تذکرۂ اسلاف... مولانا ابوالخیر احمد برق
تحریر: جناب مولانا محمد اشرف جاوید
ولادت:
مولانا سید ابوالخیر احمد برق ۱۹۰۲ء میں تکیہ کلاں رائے بریلی میں پیدا ہوئے۔ (تعمیر حیات: ۱۰ جون ۲۰۰۳ء۔ پرانے چراغ ۷/۳۲۳)
والد محترم کا نام حافظ سید عبیداللہ تھا۔ حافظ سید عبیداللہ
صاحب مرحوم عجیب دلآویز اور جامع شخصیت کے مالک تھے۔ بعض اہل نظر کے بقول اسلامی زندگی
کا ایک چلتا پھرتا نمونہ اپنے زمانہ کے شیخ سید حضرت شاہ ضیاء النبیؒ کے فرزند ارجمند
اور قرآن مجید کے جید حافظ تھے۔
تعلیم:
تعلیم کا شوق خاندانی وموروثی تھا جس گھر میں انہوں نے آنکھیں
کھولیں صرف وہاں کی خواتین میں پانچ حافظ قرآن تھیں جن کی آغوش میں وہ پروان چڑھے۔
ایک تو خود ان کی والدہ محترمہ اور دو پھوپھیاں تھیں اور دو
ممانیاں‘ پورا گھرانہ دیندار اور ادب وثقافت سے مزین تھا۔ رائے بریلی کے اس خانوادہ
علم وکمال کو یہ قابل رشک خصوصیت حاصل ہے کہ اس کے افراد کو اللہ تعالیٰ نے عربی ادب
وتاریخ کے ذوق کے ساتھ اردو زبان وادب کا بھی ذوق بخشا۔ حالانکہ یہ دونوں ذوق بیک وقت
بہت کم لوگوں میں جمع ہوتے ہیں۔ لیکن اس خاندان کے لائق افراد نے شروع ہی سے دونوں
زبانوں کو اظہار خیال کا ذریعہ بنا رکھا ہے اور اس کو مولانا سید ابوالحسن ندویa نے
اپنی ما فوق العادۃ صلاحیتوں سے حد کمال کو پہنچا دیا۔ جس طرح اردو تصنیفات کو ہندوستان
میں شہرت ہے اسی طرح ان کی مختلف موضوعات پر عربی تصنیفات کی تمام عرب ممالک میں شہرت
ہے۔ اسی طرح ان کے والد مولانا عبدالحی ’’ثقافت اسلامیہ فی الہند‘‘ اور ’’نزہۃ الخواطر‘‘
جیسی گراں مایہ عربی کتابوں کے مصنف ہیں۔ (تعمیر حیات: ۱۰ جون ۲۰۰۳ء صفحہ ۲۳۔ پرانے چراغ ۲/۳۲۳۔ چند اہل حدیث
رجال: ۱۰۷)
جب عربی تعلیم شروع ہونے کا وقت آیا تو خاندان کے معمول کے مطابق
ندوۃ العلماء لکھنؤ بھیج دیئے گئے جس کے ناظم ان کے حقیقی پھوپھا مولانا سید عبدالحی
صاحب تھے۔ دار الاقامۃ میں رہنے لگے۔ ندوۃ العلماء کی تعلیم میں بھی ان کے جوہر کھلے۔
ندوہ کے ایک اجلاس جس میں ہندوستان کے اکابر علم وفضل موجود
تھے اور اس موقعہ پر نواب ذوالفقار جنگ بہادر حبیب الرحمن خاں شیروانی بھی شریک تھے
تو مولانا برق صاحب نے اس موقعہ پر نہایت بلیغ اور معیاری عربی زبان میں برجستہ ایسی
تقریر ارشاد فرمائی جس سے سب حاضرین حیران وششدر رہ گئے۔ اس موقعہ پر نواب حبیب الرحمن
خاں شیروانی نے یک صد روپیہ انعام عطا کیا اور کہا کہ اس نادر الدہر بچے کا حق انعام
آداء ہی نہیں کیا جا سکتا۔ (تعمیر حیات لکھنؤ: ۱۰ جون ۲۰۰۳ء۔ ہفت روزہ الاعتصام لاہور، جنوری: ۱۹۷۱ء۔ پرانے چراغ: ۲/۳۲۴)
نوٹ: ہفت روزہ الاعتصام
کے مضمون نگار نے اس وقت ان کی عمر سات سال تحریر کی ہے۔
اس انعامی جلسہ میں اس وقت جناب برق صاحب کے ساتھ یہ بھی تھے۔
بقول علی میاں ندوی کہ ان ساتھیوں میں تین صاحبوں کے نام یاد ہیں۔ 1 مشہور
صحافی مولانا ظفر قدیر ندوی کیتھلی حال مقیم لاہور 2 مولوی حفیظ الدین ندوی جامعی سابق ایڈیٹر اسلام اور
جدید عصر۔ 3مولوی سعد الدین ندوی فاضل ازہر‘ استاد جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی۔
(تعمیر حیات: ۲۲ جنوری ۲۰۰۳ء۔ پرانے چراغ: ۲/۳۲۴)
جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ ۱۹۲۰ء میں آپ نے ایک مشاعرہ میں انعام حاصل کیا تھا۔ بقول ابوالحسن ندویa لکھنؤ
کی طالب علمی اور جوانی ہی کا زمانہ تھا۔ شعر وشاعری کا بے حد شوق تھا لیکن والد صاحب
(مولانا عبدالحی لکھنوی) نے شاید اس ماحول سے ہٹانے کے لیے انہیں لاہور بھیج دیا کہ
وہاں اورینٹیئل کالج میں اپنی تعلیم مکمل کر کے مولوی فاضل ہو جائیں۔
لاہور میں ان کے خاندان کے ایک عزیز بزرگ مولانا سید طلحہ حسنی
صاحب (ایم اے) استاذ اورینٹیئل کالج موجود تھے‘ اس سے اور بھی آسانی تھی۔
برق صاحب غالبا ۱۹۲۱ء میں لاہور گئے اور اورینٹیئل کالج میں نام لکھوایا۔ غالبا روشنائی دروازہ کے
اورینٹیئل کالج کے ہوسٹل میں جو حضوری باغ سے متصل ہے مقیم رہے۔ معلوم نہیں کتنے مہینے
ان کا قیام رہا لیکن وہ امتحان دینے سے پہلے اپنی سراپا شفقت والدہ کے انتقال کی خبر
سن کر واپس آگئے۔ پھر وہ تعلیم کے لیے لاہور نہیں گئے۔ بقیہ تعلیم مولانا عبدالرحمن
بستوی تلمیذ شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلویa سے تکمیل کی۔
اورینٹیئل کالج میں آپ نے ممتاز اہل حدیث عالم اور عربی ادب
کے عظیم محقق مولانا عبدالعزیز میمنی سے کسب فیض کیا۔ (ہفت روزہ الاعتصام لاہور: جون
۱۹۷۱ء صفحہ ۶۔ پرانے چراغ: ۲/۳۲۸)
اساتذہ کرام:
مولانا نے بقیہ تعلیم کی تکمیل مولانا عبدالرحمن a بستوی
تلمیذ مولانا سید نذیر حسین دہلویa عرف میاں صاحب سے کی۔ انہی سے انہوں نے حدیث کی کتابیں
پڑھیں۔
مولانا عبدالرحمن صرف عامل بالحدیث اور عدم تقلید ائمہ کے پابند
نہ تھے بلکہ اس کے سرگرم داعی اور مبلغ بھی تھے۔ ان کے اثر سے مولانا برق مرحوم نے
ان کا مسلک اختیار کیا اور ان کے رنگ میں رنگ گئے۔
مولوی صاحب نے رائے بریلی میں قیام اختیار کر لیا تھا اور ان
کی دعوت وتبلیغ سے شہر میں اس کی ایک تحریک چل گئی تھی‘ ان کے ہم مسلکوں کی ایک اچھی
خاصی جماعت پیدا ہو گئی۔
اس زمانہ کی فضا اور ہوا کے مطابق اس کی سخت مخالفت بھی کی گئی۔
کہیں کہیں تصادم بھی ہو گیا‘ نوبت یہاں تک پہنچی کہ عدالت نے چند مسجدیں جماعت اہل
حدیث کے لیے مخصوص کر دیں۔
مولانا ابوالخیر برقa جس خیال کو قبول کرتے تھے پوری سرگرمی اور جوش وخروش
کے ساتھ قبول کرتے‘ اس کے لیے انہوں نے بھی اس تحریک میں سرگرم حصہ لیا اور اپنی ذہانت‘
قوی‘ حافظہ اور خود اعتمادی سے اس کو بہت فائدہ پہنچایا۔
خاندان میں بھی اس اختلاف خیال کی کچھ پرچھائیاں پڑیں لیکن جلد
ہی سمٹ گئیں۔ (پرانے چراغ: ۲/۳۲۸)
شام: بقول مولانا عبدالمنان
اثری کے اورینٹیئل کالج کے بعد حجاز وشام کا قصد کیا اور تین سال شام میں قیام فرمایا
اور وہاں عظیم محدث شیخ بہجہ البیطار سے درس حدیث لیتے رہے۔
مکہ مکرمہ: پھرمکہ مکرمہ تشریف
لے گئے اور وہاں مدرسہ فخریہ عثمانیہ میں سند ومتن کے ساتھ حدیث‘ تفسیر کا درس اپنے
بے نظیر حافظہ سے دیا۔
اس دوران میں آپ نے وہاں کے علمی حلقوں پر جو گہرا اثر ڈالا
اس کا ثبوت اس اعزازی (سند) سرٹیفکیٹ سے بخوبی ملتا ہے جو عمائدین مدرسہ سے آپ کو رخصت
کرتے وقت عنایت فرمایا۔ جس میں انہوں نے آپ کے پایاں فضل وکمالات کا اعتراف اور اپنے
مدرسہ کی نسبت پر غیر معمولی فخر ومباہات وتشکر کے جذبات کا اظہار کیا۔ (ہفت روزہ الاعتصام:
جنوری ۱۹۷۱ء صفحہ ۶)
مولانا برق مرحوم کو مدرسہ فخریہ عثمانیہ کے رفعت کے وقت جو
سند دی گئی اس کو آپ خراج تحسین میں پڑھیں گے۔
تدریس:
دہلی کے ایک علمی معروف ادارہ (جامعہ ملیہ دہلی) میں حضرت جناب
برق صاحب کچھ عرصہ عربی کے استاد بھی رہے پھر معلوم نہیں کس بناء پر ترک تعلق کیا۔
(پرانے چراغ: ۲/۳۳۳۔ تعمیر حیات لکھنؤ: ۱۰ ج ون ۲۰۰۳ء۔ الاعتصام لاہور: جنوری ۱۹۷۱ء)
تدریس کے دوران کن کن اہل علم نے کسب فیض کیا؟ تاریخ اس سلسلہ
میں خاموش ہے۔
شکار:
شکار ایک مشغلہ ہے جو ایک انسانی ذوق ہے۔
بقول مولانا ابوالحسن ندویa کچھ عرصہ انہوں نے اپنی زمینداری کا کام دیکھا اور اپنی
خوش انتظامی کا ثبوت د یا۔ برق صاحب شکار کے بڑے شوقین تھے۔ اس زمانہ میں زمیندار گھرانوں
کے نوجوان بندوق ضرور رکھتے تھے اور سیر وشکار فیشن میں شامل تھا۔ ( مولانا حفیظ اللہ
مہتمم ندوۃ العلماء بھی سیر وشکار کے بہت شوقین تھے۔) جائیداد کے اس انتظام میں ان
کو شکار کا بڑا موقع ملتا تھا۔
ان کا ضلع فتح پور میں ایک مستقل گاؤں تھا۔ تحصیل وصولی کے
سلسلہ میں مہینوں ٹھہرتے‘ شکار کھیلتے اور مطالعہ کرتے اور کبھی کبھی شعر وشاعری بھی
کرتے۔ پھر عرصہ کے بعد ان کی طبیعت اس سے اچاٹ ہو گئی۔ (پرانے چراغ: ۲/۳۳۴)
طبیب:
جناب برق صاحب نے معیشت کے لیے ہومیو پیتھک کا شغل اختیار کیا‘
جیسا کہ لکھا ہے کہ ہومیو پیتھک کا مشغلہ شروع کیا۔ چند ماہ رائے بریلی میں مطب کیا۔
ان کی رفتار گفتار ہر چیز میں ٹھہراؤ اور سکون تھا۔ دواء کا انتخاب بھی وہ بڑے سکون
واطمینان سے کرتے۔ بڑے تکلف سے خوراک تیار کرتے اور مریض کو دیتے۔
کچھ عرصہ بعد لکھنو کے محلہ چکمنڈی مولوی گنج میں مطب شروع کیا‘
وہاں کے لوگ ان سے بہت مانوس ہوئے اور اس سے بے شمار مخلوق مستفید ہوئی۔ ہومیو پیتھک
میں علاج بھی آپ کا انداز منفرد تھا۔ ایک ہی شکایت ومرض کا علاج ہر ہر گھنٹے کے لیے
ان کے ہاں علیحدہ علیحدہ تھا۔ ان کے خلوص وسکینت سے لوگ ابھی تک ان کو یاد کرتے ہیں۔
بعض گھرانوں کو ایسا تعلق پیدا ہو گیا کہ ان کے افراد اب بھی ان کے نام پر آبدیدہ ہو
جاتے ہیں۔ (تعمیر حیات لکھنؤ: ۱۰ جون ۲۰۰۳ء صفحہ ۲۵۔ ہفت روزہ الاعتصام لاہور: جنوری ۱۹۷۱ء۔ پرانے چراغ: ۲/۳۲۴-۳۲۵)
مسلک:
اہل حدیث مسلک ایک قدیم فکر ہے‘ تاریخ کے اوراق اس بات پر شاہد
ہیں۔
ہمارے ممدوح جناب برق برادر زادہ سید احمد شہید (بالا کوٹ ۶ مئی ۱۸۳۱ء کے پوتے اور نسلا
بعد نسل نہایت سلفی اور اہل حدیث تھے۔ (مضمون مولانا اثری۔ ہفت روزہ الاعتصام‘ لاہور:
جنوری ۱۹۷۱ء صفحہ ۶) محمد حسنی بن ڈاکٹر
عبدالعلی (سابق ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ) کے قلم سے ۸ جون ۱۹۷۰ء کے روزنامہ قومی
آواز لکھنؤ میں ایک عالم کے انتقال کی خبر شائع ہوئی جن کا نام ڈاکٹر سید ابوالخیر
حسنی تھا‘ وہ مسلکا سنی اہل حدیث تھے۔ (چند اہل حدیث رجال: ۱۰۶)
اسی طرح سید احمد شہید کے خاندان میں مولانا محمد علی رام پوری‘
سید عرفان‘ مولانا سید مصطفی اور مولانا ابوالخیر برق حسنی وغیرہم بھی خالص قسم کے
اہل حدیث تھے۔ یہی نہیں بلکہ اس خاندان میں بعد کے ادوار میں بھی مولانا سید محمد طلحہ
پروفیسر پنجاب یونیورسٹی لاہور اہل حدیث تھے۔ (توعیہ: اگست ۱۹۸۹ء صفحہ ۲۹)
بیت اللہ:
ہر مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بار بار بیت اللہ اور
حرم پاک کے برکات وفیوضات حاصل کرے۔ بقول ندوی صاحب ۱۹۲۴ء میں وہ حج کے لیے گئے۔ یہ زمانہ شریف حسین (معروف شریف مکہ) کی حکومت کا آخری
زمانہ تھا۔
بد امنی‘ پانی کی نایابی اور بدوؤں کی غارتگری کا دور دورہ
تھا۔ اس وجہ سے مولانا برق صاحب مدینہ طیبہ نہ جا سکے۔ (پرانے چراغ: ۲/۳۳۳)
حافظہ:
ان کے متعلق لکھا ہے کہ ذہانت وحافظہ خدا داد تھا۔ (تعمیر حیات
لکھنؤ: جون ۲۰۰۳ء صفحہ ۲۳)
اسی طرح مولانا ابوعلی اثری صاحب نے بھی لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ
نے بلا کا حافظہ عطاء فرمایا تھا۔ (چند اہل حدیث رجال: ۱۰۶)
بڑھاپے میں ان کے حافظے کا یہ عالم تھا کہ عربی عبارات کے علاوہ
اردو کتابوں کے نسخے کے صفحے من وعن بلا کم وکاست پڑھتے چلے جاتے۔ بالخصوص اپنی تصانیف
کی عبارات نظم ونثر تو بہت زیادہ یاد تھیں۔ لکھتے وقت بھی بیشتر اعتماد اپنے حافظہ
پر کرتے اور اس کی مدد سے بے تکان لکھتے جاتے‘ کتابوں کی طرف مراجعت کی نوبت بہت کم
آتی۔ (ہفت روزہ الاعتصام لاہور: جنوری ۱۹۷۱ء صفحہ ۶)
حافظ حدیث:
مولانا ابوالحسن ندویa لکھتے ہیں کہ حدیث مع اسناد یاد رکھنا محدثین سلف کا
شعار رہا ہے۔ ایسے محدثین کی ہر زمانہ میں کثیر تعداد رہی ہے جنہیں پوری پوری حدیث
کی کتاب زبانی یاد تھی۔ جب مطابع قائم ہوئے اور حدیث کی کتابیں گھر گھر ملنے لگیں تو
حفظ حدیث کا رواج کم ہوتے ہوتے ختم ہو گیا اور اسانید کے حفظ کا تو خیال ذہن سے نکل
گیا۔
بھائی مرحوم کو کب اور کس طرح اس کا خیال آیا‘ یہ تو معلوم لیکن
انہوں نے موطا امام مالک اور صحیح مسلم یاد کرنے کا بیڑا اٹھایا‘ دونوں کتابوں کی ہزاروں
حدیثیں مع سند کے انہوں نے حفظ کر لیں۔ صحیح تعداد تو معلوم نہیں ہو سکی۔ ہم لوگوں
میں اس بات کا چرچا تھا کہ مؤطا ان کو پورا یاد ہے اور مسلم کا بھی ا یک خاصا حصہ
وہ ادنیٰ مشابہت کے حدیث مع سند پڑھنا شروع کر دیتے تھے۔
اس وقت ان کے چہرے پر ایک خاص چمک‘ آواز میں سوز واثر محسوس
ہوتا تھا۔ وہ بڑے دل کش انداز میں اور عربی لہجہ میں احادیث کی تلاوت کرتے تھے۔ ایسا
معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور ان کی روح اس سے وجد میں آ رہی
ہے۔ بعض مرتبہ مسجد میں ان کو تنہا بیٹھے ہوئے زبانی احادیث کی تلاوت کرتے سنا تو عجیب
کیف محسوس ہوا۔
سند بھی وہ پورے اہتمام اور لطف سے پڑھتے جیسے ان کے دل ودماغ
لذت یاب ہو رہے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کا کون سا عمل پسند آتا ہے اور وہ اس
کے لیے ذریعہ مغفرت بن جاتا ہے۔ امید ہے کہ حدیث رسولe سے یہ شغف‘ اس کا اہتمام واحترام اور اس سے ذوق ولذت
حاصل کرنا ان کے لیے ان شاء اللہ وسیلہ مغفرت وموجب قرب بن گیا ہو گا۔ ان شاء اللہ۔
(پرانے چراغ: ۲/۳۷۷-۳۷۸)
مولانا ندویa نے
دوسرے مقام پر تحریر کیا ہے کہ ان کا سب سے بڑا امتیاز یہ تھا کہ ان کو سینکڑوں نہیں
بلکہ کئی ہزار احادیث صحیحہ متن وسند کے ساتھ یاد تھیں۔ ایسا سنا جاتا تھا کہ مؤطا
ان کو پوری حفظ تھی اور صحاح ستہ میں صحیح مسلم سے ان کو زیادہ شغف تھا۔ حدیث مع متن
وسند ایسے دلکش انداز سے پڑھتے تھے کہ دل کھینچ لیتے۔ (پرانے چراغ: ۲/۳۵۲)
مولانا اثری صاحب نے اس بات کی تائید کی کہ آپ حافظ حدیث تھے۔
صحیح بخاری‘ موطا امام مالک دونوں مع سند زبانی یاد تھیں۔ (چند اہل حدیث رجال: ۱۰۶)
No comments:
Post a Comment