درسِ قرآن
معیارِ تقویٰ وسچائی
ارشادِ باری ہے:
﴿لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ
وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ
وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِيّٖنَ١ۚ وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِي الْقُرْبٰى
وَ الْيَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِيْنَ وَ ابْنَ السَّبِيْلِ١ۙ وَ السَّآىِٕلِيْنَ۠ وَ فِي
الرِّقَابِ١ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ١ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ
اِذَا عٰهَدُوْا١ۚ وَ الصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِيْنَ الْبَاْسِ١ؕ
اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا١ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ۰۰۱۷۷﴾(البقرة)
’’ساری اچھائی مشرق
و مغرب کی طرف(نماز کے لیے)منہ کرلینے میں ہی نہیں۔ بلکہ حقیقتاً اچھا شخص وہ ہے جو
اللہ تعالیٰ (کی واحدانیت )پر‘ قیامت کے دن پر‘ فرشتوں پر‘ کتاب اللہ پر اور نبیوں
پر ایمان رکھنے والا ہو۔ جو مال سے محبت کے باوجود قرابت داروں ‘یتیموں ‘ مسکینوں‘مسافروں
اور سوال کرنے والوں کو عطاء کرنے والاہو‘ غلاموں کو آزادکرے۔ نماز کی پابندی اورزکوٰۃ
کی ادائیگی کرے۔ جب وعدہ کرے تو پھر اسے پوراکرے‘ تنگ دستی ‘دکھ درداور لڑائی (جہاد)
کے وقت صبر کرے۔ یہی سچے لوگ ہیں اور یہی متقین (پرہیزگار) ہیں۔‘‘
اسلام صرف چند عبادات کے کرلینے ہی کا نام نہیں بلکہ اسلام تو
انسان کو انسانیت کے سانچے میں مکمل طور پر ڈھالتا ہے۔ مذکورہ آیت مبارکہ میں اللہ
تعالیٰ نے اسی بات کی طرف نشاندہی فرمائی ہے کہ نیکی کا معیار صرف نماز نہیں بلکہ نیکی
اور تقویٰ تو زندگی کے تمام پہلوئوں میںاطاعت رب اور خوشنودی رب کا متقاضی ہے۔نبی کریم
e سے
حضرت ابو ذرt نے
تین مرتبہ پوچھاکہ ایمان کیا ہے؟ اور آپ eنے ہرمرتبہ جواب میں یہی آیت مبارکہ تلاوت فرمائی۔ گویا حقیقی
ایمان انسان کو رواداری‘ محبت‘ غمگساری‘ قربانی‘ ایثار‘ مصیبت پر صبر‘ جہاد کا شوق‘
ایفائے عہد اور دوسری معاشرتی اخلاقی عادات واطوار پر کاربند رکھتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ
کی اطاعت میں اپنی پسندیدہ ترین چیزں کی قربانی کا جذبہ پیدا کرنا ہی حقیقی نیکی اور
تقویٰ کا سب سے اونچا زینہ ہے۔
﴿لَنْ تَنَالُوا
الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ۬ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ
فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ۰۰۹۲﴾ (ال عمران)
’’جب تک تم اپنی
پسندیدہ ترین چیز سے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کروگے تب تک تم ہرگز بھلائی کے معیار
پر پورا نہیں اترو گے۔‘‘
اسی طرح راہ خدا میں ہرطرح کی مشقتوں اورمصیبتوں پر استقامت
سے کھڑے رہنا تمہارے ایمان کی صداقت کی نشانی ہے۔
درسِ حدیث
شیطان کی مشابہت کی ممانعت
فرمان نبویﷺ ہے:
[لَا يَأْكُلَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ بِشِمَالِهِ، وَلَا يَشْرَبَنَّ بِهَا، فَإِنَّ
الشَّيْطَانَ يَأْكُلُ بِشِمَالِهِ، وَيَشْرَبُ بِهَا. ] (رواه مسلم)
سیدنا عبداللہ بن عمرw سے
روایت ہے کہ رسول اللہe نے
ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص ہرگز اپنے بائیں ہاتھ سے نہ کھائے اور نہ ہی پیئے
اس لیے کہ شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتا اور پیتا ہے۔‘‘ (مسلم)
اسلام نے اپنے ماننے والے ہر انسان کی ہر معاملے میں رہنمائی
فرمائی ہے۔ سونے‘ جاگنے کے آداب‘ پیشاب پاخانے کا سلیقہ‘ آپس میں میل وملاپ کا طریقہ
اور کھانے پینے کے آداب مکمل طور پر بیان فرمائے ہیں تا کہ انسان شیطان کے شر سے محفوظ
رہے اور اجر وثواب بھی حاصل کر لے۔
کھانے پینے کے اسلامی آداب بیان کرتے ہوئے حضور اکرمe نے
فرمایا: ’’پہلے بسم اللہ پڑھو‘ اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔‘‘
اس فرمان کے تین حصے ہیں۔
پہلا حصہ: ’’بسم اللہ‘‘ پڑھنا ہے۔ جب کوئی چیز کھانے یا پینے
سے پہلے بسم اللہ پڑھ لی جائے تو شیطان اس کھانے میں شریک نہیں ہو سکتا‘ برکت قائم
رہے گی۔ جب بسم اللہ نہ پڑھی جائے تو شیطان کھانے میں شریک ہو کر برکت ختم کر دیتا
ہے۔
دوسرا حصہ: ’’دائیں ہاتھ سے کھانا ہے۔‘‘ بائیں ہاتھ سے کھانا
معیوب ہے‘ کیونکہ آپe نے
تمام قسم کی نجاستیں بائیں ہاتھ سے دور کرنے کی تعلیم دی ہے۔ استنجا کرنا ہو‘ وضو کے
دوران یا اس کے علاوہ ناک جھاڑنا ہو تو بایاں ہاتھ استعمال کرنے کا حکم ہے۔ لہٰذا ہمیشہ
دائیں ہاتھ سے کھایا اور پیا جائے۔
تیسرا حصہ: ’’اپنے سامنے سے کھانے کا حکم ہے۔‘‘ یہ اس صورت میں
ہے جب چند افراد اکٹھے مل کر کسی برتن یا دستخر خوان سے کھا رہے ہوں۔ اس وقت کسی کے
آگے سے اٹھا کر کھانا معیوب ہو گا لیکن اکر کھانا انواع واقسام کا ہو تو اپنے سامنے
کے علاوہ دوسری جگہ سے اٹھا کر بھی کھا سکتے ہیں۔ ایک ہی قسم کے کھانے میں دوسرے ساتھی
کے آگے سے اٹھانا نا پسندیدہ فعل ہے۔
ذکر کردہ حدیث میں پوری تاکید کے ساتھ تعلیم فرمائی کہ کوئی
بھی ہرگز اپنے بائیں ہاتھ سے نہ کھائے اور نہ ہی پئے۔ اس طرح سختی سے منع کرنے کا سبب
بھی آپe نے
خود ہی بیان فرما دیا کہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے۔‘‘ شیطان سے مشابہت درست
نہیں۔ لہٰذا کھاتے پیتے وقت مذکورہ آداب کا خیال رکھیں۔ بعض جدت پسند اور مغرب زدہ
لوگ بائیں ہاتھ سے کھانے پینے کو فیشن سمجھ کر اختیار کرتے ہیں یہ کفار کی نقالی ہے۔
کافروں کی نقل اتارنے والے دراصل شیطان کو خوش کرتے ہیں۔ بعض لوگ کھانا تو دائیں ہاتھ
سے کھاتے ہیں مگر بسکٹ‘ پھل یا کوئی اور چیز کھاتے وقت دائیں ہاتھ کا خیال نہیں رکھتے۔
یہ غفلت ہے اس سے اجتناب کیا جائے۔
No comments:
Post a Comment