احکام ومسائل
جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت: مرکز
الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان ای میل: markaz.dirasat@gmail.com
نفلی روزے کی نیت
O اگر
کسی نے نفلی روزہ رکھنا ہو تو اس کی نیت کب کرنا چاہیے؟ یا وہ نیت کے بغیر بھی رکھا
جا سکتا ہے؟ قرآن وحدیث میں اس کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟!
P نیت کے بغیر تو کوئی عمل بھی معتبر نہیں ہوتا جیسا کہ
رسول اللہe کا
ارشاد گرامی ہے: ’’اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے۔‘‘ (بخاری‘ بدء الوحی: ۱)
البتہ فرض روزے کی نیت‘ رات ہی سے کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ حدیث
میں ہے رسول اللہe نے
اس سلسلہ میں امت کو ہدایت دی ہے کہ ’’جس نے فجر یعنی صبح صادق سے پہلے روزے کی پختہ
نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں۔‘‘ (ابوداؤد‘ الصوم: ۲۴۵۴)
البتہ نفلی روزے کی نیت زوال آفتاب سے پہلے بھی کی جا سکتی ہے۔
جیسا کہ سیدہ عائشہr فرماتی
ہیں کہ ایک دن رسول اللہe میرے
ہاں تشریف لائے اور فرمایا ’’کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا: اللہ کے
رسول! ہمارے پاس اس وقت کچھ نہیں تو آپe نے فرمایا: ’’تب میں روزہ دار ہوں۔‘‘ (مسلم‘ الصیام:
۲۷۱۴)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عام روزے کی نیت موقع پر بھی کی جا
سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ روزہ رکھنے والے نے صبح کے بعد کچھ کھایا‘ پیا
نہ ہو۔ امام بخاریa نے
اس سلسلہ میں صحابہ کرام کے کچھ آثار بھی
پیش کیے ہیں۔ چنانچہ سیدہ ام الدرداء کہتی ہیں کہ سیدنا ابوالدرداءt نے
فرمایا: ’’کیا تمہارے پاس کچھ کھانا ہے؟‘‘ اگر ہم جواب دیتے کہ نہیں تو فرماتے‘ تب
میرا آج روزہ ہے۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ: ج۳‘ ص ۳۰)
سیدنا ابوطلحہt سے
بھی اس قسم کی روایت مروی ہے۔ (مصنف عبدالرزاق: ج۴‘ ص ۲۷۳) سیدنا ابوہریرہt سے
بھی اس قسم کا عمل مروی ہے۔ (شرح معانی الآثار: ج۲‘ ص ۵۶)
سیدنا ابوحذیفہt سے
بھی اس طرح کا عمل کتب حدیث میں موجود ہے۔ (مصنف عبدالرزاق ج۲‘ ص ۲۷۴)
بہرحال فرض روزے کی نیت رات کے وقت کی جائے جبکہ نفل روزے کی
نیت کل نیت طلوع آفتاب کے بعد بھی کی جا سکتی ہے۔ واللہ اعلم!
حالت جنابت میں روزہ رکھنا
O اگر
کوئی آدمی روزہ رکھنے کے لیے صبح بیدار ہو‘ لیکن اسے غسل جنابت بھی کرنا ہو‘ اگر وہ
نہانے میں مصروف ہو تو صبح کی اذان کا اندیشہ ہے تو کیا ایسے حالات میں غسل کے بغیر
روزہ رکھا جا سکتا ہے؟ قرآن وحدیث میں اس کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟!
P اگر وقت تنگ ہو تو جنابت کی حالت میں روزہ رکھا جا سکتا
ہے۔ روزہ رکھنے کے بعد غسل کر کے صبح کی نماز پڑھ لے تو اس میں شرعا کوئی حرج نہیں۔
اسی طرح حیض ونفاس والی عورت کا خون اگر رات کے وقت رک جائے اور وقت بالکل تھوڑا ہو
تو وہ روزہ رکھنے کے بعد غسل کر سکتی ہے۔ حافظ ابن حجرa نے
اس بات پر اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے۔ (فتح الباری: ج۴‘ ص ۱۹۰)
امام بخاریa نے
اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’روزہ دار جب جنابت کی حالت میں صبح
کرے۔‘‘ (بخاری‘ الصوم‘ باب: ۲۲)
پھر انہوں نے سیدہ عائشہr اور سیدہ ام سلمہr سے مروی ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے کہ رسول اللہe بعض
اوقات بیویوں سے مقاربت کی وجہ سے صبح تک بحالت جنابت رہتے اور آپ روزہ رکھنے کے بعد
غسل کرتے۔ (بخاری‘ الصوم: ۱۹۲۵)
ایک روایت میں اس واقعہ کی تفصیل ہے‘ چنانچہ ابوبکر بن عبدالرحمن
کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابوہریرہt سے
ایک دفعہ سنا کہ جو شخص صبح کے وقت بحالت جنابت ہو وہ روزہ نہ رکھے‘ میں نے اس بات
کا ذکر اپنے باپ عبدالرحمن بن حارث سے کیا تو انہوں نے اس موقف سے انکار کیا اور مجھے
سیدہ عائشہr اور
سیدہ ام سلمہr کے
پاس لے گئے۔ ان دونوں ازواج مطہرات نے فرمایا: ’’بسا اوقات رسول اللہe صبح
کے وقت بحالت جنابت ہوتے لیکن آپe روزہ رکھ لیتے پھر غسل کر کے صبح کی نماز پڑھتے۔‘‘
پھر جب سیدنا ابوہریرہt کے پاس ازواج مطہرات کے فتوے کا ذکر ہوا تو انہوں نے
فرمایا: ’’کیا واقعی انہوں نے ایسا فرمایا ہے؟‘‘ عرض کیا گیا ’’ہاں‘‘ تو انہوں نے فرمایا:
’’وہ اس سلسلہ میں مجھ سے زیادہ جانتی ہیں‘ میں نے براہ راست رسول اللہe سے
یہ بات نہیں سنی‘ مجھے سیدنا فضل بن عباسw نے بتائی تھی۔‘‘ اس کے بعد سیدنا ابوہریرہt نے
اپنے موقف سے رجوع کر لیا۔ (مسلم‘ الصیام: ۲۵۸۹)
بہرحال اگر وقت کی تنگی ہو تو بحالت جنابت روزہ رکھا جا سکتا
ہے‘ پھر غسل کر کے نماز فجر ادا کر لے۔ واللہ اعلم!
احتساب کا معنیٰ
O رمضان
کے روزے کے متعلق حدیث میں احتساب کا لفظ آیا ہے‘ اس کا کیا معنی ہے؟ کیا احتساب کے
بغیر رمضان کے روزے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت
کر دیں۔
P رمضان کے روزے کے متعلق سیدنا ابوہریرہt سے
روایت ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’جس نے رمضان کا روزہ ایمان ویقین اور حصول ثواب کی نیت سے رکھا‘ اس کے پہلے
گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔‘‘ (بخاری‘ الصوم: ۱۹۰۱)
اس حدیث میں رمضان کے روزے کے لیے احتساب کا لفظ استعمال ہوا
ہے۔ اس کا معنی حصول ثواب کی نیت ہے۔ اگر کوئی انسان ایمان ویقین کے ساتھ کھانے پینے
سے پرہیز کرتا ہے لیکن اس کا مقصد حصول ثواب نہیں بلکہ کسی ڈاکٹر کے کہنے سے کھانے
پینے سے پرہیز کیا تو اس کے لیے قیامت کے دن اچھے بدلے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ دراصل
اعمال میں نیت کا کردار ہوتا ہے‘ اگر نیت میں اخلاص ہوا تو اللہ کے ہاں اجر وثواب کی
امید کی جا سکتی ہے۔ حدیث میں آنے والے لفظ احتساب کا یہی معنی ہے کہ روزے کا مقصد
حصول ثواب ہو۔ چنانچہ اس کے متعلق علامہ خطابی لکھتے ہیں: ’’اس سے مراد حصولِ ثواب
کی نیت ہے یعنی وہ رمضان کا روزہ اس ارادے سے رکھے کہ اسے اللہ کے ہاں اجر وثواب ملے
گا۔ اسے بوجھ خیال نہ کرے اور نہ ہی ان کے دنوں کی طوالت کا خیال ذہن میں لائے بلکہ
خوشدلی سے اس فریضے کو ادا کرے۔‘‘ (فتح الباری: ج۴‘ ص ۱۴۹)
امام بخاریa نے
اس سلسلہ میں بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی غرض سے
نیت کر کے رمضان کے روزے رکھے۔‘‘ (بخاری‘ الصوم‘ باب: ۶)
اس عنوان میں تین الفاظ ہیں: ایمان‘ احتساب اور نیت۔ اس کا مطلب
یہ ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ سے اچھا بدلہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ دنیا میں ایمان
ویقین کے ساتھ نیک عمل کیا جائے۔ نیز نیت بھی حصول ثواب کی ہو۔
بہرحال حدیث میں احتساب کا معنی حصول ثواب کی نیت ہے‘ ہمیں بھی
اسی نیت کے ساتھ رمضان کے روزے رکھنے چاہئیں۔
سحری کھانا
O ہمارے
ہاں کچھ لوگ رات دیر تک بیدار رہتے ہیں اور صبح بروقت نہیں اٹھتے پھر وہ کلی کر کے
پانی پی کر روزہ رکھ لیتے ہیں۔ کیا سحری کھائے بغیر روزہ رکھنا اور اسے معمول بنا لینا
کتاب وسنت کے اعتبار سے درست ہے؟!
P روزے کے کچھ آداب ہیں۔ ان میں سے ایک سحری کھانا بھی
ہے۔ چنانچہ رسول اللہe کا
ارشاد گرامی ہے: ’’سحری کھاؤ کیونکہ اس کے کھانے میں برکت ہے۔‘‘ (بخاری‘ الصوم: ۱۹۲)
اس حدیث میں رسول اللہe نے سحری کے متعلق حکم دیا ہے اور آپe کا
حکم عام طور پر وجوب کے لیے ہوتا ہے لیکن اس مقام پر وجوب کے لیے نہیں کیونکہ رسول
اللہe اور
آپ کے صحابہ کرام نے وصال فرمایا‘ وصال میں سحری نہیں ہوتی غالباً اسی لیے امام
بخاریa نے
اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’سحری کھانا باعث برکت ہے لیکن واجب نہیں۔‘‘
(بخاری‘ الصوم‘ باب: ۲۰)
سحری میں برکت کے کئی پہلو ہیں:
\ سنت کی اتباع \ مخالفت اہل کتاب
\ عبادت کے لیے
طاقت کا باعث \ اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب کا ذریعہ
سحری کی اہمیت کے متعلق رسول اللہe کا ارشاد گرامی ہے: ’’سحری باعث برکت ہے‘ اسے مت ترک
کرو‘ اگرچہ پانی کے ایک گھونٹ سے ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ سحری کرنے والوں پر رحمت بھیجتا
ہے اور فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں۔‘‘ (مسند امام احمد: ج۳‘ ص ۴۴)
سوال میں جو صورتحال ذکر کی گئی ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے کہ
سحری ترک کرنے کی عادت بنا لی جائے۔ اس سے روزہ تو ہو جاتا ہے لیکن رسول اللہe کی
مخالفت ہوتی ہے اور سحری سے محرومی بھی ہے جسے رسول اللہe نے
باعث برکت قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment