Sunday, July 07, 2019

دعاء کے فضائل وآداب 26/2019


دعاء کے فضائل وآداب

تحریر: مولانا امیر افضل اعوان
انسان کو صراط مستقیم پر گامزن رکھنے کے لئے خالق کائنات نے اسلام کی شکل میں ایک مکمل ضابطہ حیات فراہم کیا۔ بلاشبہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر کوئی بھی شخص دونوں جہانوں کی کامیابیاں و کامرانیاں سمیٹ سکتا ہے، انسانی زندگی میں دعا کی مسلمہ اہمیت کو فراموش کرنا کسی طور ممکن نہیں۔ احادیث مبارکہ میں دعا کو عبادت اور عبادت کی روح سے عبارت کیا گیا۔ بعض روایات میں ہے کہ تخلیق آدم کے بعد سب سے پہلی عبادت جو سیدنا آدمu اور اماں حوا کو سکھائی گئی وہ دعا ہی تھی اور اس کا تذکرہ قرآن کریم میں بھی موجود ہے:
’’دونوں بول اٹھے کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں، اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ہم نامراد لوگوں میں شامل ہوجائیں گے۔‘‘ (الاعراف: ۲۳)
دعا کا آغاز سیدنا آدمu سے ثابت ہے اور یہ ہمیشہ سے ہی ابن آدم کا شعار رہی ہے جب کہ ملائکہ بھی اللہ پاک سے دعا گو رہتے ہیں اور دیگر مخلوقات بھی اللہ رب العزت کی ثناء بیان کرتی ہیں، اس کے علاوہ انبیاء کرام ؑ نے بھی دعا کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے رکھا۔ قرآن پاک سے سیدنا نوح، سیدنا یونس، سیدنا یوسف، سیدنا ایوب، سیدنا سلیمان، سیدنا لوط، سیدنا ابراہیم، سیدنا اسماعیل، سیدنا زکریا، سیدنا موسیٰ، سیدنا عیسیٰ، سیدنا طالوتo اور اصحاب کہفy کے علاوہ دیگر انبیاء کرامo کا دعا مانگناقرآن پاک سے ثابت ہے اور سورۃ آل عمران میں سیدنا عمران کی زوجہ اور سیدہ مریمt کی والدہ کی دعا بھی موجود ہے، بلاشبہ دعائوں میں سب سے زیادہ مقبول ومحبوب تو وہ ہیں کہ جو اللہ پاک نے ہمیں سکھانے کے لئے خود ارشاد فرمائیں، یہ وہ میٹھے اور پر اثر بول ہیں کہ جو اللہ پاک کے خاص بندوں نے مختلف مواقع پر اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے ہوئے لب سے نکالے، یہ بول اللہ پاک کو اس قدر پیارے لگے کہ خالق کائنات نے نہ صرف یہ کہ ان کی دعائیں قبول فرمائیں بلکہ قرآن پاک کی شکل میں ان دعائیہ الفاظ کو آئندہ نسلوں کے لئے محفو ظ فرمادیا۔
بلاشبہ دعا اظہار کا وہ مؤثر و جامع طریقہ ہے کہ اگر انسانی زندگی سے دعا کو خارج کردیا جائے تو اس کا دامن بالکل خالی ہوجائے گا، یہی وجہ ہے کہ اظہار بندگی کے لئے اللہ پاک خود اپنے بندوں کو دعا مانگے کاحکم دیتا ہے، اس حوالہ سے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو انصاف کرنے کا حکم دیا ہے، اور یہ کہ ہر نماز کے وقت سیدھا (قبلے کی طرف) رخ کیا کرو اور خاص اسی کی عبادت کرو اور اسی کو پکارو، اس نے جس طرح تم کو ابتداء  میں پیدا کیا تھا اسی طرح تم پھر پیدا ہو گے۔‘‘ (الاعراف:۲۹)
اس آیت مبارکہ میں دعا کے احکامات کے ساتھ ساتھ دعا کے آداب بھی بیان کردیئے گئے، اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا جارہا ہے کہ
’’وہی سدا زندہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس لئے اس کو اس طرح پکارو کہ تمہاری تابع داری خالص اسی کے لیے ہو، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘ (المؤمن:۶۵)
اس آیت مبارکہ میں خالق کائنات کی اطاعت وتابعداری کے ساتھ اس کی کبریائی کا بھی واضح بیان موجود ہے، آداب دعا کے حوالہ سے قرآن کریم میں ایک اور مقام پر فرمایا گیا ہے کہ
’’اللہ کسی بھی شخص پراس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا‘ ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے اس کا پھل اسی کے لئے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے اس کا وبال اسی پر ہے (ایمان والو تم یوں دعا کیا کرو) اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہوجائیں ان پر گرفت نہ کرنا، اے مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالنا جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے، پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں، وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے اور کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد کر۔‘‘ (البقرہ:۲۸۶)
غور فرمایئے کہ اس آیت مبارکہ میں بندہ کے لئے دعا کا طریقہ کار بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا کہ بندوں کو چاہیے وہ اپنے گناہوں پر اظہار ندامت کے ساتھ رب کائنات کے حضور رحم و کرم کی استدعا کریں۔
دعا اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے کے درمیان ایک ایسا تعلق ہے کہ جس کی الفاظ میں وضاحت ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رب کریم اپنے بندوں کو دعا کی ہدایت و تلقین کرتے ہوئے اس کی حقیقت کو قرآن کریم میں مزید عیاں فرما رہا ہے:
’’جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں‘ ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں، اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔‘‘ (البقرہ: ۱۸۶)
اس آیت مبارکہ میں دعا کی قبولیت کی شرط بھی بیان کردی گئی کہ بندے اپنے رب کی بات مان لیا کریں اور اس پر ایمان کامل رکھیں، قرآن کریم میں دعا کے احکامات، آداب اور شرائط بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
’’تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑ گڑا کے بھی اور چپکے چپکے بھی‘ واقعی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو نا پسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں۔‘‘ (الاعراف: ۵۵)
اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے کہ
’’اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنے اور خدا سے خوف کھاتے ہوئے اور امید رکھتے ہوئے دعائیں مانگتے رہنا، کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے۔‘‘ (الاعراف: ۵۶)
اس آیت مبارکہ میں تعمیر سے تخریب کی طرف جانے کی ممانعت اور خوف خدا کے ساتھ دعائیں مانگتے رہنے کا درس دیا جارہا ہے، اسی مفہوم کے ساتھ قرآن کریم میں ایک اور مقام پر فرمایا جارہا ہے:
’’ان کی دعابس یہ تھی کہ اے ہمارے رب ! ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں سے در گزر فرما، ہمارے کام میں تیری حدود سے جو کچھ تجاوز ہوگیا اسے معاف کر دے، ہمارے قدم جما دے اور کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد کر۔‘‘ (آل عمران: ۱۴۷)
یہاں درس دیا جارہا ہے کہ جب زندگی میں مصیبت و تکلیف کا سامنا ہو۔ کسی بھی گمراہی یا بددلی کا شکار ہونے کی بجائے تو اللہ تعالیٰ کے حضور کامیابی، فتح و نصرت کی دعا کرنی چاہیے۔
دنیا کی فانی زندگی میں ہمارے گرد شیطان نے جال بن رکھے ہیں اور وہ انسان کی سوچ کو بھٹکانے کے ساتھ ساتھ اس کو زلت و ذلالت کی پستیوں میں دھکیلنے کے لئے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ، انسان کو صراط مستقیم پر گامزن رکھنے کے لئے خالق کائنات خود ثابت قدمی کا درس دیتے ہوئے قرآن پاک میں ارشاد فرما ہے کہ
’’(وہ دعامانگتے ہیں) اے ہمارے رب! کجی پیدا نہ کر ہمارے دلوں میں اس کے بعد (کہ)جب تونے ہدایت دے دی ہمیں اور عطا فرما اپنی طرف سے رحمت‘ بے شک توہی سب کچھ عطاکرنے والا ہے۔‘‘ (آل عمران: ۸)
یہاں مستقیم اور منحرف دو قسم کے لوگوں کا ذکر ہورہا ہے اور اللہ نے مومنوں کو تعلیم دی کہ وہ اللہ سے ایمان پر ثابت قدمی کی دعا کیا کریں، اسباب دنیا کی تقسیم پر انسان کو رنجیدہ خاطر ہونے کی بجائے اپنے حال پر مطمئن رہنے کا درس دیتے ہوئے قرآن کریم میں فرمان ربانی ہے کہ
’’اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اسکے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے، ہاں، اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو، یقینا اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘ (النساء: ۳۲)
اس آیت مبارکہ میں بہت زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے کہ مرد و زن دنیا میں جو محنت کررہے ہیں ان کا حصہ اسی محنت کے مطابق رکھا گیا ہے وہ اس پر راضی ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل وکرم کے طلب گار رہتے ہوئے دعا کا سلسلہ جاری رکھیں، مزید ہمیں یہ بھی درس دیا جارہا ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کو دعا دے تو ہمیں چاہیے کہ ہم بھی جواباً اسی طرح نیک جذبات کا اظہار کریں:
’’اور جب تمہیں سلامتی کی کوئی دعا دی جائے تو تم بھی سلامتی کی اس سے بہتر دعا دو یا اسی کو لوٹا دو یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب کرنے والا ہے۔‘‘ (النسا: ۸۶)
یہاں سلام کی شکل میں ایک بندے کی طرف سے درسرے شخص کو دی جانے والے سلامتی کی دعا کا بیان ملتا ہے اور حکم دیا جارہا ہے کہ اس صورت میں زیادہ بہتر الفاظ کا چنائو کیا جائے۔
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر حضرت انسان کو دعا کی صورت میں خالق کائنات سے رجوع کرنے کا درس دیا گیا تاکہ انسان اپنے خالق و مالک کی بزرگی، برتری،  وحدانیت و کبریائی کے ساتھ ساتھ اپنی حقیقت، بے بسی اور حالات کی تلخیوں میں نصرت خداوندی کو پہچان سکے، اس باب میں ارشاد ربانی ہے کہ
’’(اے محمد (e) !) فرمادیں کہ صحرا اور سمندر کی تاریکیوں سے کون تمہیں بچاتا ہے؟ کون ہے جس سے مصیبت کے و قت تم گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے دعائیں مانگتے ہو؟ اور کہتے ہو کہ اگر تو نے ہمیں اس سے بچالیا تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے۔‘‘ (الانعام: ۶۳)
اس آیت مبارکہ میں کفار کا بطور خاص تذکرہ کیا جارہا ہے کہ جب وہ تری، خشکی کا سفر کرتے ہوئے دوران سفر راستہ سے بھٹک جاتے ہیں، طوفانی موجیں اور بادل کی کڑک ہر طرف سے گھیر لیتی تو اس وقت خلوص کے ساتھ وہ اللہ کو پکارتے تھے کیونکہ اتنا وہ جانتے تھے کہ پتھروں کے بت نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ ضررکا باعث بن سکتے ہیں ، انہی لوگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن مجید میں ایک اور مقام پر رب کریم ارشاد فرما ہے کہ
’’یقین جانو کہ اللہ کو چھوڑ کر جن جن کو تم پکارتے ہو، وہ سب تمہاری طرح (اللہ کے) بندے ہیں، اب ذرا ان سے دعا مانگو، پھر اگر تم سچے ہو تو انہیں تمہاری دعا قبول کرنی چاہیے۔‘‘ (الاعراف: ۱۹۴)
کفار مکہ کا وطیرہ رہا کہ وہ اپنے نیک بندوں کے بت بنا کر ان کو پوجتے اور پکارتے تھے ، یہاں مشرکوں کو لاجواب کرنے کے لئے دعوت دی گئی کہ وہ اپنے معبودوں کو جو کہ درحقیقت عبد ہیں پکار کردیکھیں یقینا انہیں کوئی نفع حاصل نہیں ہوگا، دعا کے باب میں ایک اور مقام پر فرمایا جارہا ہے کہ
’’اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا بیشک جو لوگ تکبر کی بنا پر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، وہ ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘ (المؤمن: ۶۰)
اس آیت مبارکہ میں خالق کائنات بندے کو درس دعا دیتے ہوئے بیان فرمارہا ہے کہ جو تکبر کی بنیاد پر اپنے خالق و مالک سے رخ پھیر لیں گے ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، اسی مفہوم سے مماثل ایک اور آیت مبارکہ میں فرمایا جارہا ہے کہ
’’(اے پیغمبر ! لوگوں سے) کہہ دو کہ میرے پروردگار کو تمہاری ذرا بھی پروا نہ ہوتی، اگر تم اس کو نہ پکارتے، اب جبکہ (اے کافرو) تم نے حق کو جھٹلا دیا ہے تو یہ جھٹلانا تمہارے گلے پڑ کر رہے گا۔‘‘ (الفرقان: ۷۷)
بنی نوع انسان کو راہ ہدایت دکھانے اور اس سلسلے میں ان پر اتمام حجت کرنے کا کام اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمے لے رکھا ہے ، اس آیت مبارکہ میں رب کریم سے رخ پھیرنے والوں کو تنبیہ کی جارہی ہے کہ حق کو جھٹلا کر راہ ہدایت سے بھٹک جانے والوں کے لئے دردناک عذاب ہے اور وہ اس سے کسی بھی صورت بچ نہیں پائیں گے۔
قرآن پاک میں کچھ دعائیں ایسی بھی ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ نے صرف حضور اکرم e اور آپe کی امت کو سکھانے کے لئے ارشاد فرمائیں، جس طرح متعدد مقامات پر آپe کو حکم فرمایا گیا کہ ان الفاظ میں دعا مانگی جائے اور یہ بات سورۃ اخلاص، سورۃ الکافرون، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس سمیت دیگر آیات قرآنی میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے ، اسی طرح قرآن کریم میں ایک مقام پر فرمایا گیا ہے کہ
’’اور (اے پیغمبرe!) تم دعا کرو کہ اے رب، (ہمیں) بخش دے اور (ہمارے حال پر) رحم فرما، تو سب رحم کرنے والوں سے بہتر رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (المومنون: ۱۱۸)
اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء کردہ دعائوں میں تمام دعائوں کی سرتاج سورۃ فاتحہ ہے کہ جس میں حمد ربانی بھی ہے ، تذکرہ آخرت بھی ہے، ہر خیر کا سوال بھی ہے اور یہاں ہر قسم کے شر سے پناہ مانگنا بھی سکھادیا گیا، قرآن پاک کے بعد ہمارا سب سے بڑا سرمایہ وہ دعائیں ہیں کہ جو رسالت مآب حضرت محمد e کی زبان مبارک سے ارشاد ہوئیں، تاثیراً ان کا بھی وہ ہی مقام ہے جو کہ قرآنی دعائوںکا ہے، ہمارے پیارے نبی e نے بھی ہمیں اس کی تلقین کی، آپ e زندگی کے ہر معاملہ میں دعا کا خصوصی اہتمام کرتے تھے اور ان دعائوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا و آخرت کی کوئی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی بھلائی ایسی نہیں کہ جس کی آپ e نے دعا نہ فرمائی ہو اور اسی طرح کوئی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی برائی ایسی نہیں کہ جس سے آپ e نے پناہ نہ مانگی ہو۔
دعا کی اہمیت اس قدر ہے کہ اہل کتاب کو دیکھتے ہوئے دیگر مشرکین نے بھی اپنی عبادات میں دعاکو ایک لازمی جزو بنالیا ، یہاں تک کہ بعض مذاہب کی عبادت محض دعا تک ہی محدود ہے، امت محمدی کے نزدیک خیر و شر کا ایک بہت بڑا معیار خود حضور e کی دعائوں کی شکل میں موجود ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں دعاکا ڈھنگ نہیں آتا، اس لئے ضروری ہے کہ ہم قرآن وحدیث میں موجود دعائوں سے بندگی کا قرینہ سیکھیں، اس سلسلہ میں قرآن پاک میں خود خالق کائنات ارشاد فرماہے کہ
’’اور انسان (کبھی تنگ دل اور پریشان ہو کر) برائی کی دعا مانگنے لگتا ہے جس طرح (اپنے لئے) بھلائی کی دعا مانگتا ہے، اور انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔‘‘ (الاسراء: ۱۱)
اس آیت مبارکہ میں انسان کی جلد باز طبیعت اور اس کے نقصان کا ذکر کرتے ہوئے  انسان کی اس فطرت کو بیان کیا گیا ہے کہ جب اسے کوئی سانحہ پیش آتا ہے تو فوراً بد دعا دینا شروع کر دیتا ہے خواہ وہ بددعا اس کے دشمنوں کے حق میں ہو یا اس کے اپنے حق میں ہو یا اپنی اولاد وغیرہ کے حق میں ہو، پھر وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کی یہ بددعا جلد قبول ہوجائے، حالانکہ بعد میں خود اسے احساس ہوجاتا ہے کہ اگر اس کی بددعا قبول ہوجاتی تو اس کا اسے کتنا زیادہ نقصان پہنچ سکتا تھا‘ جیساکہ ابو جہل نے اپنے حق میں بددعا کی تھی کہ اے اللہ! اگر یہ نبیe اور یہ قرآن برحق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، اسی طرح مسلمان بھی کفار مکہ سے سختیاں برداشت کرنے پر بعض دفعہ بددعا کیا کرتے تھے، حالانکہ انہی لوگوں میں سے اکثر بعد میں ایمان لے آئے تھے، اسی طرح بعض دفعہ انسان تنگ آکر اپنی اولاد کے حق میں بددعا کر بیٹھتا ہے حالانکہ اگر اس کی دعا قبول ہوجاتی تو اسے اس وقت سے بہت زیادہ صدمہ پہنچتا جس وقت اس نے یہ بددعا مانگی تھی، گویا انسان کی جلد باز طبیعت اکثر اوقات نقصان دہ ہی ثابت ہوتی ہے، اس کے برعکس اللہ کے کاموں میں طرح طرح کی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔
خالق کائنات کے حضور دعاکرتے ہوئے ہمیں مکمل شعور و تحمل اور بردباری سے کام لینا چاہیے کیوں کہ یہ ہی دعائیہ کلمات ہماری زندگی کا رخ متعین کرتے ہیںاور ان ہی کے اجر و ثواب کی بدولت ہمیں قدرت کی طرف سے نفع ونقصان بھی ملتا ہے اس لئے ہمیں بارگاہ خداوندی میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے مکمل ہوش و حواس سے کام لینا چاہیے ، یہاں تک کہ نیند کی حالت میں بھی دعا کرنا ٹھیک نہیں، اسی حوالہ سے ایک حدیث پاک میں بھی منقول ہے:
سیدہ عائشہr سے روایت ہے کہ رسول اللہ e نے فرمایا کہ ’’جب کوئی شخص اونگھ جائے اور وہ نماز پڑھ رہا ہو تو اسے چاہیے کہ لیٹ جائے، یہاں تک کہ اس کی نیند جاتی رہے، اس لئے کہ جب کوئی نیند کی حالت میں نماز پڑھے گا، تو یہ نہیں سمجھ سکتا کہ استغفار کرتا ہوں یا اپنے آپ کو بددعا دے رہا ہوں۔‘‘ صحیح بخاری: ۱/۲۱۳)
ان آیات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں دیکھاجائے تو بخوبی علم ہوتا ہے کہ ہمیں دعا کا اہتمام کس طرح کرنا چاہیے اور یہ بھی کہ سب سے پیاری دعائیں وہ ہی ہیں کہ جو قرآ ن پاک میں موجود ہیں یا رسول کریم e نے ارشاد فرمائیں، ان کے علاوہ کسی شکل یا الفاظ میں دعا کی ممانعت تو نہیں مگر یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہمیں دعا مانگنے کو بھی سلیقہ نہیں اور دعا کے لئے الفاظ کے چنائو کا بھی ادراک نہیں ، جب اس حوالہ سے خالق کائنات نے خود ارشاد فرما دیا تو یقینا کسی شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)