درسِ قرآن
خصوصیاتِ رمضان
ارشادِ باری ہے:
﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْۤ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ
بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِ١ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ﴾
(البقرة)
’’ماہ رمضان وہ ہے
کہ جس میں قرآن نازل کیا گیا‘ جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں رہنمائی
اور حق وباطل میں تمیز کی واضح نشانیا ں ہیں۔ تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے
روزہ رکھنا چاہیے۔‘‘
گزشتہ درس میں ایک تجارت کا ذکر کیا گیا تھا جواللہ اور بندہ
مومن کے درمیان طے پائی ہے جس میں بندہ مومن اپنی جان ومال کے عوض اللہ تعالیٰ سے جنت
کا سودا کرتا ہے اسی تجارت کے عوض بندہ مومن میں جو صفات پیدا ہوتی ہیں انہیں میں سے
ایک روزے رکھنا ہے:
﴿اَلتَّآىِٕبُوْنَ
الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآىِٕحُوْنَ۠ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ﴾(التوبة)
’’وہ ایسے ہیں جو
توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے (راہ حق میں سفر
کرنے والے)، رکوع اور سجدے کرنے والے ہیں۔‘‘
رمضان المبارک مسلمان کے لیے نیکیوں کا ایک موسم بہار ہے جس
کا ہر ہر لمحہ اس قدر قیمتی ہے کہ اگر اس سے استفادہ کرتے ہوئے مسلمان اپنے لیے مغفرت
کا سامان نہ کرے تو وہ نبی کریمe کی
بددعا کی زد میں آجاتا ہے۔ رمضان المبارک اپنی بے شمار خصوصیات کی بنا پر دوسرے مہینوں
اور دوسری عبادات سے متمیز ہے مثلا: 1 روزہ دار کے منہ سے نکلنے والی ہوا اللہ کے ہاں کستوری
سے بھی زیادہ خوشبودار ہے۔ 2 روزہ
دار کو بے حدو حساب اجر سے نوازا جاتا ہے۔ 3 روزہ دار کے لیے اللہ کے مقرب فرشتے اپنے رب سے مغفرت
طلب کرتے رہتے ہیں جب تک روزہ دار روزہ افطار نہیں کرلیتا۔ 4 اللہ
تعالیٰ کی رحمت جوش میں آجاتی ہے، رحمت اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں جبکہ
جہنم کے دروازں کو بند کردیا جاتا ہے۔ 5 سرکش اور سردار شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے تاکہ وہ
اللہ کے بندوں کے دلوں میں وساوس پیدا نہ کریں۔ 6 اس مہینہ میں ایک ایسی رات بھی ہے جس میں کی جانی والی
عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔ 7 رمضان کی آخری رات بھی روزہ داروں کے لیے مغفرت کا
اعلان کیا جاتا ہے۔ 8 رمضان
کی ہر رات آواز لگائی جاتی ہے کہ ’’ہے کوئی اپنے گناہوں سے توبہ کرنے والا کہ اللہ
تعالیٰ اس کی طرف رجوع کریں ، ہے کوئی بخشش کا طلب گار کہ اسے بخش دیا جائے، ہے کوئی
دعا کرنے والا کہ اس کی دعا کو شرف قبولیت بخشا جائے اور ہے کوئی سوالی کہ اس کی حاجت
کو پورا کیا جائے۔‘‘
اس کے علاوہ رمضان المبارک بے شمار خصوصیات ہیں جن کا تقاضا
ہے کہ مسلمان اس مہینہ کی قدرومنزلت کے احترام
میں لہو لعب سے گریز کرے اور سعادت کی راہوں پر چل کر اپنے لیے مغفرت کا سامان کرے۔
درسِ حدیث
چاند دیکھنا!
فرمان نبویﷺ ہے:
[عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ذَكَرَ رَمَضَانَ
فَقَالَ: "لاَ تَصُومُوا حَتّٰى تَرَوُا الْهِلَالَ، وَلاَ تُفْطِرُوا حَتّٰى
تَرَوْهُ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ". وفي رواية قَالَ:
"الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَيْلَةً، فَلاَ تَصُومُوا حَتّٰى تَرَوْهُ، فَإِنْ
غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا العِدَّةَ ثَلاَثِينَ] (متفق عليه)
سیدنا عبداللہ بن عمرt سے
روایت ہے‘ انہوں نے کہا کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’جب تک تم چاند دیکھ نہ لو روزہ نہ رکھو
اور نہ ہی افطار کرو حتی کہ اسے (چاند کو) دیکھ نہ لو۔ اگر تم پر بادلوں کی چھاؤں
ہے تو پھر اندازہ لگاؤ۔‘‘ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آپe نے
فرمایا: ’’مہینہ انتیس راتوں کا ہوتا ہے تم اس وقت تک روزہ نہ رکھو حتی کہ تم اسے
(چاند) کو دیکھ نہ لو پس اگر تم پر بادل چھائے ہوئے ہیں تو پھر تیس دنوں کی گنتی پوری
کر لو۔‘‘ (بخاری ومسلم)
اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن روزہ ہے‘ طلوع فجر سے
غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جنسی خواہشات کو چھوڑنے کا نام روزہ ہے۔ روزے کی دو
بڑی اقسام نفلی اور فرض روزہ ہیں‘ نفلی روزے کے متعلق انسان کو اختیار ہے کہ جب چاہے
رکھ لے مگر فرض روزے کے لیے اللہ نے سال میں ایک مہینے کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے
اور وہ رمضان المبارک ہے۔ اسلامی مہینے کے شروع ہونے کا تعلق چاند کے طلوع ہونے کے
ساتھ ہے۔ یعنی جب چاند طلوع ہو جائے تو نیا مہینہ شروع ہو جاتا ہے اور پہلا مہینہ ختم
ہو جاتا ہے۔ لہٰذا رسول اللہe نے
حکم فرمایا کہ جب تک تم ماہ رمضان کا چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ رکھا کرو اور جب تک شوال
کا چاند نہ دیکھو رمضان کے روزے رکھتے رہو۔ پس اگر تم پر بادل چھائے ہوئے ہوں اور چاند
نظر آنے کے امکانات نہ ہوں تو پھر گنتی پوری کر لو یعنی تیس دن پورے کرو۔ اسلامی مہینہ
تیس دن سے زیادہ نہیں ہوتا۔ شک کی بنیاد پر نہ روزہ رکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی روزہ
چھوڑنے کی اجازت ہے۔ اگر کسی وجہ سے چاند مغرب کے وقت سے پہلے نظر آ جائے تو اس کا
مطلب یہ نہیں ہے کہ چاند دیکھتے ہی روزہ چھوڑ دیں یا چاند دیکھتے ہی روزہ رکھ لیں‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ چاند نظر آنے پر روزہ کے وقت کے شروع ہونے یا ختم ہونے کا انتظار
کریں۔ یعنی اگر رمضان کا چاند غروب آفتاب سے پہلے یا بعد نظر آ جائے تو سحری کے وقت
کا انتظار کریں اور اگر شوال کا چاند سورج غروب ہونے سے پہلے نظر آ جائے تو غروب آفتاب
کا انتظار کریں پھر روزہ افطار کریں یعنی نیا چاند نظر آنے پر مہینہ کے شروع یا ختم
ہونے کا اعتبار ہو گا۔ ایک حدیث میں یوں ہے کہ مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے اگر انتیسویں
دن چاند نظر آجائے تو روزے رکھنا بند کر دیں لیکن اگر چاند نظر نہیں آیا یا آسمان
پر بادل ہیں اور چاند نظر آنے کا کوئی امکان نہیں تو پھر تیس دن پورے کر لو۔ تیس تاریخ
کو چاند نظر آئے یا نہ آئے تو روزے رکھنے بند کر دو اور عیدالفطر مناؤ کہ اسلامی
مہینہ تیس دن سے زائد کا نہیں ہوتا۔ نیا چاند دیکھنے کی دعا:
اَللّٰهُمَّ اَهِلَّهٗ عَلَيْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِيْمٰنِ وَالسَّلَامَةِ وَالْاِسْلَامِ
رَبِّيْ وَرَبُّكَ اللهُ!
No comments:
Post a Comment