فرقہ واریت کے خاتمہ کی صورت
تحریر: جناب مولانا محمد یوسف انور
آج ہمارا ملک شدید ترین بحرانوں سے دوچار ہے۔ سیاسی دھینگا مشتی
اور آپس میں الزام تراشی زوروں پر ہے جن سے اصل مسائل معاشی ومہنگائی اور کاروباری
تباہی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں مذہبی حوالے سے فرقہ واریت کو بھی کہیں
کہیں ہوا دی جا رہی ہے اور اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے اتحاد امت میں رخنہ اندازی
پیدا کرنے کی ناکام کوشش ابھر رہی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مذہبی طبقہ کم از کم اپنی بساط کے مطابق
آگے بڑھے اور امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے تا کہ فرقہ
واریت کے عفریت کے آگے بندھ باندھا جا سکے۔ اس سلسلہ میں ہمارے عزیز دوست ڈاکٹر پروفیسر
سعید احمد چنیوٹی لائق صد تحسین ہیں کہ انہوں نے مختصر مگر جامع انداز میں ایک کتابچہ
زیر عنوان ’’اتحاد ملت کا نقیب … فکر اہل حدیث ہی کیوں؟‘‘ تالیف فرمایا ہے جو اپنے
موضوع پر ایک مستند اور لا جواب کارنامہ ہے۔ قرآن مجید کے ساتھ رسول اکرمe کے
ارشادات اور اس کے سارے ماحول کا محفوظ رہنا ایک اعجاز بلکہ ایسا امتیاز ہے جس میں
کوئی دوسرا اس کا شریک وحصہ دار نہیں۔
عہد نبویe کی
یہ تصویر اور ماحول صرف حدیث کے ذریعے محفوظ ہے۔ تدوین حدیث کی تاریخ کے مطالعہ سے
معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی بعد میں آنے والی جدت طرازی نہیں بلکہ صحابہ کرام نے عہد نبوی ہی
میں حفظ حدیث کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دی تھیں۔ بعض نے کتابت حدیث کا سلسلہ بھی
جاری رکھا پھر انہی کے آخری دور میں تابعین کا جمع وتدوین حدیث کے لیے سراپا شوق بن
جانا۔ پھر مختلف بلاد اسلامیہ کے شائقین علوم نبویہ کے سمندر کا امڈ آنا‘ ان حضرات
کا حفظ حدیث سے عشق‘ حیرت انگیز قوت حافظہ اور ان کا بے مثال عزم وعزیمت ہی نہیں اسماء
ورجال اور فن حدیث کے مجتہدین کا پیدا ہونا پھر عالم اسلام میں اس کی مقبولیت واشاعت‘
یہ سب واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ جمع قرآن کی طرح اللہ تعالیٰ نبی کریم e کے
صحیفہ زندگی کو بھی محفوظ بنانا تھا۔ بعد ازاں ہر دور میں ایسے افراد رہے جو صحابہ
کرام کی اس روحانی میراث کے وارث تھے اور یہی معنی ہے اس حدیث نبویe کا:
[لَا یَزَالُ طَآئِفَۃٌ
مِنْ اُمَّتِیْ ظَاہِرِیْنَ عَلَی الْحَقِّ لَا یَضُرُّہُمْ مَنْ خَالَفَہُمْ حَتّٰی
یَاْتِیَ اَمْرُ اللّٰہِ]
یعنی ’’میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ موجود ہو گا جو حق پر قائم رہے گا تا قیامت
کسی کی مخالفت اس گروہ کو جادۂ حق سے منحرف نہیں کر سکے گی۔‘‘
اسی حدیث کی روشنی میں مولانا چنیوٹی نے خوب لکھا ہے کہ
’’الحمد للہ! اہل
حدیث کی روش ہمیشہ ایک جیسی رہی‘ وہ فروغ عقائد اور تصوف میں صحابہ کرام کی اتباع کرتے
رہے اور خانقاہی نظام کی بدعات سے اسی طرح نفرت کی جس طرح فروع میں جامد تقلید اور
عقائد میں بے دینی کی بدعات سے انہیں نفرت تھی۔
{ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ
یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ}
نیز مولانا چنیوٹی نے یہ بھی دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ ائمہ
اربعہ امام ابوحنیفہ‘ امام شافعی‘ امام احمد بن حنبل اور امام مالکS منہج
صحابہ کرام وتابعین عظامS کے
پیروکار اور اس پر سختی سے کاربند تھے۔ اسی طرح منہج اہل سنت اور محدثین کے طریق کار
سے متفق وہم آہنگ تھے۔ غرضیکہ ۶۴ صفحات پر شمتمل کتابچہ میں مسلک اہل حدیث کی حقانیت وصداقت بھی
ہے جو راہِ اعتدال بھی ہے اور راہِ اتحاد امت بھی۔
ابتداء میں شیخ الحدیث مولانا حافظ عبدالعزیز علویd اور
ترجمان اہل حدیث مولانا ارشاد الحق اثریd کے تحریر کردہ علمی نگارشات اور موضوع کے اثبات میں
بڑے معلوماتی دلائل ہیں جو کہ اہل حدیث کی اساس وبنیاد ہیں جن سے اس تالیف لطیف کی
افادیت دو چند ہو گئی ہے۔ مزید برآں اہل حدیث یوتھ فورس پنجاب کی تنظیم مبارکباد کی
مستحق ہے جس نے نہایت خوبصورت اور طریق جدید سے اس کی اشاعت کی ہے۔ جزاہ اللہ احسن
الجزاء۔ امید ہے کہ وہ اپنی تبلیغی وتنظیمی مصروفیات کے ساتھ ساتھ آئندہ بھی تصنیف
وتالیف کی طرف گامزن رہے گی تا کہ اس اہم شعبۂ تبلیغ پر بھی احوال وظروف زمانہ کے
مطابق کام ہوتا رہے۔
No comments:
Post a Comment