Thursday, July 25, 2019

مولانا عبداللہ گورداسپوری رحمہ اللہ


یادِ رفتگان ... مولانا عبداللہ گورداسپوری

تحریر: جناب قاری عمر فاروق
بابا جی ؒ سب کے باباجی تھے‘ چاہے کسی بھی مسلک کا فرد ہو عورت ہو مرد ہو بوڑھا ہو بچہ ہو سب کی زبان پر بابا جی پکارا جاتا تھا۔ سارا شہر مرد عورت بوڑھا بچہ بزرگ عالم دین ہونے کی وجہ سے اُن کا ادب واحترام کرتا تھا۔ میں نے بابا جی ؒ کے ساتھ بڑا عرصہ گزارا اور اکثر تبلیغی سفر میں اُن کے ساتھ رہا۔ اُ ن کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔
بابا جیؒ کی دیگر خوبیوں میں سے ایک صفت یہ بھی تھی کی میں نے بابا جیؒ کو کبھی بھی نماز قضا پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ نماز کی بڑی سختی کے ساتھ پابندی کرتے تھے جبکہ آج کل کے علماء کے اندر بہت کمی پائی جاتی ہے۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک نماز ہی تو ہے جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا بہانہ ہے۔
بابا جی a اکثر اوقات اپنے اکابر علمائے کرام حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ، حضرت مولانا حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹیؒ اور حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ کے بارے میں باتیں بتاتے اور ہمیں سمجھاتے کہ ہمیں اپنی زندگیاں ان علمائے کرام کے جیسے گزارنے سے دنیا میں بھی بہتری ہو گی اور آخرت میں بھی۔
بابا جیa  مجھ سے اس لئے بھی زیادہ پیار کرتے تھے کہ میں بابا جی صوفی محمد عبداللہ ؒ کے جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن میں پڑھتا رہا۔ دوسری بات میرے ماموں جان قاری محمد شکیلa (سعودی عرب والے) جامعہ ثنائیہ ساہیوال میںپڑھاتے تھے۔ اُس وقت وہاں جماعت کے مایہ ناز خطیب حافظ عبدالحق صدیقی  ؒ خطابت فرماتے تھے۔ حافظ عبدالحق صدیقی  ؒ جب بھی ساہیوال یا گردونواح میں کوئی جلسہ کرواتے تو بابا جی ؒ کو بورے والا سے لانے کے لئے میرے پیارے ماموں جان  ؒ کو بھیجتے جو کہ خود بھی جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن سے فارغ التحصیل تھے۔
جس وقت میں بورے والا شہر میں بابا جی ؒ کی یادگار جامعہ محمدیہ اہل حدیث میں پڑھاتا تھا اُس وقت وہاں شعبہ حفظ کی چار کلاسیں ہوتی تھیں۔ میں چونکہ دوسرے قراء حضرات سے چھوٹا تھا اور میں اپنے سر پر ہر وقت ٹوپی و رومال رکھتا تھا‘ کبھی سر کو ننگا نہیں ہونے دیتا تھا۔ دوسرے قراء حضرات جب بابا جیa کو دیکھتے تو فورا ً اپنے سر پر ٹوپی یا رومال رکھنے کی کوشش کرتے اور بابا جیa میر ی مثال دیتے کہ اُس کا سر ہر وقت ڈھانپا ہوتا ہے لیکن تم لوگ اس بات کا خیال نہیں کرتے‘ مجھ سے اُن کے پیار کی ایک وجہ میری یہ عادت بھی تھی۔ آپ اکثر اوقات جب کسی کے ہاں دعوت یا نکاح کی تقریب یا جنازہ پڑھانے تشریف لے جاتے تو مجھے بھی اکثر اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔
بابا جی a کی ایک عادت یہ بھی تھی کہ نماز ِ عصر کے بعد سبزی خریدنے  یا  پان لگوانے بازار جاتے تو کسی جماعتی ساتھی یا دوست کے بیٹے، پوتے ، نواسے کی دکان پر ضرور جاتے اور انہیں سمجھاتے کہ آپ بھی اپنے بزرگوں کی طرح دین اسلام کے خدمت گزار بنو۔
جامعہ محمدیہ میں پڑھانے کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انتظامیہ کی وجہ سے مجھے مدرسہ چھوڑنا پڑا لیکن بابا جی ؒ کا میرے ساتھ پیار وہی رہا۔ کچھ عرصہ بعد میں نے چیچہ وطنی روڈ فرمان آباد 435/EB میں مسجد کے لئے جگہ خریدی‘ میں نے آکر  بابا جیa کو بتایا بہت خوش ہوئے‘ ڈھیروں دعائیں دیںاور فرمانے لگے کہ آپ نے یہ جگہ خرید کر بہت اچھا کیا‘ وہاں دین اسلام خصوصاً مسلک اہل حدیث و عقیدہ توحید کی اشد ضرورت تھی پھر مجھے فرمانے لگے کہ مسجد کو خاموشی سے تعمیر کروں۔
پھر جب الحمدللہ مسجد تعمیر ہو گئی تو دوست احباب کی مشاورت سے مسجد کا افتتاح  ۲۲ جون ۲۰۰۷ء کو رکھا گیا پروگرام کے مطابق مغرب کی نماز ہماری جماعت کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا محمد اسداللہ بھامبڑوی ؒ نے پڑھائی۔ نماز مغرب کے متصل بعد باباجی حضرت مولانا محمد عبداللہ گورداسپوریa نے درس قرآن و حدیث ارشاد فرمایا۔ ابتدا میں آپ نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا کہ یہ مسجد اللہ کا گھر ہے‘ یہ مسجد صرف اور صرف اشاعت اسلام اور مسلک اہل حدیث کی آبیاری کے لئے ہے۔ اگر کسی نے اس مسجد کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا یا کوئی غلط ہاتھ اُٹھایا تو میرا یہ برخوردار قاری عمر فاروق اکیلا نہیں بلکہ اس کے ساتھ پوری جماعت اہل حدیث کھڑی ہوگی۔ دوران خطاب مجھے فرمانے لگے کہ بیٹا میرے پاس ادھر آئو مسجد کا کام پورا کرو ائو اور اپنے پاس سے ۱۵۰۰۰ ہزار روپے مجھے دیے۔ درس قرآن کے بعد انتظامیہ مسجد اور معاونین کے لئے ڈھیروں دعائیں فرمائیں۔
جاتے ہوئے میرے کان میں فرمانے لگے کہ ابھی بس پانچ وقت نماز با جماعت پڑھائیں خطبہ جمعہ نہ دیں اور احسن انداز میں جماعتی بنائیں پھر اس کے بعد جمعہ شروع کریں گے۔ ان شاء اللہ !
کچھ عرصہ کے بعد ایک دن میری گوجرانوالا میں ادارہ مناہل الخیریہ کے مدیر جناب شیخ عبداللہ کوثر صاحب سے مسجد کے افتتاح کے بارے میں بات ہوئی تو میں نے ان کو یہ ساری روداد سنائی۔ وہ فرمانے لگے کہ بابا جی ؒ نے تو اپنی جیب سے مسجد کو پیسے دے کر حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفیa و علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدa اور اپنے دیگر بزرگوں کی یاد کو تازہ کیا ہے۔ اب الحمدللہ! اسی مسجد کے ساتھ مدرسہ و سکول جس میں ناظرہ،حفظ القرآن، ترجمعہ قرآن، کلاس نرسری تا میٹرک طلبہ وطالبات کے لئے تعلیم جاری و ساری ہے۔ جو کہ ان شاء اللہ بابا جی گورداسپوری ؒ اور ہمارے لئے جنت الفردوس میں جانے کا سبب بنے گا۔ بابا جی ؒ کی محبت صرف ایک مسجد کے ساتھ نہیں تھی بلکہ جماعت اہل حدیث کی دیگر چالیس مساجد کے ساتھ بھی ایک انوکھا اور الگ الگ رشتہ تھا۔جب کبھی بابا جیa سے کہیںبھی ملاقات ہوتی تو ایک ایک نمازی اور ہر ایک رشتہ دار کے بارے میں پوچھتے تھے۔ ایک بار بابا جیa نے جامعہ تعلیم الاسلام مامونکانجن کی سالانہ تقریب بخاری واہل حدیث کانفرنس میں جانا تھا‘ اُن دنوں میں سہیل بھائی کہیں مصروف تھے‘ بابا جیa  فرمان آباد میں میرے گھر تشریف لائے اور میں گھر میں نہیں تھا‘ پیغام دے کر چلے گئے کہ قاری عمر فاروق سے کہنا کہ کل اس نے میرے ساتھ مامونکانجن جانا ہے کیونکہ اُن کے بڑے بھائی حافظ ابوبکر عتیق  ؒ وہاں جامعہ میں مدرس ہیں۔ جب میں شام گھر آیا تو گھر والوں نے مجھے بتایا کہ ختم نبوت کی چوکھٹ کے چوکیدار مسلک اہل حدیث کے اتنے بڑے عالم دین حضرت باباجی محمد عبداللہ گورداسپوریa ہمارے گھر تشریف لائے تھے اور یہ پیغام دے کر چلے گئے ہیں۔ گھر والے کہتے تھے کہ ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ آپ بابا جیa کے بارے میں ایسے ہی پیار بھری باتیں کرتے ہیں۔ لیکن آج ہمیں پتا چلا واقعی باباجی ؒ بھی آپ سے پیار کرتے ہیں۔ بابا جی ؒ اکثر اوقات ہمیں اچھی زندگی گزارنے کے راہنما اصول بتلایا کرتے ایک دفعہ ہم چاروں قراء حضرات، بابا جی ؒ، صدر مسجد مولانا محمد افضل و خادم مسجد بابا بشیر کسی کے ہاں دعوت پر جا رہے تھے تو راستے میں چلتے ہوئے ایک دوسرے قاری صاحب نے اپنے ایک مہمان قاری صاحب کو بھی ساتھ لے لیا۔ بابا جیؒ نے دیکھا تو غصے کا اظہار کیا کہ آپ ان قاری صاحب کو اپنے ساتھ دعوت پر کیوں لے کر جا رہے ہو؟ اُن لوگوں نے تو ان کو دعوت ہی نہیں دی‘ ہمیں تو صرف سات لوگوں کو دعوت پر بُلایا ہے‘ اب جب اُن کے ہاں پہنچے تو دیکھا کہ صرف سات کرسیاں لگی ہوئی تھیںتو بابا جیؒ نے فرمایا: دیکھا میں نے کہا تھا کہ جتنے لوگوں کو بُلایا ہے اتنے ہی لوگ جائیں‘ اگر اُن قاری صاحب کو بھی ساتھ لے آتے تو کتنی بے عزتی ہوتی جبکہ ان کے لئے تو کرسی ہی نہیں رکھی گئی‘ ہمیں آج بھی باباجی ؒ کی نصیحتیں یاد آتی ہی۔
شہر بورے والا میں بابا جیa کا درس قرآن اپنے اکابرین کی طرح نماز فجر کے بعد اور درس حدیث نماز عصر کے بعد اپنی مثال آپ ہوا کرتا تھا۔ اتنا شاندار اور جاندار بیان کرتے تھے کہ ہمارے جیسے بہت سارے مدرس اُن کا درس قرآن وحدیث سننے چلے آتے۔ ایک دفعہ درس سننے سے ہمارے تین سے چار دن کا درسِ قرآن و حدیث تیار ہو جاتا‘ بڑے بڑے علمی نکات عام فہم انداز میں سمجھا جاتے۔
اب بابا جیa کی وفات کے بعدشہر بھر کی مساجد ومدارس کے بارے میںاُن کے صاحبزادے جناب حاجی ریاض گورداسپوری، جانشین بابا جی حضرت مولانا زبیر عامر گورداسپوری‘ اُن کے پوتے جناب عمیر گورداسپوری اور جناب حاجی سہیل گورداسپوری رابطہ رکھتے ہیں لیکن ہمارے مدرسہ کے ساتھ اُن کا تعاون ورابطہ بے مثال ہے۔ آل گورداسپوری کہا کرتے ہیں کہ جیسے ہمارے بڑوں کا آپس میں پیارو محبت تھا ہم بھی ان شاء اللہ اسی طرح جاری و ساری رکھیں گے۔آخر میں ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے بابا جی ؒ پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور دین اسلام کی نشرو اشاعت کے لئے جو نیک کام انہوں نے کئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو قبول فرما کر جنت الفردوس میں اعلیٰ جگہ عطا فرمائے۔ آمین!


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)