درسِ قرآن
مطلوب حج وقربانی
ارشادِ باری ہے:
﴿رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِنَاۤ اُمَّةً مُّسْلِمَةً
لَّكَ١۪ وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَيْنَا١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۰۰۱۲۸﴾
(البقرة)
’’ اے ہمارے رب ہمیں
اپنا مطیع فرمان بنا لے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنا اطاعت گزار بنائے
رکھنا اور ہمیں اپنی عبادت کرنے کے طریقے سکھا اور ہماری توبہ قبول فرما۔ بے شک تو
ہی توبہ قبول فرمانے‘ رحم و کرم کرنے والا ہے۔‘‘
اللہ تعالی کے تمام رسل و انبیاءo ہمیشہ اسی کے در کے پجاری رہے اور ہمیشہ دعائوںاور مناجات
کا سلسلہ اسی ذات سے قائم کیا جو فی الحقیقت ان دعائو ں کو سننے اور قبول فرمانے والی
ہے۔اس آیت مبارکہ میں بھی سيدنا ابراہیمu کی دعا کا تذکرہ کیا گیا ہے۔جس میںدرس توحید بھی ہے
کہ اللہ کی برگزیدہ ترین ہستیوں نے بھی اپنی اور اپنی اولاد کی بہتری‘ ہدایت اور نفع
کے لیے صرف اور صرف اللہ کی ذات کو ہی پکاراتھا ۔اس کے ساتھ ساتھ اس آیت مبارکہ میں
جن عبادات کے طریقے سکھانے کی دعا کی گئی ہے اس سے مراد حج کے ارکان اور طریقے ہیں۔
حج کی بدولت انسان گناہوں کی آلودگی سے پاک صاف ہوجاتا ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ حج
کے ہی ایام میں ایک عظیم مالی عبادت یعنی قربانی کے ذریعہ بھی اللہ کا تقرب حاصل کیا
جاتا ہے۔
﴿وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ
جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ
الْاَنْعَامِ﴾ (الحج)
’’ اور ہر امت کے
لیے ہم نے قربانی مقرر کی ہے۔ تاکہ وہ( بوقت ذبح ) اللہ کی نعمتوں پر جواس نے چوپائوں
کی شکل میں دی رکھی ہیں اللہ کو یاد کریں (اس کا شکر ادا کریں)۔‘‘
جبکہ اس کے بعد حج اور قربانی کا ہدف اور مقصد بھی قرآن نے
واضح فرمادیا ہے :
﴿لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ
لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ١ؕ كَذٰلِكَ
سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِيْنَ﴾
(الحج)
’’ اللہ تعالی کو
قربانیوں کے گوشت اور ان کاخون نہیں پہنچتا ۔بلکہ اسے تو تمہارے دل کی پرہیز گاری پہنچتی
(مقصود)ہے۔اسی طرح اللہ نے ان جانوروں کو تمہار ا مطیع کردیا تاکہ تم اس کی رہنمائی
کے شکریہ کے طور پر اس کی بڑائیاں بیان کرواور نیک لوگوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔‘‘
یہاں مفسرین نے لکھا ہے کہ ’’محسنین‘‘ سے مراد وہ نیکو کار ہیں
جو کسی دکھلاوے اور شہرت کے حصول کی نیت سے نہیں بلکہ محض اللہ کی رضا کے لیے قربانی
اور حج کرتے ہیں۔اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ قربانی کرتے وقت دل کو ریاکاری اور شہرت
و ناموری کی آلائشوں سے بھی پاک رکھے اور نفسانی خواہشات کی قربانی کا بھی عزم مصصم
کرے۔ یہی مقصود قربانی ہے۔
درسِ حدیث
عشرۂ ذوالحجہ کی فضیلت
فرمان نبویﷺ ہے:
[عن ابن عباس قال: قال رسول اللہﷺ: "مَا مِنْ اَیَّامِ الْعَمَلِ الصَّالِحِ
فِیْهِنَّ اَحَبُّ إِلَی اللہِ مِنْ هٰذِہِ الْأَیَّامِ الْعَشْرِ". قَالُوْا:
یَا رَسُوْلَ اللہِ! وَلَا الْجِهَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ؟ قَالَ: "وَلَا الْجِهَادُ
فِیْ سَبِیْلِ اللہِ إِلَّا رَجُلٌ خَرجَ بِنَفْسِهِ
وَمَالِهِ فَلَمْ یَرْجِعْ مِنْ ذٰلِكَ بِشَیْءٍ. ] (رواه البخاري)
سیدنا عبداللہ بن عباسw سے
روایت ہے‘ انہوں نے کہا کہ رسول اللہe نے ارشاد فرمایا: ’’ان دس ایام کے علاوہ کوئی اور ایسے
دن نہیں ہیں جن میں کیا ہوا نیک عمل اللہ کو ان دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب ہو۔‘‘ صحابہ
کرام نے عرض کیا‘ اللہ کی راہ میں جہاد بھی اتنا محبوب نہیں؟ آپe نے
فرمایا: ’’نہ ہی اللہ کی راہ میں جہاد اتنا پسند ہے ہاں! وہ شخص جو اپنا مال اور اپنی
جان لے کر جہاد کے لئے نکلا اور وہاں سے کچھ بھی واپس نہ آیا۔‘‘
ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد ۱۰ ذوالحجہ تک کے دس
دن اللہ کو بہت محبوب ہیں اور ان ایام میں کیا ہوا عمل بھی بہت پیارا ہے۔ یکم سے ۹ ذوالحج تک روزے رکھے جائیں۔ صدقہ و خیرات کی جائے، نفلی عبادات
کثرت سے کی جائیں اور دس تاریخ کو قربانی کی جائے کہ اس دن سب سے اچھا عمل اللہ کے
ہاں قربانی کر کے جانور کا خون بہانا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا
رسول اللہe! ان دنوں کا عمل
اللہ کی راہ میں جہاد سے بھی افضل ہے۔ آپe نے فرمایا: ’’ہاں جہاد سے بھی افضل ہے مگر وہ شخص جو
جہاد کے لئے نکلا اپنا مال بھی ساتھ لیا خود وہاں شہید ہو گیا اس کا سارا مال مجاہدین
کے کام آیا وہ ان دنوں کے عمل سے زیادہ ثواب حاصل کر سکتا ہے۔‘‘
ان ایام میں رسول اللہ e نے کچھ کام کرنے کا حکم دیا اور کچھ کاموں سے روکا ہے‘
جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا وہ عبادات ہیں اور جن کاموں سے روکا وہ حجامت بنوانا اور
ناخن ترشوانا ہے۔ آپe نے
فرمایا: ’’جو ذوالحجہ کا چاند دیکھے اور وہ قربانی کرنا چاہتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنی
حجامت نہ بنوائے، اپنے ناخن نہ ترشوائے۔ دس ذوالحجہ کو حجامت بنائے۔‘‘ اور جو شخص قربانی
کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اس کے لئے فرمایا کہ ’’وہ ان دس دنوں میں اپنی حجامت نہ بنوائے
اور ناخن نہ ترشوائے۔ جس دن (یعنی دس تاریخ کو) لوگ قربانیاں کریں وہ اپنی حجامت بنا
لے اور ناخن ترشوا لے اسے پوری قربانی کا ثواب نصیب ہوگا۔‘‘ لہٰذا ان ایام کو غنیمت
جانتے ہوئے کثرت سے عبادت کی جائے اور حجامت کروانے سے گریز کیا جائے۔
No comments:
Post a Comment