Saturday, August 03, 2019

اگست 14، یوم تجدید عہد 30-2019


14 اگست ... یوم تجدیدِ عہد

تحریر: جناب پروفیسر عبدالعظیم جانباز (سیالکوٹ)
مملکت خدا داد پاکستان ایک عظیم نعمت اور عطیہ الٰہی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس کی دل وجان سے قدر کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو لا تعداد نعمتیں عطا کی ہیں۔ اللہ چاہتا ہے کہ لوگ ان نعمتوں سے فائدہ اٹھائیں اور سجدہ شکر بجا لائیں۔ نعمت کا صحیح اسلامی تصور یہ ہے کہ اس کی جتنی قدر کی جائے اللہ تعالیٰ اس میں اتنی ہی برکت عطا کرتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم پاکستان کی جتنی قدر وعزت کریں گے اسے اسلامی ملک بنائیں گے‘ یہ اتنا ہی مضبوط ومستحکم اور خوشحال ہو گا۔ اللہ ہمارے لیے آسانیوں‘ کامیابیوں اور فتوحات کے دروازے کھولے گا۔ ہمارے مسائل حل اور دشمن ناکام ونامراد ہوں گے۔ ہمارے وہ بزرگ جنہوں نے پاکستان کے حصول کے لیے آگ وخون کا دریا عبور کیا وہ جانتے ہیں کہ پاکستان اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے۔ آج آزادی کی قدر وقیمت بلکتے‘ سسکتے‘ تڑپتے اور خاک وخون میں نہائے  ان مسلمانوں سے پوچھی جا سکتی ہے کہ جن پر آتش وآہن کی بارش برس رہی ہے‘ پاؤں کے نیچے سے زمین کھنیچی جا رہی ہے اور ان سے زندہ رہنے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ آزادی کی قدر وقیمت ان پاکستانیوں سے بھی پوچھی جا سکتی ہے جن کو چند سال بھارتی زندانوں میں گزارنے پڑے۔ جب یہ بھارتی جیلوں سے رہا ہو کر پاکستان پہنچتے ہیں تو بے ساختہ سجدوں میں گر جاتے ہیں‘ پاکستان جیسی نعمت پر اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں اور پوری قوم کو بھی پاکستان کی قدر کرنے کی نصیحت کرتے ہیں۔
بلاشبہ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے اور ہمیں سوچنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہم جس پاکستان میں رہ رہے ہیں آیا وہ ویسا پاکستان ہے جس کے حصول کے لیے ہمارے آباؤ اجداد نے لازوال اور بے مثال قربانیاں دی تھیں؟ کیا انہوں نے ایسے پاکستان کے بارے میں سوچا تھا جہاں دہشت گرد دندناتے پھرتے ہوں اور خلق خدا کو اپنے تحفظ کا کوئی راستہ نہ ملتا ہو‘  کیا انہوں نے ایسے پاکستان کا خواب دیکھا تھا جہاں بجلی پوری ملتی ہو اور نہ ہی گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کوئی استحکام ہو۔ جہاں مہنگائی روز افزوں ہو اور ملاوٹ‘ ذخیرہ اندوزی‘ منافع خوری کرنے والوں کو کوئی پوچھتا نہ ہو‘ جہاں کوئی جائز کام بھی رشوت اور سفارش کے بغیر نہ ہوتا ہو‘ جس پر اربوں ڈالر کے ملکی وغیر ملکی قرضے جن پر واجب الادا سود کی رقم بھرنے کے لیے ہمیں مزید قرضے لینے پڑتے ہوں اور جہاں سیاستدان اور سیاسی جماعتیں ملکی اور قومی مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے اپنی اپنی باری کے انتظار میں بیٹھی ہوں۔ جہاں سامنے نظر آ رہا ہو کہ پانی اور بجلی کی شدید قلت ہے لیکن کسی بڑے ڈیم کی تعمیر کو انا کا مسئلہ بنا لیا گیا ہو اور پورا ملک لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں میں غرق ہو رہا ہو۔ جہاں انصاف کا حصول مشکل ہو‘ جہاں اس ترقی یافتہ دور میں بھی آبادی کا ایک کافی بڑا حصہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو اور اس کا کوئی پرسان حال نہ ہو۔ یقینا اس ملک کی خاطر قربانیاں دینے والوں کے وہم وگمان میں بھی نہ ہو گا کہ ان کے پاکستان کا یہ حشر کر دیا جائے گا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا سب کچھ کیوں ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ تحریک پاکستان کے زمانے میں ہمیں  جس قسم کی قیادت  میسر تھی‘ آزادی کے بعد اس پائے کے رہنما ہمیں میسر نہیں آئے اور جن کے ہاتھوں میں اس سارے عرصے کے دوران عنان حکومت رہی انہوں نے ایسی منصوبہ بندیاں کیں اور ایسی پالیسیوں پر عملدرآمد کیا کہ ملک ترقی کرنے اور اقوام عالم کے شانہ بشانہ آگے بڑھنے کی بجائے پسماندگی کی طرف لڑھکنے لگا۔ رہی سہی کسر ان طالع آزماؤں نے پوری کر دی جن کو گمان تھا کہ عوام کے منتخب نمائندے ملکی اور حکومتی معاملات چلانے کے قابل نہیں ہیں اور یہ کہ وہ اس ملک کو ان کی نسبت زیادہ بہتر طریقے سے چلا سکتے ہیں۔ لیکن ہوا یہ کہ انہوں نے نہ صرف ملک کو ترقی معکوس کی جانب دھکیل دیا بلکہ ہم آدھا ملک ہی گنوا بیٹھے۔
آج کا دن اس حقیقت کو تسلیم کرنے کا تقاضا کرتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے رہنما ہونے کا ثبوت  نہیں دیا‘ یہ درست ہے کہ وہ اس ملک کو ٹھیک طریقے سے چلانے میں ناکام رہے جس کی بنیادی وجہ ان میں سیاسی تدبر اور معاملہ فہمی کی کمی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے طور طریقے ہی لیڈروں والے نہیں تھے۔ لیکن ان کی خامیاں دور کرنے اور ان کی غلطیاں درست کرنے کے دعوے دار طالع آزماؤں نے بھی اس ملک کے ساتھ اچھا نہیں کیا‘ انہوں نے وفاداری کا ثبوت نہیں دیا‘ اس طرح آج ہمارے سامنے جوپاکستان ہے اس کا اس پاکستان سے کوئی واسطہ نہیں جس کا خواب مسلمانان برصغیر نے دیکھا تھا‘ اس لیے آج کا دن ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم ان سارے معاملات کے بارے میں سوچیں اور ان کا جائزہ لیں کہ ہم سے کہاں غلطی ہوئی اور وہ کونسا لمحہ یا مقام  تھا جہاں سے ہم اپنے اصل مقاصد سے انحراف کے مرتکب ہوئے اور منزل سے بھٹک گئے۔ آج کا دن اس عہد کی تجدید کا بھی دن ہے کہ ہم اپنی پوری صلاحیتیں اس ملک کے مسائل کو حل کرنے پر صرف کر دیں گے اور اس حوالے سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھا جائے گا۔ اگرچہ پلوں کے نیچے سے کافی پانی گزر چکا  ہے پھر بھی یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر ہم انفرادی طور پر اپنے فرائض ادا کرنے کی پر خلوص سعی کریں تو ماضی میں کی گئی کوتاہیوں اور خود غرضیوں کا ازالہ اب بھی ممکن ہے۔ حضرت علامہ اقبال رحمہ اللہ نے درست کہا تھا کہ
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
تھوڑی سی توجہ دے کر ہم اپنے معاملات اب بھی سنوار سکتے ہیں کیونکہ جہاں آزادی کی تاریخ بے شمار ناکامیوں اور محرومیوں سے عبارت ہے وہاں ہم نے بطور ایک قوم ایسی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں جن کا دنیا کی کئی اقوام تصور بھی نہیں کر سکتیں۔ ہم دنیا کی چھٹی ایٹمی  طاقت ہیں اور کئی شعبے ایسے ہیں جن میں ہمارے ملک کی ترقی کی مثال دی جاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس معراج کو قائم رکھا جائے اور جو معاملات خراب ہو چکے ہیں ان کو درست کرنے پر توجہ دی جائے۔ آج کا دن اس حوالے سے عزم کے اعادہ کے لیے بہترین ہے۔
تحریک آزادی کا ایک اور پہلو جو نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے جس ملک کا خواب دیکھا اور جس راستے کا انتخاب کیا اس کی منزل … صرف اور صرف اسلام تھی۔ یہ اسلام کی ابدی صداقت وحقانیت ہی تھی کہ جس نے برصغیر کے طول وعرض میں بکھرے مسلمانوں کو سیسہ پلائی دیوار بنا دیا۔ متحد ومتفق کر دیا اور ان کو ایک ایسی زندہ قوت بنا دیا کہ جس سے ٹکرانا اور جھٹلانا انگریز اور ہندو کے بس میں نہ رہا۔ اسلام نے مسلمانوں کو کچھ اس طرح سے ایک لڑی میں پرویا کہ ہندوستان کے وہ علاقے جن کا پاکستان میں شامل ہونے کا تصور بھی نہ کیا جا سکتا تھا‘ مثلاً بہار‘ یوپی‘ پٹنہ‘ آگرہ‘ لکھنؤ‘ کانپور‘ فرخ آباد‘ قنوج‘ سہارنپور اور ڈیرہ دون وغیرہ کے مسلمانوں نے بھی پاکستان کے قیام کے لیے جانیں ہتھیلی پر رکھ لیں اور سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ حالانکہ ان خطوں کے مسلمان اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے کہ جغرافیائی طور پر وہ پاکستان کا حصہ نہیں بن پائیں گے۔ انہیں اس بات کا بھی احتمال تھا کہ وہ شاید بحفاظت پاکستان پہنچ بھی نہ پائیں گے۔ اس کے باوجود ایک ہزار کی ہندو آبادی میں رہنے والے ایک مسلمان کے لیے بھی یہ نعرے بہت پر کشش تھے:
پاکستان کا مطلب کیا … لا الہ الا اللہ
بولو بھیا ایک زبان … بن کے رہے گا پاکستان
مسلمانوں کے اس عزم واستقلال اور ایمانی جذبہ وولولہ کی وجہ وبنیاد یہ تھی کہ وہ کلمہ طیبہ اور پاکستان کو ہم معنی سمجھتے تھے۔
پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والوں نے اپنا فرض پورا کر دیا‘ ان کی قربانیوں اور جد وجہد کے نتیجہ میں یہ ملک قائم ہوا‘ یہ ملک ہمارے لیے اللہ کا انعام‘ امید بہار‘ شجر سایہ دار اور نعمت پروردگار ہے۔
ہمارا فرض ہے کہ ہم مملکت خدا داد کی قدر کریں‘ موجودہ حالات میں ہمیں مایوس ونا امید اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اس لیے کہ … شکار صرف شاہین اور شہباز کا کیا جاتا ہے۔ پاکستان بھی اسلامی دنیا کا شاہین اور شہباز ہے‘ عالم اسلام کا بازوئے شمشیر زن ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا۔ اس لیے یہ غیر مسلموں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ کیا ہوا اگر دشمن زیادہ ہیں‘ طاقتور ہیں‘ ہمارے بارے میں ناپاک عزائم وارادے رکھتے ہیں‘ دشمن تو ۱۹۴۷ء میں بھی تھے اور چاہتے تھے کہ پاکستان قائم ہی نہ ہو۔ ان کے نہ چاہنے کے باوجود یہ ملک قائم ہوا اور اس نے تا قیامت سلامت رہنا ہے۔ (ان شاء اللہ)
دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس وقت اپنے ملک کے لیے کیا کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب سے پہلے اللہ کے ساتھ مخلص ہو جائیں‘ بزدلی کو چھوڑ دیں‘ جہاد کو زندہ کریں‘ اسلام پر عمل کریں‘ اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیں۔ سیاسی‘ سماجی اور مذہبی سطح پر ایک دوسرے کا احترام کریں۔ ہمارے رہنماؤں اور حکمرانوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ رنجشوں‘ کدورتوں‘ تنازعات اور اختلافات کو ہوا دینے کی بجائے افہام وتفہیم اور اتحاد واتفاق کی فضا پیدا کریں۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے بارے میں سوچیں۔ اس وقت پورا عالم اسلام مصائب وآلام کا شکار ہے۔ رسول اللہe نے فرمایا تھا: ’’مسلمان جسد  واحد کی طرح ہیں۔‘‘ اس فرمان کی روشنی میں ہمارا مستقبل عالم اسلام کے ساتھ اور عالم اسلام کا مستقبل ہمارے ساتھ وابستہ ہے۔ پسماندہ خطوں کے مظلوم مسلمان پاکستان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں‘ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم پاکستان کو اپنا گھر سمجھتے ہوئے اس کی نظریاتی وجغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کریں اور اسے مضبوط ومستحکم کریں۔


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)