احکام ومسائل
جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت: مرکز
الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان ای میل: markaz.dirasat@gmail.com
جمعہ کے دن وفات اور عذاب قبر سے بچاؤ
O جمعہ
کی فضیلت میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جو مسلمان جمعہ کے دن یا رات وفات پا جائے‘ اسے
عذاب قبر نہیں ہوتا‘ کیا اگر کوئی انسان تمام زندگی گناہوں میں گذارنے کے بعد اتفاقاً
جمعہ کے دن وفات پا جائے تو کیا اسے عذاب قبر نہیں ہو گا‘ اس کی وضاحت مطلوب ہے؟
P جس حدیث کا سوال میں حوالہ دیا گیا ہے اس کا متن اور
حوالہ درج ذیل ہے: ’’جو مسلمان جمعہ کے دن یا شب جمعہ انتقال کر جائے اسے اللہ تعالیٰ
فتنہ قبر سے بچا لیتے ہیں۔‘‘ (مسند امام احمد: ج۲‘ ص ۱۶۹)
امام ترمذی ؒ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’یہ حدیث
غریب ہے اور اس کی سند متصل نہیں۔‘‘ (ترمذی‘ الجنائز: ۱۰۷۴)
اگرچہ مولانا عبدالرحمن مبارکپوریؒ شارحترمذی نے اسے صحیح کہا
ہے‘ پھر اس تحقیق کے پیش نظر محدث العصر علامہ البانیؒ نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے۔
(احکام الجنائز: ۳۵)
لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ روایت اپنے تمام طرق کے ساتھ محل
نظر ہے کیونکہ ربیعہ بن سیف اللہ‘ عبداللہ بن عمروw سے بیان کرتا ہے جبکہ ربیعہ کا سماع ان سے ثابت نہیں۔
نیز اس روایت میں خود ربیعہ بن سیف اور ہشام بن سعد دونوں ضعیف ہیں۔ اس کے علاوہ علامہ
منذری نے بھی اس روایت کو ناقابل حجت ٹھہرایا ہے۔ (الترغیب: ج۴‘ ۳۷۳)
اگر اس حدیث کو بقول مبارکپوری اور علامہ البانیؒ صحیح مان لیا
جائے تو بھی اس میں کوئی الجھن نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ’’واسع المغفرۃ‘‘ ہے۔ وہ چاہے
تو ایک زانیہ اور بدکار کو کتے پر رحم کرنے کی وجہ سے معاف کر دے اور چاہے تو ایک پرہیزگار
عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب میں گرفتار کرے۔ ہمیں اس پر اعتراض کا کوئی حق نہیں‘
جمعہ کے دن وفات پانا کوئی اختیاری کام نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ایسے اختیاری اعمال کو
بجا لائیں جو عذاب قبر ٹال دینے والے ہیںیا کم از کم اس میں تخفیف کا باعث ہیں۔
احادیث میں جو آتا ہے کہ فلاں کام کرنے سے عذاب قبر نہیں ہوتا
اور فلاں کام عذاب قبر کا باعث ہے یہ سب برحق ہیں‘ بعض اوقات ہم کم فہمی کی وجہ سے
اس کی حقیقت نہیں سمجھ پاتے‘ بہرحال ہمیں اللہ کی رحمت پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے‘
کیا اہل دنیا کا یہ قانون نہیں ہے کہ وہ خاص دنوں کی آمد پر قیدیوں کو سزا میں تخفیف
کر دیتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ تو اہل دنیا سے کہیں زیادہ مہربان ہے۔ واللہ اعلم!
قبرستان میں کچھ جگہ چار دیواری سے مخصوص کر لینا
O ہمارے
ہاں ایک بزرگ فوت ہوئے تو اسے سرکاری قبرستان میں دفن کر دیا گیا‘ اس کے بیٹوں نے قبر
کے ارد گرد چار دیواری کر کے کافی جگہ پر قبضہ کر رکھا ہے‘ اس میں کسی میت کو دفن نہیں
کرنے دیتے‘ رات کے اندھیرے میں ایک خانہ بدوش نے وہاں اپنی میت دفن کر دی‘ اب ان کا
اصرار ہے کہ اس قبر کو دوسری جگہ منتقل کیا جائے‘ کیا یہ درست ہے؟
P شہری یا دیہی آبادی میں حکومت کی طرف سے قبرستان کے
لیے جگہ چھوڑی جاتی ہے‘ یہ جگہ وقف ہوتی ہے اور اسے ذاتی ملکیت بنانا پھر اس میں چار
دیواری کر کے اپنے لیے مخصوص کرنا سخت منع ہے۔ قبرستان‘ وقف عام ہوتا ہے‘ اس میں ہر
مسلمان کو میت دفن کرنے کا حق ہے‘ پھر یہ بھی ہے کہ وقف جگہ کی خرید وفروخت بھی جائز
نہیں‘ نہ ہی اسے ہبہ کیا جا سکتا ہے اورر نہ ہی اس میں وراثت جاری ہوتی ہے۔ جیسا کہ
سیدنا عمرt نے
ایک جگہ کو بایں الفاظ وقف کیا تھا: ’’اس زمین کو نہ فروخت کیا جائے‘ نہ ہی کسی کو
ہبہ کی جائے اور نہ ہی اس کو ورثہ بنایا جائے۔‘‘ (بخاری‘ الوصایا: ۲۷۷۲)
اس حدیث کے پیش نظر قبرستان کی کسی جگہ کو ذاتی ملکیت یا ذاتی
ملکیت کیطرح قرار نہیں دیا جا سکتا‘ جنہوں نے کسی جگہ پر چار دیواری کر کے اسے مخصوص
کر لیا ہے ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے۔ پھر اگر کسی نے اس چار دیواری
میں اپنی میت کو دفن کر دیا ہے تو اسے وہاں سے دوسری جگہ منتقل کرنا بھی جائز نہیں‘
کیونکہ شریعت مطہرہ میں میت کی تدفین کے بعد اس کی قبر کھودنا اور میت نکال کر دوسری
جگہ دفن کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ ہاں کسی خاص مقصد کے تحت قبر کشائی کی جا سکتی ہے
اور میت کو دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ امام بخاریؒ نے ایک عنوان بایں
الفاظ قائم کیا ہے: ’’کیا کسی ضرورت کے پیش نظر میت کو قبر اور لحد سے نکالا جا سکتا
ہے۔‘‘ (بخاری‘ الجنائز‘ باب نمبر ۷۷)
پھر آپ نے چند ایسی احادیث پیش کی ہیں جن میں کسی خاص ضرورت
کے پیش نظر میت کو قبر سے نکالنے کا ثبوت ملتا ہے‘ لیکن صورت مسئولہ میں جو بیان ہوا
ہے کہ کچھ لوگوں نے اپنے والد کی قبر کے ارد گرد چار دیواری کر کے اس پر قبضہ کر رکھا
ہے اور اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے کسی دوسری قبر کو دوسری جگہ منتقل کرنا چاہتے
ہیں‘ ایسا کرنا شرعا‘ اخلاقا اور قانونا جرم ہے‘ ایسے شخص کے خلاف قانونی چارہ جوئی
کر کے اس قسم کے ظلم کو روکنا چاہیے۔ واللہ اعلم!
گرہن اور سائنسی پشین گوئیاں
O دور
حاضر میں سائنس دان قبل از وقت سورج یا چاند گرہن کی پشین گوئی کر رہے ہیں اس کی کیا
حقیقت ہے؟ کیا رسول اللہe کے
دور میں کبھی سورج گرہن ہوا تھا؟ ایسے حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
P اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ سائنس نے اس حد تک ترقی
کر لی ہے کہ اس کے ذریعے چاند اور سورج کے گرہن کی قبل از وقت پیش گوئی کر دی جاتی
ہے کہ فلاں ملک میں فلاں وقت سورج یا چاند گرہن ہو گا اور یہ گرہن کلی یا جزوی ہو گا
اور اتنا عرصہ قائم رہے گا۔ تجربہ کے اعتبار سے وہ پیش گوئی بالکل صحیح ہوتی ہے‘ اس
میں سر مو فرق نہیں ہوتا۔ ماہرین فلکیات کے نزدیک جب زمین اور سورج کے درمیان چاند
حائل ہو جاتا ہے تو سورج کی روشنی بالکل ختم یا کم ہو جاتی ہے لیکن جب سورج اور چاند
کے درمیان زمین حائل ہو جاتی ہے تو چاند کی روشنی بالکل باقی نہیں رہتی۔ ہمارے رجحان
کے مطابق ان سائنسی توجیہات کے قطع نظر چاند یا سورج کے گرہن کا مقصد تخویف یعنی لوگوں
کو ڈرانا ہے۔ اللہ تعالیٰ بعض اوقات اپنی قدرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بے نور کر
دیتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں لوگوں نے بہت سے عقائد کو اس گرہن سے وابستہ کر رکھا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ حاملہ عورتوں کو اس وقت باہر نہیں نکلنا چاہیے‘ ان کے حمل پر اس کے
اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جس کے نتیجہ میں حمل ضائع ہو سکتا ہے۔رسول اللہe کے
عہد مبارک میں غزوہ تبوک سے واپسی پر ٹھیک اس دن سورج گرہن ہوا جب آپ کے لخت جگر سیدنا
ابراہیمt دنیا
سے رخصت ہوئے تو لوگوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ ابراہیم کی وفات کی وجہ سے سورج
نے بھی غم کیا ہے اور اس ماتم میں اس نے سیاہ چادر اوڑھ لی ہے۔ رسول اللہe اسی
وقت منبر پر تشریف فرما ہوئے اوراپنے خطبہ میں خاص طور پر اس عقیدہ کی تردید فرمائی۔
آپe نے
فرمایا: ’’سورج اور چاند کسی کے مرنے یا پیدا ہونے سے گرہن زدہ نہیں ہوتے‘ جب تم گرہن
دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔‘‘ (بخاری‘ الکسوف: ۱۰۴۳)
اس سلسلہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہم تو اپنی نشانیاں اس
لیے بھیجتے ہیں کہ ان کے ذریعے سے بندوں کو ڈرایا جائے۔‘‘ (بنی اسرائیل: ۵۹)
خود رسول اللہe کا
ارشاد گرامی ہے کہ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ (بخاری‘ الکسوف:
۱۰۴۸)
لوگوں کو چاہیے کہ ایسے حالات میں وہ اللہ کی طرف رجوع کریں‘
اس کے حضور اپنے گناہوں سے توبہ اور استغفار کا نذرانہ پیش کریں‘ اسے کھیل اور تماشا
تصور نہ کریں‘ اجتماعی طور پر نماز کسوف کا اہتمام کیا جائے‘ حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں:
’’ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کا مظاہرہ کرتا ہے کہ سورج اور چاند
جیسے بڑے بڑے اجرام کو دم بھر میں بے نور اور تاریک کر دیتا ہے لہٰذا اس کی عظمت وکبریائی
کا اعتراف اور اس کی طاقت وہیبت سے بندوں کو ہر وقت ڈرنا چاہیے۔‘‘ (فتح الباری: ج۲‘ ص ۶۹۳)
وقت کم ہو جانے کا مفہوم
O حدیث
میں قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بتائی گئی ہے کہ ’’وقت کم ہوتا جائے گا۔‘‘
اس کا کیا مفہوم ہے؟
P رسول اللہe کا ارشاد گرامی ہے: ’’قیامت قائم نہ ہو گی حتی کہ علم
اٹھا لیا جائے گا‘ زلزلے بکثرت آئیں گے‘ وقت کم ہوتا جائے گا اور فتنوں کا ظہور ہو
گا۔‘‘ (بخاری‘ الاستثقاء: ۱۰۳۶)
’’وقت کم ہوتا جائے گا۔‘‘ شارحین حدیث نے اس کی مختلف تشریحات کی ہیں
جو حسب ذیل ہیں:
\ اسے حقیقت پر
محمول کیا جائے کہ حقیقت کے اعتبار سے دن رات چھوٹے ہو جائیں گے۔
\ ان کی برکت
ختم ہو جائے گی‘ دن رات ایسے گذریں گے کہ کوئی پتہ نہیں ہلے گا۔
\ لذات اور خواہشات
کا اس قدر غلبہ ہو گا کہ رات دن کا احساس ختم ہو جائے گا۔
\ کثرت مصائب
کی وجہ سے حواس معطل ہو جائیں گے‘ پتہ نہیں چلے گا کہ رات کب آئی اور دن کب ختم ہوا۔
\ دور حاضر میں
اس تقارب کی صورت یہ ہے کہ شہروں اور ملکوں کی مسافت تیز رفتار گاڑیوں اور ہوائی جہازوں
کی وجہ سے بہت سکڑ چکی ہے۔ پھر الیکٹرانک میڈیا یعنی انٹرنیٹ کے ذریعے گویا تمام روئے
زمین کے لوگ ایک مکان میں جمع ہیں‘ جس سے جب چاہیں رابطہ کر سکتے ہیں۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment