درسِ قرآن
انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت
ارشادِ باری ہے:
﴿مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ
حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ١ؕ وَ
اللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۰۰۲۶۱﴾ (البقرة)
’’جو لوگ اپنا مال
اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں
اور ہر بالی میں سو دانے ہوں ،اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے اور اللہ تعالیٰ
کشادگی والے اور علم والے ہیں۔‘‘
قرآن مجید ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، جوگوشہ زندگی کے تمام پہلوؤں
کی رہنمائی پر محیط ہے _انسان دنیا میں رہتے ہوئے مختلف حالات سے دوچار ہوتا ہے کبھی
آسودگی میسر آتی ہے تو کبھی تنگ دستی دامن گیر ہوتی ہے۔ _مال کی فراخی اور آسودگی
میں انسان کا طرز عمل کیا ہونا چاہیے ؟اسی طرز عمل کی طرف اللہ تعالیٰ نے ان آیات
مبارکہ میں رہنمائی فرمائی ہے۔
اس آیت سے قبل اہل ایمان کو دعوت دی گئی تھی کہ جس مقصد عظیم
کے لیے تم ایمان لائے ہواس کی خاطر جان و مال کی قربانیاں برداشت کرو ۔مگر جب تک لوگوں
کا معاشی نقطہ نظر بالکل ہی تبدیل نہ کردیا جائے ،تب تک اس بات پر آمادہ نہیں کیا
جا سکتا کہ وہ اپنی ذاتی یا قومی اغراض سے بالاتر ہو کر محض ایک اعلیٰ درجے کے اخلاقی
مقصد کی خاطر اپنا مال بےدریغ صرف کرنے لگیں ۔مادہ پرست لوگ ،جو پیسہ کمانے کے لیے
جیتے ہوں اور پیسے پیسے پر جان دیتے ہوں اور جن کی نگاہ ہر وقت نفع و نقصان کی میزان
ہی پر جمی رہتی ہو ،کبھی اس قابل نہیں ہو سکتے کہ مقاصد عالیہ کے لیے کچھ کر سکیں
۔وہ بظاہر اخلاقی مقاصد کے لیے کچھ خرچ کرتے بھی ہیں تو پہلے اپنی ذات‘ اپنی برادری
یا اپنی قوم کے مادی منافع کا حساب لگا لیتے ہیں۔ جبکہ انفاق فی سبیل اللہ کا مقصد
اللہ کی رضاء اور ضرورت مندوں کی دل جوئی ہے۔ ایسی صورت میں ان کے خرچ کا ایسا منافع
حاصل ہوگا جس کا تصور بھی محال ہے اور اسے ایک مثال کے ذریعے بیان فرمایا گیا ہے ۔ایسا
شخص جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں بے دریغ مال خرچ کرتا ہے‘ اسے اس کا اجر کئی گنا بڑھا
چڑھا کردیا جائےگا:
﴿مَنْ ذَا الَّذِيْ
يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِيْرَةً﴾ (البقرة)
’’کون شخص ہے جو
اللہ کو اچھاقرض دے تو اللہ اس کے قرض کو اس کے لیے کئی گنا بڑھا دے گا۔‘‘
اس آیت مبارکہ اور اس کے بعد والی آیات میں انفاق فی سبیل
اللہ کے فوائد اور شرائظ کا ذکر ہے مثلا: 1 انفاق فی سبیل اللہ ایک ایسا عمل ہے جو انسان کے اجر
وثواب کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ 2 آیت مبارکہ میں صدقات وخیرات کے فوائد اور اچھے نتائج کے بارہ میں آگاہ کیا گیا ہے۔ 3 صدقہ
کرتے وقت احسان جتلانا ناصرف صدقہ کے ثواب کو ختم کرتا ہے بلکہ اس سے انسان گناہِ عظیم
کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ 4 اگر
دینے کے لیے کچھ پاس نہ ہو تو بھی اچھے طریقہ سے فقیرو غریب کے ساتھ معاملہ کرنا چاہیے۔
درسِ حدیث
نا پسندیدہ انسان
فرمان نبویﷺ ہے:
[عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّﷺ قَالَ: "إِنَّ
أَبْغَضَ الرِّجَالِ إِلَى اللَّهِ الأَلَدُّ الخَصِمُ".] (متفق علیه)
سیدہ عائشہ صدیقہr بیان
کرتی ہیں کہ رسول اللہe نے
ارشاد فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ کے ہاں مبغوض ترین (ناپسندیدہ) وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ جھگڑا کرنے والا ہے۔‘‘ (بخاری
ومسلم)
اکثر لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں‘ بات بات پر جھگڑنا شروع ہو جاتے
ہیں۔ معمولی بات پر تکرار شروع ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً قتل وغارت گری تک نوبت آ جاتی
ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ لوگوں میں برداشت کی قوت ختم ہو چکی ہے جس کے نتیجے
میں معمولی سی بات پر فساد برپا ہو جاتا ہے۔ جھگڑے کئی نوعیت کے ہیں‘ کہیں خاندانی
اختلافات ہیں‘ کہیں جائیداد کے جھگڑے ہیں‘ کہیں لسانی اور نسلی فسادات ہیں اور کہیں
مذہبی گروہ بندی اور فرقہ پرستی ہے۔ جھگڑا کوئی بھی ہو اچھا نہیں ہوتا مگر سب سے خطرناک
جھگڑا مذہبی ہے اس لیے کہ مخالف اپنے مد مقابل کو مسلمان نہیں سمجھتا جس کے نتیجے میں
قتل وغارت کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔
رسول اللہe نے
اس شخص کے بارے میں فرمایا جو سب سے زیادہ جھگڑا کرنے والا ہے کہ وہ اللہ کے نزدیک
انتہائی ناپسندیدہ انسان ہے اور جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے اسے رسول اللہe نے
جنت کی بشارت عطا فرمائی ہے۔ جس کسی انسان کی سوچ بدل جائے یا اس کے دل میں لالچ پیدا
ہو جائے تو جھگڑے کی نوبت آتی ہے اگر ہر جگہ اور ہر سطح پر انصاف کی حکمرانی ہو تو
جھگڑے کی کیفیت ختم ہو جاتی ہے۔ ہر انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے اس کا پورا حق مل چکا
ہے لیکن اگر انصاف نہیں‘ ظلم وزیادتی سے کام لیا جا رہا ہے تو اختلافات پیدا ہوں گے۔
بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ صلح کی بات انہیں اچھی نہیں لگتی‘
اپنی بات منوانے کے لیے ہر حربہ اختیار کرتے ہیں ایسے ہی شخص کو رسول اللہ e نے
اللہ کے ہاں ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔ مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی انتہائی خطرناک جنگ
ہے‘ مذہب کے نام پر لڑائی جھگڑے اور قتل وغارت گری عام ہے جبکہ اسلام‘ محبت‘ صلح اور
آشتی کا دین ہے۔ ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری کی تعلیم دیتا ہے۔ لہٰذا دین اسلام
کے ماننے والوں پر لازم ہے کہ وہ ان باتوں اور اصولوں کا خیال رکھیں جو اسلام نے بیان
کی ہیں۔ جھگڑے سے اجتناب کرنے والے کو پسند کیا جاتا ہے اور اس کی عزت بھی ہوتی ہے۔
باہم جھگڑا کرنے والوں کے درمیان تصفیہ کروانے کی کوشش کی جائے اور اگر گواہی کی ضرورت
پیش آئے تو سچی گواہی کا اہتمام کیا جائے۔ صلح کروانے والا اللہ سے اجر پائے گا اور
لوگوں کے لیے قابل احترام ہو گا۔
No comments:
Post a Comment