے مسلمانوں کو جو اللہ
کو بھول کر غیراللہ کی طرف رخ کرتے ہیں۔ اے
اللہ! اس نازک مرحلے میں ہماری مدد فرما اور شرک جیسے گھنائونے عمل سے محفوظ
رکھنا۔ آمین!
No comments:
Post a Comment