تبصرۂ کتب
نام کتاب: حافظ عبدالرزاق سعیدیa
تالیف: حافظ
فاروق الرحمن یزدانی
صفحات: 623 صفحات میڈیم
سائز‘ عمدہ جلد
ناشر: دار العلوم رحمانیہ‘ فاروق آباد‘ ضلع شیخوپورہ
تبصرہ نگار: جناب حافظ محمد اسلم شاہدرویؔ (معاون ناظم طبع وتالیف مرکزی جمعیت اہل حدیث پنجاب)
زیر تبصرہ کتاب دار العلوم رحمانیہ فاروق آباد ضلع شیخوپورہ
کے بانی ومہتمم حکیم حافظ عبدالرزاق سعیدی مرحوم کی حیات‘ خدمات وآثار کے تعارف پر
مختلف اہل علم کے مضامین سے مرتب کی گئی ہے۔ مرحوم دینی اعتبار سے گوناں گوں خوبیوں
کے حامل تھے۔
ان کی پیدائش یکم اپریل ۱۹۳۷ء کو ویرووال افغاناں ضلع امرتسر میں ہوئی۔ ان کا خاندان نیکی اور تقویٰ میں ممتاز
تھا۔
حافظ سعیدی مرحوم کے دادا عبدالرحمن عرف بابا کالو علاقے کی
معروف شخصیت تھے۔ انہی عبدالرحمن کے ایک بیٹے حکیم محمد ابراہیم حافظ آبادی تھے جو
حافظ اسماعیل اسد حافظ آبادی کے والد محترم اور حافظ سعیدی کے چچا تھے۔
حافظ سعیدی نے دار العلوم شمسیہ عربیہ ویرووال سے ابتدائی دینی
تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۴۷ء میں ان کا خاندان ہجرت کر کے مغل پورہ لاہور آیا‘ پھر وہاں
سے ڈیرہ ملا سنگھ فاروق آباد منتقل ہو گیا۔
حفظ قرآن کی سعادت چچا جان حکیم ابراہیم حافظ آبادی کے زیر شفقت
حافظ آباد شہر میں حاصل کی‘ پھر فیصل آباد میں اپنے ہی گاؤں کے مولانا محمد عبداللہ
ویرووالوی سے کسب فیض کیا۔ ازاں بعد چک ۷ کرملی والا‘ میان چنوں پہنچ کر شیخ الحدیث مولانا علی محمد سعیدی
سے علوم اسلامیہ کی تکمیل کی۔
حافظ سعیدی صاحب کے دیگر اساتذہ میں علامہ محمد یوسف کلکتوی‘
مولانا ابوسعید شرف الدین دہلوی‘ مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف فیصل آبادی اور حکیم محمد
عبداللہ جہانیاں منڈی والے قابل ذکر ہیں۔
حافظ صاحب کے ساتھیوں میں حافظ اسماعیل اسد‘ قاری محمد اسلم
گوجرانوالہ‘ مولانا عبدالرزاق مسعود اور مولانا محمد یوسف انور شامل ہیں۔ ان کے شاگردوں
کا سلسلہ بھی وسیع ہے۔
انہوں نے پہلے اپنے گاؤں ڈیرہ ملا سنگھ میں ہی درس وتبلیغ کا
سلسلہ شروع کیا۔ وہیں پر دار العلوم رحمانیہ کی بنیاد رکھی۔ یہ سلسلہ ۱۹۶۴ء میں شروع ہوتا ہے۔ ۱۹۶۵ء میں یہاں پر سالانہ
کانفرنس کا بھی آغاز کیا۔ ۱۹۷۴ء کو یہ مدرسہ ڈیرہ
ملا سنگھ گاؤں سے منڈی فاروق آباد‘ لاہور سرگودھا روڈ پر لاری اڈہ کے قریب منتقل کر
دیا گیا۔
اس مدرسہ میں نامور اساتذہ حافظ عبدالرزاق صاحب کی سربراہی میں
شغل تدریس میں مشغول رہے۔ جن میں حفظ‘ ناظرہ‘ تجوید اور درس نظامی کے شعبے شامل ہیں۔
یہاں شیخ الحدیث مولانا محمد یحییٰ گوندلوی اشاعۃ السنۃ کے نام سے ایک سلسلہ وار رسالہ
بھی شائع کرتے رہے۔ ۱۹۸۹ء میں دار العلوم رحمانیہ للبنات کا آغاز کیا گیا۔
تبلیغ کے علاوہ تنظیمی طور پر بھی وہ بہت متحرک تھے‘ علامہ احسان
الٰہی ظہیرa کی
تحریک میں ضلع شیخوپورہ کی بھر پور نمائندگی کرتے‘ پھر لمبے عرصے تک ضلع کے امیر بھی
رہے۔ جب اس میں ننکانہ ضلع بھی شامل تھا وہ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے ساتھ مضبوطی
سے وابستہ تھے۔ علاقہ بھر میں معروف ان کی دو روزہ سالانہ کانفرنس میں بھی جماعت کے
علماء کو ہی مدعو کیا جاتا تھا۔ ان کا جماعتی نظریہ پختہ تھا۔
موصوف حکیم اور روحانی معالج بھی تھے‘ ان ذرائع سے ان سے فیض
پانے والے افراد بھی دار العلوم رحمانیہ کے معاون ہوتے اور اہل حدیث کے لیے نرم گوشہ
رکھتے تھے۔
مجھے ۱۹۸۱ء کے بعد کچھ عرصہ
یہاں پڑھنے کا موقع ملا‘ میرا مضمون بھی شامل کتاب ہے۔ ملک کے نامور اہل علم وفضل اور
قلم وقرطاس کے متعلقین نے موصوف کے ساتھ اپنی محبت اور عقیدت کا جو اظہار مضامین کی
صورت میں کیا ہے میرے عزیز دوست مولانا فاروق الرحمن یزدانی نے اسے بہت حسن وخوبی سے
جمع کر کے کتب وابواب کی بہترین ترتیب پر یہ کتاب مرتب کی ہے۔ یزدانی صاحب نے اسے موصوف
کے متعلقین اور متعلقات کے حوالے سے ایک عمدہ تاریخی دستاویز بنا دیا ہے۔ اس کی ترتیب
پر یزدانی صاحب اور اشاعت پر موصوف کے فرزند گرامی حکیم شاہد محمود سعیدی ہم سب کی
طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں۔ یہ کتاب ہر اہل حدیث گھرانے تک پہنچنی چاہیے۔
No comments:
Post a Comment