Sunday, July 07, 2019

درس قرآن وحدیث 26/2019


درسِ قرآن
متقین کون؟!
ارشادِ باری ہے:
﴿ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ١ۛۖۚ فِيْهِ١ۛۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ۙ۰۰۲﴾ (البقرۃ)
’’اس کتاب کے (کتاب ہدایت ہونے) میں کوئی شک نہیں ، پرہیز گاروں کو راہ دکھانے والی ہے۔‘‘
مفسرین نے لفظ متقین (پرہیز گار) کے معانی بیان کرتے ہوئے کئی ایک صفات کا تذکرہ کیا ہے۔ مثلاً ایسا شخض جو اس گناہ کے خوف سے بظاہر مباح لیکن مشکوک امور کو بھی ترک کردے کہ کہیں اس کی وجہ سے  وہ برائی کے راستہ پر نہ چل نکلے، جیسا کہ حضور اکرم e کا ارشا د گرامی ہے : 
[لَا يَبْلُغُ العَبْدُ أَنْ يَكُونَ مِنَ المُتَّقِينَ حَتَّى يَدَعَ مَا لَا بَأْسَ بِهِ حَذَرًا لِمَا بِهِ البَأْسُ] (الترمذی)
اور بعض مفسرین نے حدیث میں وارد متقی کی تعریف کو شرعی تعریف کہا ہے، لغوی لحاظ سے بھی تقویٰ سے مراد بچ جانا (یعنی گناہ سے بچ جانا)، اپنی حفاظت کرنا (یعنی حرام امور سے اپنی حفاظت کرنا) رکاوٹ پیدا کرنا (یعنی اپنے اور برائی کے بیچ اللہ کے خوف کو بطور مانع اور رکاوٹ قائم رکھنا یا اپنے اور اللہ کے عذاب کے بیچ نیک اعمال کو بطور ڈھال قائم رکھنا) وغیرہ ہی ہے۔
قرآن کریم کی آیات میں وارد لفظ ’’تقویٰ‘‘ اور ’’متقین‘‘ کے بغور اور مجموعی مطالعہ اور احادیث میں غور و فکر کریں تو متقی کی جو جامع اور مانع تعریف سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے:
’’شریعت کے تمام احکام کی من و عن پیروی اور موانع امور سے مکمل اجتناب کرنے والا۔‘‘
اس لیے اگر ہم قرآن کریم کے نور ہدایت سے فیض یاب ہونا  چاہتےہیں تو ہمیں اپنے اندر متقین والے اوصاف پیدا کرنے ہوں گے ، کیونکہ اس قرآن کو متقین کے لیے باعث ہدایت کہا گیا ہے ، اس لیے ان اوصا ف  کی موجودگی ہی ہمارے لیے ہدایت کی راہیں کھول سکتی ہے:
﴿اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَهْدِيْ لِلَّتِيْ هِيَ اَقْوَمُ وَ يُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِيْنَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا كَبِيْرًاۙ۰۰۹﴾ (الاسراء)
’’یقیناً یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اورایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔‘‘
گویا قرآن  ہدایت کے طلبگاروں کے لیے روشنی کامینارہ ہے ، اور یہی ﴿هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ﴾ کا بھی مطلب ہے کہ قرآن مجید سے صرف ڈرنے والے اور ہدایت کی طمع رکھنے والے ہی ہدایت پاتے ہیں۔

درسِ حدیث
پانچ بھلائی کی باتیں
فرمان نبویﷺ ہے:
[عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَنْ يَأْخُذُ عَنِّي هٰؤُلَاءِ الكَلِمَاتِ فَيَعْمَلُ بِهِنَّ أَوْ يُعَلِّمُ مَنْ يَعْمَلُ بِهِنَّ؟" فَقُلْتُ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَأَخَذَ بِيَدِي، فَعَدَّ خَمْسًا وَقَالَ: "اتَّقِ المَحَارِمَ تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ، وَارْضَ بِمَا قَسَمَ اللَّهُ لَكَ تَكُنْ أَغْنَى النَّاسِ، وَأَحْسِنْ إِلَى جَارِكَ تَكُنْ مُؤْمِنًا، وَأَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ تَكُنْ مُسْلِمًا، وَلَا تُكْثِرِ الضَّحِكَ، فَإِنَّ كَثْرَةَ الضَّحِكِ تُمِيتُ القَلْبَ.] (رواه أحمد والترمذي)
سیدنا ابوہریرہt سے روایت ہے‘ انہوں نے کہا کہ رسول اللہe نے ارشاد فرمایا: ’’کون ہے جو مجھ سے ان کلمات کو سیکھے؟ پس ان کے مطابق عمل کرے اور اسے سکھائے جو ان پر عمل کرے؟‘‘ میں نے کہا‘ میں اے اللہ کے رسول! تو آپe نے میرا ہاتھ پکڑا اور پانچ باتیں گنوا دیں۔ پس فرمایا: ’’ان کاموں سے بچو جو حرام ہیں‘ سب سے زیادہ عبادت گذار بن جاؤ گے جو اللہ نے تجھے دیا ہے اس پر راضی ہو جا سب سے زیادہ مالدار بن جاؤ گے اور اپنے ہمسائے سے حسن سلوک کرو تو تم مومن بن جاؤ گے اور لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو تو تم مسلمان بن جاؤ گے اور زیادہ مت ہنسو اس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔‘‘ (احمد‘ ترمذی)
مذکورہ بالا حدیث میں رسول اکرمe نے پانچ بہت ہی عمدہ باتیں ارشاد فرمائی ہیں جن پر عمل کر کے انسان دنیا وآخرت کی بھلائیاں حاصل کر سکتا ہے۔ آپe نے ان باتوں کو سیکھنے اور دوسروں کو سکھانے کی ترغیب بھی فرمائی۔ پہلی بات یہ فرمائی کہ حرام کاموں سے بچو جس کے نتیجہ میں تم سب لوگوں سے زیادہ عبادت گذار بن جاؤ گے۔ ایسا عبادت گذار جو حرام کاموں سے اجتناب نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کو اس کی عبادت کی ضرورت نہیں۔ لہٰذا صرف فرائض کی ادائیگی کرنے والا اگر حرام کاموں سے بچ جائے تو وہ اللہ کے ہاں انتہائی عبادت گذار شمار ہو گا۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ اللہ نے جو کچھ تمہارے مقدر میں لکھا ہے اس پر خوش ہو جاؤ تو سب سے زیادہ مال دار بن جاؤ گے اس لیے کہ اصل دولت دل کی دولت ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر مطمئن ہو جائے وہی دولتمند ہے۔ تیسری بات یہ فرمائی کہ اپنے ہمسائے کے ساتھ اچھا سلوک کرو تو تم مومن بن جاؤ گے۔ ہمسائے کے حقوق کی اسلام نے بڑی تاکید فرمائی ہے جو  شخص اپنے ہمسائے کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے رسول اللہe نے اسے ایماندار ہونے کی بشارت دی ہے۔ چوتھی بات یہ فرمائی کہ جو کچھ تو اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی اپنے ہر مسلمان بھائی کے لیے پسند کر‘ تو تیرا اسلام مکمل ہو جائے گا۔ اس انداز سے باہمی محبت میں اضافہ ہوتا ہے اور اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ پانچویں بات یہ فرمائی کہ زیادہ ہنسنے سے گریز کرو اس سے دل مردہ ہو جاتے ہیں جسم میں دھڑکنے کے باوجود مردہ ہوتے ہیں کہ ان میں کسی کے ساتھ محبت یا خدمت کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔ بات بات پر قہقہے لگانا اور بے جا ہنستے رہنا انسان کی عظمت کو داغدار کر دیتا ہے۔ لوگ اس پر اعتماد نہیں کرتے‘ یہ پانچوں باتیں ہر انسان کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش کرنا چاہیے۔


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)