نبی کریم ﷺ ... اخلاق کے عظیم پیکر
تحریر: جناب حکیم عبدالمجید اظہر
نبی کریمe صاحب
خلق عظیم کی تشریف آوری سے پہلے پوری دنیا میں کفر وشرک عام تھا‘ جہالت کا غلبہ‘ ضلالت
کا تسلط اور ظلم کا د ور دورہ تھا۔ قتل وغارت گری کا بازار گرم تھا۔ تکریم انسانیت
معدوم‘ صداقت نا پید‘ عدل مفقود‘ خلوص اور وفاداری نادر الوجود تھی۔ الغرض انسان بظاہر
حیوان بن چکا تھا۔ انسانیت کی تحقیر وتذلیل کی انتہا ہو چکی تھی۔ اخلاقی اقدار کا جنازہ
نکل چکا تھا۔ ان سنگین حالات میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رشد وہدایت کے لیے مختلف
زمانوں میں انبیاء کرام مبعوث فرمائے۔ ان عظیم رہنماؤں نے ہدایت کی جو شمعیں روشن
کیں وہ گل ہو چکی تھیں اور ساری دنیا ضلالت وجہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب چکی تھی۔
دنیا کا یہ خطہ تاریکی کی چادر میں لپٹا ہوا تھا۔ روئے ارض پر کوئی طاقت ایسی نہ تھی
جو انسانیت کو سہارا دے سکے۔ انسان خدائے واحد کو چھوڑ کر لا تعداد معبودوں میں گم
ہو چکا تھا۔ کوئی بھی جگہ ایسی نہ تھی جہاں پر انسانیت کے صحیح خد وخال دکھائی دیتے
ہوں اور انسانی قدروں کی نشو ونما کی کوئی صورت موجود ہو‘ انسانیت گندگی اور غلاظت
میں رنگ رہی تھی۔ انسانیت سکون قلب سے محروم ہو چکی تھی۔ ایسے عالم میں ضرورت تھی کہ
کوئی ایسا راہ نما آئے جو نہ صرف انسانی اخلاق واقدار کا احیاء کرے بلکہ انہیں نئی
جہتوں کے ساتھ متعارف کروائے اور اسے بام عروج پر پہنچا دے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانیت پر اپنا خاص لطف وکرم فرماتے ہوئے نبی
اکرمe کو
معلم اخلاق بنا کر مبعوث فرمایا۔ آپe نے نہ صرف انسانی اقدار کا احیاء کیا بلکہ انہیں ایک
نیا اور جدید مثالی رنگ‘ منفرد جہت اور جداگانہ روح بخشی۔ خوبی سے نکھارا‘ بڑی عمدگی
سے سنوارا‘ اخلاقی اقدار کو بام عروج پر پہنچا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے صاحب خلق عظیم e کے
اخلاق کی مدح کرتے ہوئے فرمایا: یقینا آپe خلق کے انتہائی اعلیٰ وارفع مقام پر فائز ہیں۔ معلم
اخلاق نے اپنی بعثت کے مرکزی مقصد اور ہدف کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے دنیا میں
اس لیے بھیجا گیا ہے کہ میں مکارم اخلاق کو درجہ کمال تک پہنچا دوں۔ ذرا غور کریں جس
اولوالعزم ہستی کو عالم رنگ وبو میں اس لیے بھیجا گیا ہو کہ وہ اخلاقی مکارم ومحاسن
کو نقطہ عروج پر پہنچا دے تو کیا رب العالمین نے ایسے جلیل القدر معلم‘ مربی‘ محسن
اور مشفق کی ذات بابرکات میں اخلاقی محاسن ومکارم کے حوالہ سے کوئی کمی رکھی ہو گی‘
یقینا ہرگز نہیں بلکہ اس حقیقت کو نبی اکرمe نے اپنی زبان مبارک سے کس طرح بیان فرمایا کہ مجھے میرے
رب نے خلق کی اعلیٰ تعلیم دینے میں اکمل کر دیا۔
سیدہ عائشہr سے
جب پیکر اخلاقe کے
خلق عظیم کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپr نے نہایت مختصر مگر جامع جواب دیا کہ آپe کا
خلق عظیم قرآن مجید ہے۔ (سبحان اللہ)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کریم نے جن مکارم واخلاق اور اوصاف
کو اپنانے کا حکم اور ترغیب دی ہے مرقع اخلاق جمیلہ ان سے آپe بدرجہ کمال متصف تھے۔ جن باتوں اور کاموں سے احتراز
کرنے اور دامن کش رہنے کی تلقین کی ان سے کامل مجتنب تھے۔ آپe کی
حیات مبارکہ کا ہر گوشہ‘ سیرت طیبہ کا ہر پہلو قرآن کریم سے پوری طرح ہم آہنگ اور کلی
طور پر مطابقت رکھتا تھا جو سربسر ہے۔ کلام ربی میرے آقاe کی
زندگی ہے۔
نبی کائناتe نے
اپنے خلق عظیم‘ حسن سیرت اور قابل رشک کردار سے صداقت وامانت‘ عفو ودرگذر‘ رحم وکرم‘
فیاضی وسخاوت‘ احسان وایثار‘ شرم وحیا‘ عدل وانصاف‘ خودداری وتحمل‘ بردباری‘ صلہ رحمی‘
غیرت وحمیت انسان دوستی‘ تکریم انسانیت‘ ایفائے عہد‘ غریب پروری‘ یتیم کی خبر گری‘
حقوق کی پاس داری اور فرائض کی ادائیگی غرض تمام اخلاقی خوبیوں کو کمال پر پہنچا دیا۔
وہ مخالفین ودشمن جنہوں نے پیکر خلق عظیم کو اذیت پہنچانے کا
کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا وہ بھی آپe کے اخلاق حسنہ اور بلند کردار کی عظمت وبرتری کو تسلیم
کرتے اور آپe کو
صادق وامین کہتے تھے۔ آپe کی
صداقت کا یہ عالم تھا کہ آپe کے
دشمن آپ کو (معاذ اللہ) شاعر‘ ساحر‘ مجنون جیسے نازیبا الفاظ سے پکارتے تھے مگر آپ
کو کاذب کہنے کی جرأت نہیں کر سکتے تھے اور کرتے بھی کیسے کہ انہوں نے کبھی آپe کو
جھوٹ بولتے نہیں دیکھا۔ ابوجہل کی عداوت سے کون واقف نہیں‘ مگر وہ بھی ایک دن مخاطب
ہو کر کہتا ہے: اے محمد! ہم آپ کو کاذب نہیں کہتے البتہ آپ کے دین کو سچا نہیں مانتے۔
اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے پیارے نبی! وہ آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم
اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔‘‘
بدر کے مقام پر اخنس بن شریک نے ابوجہل سے پوچھا: اے ابوالحکم!
سچ بتاؤ کہ محمد صادق ہے یا کاذب؟ ابوجہل نے آپ کی صداقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا
کہ خدا کی قسم! محمد امین اور صادق ہیں۔
آپe نے
جھوٹ کی تاریکی میں سچائی کے چراغ روشن کیے۔ ہمیشہ صداقت کا علم بلند رکھنے کی تلقین
فرمائی۔ آپ eنے فرمایا: ’’سچ بولنا نیکی کے راستے پر چلنا ہے اور نیکی جنت
لے جاتی ہے۔ آدمی سچ بولتا رہتا ہے اور بالآخر صدیق بن جاتا ہے اور جھوٹ بدکاری کا
راستہ بتاتا ہے اور برائی جہنم لے جاتی ہے‘ آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے حتی کہ خدا کے
ہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔
جب تک مسلمان سچ کے علمبردار رہے‘ دنیا کی امامت وقیادت ان کے
پاس رہی اور جب سے اجتماعی طور پر سچ کا دامن ہاتھ سے چھوڑا ہے ذلت ورسوائی ان کا مقدر
بن گئی ہے۔ اگر آج ہم اپنے اسلاف واکابر کی طرح اجتماعی طور پر سچائی کو زندگی کا نصب
العین بنا لیں تو عظمت رفتہ پھر بحال ہو سکتی ہے۔ امامت وقیادت پھر مل سکتی ہے۔
نبی اکرمe کے
عفو وکرم کا یہ مقام ہے کہ کانٹے بچھانے والوں‘ پتھر برسانے والوں‘ گالیاں د ینے والوں‘
خون کے پیاسوں اور ہر طرح کی اذیت پہنچانے والوں کو انتقام کی پوری قدرت رکھنے کے باوجود
معاف فرما دیتے تھے۔ اس سے بڑھ کر عفو ودرگذر کی کوئی مثال کیا پیش کی جا سکتی ہے کہ
فتح مکہ کے بعد وہ تمام اعداء اور مجرمین ایک ایک کر کے فاتح مکہe کے
حضور حاضر ہوئے۔ پوری طرح گرفت میں ہیں اور آپe پورے وقار اور کامل جذبات تشکر کے ساتھ بیت اللہ کے
دروازے پر کھڑے ہیں۔ تمام مخالفین اپنے اپنے جرم وظلم کو یاد کر کے لرزہ براندام اور
سرجھکائے انجام کے منتظر ہیں۔ اب انجام سے دو چار ہونے کے لیے آپe کے
اشارہ ابرو کی دیر ہے لیکن ایسے عالم میں رحمت عالمe نے فرمایا کہ اے قریش! تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے
بارے میں کیا فیصلہ کرنے والا ہوں؟ سب نے بیک زبان کہا: ہم آپ سے معافی کی امید رکھتے
ہیں۔ رحمت عالمe نے
فرمایا کہ میں وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی سیدنا یوسفu نے
اپنے بھائیوں کو پوری طرح گرفت میں پاکر کہی تھی کہ ’’تم پر آج کے دن کوئی سرزنش اور
مؤاخذہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمائے وہ اس سے بڑھ کر رحم وکرم کرنے والا
ہے۔‘‘
ان کلمات طیبہ کے بعد پیکر عفو وکرم نے فرمایا: جاؤ تم سب آزاد
ہو‘ امن وآشتی کے پیغمبرe فتح
مکہ کے موقع پر اعلان فرماتے ہیں کہ جو مسجد حرام میں داخل ہو جائے اس کے لیے امن ہے‘
جو ہتھیار ڈال دے اس کے لیے امن ہے اور جو اپنا دروازہ بند کر لے اس کے لیے امن ہے۔
آپe نے
اس وقت کے سب سے بڑے جانی دشمن کے گھر کو بھی جائے پناہ قرار دیا۔ اس عورت کو جس نے
آپe کے
محبوب چچا سید الشہداء سیدنا امیر حمزہt کے کلیجے کو چبایا تھا اسے بھی معاف فرما دیا۔ اس وحشی
جس نے سیدنا امیر حمزہt کو
شہید کیا تھا اسے بھی چھوڑ دیا۔ وہ ہبار بن اسود جس نے آپe کی
صاحبزادی کو نیزہ مار کر اونٹ سے گرا دیا تھا اسے بھی معاف فرما دیا۔ وہ یہودی عورت
جس نے خیبر کے موقع پر زہر آلود کھانا پیش کیا تھا اسے بھی معاف فرما دیا۔ نبی اکرمe نے
اپنی عملی زندگی میں قدم قدم پر نہ صرف عفو ودرگذر کا مظاہرہ فرمایا بلکہ اپنے ماننے
والوں کو بار بار اس کی تلقین فرمائی۔ ظاہر ہے جس معاشرے میں ایک دوسرے کو خلوص سے
معاف کرنے کا عمل جاری ہو تو اس سے نہ صرف دلوں کی زمین سے نفرت کے خاردار جنگل کا
خاتمہ ہو گا بلکہ اس سے باہمی اخوت ومحبت کا گلشن مہکے گا۔
کاش! آج ہم نے آپeکی تعلیمات مقدسہ کو اپنایا ہوتا اور معافی کو شعار بنایا ہوتا
تو آج ہمارا معاشرہ جہنم زار نہ ہوتا بلکہ جنت کا گہوارہ ہوتا۔ اسی طرح سرکار دو جہاں‘
پیکر عدل وانصاف بھی تھے۔ آپe کا
عدل ایسا تھا کہ تاریخ انسانی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
آج ہمارا معاشرہ جو انتہائی ٹوٹ پھوٹ اور فساد وبگاڑ کا شکار
ہے اس کی بنیادی وجہ بلا امتیاز قیام عدل سے کا ناپیند ہونا ہے۔ یہاں طاقت اور جرائم
پیشہ افراد ہزار جرائم کے باوجود چھوٹ جاتے ہیں اور کمزور معمولی سی غلطی پر سزا کا
مستحق قرار پاتا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ اسی اقتدار کو دوام ملا جس نے اپنی حکومت کو
عدل وانصاف پر استوار کیا۔ عدل وانصاف سے عاری حکومت کو کبھی بھی استحکام نصیب نہیں
ہوا۔ معلم مساوات کے دربار کا یہ عالم ہے کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر‘ کسی عجمی کو
کسی عربی پر کوئی فوقیت نہیں۔ کسی گورے کو کالے پرا ور کسی کالے کو گورے پر کوئی برتری
نہیں۔ وہاں کوئی طبقاتی نظام نہیں‘ ہم مسلمان انفرادی واجتماعی طور پر اخلاق مصطفیe کو
اپنا لیں تو ہر شعبہ زندگی میں مثالی انقلاب رونما ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ عمل کی
توفیق عطا فرمائے۔
No comments:
Post a Comment