احکام ومسائل
جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت: مرکز
الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان ای میل: markaz.dirasat@gmail.com
قاتل خاوند کا وراثت سے حصہ؟!
O ایک
عورت کے پاس ۱۲ تولے طلائی زیور
تھا‘ اس کے خاوند نے اسے حاصل کرنے کے لیے عورت کو رات کے وقت قتل کر دیا۔ مرنے والی
کے والدین‘ تین بیٹے اور دو بیٹیاں بقید حیات ہیں۔ ہر ایک کو اس کے متروکہ زیورات سے
کیا ملے گا؟!
P رسول اللہe نے میاں بیوی کی محبت کو بایں الفاظ بیان کیا ہے:
’’تم نے نکاح یعنی میاں بیوی کی مثل دو باہم محبت کرنے والے نہیں دیکھے ہوں گے۔‘‘
(ابن ماجہ‘ النکاح: ۱۸۴۷)
قرآن کریم نے بھی اس حقیقت کو کھول کر بیان کیا ہے کہ مرد اور
عورت دونوں ایک دوسرے کے طالب بھی ہیں اور مطلوب بھی۔ یعنی دونوں میں ایک دوسرے کے
لیے اس قدر کشش رکھ دی گئی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے الگ رہ کر سکون واطمینان حاصل کر
ہی نہیں سکتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے
تمہاری ہی جنس سے تمہارے لیے بیویاں پیدا کیں تا کہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو پھر
اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔‘‘ (الروم: ۲۱)
لیکن افسوس کہ آج اس قدر طمع‘ لالچ اور ہوس کا دور دورہ ہے کہ
اس مقدس رشتہ کو زر ودولت کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے اور جائیداد حاصل کرنے کے لیے
ایک دوسرے کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ سوال میں اس بھیانک صورت کو بیان کیا گیا
ہے۔ العیاذ باللہ!
حدیث میں ہے کہ اگر کوئی وارث اپنے مورث کی جائیداد ہتھیانے
کے لیے اسے قتل کر دیتا ہے تو قصاص یا دیت کے علاوہ اس کے لیے یہ بھی سزا ہے کہ اسے
وراثت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں رسول اللہe کا ارشاد گرامی ہے: ’’قاتل کسی چیز کا بھی وارث نہیں
بن سکتا۔‘‘ (ابوداؤد‘ الدیات: ۴۵۶۴)
اس حدیث کے پیش نظر صورت مسئولہ میں قاتل محروم ہے۔ اسے بیوی
کی جائیداد سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔ مرحومہ کا طلائی زیور‘ خاوند کے علاوہ دوسرے ورثاء
میں تقسیم ہو گا۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ
\ والدین میں
سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر میت کی اولاد ہو تو ماں‘
باپ میں سے ہر ایک کو ترکہ سے چھٹا چھٹا حصہ ملے گا۔‘‘ (النساء: ۱۲)
\ والدین کا حصہ
نکال کر جو باقی بچے گا وہ اس کی اولاد میں اس طرح تقسیم کیا جائے کہ بیٹے کو بیٹی
کے مقابلہ میں دو گنا حصہ ملے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تمہیں اولاد کے متعلق
حکم دیتا ہے کہ مذکر کے لیے مؤنث کی بہ نسبت دو حصے ہیں۔‘‘ (النساء: ۱۱)
سہولت کی پیش نظر اس کی تمام جائیداد کے بارہ حصے کر لیے جائیں۔
پھر ان میں سے چھٹا حصہ باپ کا اور چھٹا ہی والدہ کا ہے اور باقی اس کی اولاد کا ہے۔
تفصیلی نقشہ حسب ذیل ہے: میت / ۱۲
خاوند (قاتل)
|
باپ
|
ماں
|
بیٹا
|
بیٹا
|
بیٹا
|
بیٹی
|
بیٹی
|
کل حصے
|
محروم
|
2
|
2
|
2
|
2
|
2
|
1
|
1
|
12
|
بارہ تولے طلائی زیور میں سے دو تولے باپ کو‘ دو تولے والدہ
کو اور باقی آٹھ تولے اس طرح تقسیم ہوں کہ دو تولے ہر ایک لڑکے کو اور ایک‘ ایک تولہ
ہر لڑکی کو دے دیا جائے۔ خاوند‘ قتل کی پاداش میں اس کی جائیداد سے محروم ہو گا۔ واللہ
اعلم!
میقات اور احرام
O احرام
کب باندھا جاتا ہے اور اس کی پابندیاں کیا ہیں؟ کیا احرام پہننے سے انسان محرم بن جاتا
ہے۔ نیز یہ بھی بتائیں کہ دوران احرام کون کونسے کام کیے جا سکتے ہیں؟ قرآن وحدیث کی
روشنی میں وضاحت کریں۔
P عمرہ یا حج ادا کرنے کے لیے ایک خاص لباس ہے اسے احرام
کہا جاتا ہے۔ مردوں کے لیے دو ان سلی چادریں ہیں جبکہ عورت اپنے سادہ لباس کو بطور
احرام استعمال کرتی ہے۔ میقات سے پہلے احرام باندھا جاتا ہے اور احرام پہننے سے انسان
محرم نہیں بنتا جب تک عمرہ یا حج کی نیت نہ کی جائے۔ میقات کے اعتبار سے حجاج اور معتمرین
کی حسب ذیل تین اقسام ہیں:
\ آفاقی: … میقات سے باہر
اقامت گزیں‘ برصغیر میں رہنے والوں کا میقات ’’یلم لم‘‘ ہے۔ یہ حضرات احرام کے بغیر
میقات سے نہیں گذر سکتے‘ انہیں میقات سے پہلے احرام پہن کر حج یا عمرے کی نیت کرنا
ہو گی۔
\ اہل حل: … یعنی حدود حرم سے باہر اور میقات کے اندر رہنے والے حضرات کا میقات‘ ان کی رہائش
گاہ ہے‘ وہ اپنے گھر سے احرام باندھ کر حج یا عمرہ کی نیت کر لیں۔
\ اہل حرم: … حدود حرم کے اندر مقیم لوگوں کے لیے میقات ان کی رہائش گاہ ہے جبکہ عمرہ کرنے
کے لیے انہیں حدود حرم سے باہر جانا ہو گا۔
مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے احرام کی پابندیاں حسب ذیل ہیں:
\ تعلقات زن وشوئی
اور اس کے متعلقات \ تمام گناہ اور نافرمانی کے کام
\ لڑائی جھگڑا \ خوشبو لگانا
\ نکاح کرنا‘
نکاح کرانا اور پیغام نکاح بھیجنا \ بال یا ناخن کاٹنا
\ خشکی کا شکار
کرنا یا شکاری کی مدد کرنا \ شکار کیا ہوا جانور ذبح کرنا
ان کے علاوہ مردوں کے لیے مزید تین ممنوعات ہیں:
\ سلا ہوا کپڑا
زیب تن کرنا یعنی شلوار یا قمیص وغیرہ پہننا
\ ٹوپی یا پگڑی
پہننا \ موزے یا جرابیں استعمال کرنا۔
عورتوں کے لیے مزید دو چیزوں کے استعمال پر پابندی ہے:
\ نقاب استعمال
کرنا \ دستانے پہننا (البتہ غیر محرم سے پردہ کرنا
ضروری ہے۔)
دوران احرام درج ذیل اشیاء استعمال کی جا سکتی ہیں:
غسل کرنا‘ سر اور بدن پر کھجلی کرنا‘ مرہم پٹی کروانا‘ ادویات
استعمال کرنا‘ آنکھوں میں سرمہ یا دوا ڈالنا‘ موذی جانور کو مارنا‘ احرام کی چادریں
تبدیل کرنا‘ خوشبو کے بغیر صابن یا تیل استعمال کرنا‘ پھول سونگھنا‘ انگوٹھی‘ گھڑی‘
عینک‘ پٹی یا دھوپ سے بچاؤ کے لیے چھتری استعمال کرنا۔
نوٹ: احرام سے پہلے خوشبو استعمال کی جا سکتی ہے خواہ اس کے
اثرات احرام کے بعد باقی رہیں۔ واضح رہے کہ عمرہ کے لیے سال کے تمام مہینوں اور دنوں
میں احرام باندھا جا سکتا ہے جبکہ حج کے لیے صرف شوال‘ ذی القعدہ اور ذوالحجہ میں احرام
باندھا جا سکتا ہے۔ ان کو اشہر الحج ’’حج کے مہینے‘‘ کہا جاتا ہے۔ حجاج کرام اور معتمرین
حضرات کو اپنے اوقات عبادت میں صرف کرنا چاہئیں‘ سیر وتفریح سے گریز کیا جائے۔ واللہ
اعلم!
عمر رسیدہ عورتوں کے لیے پردہ
O کیا
قرآن مجید کی کسی آیت میں یہ صراحت ہے کہ عمر رسیدہ عورتیں‘ پردہ کی پابندی سے آزاد
ہیں؟ یعنی انہیں پردہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ آیت کونسی ہے اور اس کی تفسیر کیا ہے؟!
P قرآن کریم نے ستر وحجاب کے مسائل بیان کرتے ہوئے فرمایا
ہے: ’’اور جو عورتیں‘ جوانی سے گذری بیٹھی ہوں اور نکاح کی امید نہ رکھتی ہوں‘ وہ اگر
اپنی حجاب کی چادریں اتار لیا کریں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ زیب وزینت کی نمائش
کرنے والی نہ ہوں۔ تا ہم اگر وہ چادر اتارنے سے پرہیز ہی کریں تو یہی بات ان کے حق
میں بہتر ہے۔‘‘ (النور: ۶۰)
اس آیت کریمہ میں جن عورتوں کو حجاب کی رخصت دی گئی ہے‘ ان کے
اوصاف حسب ذیل ہیں:
\ ایسی عورتیں
جو ازدواجی زندگی کے کام کاج سے فارغ ہو چکی ہوں۔
\ ایسی عورتیں
جو اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ رہی ہوں۔
\ ایسی عورتیں
جن کی جنسی خواہش مر چکی ہو اور انہیں اگر کوئی غیر مرد دیکھے تو اس کے صنفی جذبات
میں کوئی تحریک پیدا نہ ہو۔
اس رخصت کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ وہ اپنے بدن کے تمام کپڑے
اتار سکتی ہیں بلکہ اس رخصت سے مراد یہ ہے کہ ان سے حجاب کی پابندیاں اٹھ جاتی ہیں
یا کچھ نرم ہو جاتی ہیں۔ لیکن ستر کی پابندیاں ان پر بھی بدستور قائم رہتی ہیں۔ ستر‘
ان اعضاء کو ڈھانپ رکھنے کا نام ہے جن کا ڈھانپنا ہر حال میں ضروری ہے خواہ انہیں کوئی
دیکھ رہا ہو یا نہ دیکھ رہا ہو۔ ان بوڑھی عورتوں کو حجاب کے احکام سے رخصت مشروط اجازت
ہے اور یہ رخصت صرف اس صورت میں ہے کہ انہوں نے بناؤ سنگھار نہ کیا ہو۔ اگر ایسی صورت
ہے یعنی اگر انہیں اپنی زیب وزینت کی نمود ونمائش کو جی چاہتا ہو تو انہیں یہ رخصت
نہیں ملے گی۔ رخصت کے باوجود قرآن کریم نے ان کے لیے اس امر کو بہتر قرار دیا ہے کہ
وہ اس رخصت سے فائدہ نہ اٹھائیں کیونکہ انہیں دیکھنے والے تمام بوڑھے یا تقویٰ شعار
تو نہیں ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی شہوت کا مارا ہوا ان سے بھی چھیڑ چھاڑ شروع کر
دے۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment