کراماتِ اولیاء
تحریر: جناب مولانا مشتاق احمد
’’کرامات‘‘ کرامت کی جمع ہے اور کرامت خرق عادت واقعہ کو کہتے
ہیں۔ یعنی عام عادی اسباب سے ہٹ کر کسی واقعہ کا ظہور ہونا‘ جیسے آگ کا کام جلانا
ہے لیکن وہ نہ جلائے‘ سوکھے درخت یا غیر موسم میں پھل نہیں ہوتے‘ لیکن ان میں پھل پیدا
ہو جائے یہی کرامت ہے۔
کرامت کسی بندے‘ پیر‘ فقیر‘ ولی کے اختیار میں نہیں کہ جب چاہے
اس کا اظہار کر دے بلکہ یہ کلیتاً اللہ رب العالمین کے اختیار میں ہے وہ جب چاہے اپنے
کسی بندے کے ہاتھ سے اسے ظاہر کروا دے۔ کرامات انبیاءo کے معجزات کی طرح برحق ہیں لیکن یہ کسی کے ولی کامل
ہونے کی دلیل یا معیار نہیں۔ جیسا کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں‘ بلکہ ایک متقی اور مومن
کامل ہی درحقیقت اللہ کا ولی ہے اور اس کی ولایت کسی کرامت کی محتاج نہیں۔
قرآن مجید میں اولیاء اللہ کی یہی پہچان بتائی گئی ہے کہ وہ
ایمان وتقویٰ کی صفات سے آراستہ ہوتے ہیں اور قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں ان پر
خوف وحزن کے آثار نہیں ہوں گے کیونکہ ایمان وتقویٰ کا زادِ راہ ان کے پاس ہو گا جو
ان کی نجات کا ذریعہ بنے گا‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{اَلَا اِنَّ اَوْلِیَآئَ
اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ٭ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا
یَتَّقُوْنَ٭}
’’خبردار! اللہ کے
ولی جو ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے رہے ان پر خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔‘‘
(یونس: ۶۲‘ ۶۳)
کرامات کا مقصد:
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہa اپنی کتاب ’الفرقان بین اولیاء الرحمن واولیاء الشیطان‘
میں لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کے
محبوب بندوں کی کرامتیں دراصل دین کی حجت یا مسلمانوں کی کسی ضرورت کے تحت ظہور پذیر
ہوتی ہیں‘ جیسا کہ نبی کریمe کے
معجزات کا ظہور ہوتا تھا۔ اولیاء اللہ کی کرامات رسول اللہe کی
اتباع کی برکت سے حاصل ہوتی ہیں اس لیے درحقیقت یہ بھی رسول اللہ کے معجزات میں شامل
ہیں۔ مثلاً کھجور کے تنے کا آپ کے سامنے رونا‘ غزوۂ خندق کے موقع پر کھانے کے ایک
برتن سے آپ کا پورے لشکر کو سیراب کر دینا وغیرہ۔ اس طرح کی بہت سی کرامات ہیں جو
اللہ کے نیک بندوں‘ انبیاء واولیاء صادقین کے ہاتھوں پر ظہور پذیر ہوئیں اور آئندہ
ہوتی رہیں گی۔
کسی شخص کے ہاتھ پر کرامت کا ظہور اس کے ایمان کی تقویت یا اس
کی ضرورت کی تکمیل کے لیے ہوتا ہے اور کسی ولی وپرہیزگار شخص کے ہاتھوں کرامت کے ظہور
نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی ولایت میں نقص ہے‘ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام کی بہ نسبت تابعین
میں کرامتوں کا ظہور زیادہ ہوا ہے۔‘‘
کتاب وسنت میں مذکور بعض کرامات:
کتاب وسنت میں اللہ کے کئی نیک بندوں کی کرامت مذکور ہے۔ مثلاً
قرآن مجید میں مریم کی کرامت کے تعلق سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{فَنَادَتْہَا مِنْ
تَحْتِہَا اَلَّا تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا٭ وُہُزِّیْ اِلَیْکِ
بِجِذْعِ النَّخْلَۃِ تُسٰقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا} (مریم: ۲۴‘ ۲۵)
’’اتنے میں اسے نیچے سے ہی آواز دی کہ آزردہ خاطر نہ ہو‘ تیرے رب
نے تیرے پاؤں تلے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے اور اس کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا یہ
تیرے سامنے تر وتازہ پکی کھجوریں گرا دے گا۔‘‘
یعنی بطور کرامت اور خرق عادت اللہ تعالیٰ نے ان کے پاؤں تلے
پینے کے لیے پانی اور کھانے کے لیے ایک سوکھے ہوئے درخت میں پکی ہوئی تازہ کھجوروں
کا انتظام کر دیا۔
اصحاب کہف کی کرامت کے تعلق سے بھی قرآن مجید میں تذکرہ موجود
ہے جس کا ترجمہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے:
’’جب تم ان سے اور
ان کے معبودوں سے کنارہ کش ہو گئے تو اب تم کسی غار میں جا بیٹھو‘ تمہارا رب تم پر
اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے لیے تمہارے کام میں سہولت مہیا کرے گا اور آپ دیکھیں
گے کہ آفتاب بوقت طلوع ان کے غار سے دائیں جانب کو جھک جاتا ہے اور بوقت غروب ان کے
بائیں جانب کترا جاتا ہے اور وہ اس غار کی کشادہ جگہ میں ہیں۔‘‘ (الکہف: ۱۶‘ ۱۷)
یعنی جس غار میں اصحاب کہف نے پناہ لے رکھی تھی وہ غار اتنا
کشادہ تھا کہ سورج کی شعاعیں غار کے اندر پہنچ سکتی تھیں لیکن سورج طلوع وغروب ہونے
کے وقت دائیں اور بائیں سے کٹ کر نکل جاتا اور ان پر دھوپ نہ پڑتی تھی۔
احادیث مبارکہ میں بھی صحابہ کرام ودیگر اولیاء کی
کرامات کا ذکر موجود ہے۔ سیدنا جابرt بیان
فرماتے ہیں کہ اہل کوفہ نے سیدنا عمرt سے سیدنا سعد بن ابی وقاصt کی
شکایت کی کہ وہ نماز صحیح ڈھنگ سے نہیں پڑھاتے تو سیدنا عمرt نے
ان کو کوفہ کی گورنری سے معزول کر دیا اور تحقیق کے لیے ایک یا چند آدمیوں کو کوفہ
روانہ کیا تا کہ وہ کوفہ جا کر وہاں کے لوگوں سے سیدنا سعدt کے
بارے میں رائے لیں۔
چنانچہ کوفہ کی ہر مسجد میں جا کر سیدنا سعدt کی
بابت پوچھا گیا تو سبھوں نے ان کی تعریف کی‘ البتہ بنو عبس کی ایک مسجد کے نمازیوں
میں سے ایک اسامہ بن قتادہ نامی شخص نے کہا کہ سعد لشکر کے ساتھ جہاد کے لیے نہیں نکلتے‘
تقسیم میں برابری نہیں کرتے اور فیصلہ کرنے
میں انصاف سے کام نہیں لیتے۔ یہ سن کر سیدنا سعدt نے فرمایا:
’’میں بھی تین باتوں
کی دعا ضرور کروں گا: اے اللہ! اگر تیرا یہ بندہ (اسامہ) جھوٹا ہے تو اس کی عمر لمبی
کر‘ اس کی غربت وناداری میں اضافہ کر اور اسے فتنوں کا نشانہ بنا دے۔‘‘
چنانچہ ایسا ہی ہوا‘ اس کے بعد جب اسامہ سے پوچھا جاتا تو کہتا
کہ بہت بوڑھا اور فتنوں میں مبتلا ہو گیا ہوں‘ مجھے سعد کی بد دعا لگ گئی ہے۔ (بخاری
ومسلم)
مذکورہ حدیث میں سیدنا سعدt کی کرامت کا ذکر ہے جو انہوں نے اسامہ کے حق میں بد
دعا فرمائی اور تینوں کی تینوں مقبول ہو گئیں۔
اسی طرح سیدنا سعید بن زیدt سے ارویٰ بنت اوس نے جھگڑا کیا اور والی مدینہ مروان
بن حکم سے یہ شکایت کی کہ سعید نے اس کی کچھ زمین غصب کر لی ہے۔ سیدنا سعید بن زیدt نے
اس عورت کے لیے بد دعا فرمائی‘ کہا: اے اللہ! اگر یہ عورت جھوٹی ہے تو اس کی آنکھوں
کی بینائی ختم کر دے اور اس کو اس کی زمین ہی میں موت دے دے‘ چنانچہ مرنے سے پہلے اس
کی بینائی چلی گئی اور ایک روز وہ اپنی زمین پر چل رہی تھی کہ ایک گڑھے میں گری اور
مر گئی۔ (بخاری ومسلم)
ان کے علاوہ بھی اولیاء اللہ کی بہت کرامات ہیں۔ مثلاً اصحاب
الاخدود کے لڑکے کا واقعہ اور جریج کے قصے میں شیر خوار بچے کا بولنا وغیرہ۔
کرامات اولیاء اور شیطانی شعبدہ بازی میں فرق:
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:
’’اولیاء اللہ کی
کرامات اور شیطانی احوال میں متعدد امور کا فرق ہے۔ مثلاً اولیاء کی کرامتوں کا سبب
ایمان وتقویٰ ہوتا ہے جبکہ شیطانی احوال اللہ اور اس کے رسول کی منہیات کا نتیجہ ہوتے
ہیں۔ اولیاء اللہ کی کرامات‘ نماز‘ روزوں‘ ذکر‘ دعا اور تلاوت قرآن مجید وغیرہ کے
ذریعہ ظہور پذیر ہوتی ہیں‘ جو چیزیں ان کے ذریعہ سے حاصل نہ ہوں بلکہ وہ شرک‘ ظلم‘
فسق‘ کفر اور توحید کے منافی چیزوں سے حاصل ہوں تو یہ شیطانی احوال میں سے ہیں۔ اللہ
کی کرامت سے اس کا تھوڑا بھی تعلق نہیں ہوتا۔
شیطانی احوال والوں میں سے بعض یہ ہیں کہ جب وہ سیٹیوں اور تالیوں
کی محفلوں میں حاضر ہوتے ہیں تو ان پر شیطان اترتا ہے‘ ان کی خوب مدح کرتا ہے اور ان
کے کاموں کو خوب سراہتا ہے۔ اسی طرح اللہ کے علاوہ جس بھی مخلوق سے استغاثہ وفریاد
کی جاتی ہے تو شیطان اس کا روپ اختیار کر کے فریاد کنندہ کی بعض ضرورتوں کو پورا کر
دیتا ہے اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ وہی ہے جسے پکارا گیا ہے یا پھر فرشتہ ہے جو اس
کی شکل میں حاضر ہوا ہے‘ حالانکہ درحقیقت وہ شیطان ہوتا ہے۔
بعض لوگ ہوا میں عرش کو دیکھتے ہیں اور ایک پکارنے والے کی آواز
بھی سنتے ہیں جو یہ کہتا ہے کہ میں تمہارا رب ہوں‘ اب اگر سننے والا شخص علم ومعرفت
والا ہے تو جان لیتا ہے کہ یہ شیطان ہے ورنہ اسے وہ اپنا حقیقی رب خیال کرتا ہے۔
بعض لوگ صاحب قبر کی زیارت کو جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ قبر
پھٹ گئی ہے اور اس میں سے کوئی شکل باہر آئی ہے۔ چنانچہ دیکھنے والے یہ تصور کرتے
ہیں کہ خود قبر والا ہی نکل کر باہر آیا ہے حالانکہ وہ میت کی شکل میں شیطان ہوتا
ہے۔
بعض کا حال یہ ہوتا ہے کہ شیطان ان کے پاس کھانے پینے کی مختلف
اشیاء میوہ جات اور مٹھائیاں وغیرہ لاتا ہے جو اس علاقہ میں نہیں پائی جاتیں‘ اسی طرح بعض لوگ بیداری کی
حالت میں آنکھیں بند کرتے ہیں اور دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے اسے دیکھنے کا دعویٰ
کرتے ہیں‘ الغرض اس طرح کی جتنی باتیں ہیں‘ جن کو لوگ کرامات سے تشبیہ دیتے ہیں دراصل
یہ شیطانی خوارق ہیں‘ یہ اولیاء اللہ کی کرامات نہیں ہو سکتیں۔
اس طرح کے اعمال انجام دینے والوں کے ساتھ شیطان ہوتے ہیں جو
ان کے حسب احوال ان سے بعض خارق عادت امور
ظاہر کروا دیتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
{ہَلْ اُنَبِّئُکُمْ
عَلٰی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُ تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ} (الشعراء:
۲۲۱‘ ۲۲۲)
’’کیا میں تمہیں
بتاؤں کہ شیطان کس پر اترتے ہیں؟ وہ ہر ایک جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں۔‘‘
اور جیسا کہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
{وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ
لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیَآپِہِمْ} (الانعام: ۱۳۹)
’’اور یقینا شیاطین
اپنے دوستوں کے دل میں (القاء) کرتے ہیں۔‘‘
اور حدیث نبوی میں ہے:
[ہذا من الحق یخطفہا
الجنی فیقرقہا فی اذن ولیہ کقرقرۃ الدجاج فیخلط معہا اکثر من مائۃ کذبۃ]
یعنی ’’یہ حق ہے کہ شیاطین آسمان کی باتوں کو اُچکتے ہیں پس اسے وہ اپنے ولی کے
کان میں ایسے بھرتے ہیں جیسے مرغی اپنے چوزے کے منہ میں (دانے ڈالتی ہے) پس وہ اس میں
سو جھوٹ ملا کر پیش کرتے ہیں۔‘‘ (ماخوذ از الفرقان بین اولیاء الرحمن واولیاء الشیطان)
مختصر یہ کہ کتاب وسنت میں کرامت کا ثبوت موجود ہے‘ ضرورت اس
بات کی ہے کہ ہم اللہ کے نیک بندے بنیں‘ اولیاء اللہ کی طرح زندگی گزاریں تا کہ اللہ
ہم سب سے راضی ہو اور دونوں جہان میں ہمارا والی وناصر ہو۔
No comments:
Post a Comment