14 اگست کا پیغام
تحریر: جناب مدیر اعلیٰ کے قلم سے
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان ایک نظریاتی
مملکت ہے جس کے پس منظر میں صدیوں کی بے مثال جد وجہد اور جانی ومالی اور عزت وآبرو
کی قربانیوں کی طویل داستاں وابستہ ہے۔ اس کے قیام کے لیے بیش بہا قربانیاں دینے سے
مقصود یہ تھا کہ دینی اقدار کی اساس پر اس خطۂ ارض میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا
جائے جہاں مسلمان آزادی کے ساتھ اپنے آپ کو اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھال سکیں۔
یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ آج ملک عزیز میں کئی نام نہاد دانشور یہ کہتے ہوئے کوئی
شرم محسوس نہیں کرتے کہ پاکستان صرف معاشی ترقی کے لیے حاصل کیا گیا۔ جبکہ قائد اعظم
محمد علی جناح مرحوم نے ۱۱ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو مملکت کے افسران بالا سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس پاکستان کے قیام کے
لیے ہم نے گذشتہ دس برس نتیجہ خیز جد وجہد کی ہے آج وہ بفضل اللہ تعالیٰ ایک مسلمہ
حقیقت بن چکا ہے۔ مگر کسی قومی ریاست کو معرض وجود میں لانا مقصود بالذات نہیں ہو سکتا
بلکہ کسی عظیم مقصد کے حصول کے ذریعے کا درجہ رکھتا ہے۔ ہمارا نصب العین یہ تھا کہ
ہم ایک ایسی مملکت کی تخلیق کریں جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح زندگی بسر کر سکیں اور
ہماری تہذیب وتمدن کو پروان چڑھنے کا موقع ملے وہاں معاشرتی انصاف اور مساوات کے اسلامی
تصور کو پوری طرح پنپنے کا موقعہ ملے۔ یہ اعلان اور نصب العین صرف بانئ پاکستان کا
نہ تھا بلکہ اسے اسلامیان برصغیر کی بھر پور تائید حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نعرہ
پورے ملک کے کوچہ وبازار میں گونج رہا تھا کہ
پاکستان کا مطلب کیا … لا الٰہ الا اللہ!
باخبر لوگ جانتے ہیں کہ قوموں کی زندگی میں ستر سال کا عرصہ
بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ جب ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو اسے قومی وملی حادثات
سے دو چار پاتے ہیں۔ مذہب کے نام پر قائم ہونے والی مملکت میں مذہب کے ساتھ حکمرانوں
اور اہل وطن نے جو سلوک روا رکھا ہے وہ افسوسناک ہی نہیں المناک بھی ہے۔ یہاں قانون
کی حکمرانی ہے اور نہ عدل وانصاف کی جہانگیری ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہم لوگ
تاریخ کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ اصل حقائق پر پردہ ڈالنا اور ’’نظریہ ضرورت‘‘
کے تحت تاریخ پاکستان بیان کرنا بھی ’’قومی ضرورت‘‘ سمجھا جاتا ہے اور حقائق سے پردہ
نہیں اٹھایا جاتا۔ آج تک ملک کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خاں کی شہادت کا سانحہ
ایک راز بنا ہوا ہے۔ ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کو اپنا وطن عزیز دو لخت ہو گیا۔ اس حوالے سے جسٹس حمود الرحمن کمیشن قائم کیا
گیا لیکن اس کمیشن کی رپورٹ عوام تک نہ پہنچی مگر وہ بھارت میں شائع ہوئی۔ کوئی نہیں
جانتا کہ اوجڑی کیمپ کے خوفناک حادثے کا سبب کیا تھا۔ ۱۷/ اگست ۱۹۸۸ء کو جنرل ضیاء الحق کے طیارے کو جو حادثہ پیش آیا اس کا پس
منظر کیا تھا؟ آج تک پاکستان کے تمام وزرائے اعظم اپنے دورِ اقتدار کو پورا کیوں نہ
کر سکے؟ کرپشن کے بڑے بڑے سکینڈلز منظر عام پر آتے ہیں‘ آخر شور شرابے کے بعد پس منظر
میں چلے جاتے ہیں۔ بلدیہ ٹاؤن کراچی کی ایک فیکٹری میں تین صد سے زائد افراد جل کر
زندگی کی بازی ہار گئے۔ آج تک ذمہ داران کے بارے میں کوئی ثبوت وشواہد سامنے نہیں آئے
اور نہ ہی کسی مجرم کو سزا ملی ہے۔ میاں نواز شریف کو عدلیہ نے نا اہل قرار دے دیا
ہے‘ عوام نے نہیں۔ ان کا جرم یہ ہے کہ کمپنی سے تنخواہ نہیں لی اور اس کا اندراج نہیں
کیا۔
یوں تو ہم سبھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان‘ اسلام کا قلعہ ہے مگر
دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے اس قلعے کی حفاظت اور استحکام کے لیے کیا کیا ہے؟ عدل وانصاف
کی قدریں دم توڑ رہی ہیں۔ امن وامان کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ دہشت گردی
کا ناسور ابھی ختم نہیں ہوا‘ ملک میں بے شمار سیاسی جماعتیں موجود ہیں مگر ان میں کما
حقہ استحکام نہیں ہے اور نہ ہی وہ ملک گیر حیثیت کی مالک ہیں۔ ایسی صورت حال میںملک
استحکام کی دولت سے مالا مال نہیں ہو سکتا اور نہ ہی قومی وملی اہداف حاصل ہو سکتے
ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی انفرادی زندگی میں صحت مند انقلاب پیدا کریں۔ اپنی
کوتاہیوں کی تلافی کریں اور اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ اللہ
تعالیٰ کا ارشاد ہے: {اِنَّ اللّٰہَ
لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ} یعنی
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
۱۴/اگست کے حوالے سے
حکمران اور عوام جشن تو منا لیتے ہیں مگر یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ ۱۴ /اگست جشن کا نہیں احتساب کا پیغام لے کر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے پاکستان
کی ہم پر کتنی عنایات ہیں اور ہم نے اسے کیا دیا ہے؟ آزادی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے
مگر ہم سے سنبھالی نہ گئی۔ علامہ اقبالؒ نے کہا تھا ؎
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
آخر میں ہم یہ کہنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ زندہ قومیں اپنے
تابناک ماضی کی روشنی میں حال کو سنوارا اورمستقبل کو نکھارا کرتی ہیں۔ ملکی بقا اور
سلامتی واستحکام کا راستہ یہ ہے کہ ملک کے عوام کو بیدار کیا جائے اور وہ سب عناصر
جن کی زندگی اور موت پاکستان سے وابستہ ہے وہ سب متحد ہو کر تحریک پاکستان جیسے جذبے
سے سرشار ہو کر سرگرم عمل ہو جائیں اور پوری زندگی کو اسلام کے تابع کر لیں‘ اسی صورت
میں ہم پاکستان کے نصب العین کو حاصل کر سکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment