Saturday, August 03, 2019

درس قرآن وحدیث 30-2019


درسِ قرآن
راحت یا وبال ... عمل فیصلہ کرے گا
ارشادِ باری ہے:
﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ اَسَآءَ فَعَلَيْهَا١ٞ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ۰۰۱۵﴾
’’جو نیکی کرے گا وہ بھی اپنے ذاتی بھلے کے لیے اور جو برائی کرے گا اس کا وبال بھی اسی پر ہوگا۔پھر تم کو بالآخر اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ (جاثیہ)
اللہ تعالی نے انسان کے سامنے نیکی اور برائی ‘ ہدایت اور گمراہی ‘ اسلام اور کفر ہر دو راستے رکھ دیے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ تاریخ انسانی سے ایسے لوگوں کے انجام سے بھی پردہ اٹھادیا کہ جو اپنی بداعمالیوں اور بد کرداری کی وجہ سے مصائب و عذاب میں مبتلاء کیے گئے اور انہیں اپنی بے راہ روی کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ راحت وسکون کے متلاشی کو یہ اصول بتا دیا کہ نیکی ‘ بھلائی اور خیرخواہی کی راہ تمہیں سکون‘ جبکہ برائی‘ بدخواہی اور فسق وفجور کی عادت تمہارے لیے وبال جان ہوگی۔ یہ اصول راحت ووبال تذکیر انسانی کے لیے قرآن میں باربار دہرایا گیا:
﴿اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ١۫ وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا﴾ (الإسراء)
’’اگر تم اچھے کام کرو گے تو خود اپنے ہی فائدہ کے لیے ‘ اور اگر تم نے برائیاں کیں تو بھی اپنے ہی(نقصان)کے لیے۔‘‘
آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے بالکل واضح فرما دیا کہ انسان کا ایمان‘ عمل صالح اور اطاعت والی زندگی کا نفع اور فائدہ خود انسا ن کوہی ہے جبکہ اگر وہ اللہ کی نافرمانی والی زندگی گزارتا ہے اور اتباع نفس کی پیروی میں اللہ کی ناراضگی والے کام کرتا ہے تو پھر اسکا وبال اور نقصان بھی انسان ہی کوہوگا۔
﴿اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ١ۚ فَمَنِ اهْتَدٰى فَلِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا١ۚ ﴾ (الزمر)
’’آپ پر ہم نے حق کے ساتھ یہ کتاب لوگوں کی رہنمائی کے لیے نازل فرمادی ہے۔اب جو شخص راہ راست پر آجائے تو اس میں اسکا اپنا ہی فائدہ ہے اور جو گمراہی اختیار کرے تو اس (کو جا ن لینا چاہیے کہ اس کی گمراہی کا)وبال بھی اسی پر ہے۔‘‘
جبکہ اللہ رحیم کریم اس اصول کو بتلا دینے کے باوجود انسانوں کی بہت ساری بداعمالیوں سے درگز ر فرماتے رہتے ہیں ۔کیونکہ اگر انسان کی نافرمانی اور بد اعمالی کی سزا کا سلسلہ جاری رہتا تو اب تک انسانیت ختم ہو چکی ہوتی:
﴿وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَ يَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍؕ۰۰۳۰﴾
’’تمہیں جو بھی مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے ہی کرتوتوں کی وجہ سے ہے۔ (اللہ تو) بہت سارے (گناہوں سے) تو درگزرکر دیتا ہے۔‘‘  (الزمر)
قرآن نے راحت وسکون اور نقصان ووبال کے اصول کو واضح فرما دیا۔آپ کس چیز کی چاہت رکھتے ہیں ؟یہ فیصلہ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔

درسِ حدیث
قربانی کا جانور
فرمان نبویﷺ ہے:
[عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِﷺ أَنْ نَسْتَشْرِفَ العَيْنَ وَالأُذُنَ، وَأَنْ لَا نُضَحِّيَ بِمُقَابَلَةٍ، وَلَا مُدَابَرَةٍ، وَلَا شَرْقَاءَ، وَلَا خَرْقَاءَ.] (رواه الترمذي)
سیدنا علیt سے روایت ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہe نے حکم دیا کہ ہم قربانی کے جانور کی آنکھیں اور کان اچھی طرح دیکھ لیا کریں اور ہم بھینگا جانور ذبح نہ کریں اور نہ ہی ایسا جانور جس کے کان آگے‘ پیچھے یا ایک طرف سے کاٹے ہوئے ہوں اور نہ ہی وہ جانور جس کے کانوں میں سوراخ ہوں۔‘‘ (ترمذی)
رسول اللہe نے قربانی کے جانور کی صفات بیان فرمائیں اور ان نقائص کا ذکر فرمایا جن کی موجودگی میں جانور قربانی کے قابل نہیں ہوتا۔
لہٰذا فرمان رسولe کے مطابق قربانی کے لیے جانور خریدتے وقت اس کا ہر عضو غور سے دیکھا جائے۔ اس کے کان‘ آنکھیں‘ ٹانگیں اور سینگ خاص طور پر دیکھے جائیں۔ ایسے ہی حاملہ جانور کو ذبح نہ کیا جائے۔ دانتوں کو غور سے دیکھا جائے کہ وہ دودھ کے دانت گرا کر جوانی کے دانت نکال چکا ہے؟ اللہ کی راہ میں قربان ہونے والا جانور صحت مند اور بے داغ ہونا چاہیے۔ اس کے جسم کے کسی حصہ پر کوئی زخم نہ ہو‘ اس کی آنکھیں درست ہوں‘ کانا‘ اندھا یا بھینگا نہ ہو۔ اس کے کانوں میں چار قسم کے عیب نہ ہوں‘ یعنی نہ تو کان جڑ سے کاٹے گئے ہوں اور نہ ہی کونپل سے کاٹے ہوں اور نہ ہی کانوں کے کناروں کو کاٹا ہوا ہو اور نہ ہی کانوں میں سوراخ ہوں۔
یہ وہ علامات ہیں جنہیں اکثر چرواہے اپنے جانوروں کی پہچان کے لیے قائم کرتے ہیں۔ یہ تمام علامات قربانی میں نقص شمار ہوتے ہیں۔ قربانی کے لیے منتخب جانور کمزور نہ ہو۔ اس کی ٹانگیں صحیح سالم ہوں یعنی وہ لنگڑا نہ ہو۔ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ وہ دودھ کے دانت گرا کر جوانی کے کم از کم دو دانت نکال چکا ہو۔ اگر وہ دو دانت والا نہیں تو قربانی کے لائق نہیں۔ رسول اللہe ہمیشہ دوندا جانور ذبح کرتے تھے اور اپنی امت کو بھی یہی تعلیم فرمائی کہ [لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً] ’’دوندے جانور کے علاوہ کوئی جانور قربانی کے لائق نہیں۔ ہاں اگر ایسی صفات والا جانور نہ مل سکے تو کھیرا چھترا ذبح کرنے کی اجازت ہے۔
اگر کسی شخص نے قربانی کے لیے بے عیب جانور خریدا مگر بعد میں کوئی عیب واقع ہو گیا تو اس کی قربانی جائز ہے۔ اسے دوسرا جانور لینے کی ضرورت نہیں۔ حتی المقدور کوشش یہی ہونی چاہیے کہ قربانی کا جانور صحت مند‘ جوان اور بے عیب ہو۔


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)