23 ستمبر ...
سعودی عرب کا قومی دن
تحریر: جناب مولانا عبدالمالک مجاہد
سعودی عرب کی حکومت ، سعودی عوام اور اس ملک میں رہنے والے غیر
ملکی ہر سال ۲۳ ستمبر کو یوم وطنی
مناتے ہیں۔ یہ دن سعودی تاریخ میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ ۸۷ سال پہلے عالم اسلام
کی ایک عبقری شخصیت نے اللہ کے فضل وکرم اور اپنی انتھک محنت وجد وجہد سے جزیرہ نمائے
عرب میں رہنے والے باشندوں کو ایک آزاد اور خود مختار ملک دیا۔ ۲۳ ستمبر ۱۹۳۲ء کا دن بلاشبہ سعودی تاریخ کا اہم ترین یاد گار دن ہے۔اس ملک کے مؤسس اور بانی
شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعودa ہیں۔
سعودی عرب کے موجودہ بادشاہ سلمان بن عبد العزیز ان کے صاحبزادے ہیں۔
جب ہم سعودی عرب کی تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں
کہ درعیہ اور ارد گرد کے علاقے پر صدیوں سے آل سعود کی حکومت چلی آرہی تھی۔ اب تو
درعیہ کی بستی ریاض کی ایک مضافاتی بستی بن چکی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب درعیہ ریاض شہر
سے قدرے فاصلے پر تھا۔ گزشتہ ۸۷ سالوں میں ریاض شہر نے بے حد ترقی کی ہے اور اس کی حدود چاروں
طرف کئی سو کلومیٹر تک پھیل چکی ہیں۔ زمانہ قدیم میں بھی درعیہ کے مقابلہ میں ریاض
بلاشبہ ایک بڑا شہر تھا۔ آل سعود کے یہاں محلات تھے، یہاں ان کا مصمک نامی قلعہ بھی
تھا یہ قلعہ آج بھی اپنی پرانی حالت میں موجود ہے۔ لوگ اسے بڑے شوق سے دیکھنے جاتے
ہیں۔
شاہ عبدالعزیز کے والد عبدالرحمن بن فیصل آل سعود ان دنوں ریاض
کے حکمران تھے۔ ۱۸۷۶ء میں شاہ عبدالعزیز ریاض میں پیدا ہوتے ہیں۔ اپنے والد کے سایہ
تلے بچپن گزارا‘ اس وقت کے جید علماء سے پڑھنا لکھنا سیکھا۔ قرآن کریم ناظرہ اور اس
کا کچھ حصہ حفظ کیا۔ اصول فقہ اور عقیدۂ توحید پر مبنی کتب شیخ عبداللہ بن عبداللطیف
آل الشیخ سے پڑھیں۔ جن بچوں نے بڑے ہو کر قائد لیڈر یا بڑا آدمی بننا ہوتا ہے ان
میں شروع ہی سے کچھ ایسی عادات ‘ صلاحیتیں اور صفات ہوتی ہیں جو ان کی ذہانت فطانت
اور قیادت پر دلالت کرتی ہیں۔ عبدالعزیز بھی اپنے بچپن ہی سے نہایت ذہین وفطین اور
بہادر تھے۔
حالات نے جلد ہی پلٹا کھایا اور شاہ عبدالرحمن اپنے اہل و عیال
کے ساتھ کویت منتقل ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس وقت شاہ عبدالعزیز کی عمر صرف بارہ
سال تھی۔ کویت میں اس دور میں بھی آل صبا ح کی حکومت تھی۔ ان دونوں خاندانوں میں آپس
میں برادرانہ تعلقات مدتوں سے چلے آ رہے تھے۔ آل صباح نے آل سعود کو ہاتھوں ہاتھ
لیا۔ جو بھی ضروری سہولتیں مہیا کر سکتے تھے وہ مہیا کر دی گئیں۔ شاہ عبدالعزیز اپنے
والد اور گھر کے دوسرے افراد کے ساتھ کویت میں دس سال تک مقیم رہے۔ وہ گھڑ سواری اور
دیگر فنون حرب تو بچپن سے سیکھتے چلے آرہے تھے۔ کویت میں آئے تو انہوں نے جنگی فنون
میں مزید مہارت حاصل کی۔ کویت میں قیام کے دوران وہ مسلسل سوچتے رہتے تھے کہ کس طرح
اپنے آباء و اجداد کی حکومت کو واپس لے سکتے ہیں۔ ان کے ہم عصروں نے بیان کیا ہے کہ
شاہ عبدالعزیز اکیلے صحراء میں نکل جاتے۔ ان کے ہاتھ میں عصا ہوتا‘وہ غصے سے اسے زور
زور سے زمین پر مارتے کہ کب وقت آئے گاجب وہ فاتحانہ انداز میں ریاض میں داخل ہوں
گے۔
انہوں نے قرآن کریم کے ساتھ اپنے تعلق کو اور زیادہ مضبوط کیا
بعض روایات کے مطابق انہوں نے اسے حفظ بھی کیا۔ دیگر دینی اور دنیاوی علوم حاصل کیے۔
شاہ عبدالعزیز کا قد غیر معمولی لمبا تھا۔ جسم نہایت طاقتور تھا۔ کم عمری میں ہی وہ
بڑے طاقتور اور دلیر تھے۔ دوڑتے ہوئے گھوڑے پر اچھل کر بیٹھ جاتے۔ تلوار چلانے میں
زبردست مہارت حاصل کی۔
شاہ عبد العزیز کی خوش قسمتی کہ ان کو اپنی بڑی بہن نورہ بنت
عبد الرحمن کی رفاقت اور رہنمائی میسر آئی۔ امیرہ نورہ ایک ایسی دانشور خاتون تھی
کہ اس پر پورے عالم اسلام کو فخرہونا چاہیے۔ شاہ عبدالعزیز بھی اپنی بہن پر بے حد اعتماد
کرتے اور اس کے مشوروں کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ اکثر مجالس میں بیٹھتے تو بڑے
فخر سے لوگوں کو بتاتے کہ (اَنَا اَخُو نُورَۃَ) ’’میں نورہ جیسی عظیم خاتون کا بھائی
ہوں۔‘‘ ایک دن اس عظیم بہن نے اپنے بھائی کو نصیحت کرتے ہوئے کہا :دیکھو! میرے بھائی!
عورتوں کی طرح اپنے نصیب پر واویلا نہ کرنا۔ اگر تم پہلی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے
تو دوسری یا تیسری بار ضرور کامیاب ہو جاؤ گے۔ اگر تمہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے
تو ناکامی سے دل برداشتہ ہونے کے بجائے ناکامی کے اسباب پر غور و فکر کرنا اور ان غلطیوں
سے آئندہ کے لیے بچنے کی کوشش کرنا۔ اپنی بیوی کے پاس اور ماں کے گھر میں زیادہ دیر
قیام نہ کرنا کیونکہ مردوں کو راحت وآرام کے لیے پیدا نہیں کیا گیا۔ واضح رہے کہ شاہ
عبدالعزیز کی شادی ہو چکی تھی اور اس زمانے میں ان کا ایک بیٹا بھی تھا۔
وقت گزرتے دیر نہیں لگتی وہ دن جلد ہی آگیا جب ان کی ریاض فتح
کرنے کی خواہش پوری ہوتی ہے۔ ان کا ساتھ دینے کے لیے چالیس جاں نثار جنگجو جمع ہو جاتے
ہیں۔ ان میں ۱۳ افراد ایسے تھے
جن کا تعلق خود ان کے اپنے قبیلے یعنی آل سعود سے تھا۔ شاہ عبدالعزیز نے اپنے والد
کو زور دار دلائل سے قائل کر ہی لیا کہ وہ انہیں ریاض کو فتح کرنے کی اجازت دیں۔ ریاض
میں ان کے بہت سے ہمدرد اور بہی خواہ موجود تھے۔ ان سب نے انہیں پیغامات بھیجے کہ اگر
وہ ریاض آتے ہیں تو وہ ان کی معاونت کرنے میں فخر محسوس کریں گے۔ والد سے اجازت ملی
تو بہادر اور دلیر شہزادے نے ۲۱ رمضان المبارک ۱۳۱۹ ہجری مطابق جنوری ۱۹۰۲ء کو کویت سے ریاض کی جانب اپنا تاریخی سفر شروع کر دیا ۔ شاہ عبدالعزیز روانہ
ہونے لگے تو ان کی والدہ بیٹے کی محبت میں آنسو بہانے لگی‘مگر ان کی شیر دل بہن نورہ‘
بھائی کو حوصلہ دینے کے لیے سامنے آ گئی۔ اس نے بھائی کو تھپکی دی اور اس کا حوصلہ
بڑھایا۔ یہ وہی عظیم خاتون امیرہ نورہ ہے جس کے نام پر ریاض میں امیرہ نورہ یونیورسٹی
بنائی گئی ہے۔ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے خواتین کے لیے یونیورسٹی بنانے کا عزم کیا
تو خاصے سوچ و بچار‘ استخارے اور بہت سے ساتھیوں سے مشورے کے بعد اس یونیورسٹی کا نام
اپنی پھوپھی سیدہ نورہ کے نام پر رکھنے کا فیصلہ کیا۔ چالیس جانبازآل سعود اور ان
کے حلیف قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔ بیس کے قریب لوگ ان کے ماتحتوں میں سے تھے۔ چند طالب
علم بھی اس لشکر میں شامل ہو گئے اوریوں کل ۶۳ مجاہد ین شاہ عبدالعزیز کی قیادت میں
ریاض پہنچتے ہیں۔ کویت سے چلتے وقت یہ احتیاط کی گئی کہ یہ لوگ رات کے وقت سفر کرتے
اور دن کو چھپے رہتے تاکہ کسی کو ان کے ریاض پہنچنے کی کانوں کان خبر نہ ہو۔
شاہ عبد العزیز اپنے ساتھی مجاہدین کے ساتھ شوال ۱۳۱۹ ہجری بمطابق ۱۵ جنوری ۱۹۰۲ء کو ریاض میں داخل ہوتے ہیں۔ ریاض اس وقت کوئی بڑا شہر نہ تھا۔ دیرہ کے علاقہ
میں قلعہ مصمک پر وہ بڑی آسانی سے قبضہ کر لیتے ہیں۔شاہ عبد العزیز اپنے والدین کے
نہایت فرمانبردار اور مطیع تھے۔ بالعموم بڑے لوگ اپنے والدین کے فرمانبردار ہی ہوتے
ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیںکہ جیسے ہی حکومت ان کے ہاتھ میں آئی تو ملک عبد
العزیز نے سب سے پہلے اپنے والد محترم عبدالرحمن بن فیصل کو شہر کی چابیاں پیش کیں۔
اعلان ہوا کہ حکومت شاہ عبدالرحمن آل سعود کی چلے گی۔ والد نے اپنے ہونہار بیٹے کی
حوصلہ افزائی کی۔ اسے بھر پور خراج تحسین پیش کیا کہ اس نے آباؤ اجداد کی حکومت واپس
کروانے میں نہایت اعلیٰ حکمت عملی اختیار کی اوربہت بہادری کا کردار ادا کیا ہے۔ چند
دن گزرتے ہیں، ریاض کی مسجد الکبیرمیں، جسے عرف عام میں دیرہ والی مسجد کہا جاتا ہے،
حکومت کے خاص خاص نمائندوں کا اجتماع ہوتا ہے۔ علمائے کرام اور شہر کے معززین کی موجودگی
میں شاہ عبدالرحمن بن فیصل اپنے ہونہار بیٹے کے حق میں حکومت سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔
اس وقت شاہ عبدالعزیز کی عمر صرف ۲۶ سال تھی۔ چنانچہ اب ریاض کے نئے حاکم کا نام شاہ عبدالعزیز تھا۔
ریاض کے علاقے پر اپنی حکومت مستحکم کرنے کے بعد شاہ عبدالعزیز سعودی عرب کے مختلف
علاقوںکا رخ کرتے ہیں۔ انہیں سعودی عرب کے مختلف علاقوں کو اپنی حکومت میں ضم کرنے
کے لیے بے حد جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ بعض بڑی جنگیں بھی ہوتی ہیں۔ مختلف علاقوں کے بدؤں
کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ شاہ عبدالعزیز نہایت حکمت اور
دانائی سے کام لیتے ہیں۔ انہوں نے ترہیب اور ترغیب دونوں سے کام لیا۔ وہ نہایت سخی
تھے‘ لوگوں پر اتنا زیادہ خرچ کرتے تھے کہ لوگ اس کی مثالیں دیا کرتے تھے۔
قارئین کرام! آل سعود کی اپنی ایک خوبصورت‘ روشن اور سنہری
تاریخ ہے۔ میں نے دیکھا کہ ان کے خواص میں تواضع کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ آل سعود
کا آدمی جتنا بڑاہوتا ہے اتنا ہی وہ منکسر المزاج ہوتا ہے۔ وفاداری اگر کسی نے سیکھنی
ہے تو وہ آل سعود کی تاریخ کا مطالعہ کرے۔ جیسے جیسے ان کی حکومت مضبوط ہوتی چلی گئی‘
ان کے ساتھ عوام کی محبت اور وفاداری میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ آل سعود اور آل الشیخ
کے آپس میں صدیوں پرانے تعلقات چلے آ رہے ہیں۔ شاہ عبدالعزیز خود بہت بڑے متبع سنت
اور عقیدہ توحید کے علمبردار تھے۔ ان کی بے شمار خوبیوں میں ان کا مضبوط عقیدہ اور
پختہ منہج ہونا بہت بڑی خوبی اور سعادت تھی۔شاہ عبدالعزیز کے دنیا بھر میں سلفی علماء
اور تنظیموں سے روابط تھے۔برصغیر کے علمائے کرام بالخصوص علمائے اہل حدیث کے ان کے
ساتھ بڑے قریبی تعلقات تھے۔ چند برس گزرے میرے پاس جامعہ سلفیہ بنارس کے الأمین العام
شیخ عبد اللہ سعود تشریف لائے۔ انہوں نے مجھے آل سعود کی طرف سے کتنے ہی ایسے خطوط
دکھائے جن میں ایک دوسرے کے ساتھ مشورے کیے گئے اور باہمی محبت کا اظہار تھا۔
آل الشیخ کے ساتھ ان کے بزرگوں نے جو معاہدہ درعیہ کیا تھا
دونوں خاندانوں نے اس کی پاسداری کی۔ آل سعود کی حکومت سے پہلے ایک وقت تھا کہ اس
ملک کے بعض علاقوں میں شرک و بدعت کے مراکز بنے ہوئے تھے۔ ریاض کے قرب و جوار میں سیدنا
زید بن خطابt کی
قبر پر شرک کیا جاتا تھا۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں بعض قبروں پر قبے بنے ہوئے
تھے۔ ملک عبدالعزیز نے آل الشیخ کے ساتھ ملکر شرک کے ان اڈوں کو ختم کیا اور اس ملک
میں عقیدۂ توحید کو عام کیا۔ سکولوں کے نصاب میں عقیدۂ توحید پر مبنی کتب پڑھائی
گئیں اور پھر توحید کی برکت سے اس ملک میں اللہ کی رحمت اور برکت کے خزانے کھلتے چلے
گئے۔ شاہ عبدالعزیز اپنی رعیت سے بے حد محبت کرنے والے تھے‘ مگر عقیدہ توحید پر کوئی
سمجھوتہ کرنے کے لیے کبھی تیار نہ ہوئے۔
قارئین کرام! دین کی بنیاد عقیدہ توحید ہے‘ شاہ عبدالعزیز کی
حکومت آئی تو سب سے پہلے انہوں نے اسی پر توجہ مرکوز کی۔ بیت اللہ کے دروازے کو پکڑ
کر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے جو دعا کی تھی وہ یہی تھی: الٰہی! مجھے کتاب و سنت پر عمل
کرنے والا بنا اور اس کے مطابق حکومت چلانے کی توفیق عطا فرما۔
اگر آپ قرآن کریم کی اس آیت کریمہ پر غور کریں: {الَّذِینَ إِنْ مَّکَّنَّاہُمْ فِي الأرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃَ} ’’ اللہ کے محبوب بندے وہ ہیں کہ اگر ان کو ہم حکومت عطا فرمائیں
تو وہ نماز کے قیام کا اہتمام کرتے ہیں‘‘۔ الحمدللہ! سعودی عرب دنیا کا واحد ملک ہے
جہاں اقامت نمازکا سرکاری سطح پر بندوبست کیا گیا ہے۔ ادھر اذان ہوئی ادھر دوکانیں
بند ہو گئیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد مساجد کا رخ کرتی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ واحد
ملک ہے جہاں نماز کا بے حد اہتمام ہوتا ہے۔ دنیا کے کسی اور ملک میں کہیں بھی نماز
کے وقت سرکاری طور پر دکانیں بند نہیں ہوتیںنہ ہی سرکاری دفاتر میں کام بند کیا جاتا
ہے۔ اب جس ملک میں نماز کا اہتمام ہو جس ملک میں علانیہ شرک و بدعت کے اڈے نہ ہوں۔
جہاں حدود اللہ کا قیام ہو وہاں اللہ تعالیٰ کی برکات اس کے فضل و کرم کے دروازے کھل
جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس ملک پر اپنی خاص عنایات کی ہیں۔ اس وقت دنیا
میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا اور ایکسپورٹ کرنے والا ملک سعودی عرب ہے۔ یہاں
عالمی مہنگائی کے باوجود ابھی تک کھانے پینے کی چیزیں بہت سستی ہیں۔ پٹرول پانی سے
بھی سستاملتا ہے۔
جہاں تک امن و امان کا تعلق ہے اس اعتبار سے یہ دنیا کا مثالی
ملک ہے۔ شاہ عبدالعزیز کی حکومت سے پہلے بدو حجاج کو لوٹا کرتے تھے‘ مگر جیسے ہی حکومت
مستحکم ہوئی سب سے پہلے امن و امان پر توجہ مرکوز کی گئی۔ زمانہ قدیم میں حجاج جب اس
مقدس سرزمین پر آنے لگتے تو ان کو یہی فکر لاحق ہوتی تھی کہ کہیں وہ بدوؤں کے ہاتھوں
لوٹے نہ جائیں۔ ان بدوؤں کے لیے حجاج کو قتل کرنا معمولی بات تھی۔ شاہ عبدالعزیز نے
ان کو وارننگ دی اور اس صحرا میں جہاں وہ حاجیوں کو لوٹا اور قتل کیا کرتے تھے ، وہیں
ان کے سرغنوں کو پکڑ کر بھوکا اور پیاسا پھینک دیا گیا۔وہ بھوکے پیاسے تڑپتے رہے اور
تڑپ تڑپ کر صحراء میں مر گئے۔
کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ کوئی ان پر بھی ہاتھ ڈال
سکتا ہے، مگر حکومت کے آہنی ہاتھوں نے ان ڈاکوؤں اور لٹیروں کو نشان عبرت بنا دیا
اور اس کے بعد کسی گروہ کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ حجاج کو لوٹ سکیں۔
شاہ عبدالعزیز کے بعد ان کے بیٹوں‘ شاہ سعود ‘ شاہ فیصل‘ شاہ
خالد‘ شاہ فہد‘ شاہ عبد اللہ اور اب خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز
نے اپنے والد محترم کی پالیسیوں کو جاری رکھا۔ ان کے نقش قدم پر چلتے رہے۔ دین کو مقدم
رکھا‘ حدود اللہ کا نفاذ کیا جس کے نتیجہ میں عوام خوشحال ہیں اور ملک مسلسل ترقی کر
رہا ہے۔
راقم الحروف کو امیر محترم پروفیسر ساجد میرd کی
معیت میں متعدد بار شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے۔ ان ملاقاتوں
میں گفتگو کا مرکز پاکستانی عوام اور اسلام رہا۔
سعودی حکام واقعی پاکستانیوں کے ساتھ بڑی محبت کرتے ہیں اور
وہ پاکستان کو دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
قارئین کرام! سعودی عرب وہ ملک ہے جو مہبط الوحی ہے۔ یہاں دنیا
کے دو سب سے مقدس شہر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہیں۔ دنیا کا کونسا ایسا مسلمان ہو
گا جو ان شہروں کی زیارت نہ کرنا چاہتا ہو۔ یہاں ہر سال کئی ملین مسلمان حج اور عمرہ
کے لیے آتے ہیں۔ سعودی حکومت حجاج کو سہولتیں پہنچانے کے لیے مسلسل کوششیں کرتی رہتی
ہے۔ حرمین شریفین کی توسیع مسلسل ہوتی رہتی ہے، مگر دور حاضر میں ان ترقیاتی کاموں
کا دائرہ دوسرے شہروں تک وسیع کیا گیا ہے۔ ریاض شہر میں میٹرو بس اور ٹرینوں کا جال
بچھایا جارہا ہے۔ آپ کو شہر میں جگہ جگہ کھدائی نظر آئے گی اور دن رات محنت کر کے
شہر کے باسیوں کے لیے ٹرانسپورٹ کی بہتر ین سہولتوں کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ اس ملک
میں ۱۵ لاکھ کے لگ بھگ
پاکستانی رہتے ہیں۔ ان میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اپنی خوشی سے مستقل اس ملک سے جانا
چاہتا ہو۔
۲۳ ستمبر کو سعودی عوام اپنا قومی دن منا رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک
تاریخ ساز دن ہے جس روز اس قوم نے اپنے قائد شاہ عبدالعزیز آل سعود کی قیادت میں اس
ملک کی بنیاد رکھی تھی۔ ہم اس قومی دن کے موقع پر شاہ سلمان بن عبدالعزیز ولی العہد
شہزاہ محمد بن سلمان اور تمام سعودی عوام کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس
ملک کی حفاظت فرمائے۔ علاقے کے بعض ممالک کو سعودی عرب کی یہ تیز رفتار ترقی ایک آنکھ
نہیں بھاتی۔ وہ دن رات مملکت کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں مصرف رہتے ہیں۔ ہماری
دلی دعا ہے کہ رب کریم اسے حاسدین کی نگاہوں سے محفوظ فرمائے۔ہم اس ملک میں مزید ترقی‘
برکت اور خیروخوشحالی کے متمنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آل سعود کی حکومت کو صدیوں تک قائم
و دائم رکھے۔ خادم الحرمین الشریفین کو صحت و تندرستی عطا فرمائے۔ اس ملک کے عوام اور
حرمین شریفین کو حاسدین‘ حاقدین‘ فتنہ پرور لوگوں سے محفوظ فرمائے‘ آمین ثم آمین۔
No comments:
Post a Comment