Saturday, September 07, 2019

حافظ حدیث مولانا ابوالخیر برق سلفی لکھنوی 33-2019


حافظ حدیث مولانا ابوالخیر برق سلفی لکھنوی

تحریر: جناب مولانا محمد اشرف جاوید
بقول مولانا ابوالحسن ندویa ان کے کلام میں زبان کی صحت ومحاورات کو احتیاط کے ساتھ استعمال کرنے کے نئے خیالات ومضامین ملتے ہیں۔ فارسی ترکیبوں کی چاشنی اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ لکھنؤ کی زبان کا ایک نمونہ ملاحظہ کیجیے   ؎
اپنا سا زور کر کے تھکے منعمان دھر
مٹھی نہ کھل سکی مرے دست سوال کی
ان کا یہ شعر تو بڑا مقبول ہوا اور علماء کے حلقہ میں بھی اس سے بارہا کام لیا گیا۔      ؎
باغبان نے آگ دی جب آشیانہ کو میرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
اسی غزل کا یہ شعر جو حسرت وعبرت کا ایک مرقع ہے:
مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقت دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے
………
دل کی کدورتوں سے یہ عالم تباہ ہے
منزل ہمیں نظر نہیں آتی غبار میں
زندگی کی حقیقت پر ان کے اشعار ہیں:
زندگی کیا ہے ہماری اور آپ کی‘ روداد ہے
کچھ حکایت صبح کی‘ کچھ کہانی شام کی
مشکلوں سے ہم جو چھوٹے بجلیاں ہیں جلوہ ریز
باغباں اب کون سی صورت کرے آرام کی
………
پھول جو تھا جان بلبل اب وہ کانٹا ہو گیا
اے ہوائے باغِ عالم یہ تجھے کیا ہو گیا
لکھنوی رنگ کے اشعار پڑھیے:
ابھی نا واقف وحشت ہوں ابھی غربت کا ستایا ہوں
بگولو اُٹھ کے بتلا دو ذرا راہیں بیاباں کی
ان کا یہ شعر تو آج بھی ہمیں دعوت فکر دیتا ہوا نظر آتا ہے:
ہوش آیا ہے ضعیفی میں جوانی کاٹ کر
آنکھیں اب کھلی ہیں جب اندھیرا ہو گیا
آخر میں ان کے خاص حالات اور مشکلات زندگی نے ان کے اشعار میں ایسا درد وسوز بھر دیا تھا کہ پڑھنے والا اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بعض اوقات تو دل بھر آتا ہے اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں‘ اس کا بہترین نمونہ ان کی ’’دعائے مضطر‘‘ تھی جو زبان کی صفائی اور سادگی کے ساتھ تاثیر میں ڈوبی ہوئی ہے۔ دو بند آپ بھی پڑھتے چلیں:
کف دست میدان اور ایک ہستی
کڑی دھوپ ہے آگ سی ہے برستی
نہ پانی نہ سایہ نہ دریا نہ بستی
کلیجہ میں اک آگ‘ ہمت میں پستی
ندامت سے بھی میں پسینے پسینے
نہ پوچھا مگر حال یا رب کسی نے
بسیرا ہے چپ‘ بے خبر اہل منزل
سکون موج دریا میں خاموش ساحل
ہوئی شام اٹھتا نہیں در سے سائل
تیرے پاس لایا ہے ٹوتا ہوا دل
حکیم جہاں آفریں‘ چارۂ درد
ہوا جاتا ہے میرا جینے سے دل سرد
ایک صاحب نے برق صاحب سے فرمائش کی کہ ایک شعر ایسا کہیے جو چاندی کے گلاس پر کندہ کر سکیں جسے ہیڈ ماسٹر کو رخصتی کے وقت پیش کیا جائے گا تو انہوں نے یہ شعر لکھ کر دے دیا     ؎
ظرف عالی آپ کا یہ ہے کہ اس کو دیکھ کر
ایسی سمٹی چاندی کہ چاندنی کا ساغر بن گئی
(پرانے چراغ ۲/۱۳۳۰)
اسی طرح انہوں نے اپنے خسر اور مولانا ابوالحسن ندوی کے والد مولانا عبدالحی کا عربی میں مرثیہ لکھا تھا جو انہوں نے خاندان کے ایک اجتماع میں پڑھ کر سنایا۔ (پرانے چراغ: ۲/۳۳۴)
کاش کہ مولانا ندوی صاحب اس مرثیہ کو نقل کر دیتے تا کہ آنے والے اہل علم ان کے علم وفضل سے واقف ہوتے اور مزید تحسین کرتے۔
انعام: مولانا برق صاحب خودنمائی سے ہمیشہ گریزاں بلکہ متنفر رہے اور اسی چیز نے انہیں زیادہ روشناس نہ ہونے دیا۔ انہیں زبان وادب میں وہ مقام کبھی نہ مل سکا جس کے وہ مستحق تھے۔ اس کے برخلاف جو لوگ زبان وادب کی تحقیق وذوق صحیح میں ان کے پاسنگ بھی نہ تھے لیکن ان کو اپنے ما فی الضمیر کے اظہار کا فن آتا تھا وہ اس میں کہیں سے کہیں پہنچ گئے۔
مولانا برق صاحب پھر بھی کبھی کبھی اپنے برادر اصغر یا دوسرے عزیز واقارب کے اصرار پر کسی نہ کسی ایسے مشاعرہ میں شریک ہو جاتے جو انعامی ہوتا‘ اس میں بڑے بڑے نامور ادباء وشعراء شریک ہوتے لیکن انعام کے مستحق مولانا برق صاحب ہی ٹھہرتے۔ ۱۹۳۰ء کے ایک انعامی مشاعرہ میں آپ شریک ہوئے‘ آپ کے شعر کا ایک مصرع یوں تھا کہ
پھولوں نے ہنس کے آگ لگا دی بہار میں
یہ مشاعرہ بھی مولانا برق نے لوٹ لیا‘ یہ مشاعرہ نواب جعفر علی خان اثری لکھنوی کی زیر صدارت تھا۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ برق صاحب مشاعروں میں بہت کم جاتے تھے مگر جب جاتے تو مشاعرہ اپنے نام کر لیتے۔ بقول مولانا ندوی صاحب کے موصوف نے مشاعروں میں بہت کم شرکت کی اور کم ہی مشاعرہ پڑھا۔ لیکن جب وہ اپنی پر سوز آواز اور خالص لکھنوی زبان میں غزل پڑھنا شروع کرتے تو سب کو اپنی طرف متوجہ کر لیتے۔ انہوں نے اپنی ایک غزل ایک مشاعرہ میں بالکل نوجوانی میں پڑھی جو غالبا ۱۹۲۰ء کا زمانہ تھا۔ غزل کے اس شعر پر ان کو بہت داد ملی اور لکھنؤ کے مشہور ا ستاد سراج لکھنوی مشاعرہ ختم ہونے کے بعد یہ شعر کئی بار دہراتے رہے   ؎
ذرا سمجھ کے نکل دل سے آہ سوز آگیں
مجھے سیئے ہوئے زخموں کا اعتبار نہیں
(پرانے چراغ: ۳۲۹۔ چند اہل حدیث رجال: ۱۰۹)
مولانا اثری نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ’’آپ اردو کے نہایت باکمال شاعر تھے‘ انگریزی زبان پر بھی نہ صرف پورا عبور تھا بلکہ اس میں شاعری بھی فرمایا کرتے تھے۔‘‘ انہوں نے دو دفعہ مشاعروں میں طلائی تمغے بھی حاصل کیے۔ (ہفت روزہ الاعتصام لاہور‘ جنوری ۱۹۷۱ء) امکان ہے کہ یہ دونوں تمغے کسی اور مشاعرہ میں حاصل کیے ہوں یا وہی ہوں جن کا ذکر درج بالا سطور میں گذر چکا ہے۔
 نثر: ہمارے ممدوح جناب ابوالخیر برق مرحوم کی نثر کے متعلق ابوالحسن ودیگر اہل قلم رقمطراز ہیں: ’’وہ نثر لکھتے تھے‘ ان کی نثر میں زیادہ تر لکھنؤ کے محاورات اور وہاں کی مرصع زبان ہوتی تھی۔‘‘
دوسرے مقام پر لکھا ہے کہ ’’وہ ا یک اچھے نثر نگار بھی تھے اور محاورات کا کثرت سے استعمال کرتے تھے۔ لکھنؤ کی ٹیکسالی زبان میں ان کی نثر بہترین نمونہ تھی۔ ان کے بعض اردو مضامین کا مجموعہ ’’تاثرات‘‘ کے نام سے طبع ہوا ہے جو ان کی ادبی حیثیت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔‘‘ (پرانے چراغ: ۲/۳۳۲۔ تعمیر حیات لکھنؤ: ۲۰۰۳ء)
تصانیف: مولانا برق حفظ حدیث کے علاوہ شرح وتطبیق احادیث سے بھی ذوق رکھتے تھے:
1          ’’مشکلات حدیث‘‘ کے نام سے انہوں نے ایک کتاب بھی لکھی‘ لیکن افسوس کہ اس کا مسودہ ان کے ذخیرہ مسودات میں محفوظ نہ رہا۔ انہیں حافظ ابن حجر عسقلانیa سے بڑی عقیدت تھی۔ ایک زمانہ میں وہ اپنے نام کے ساتھ ابن حجر بھی لکھتے رہے۔
2          ’’نوادر‘‘ ان کی پسندیدہ کتاب نوادر کے نام سے ہے جس میں انہوں نے بہت سی تاریخی‘ علمی اور ادبی نکات جمع کیے ہیں۔ بڑی محنت اور تلاش کے بعد عجائبات عالم اور آثار قدیمہ کی تصاویر بھی اس میں چسپاں کیں۔ ڈاکٹر ذاکر حسین (سابق صدر انڈیا) نے جو اس وقت شیخ الجامعہ الملیہ تھے اس پر ایک مختصر تقریظ بھی لکھی تھی۔
3          ’’تاثرات‘‘ بعض اردو مضامین کا مجموعہ تاثرات کے نام سے طبع ہوا جو ان کی ادبی حیثیت سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
4          ’’روز مرہ‘‘ اس بارے تفصیل درج نہیں۔
5          ’’شب فرقت‘‘ شعری کلام کے نام سے طبع ہوا جو آج کل نایاب ہے۔
6          ’’دعائے مضطر‘‘ کے نام سے ایک مناجات ہے جو کئی دفع طبع ہو کر مقبول عام ہوئی۔ یہ درد وسوز سے بھری ہوئی اور اثر انگیز ہے۔ زبان کی سادگی اور صفائی اس کی خصوصیت ہے۔
7          ’’تاریخ انگلستان‘‘
8          ’’رسالہ علم غیب‘‘
9          ’’گردش روزگار‘‘ مولانا کی تمام کتب اپنے انداز میں منفرد اور بے مثال ہیں لیکن مولانا صاحب کو اپنی کتاب ’’گردش روزگار‘‘ پر بہت ناز تھا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ اس کی زبان ا لہامی ہے۔ بس رب تعالیٰ نے ہی مجھ سے لکھوائی ہے۔ ولا فخر‘ وللہ الحمد!
0          ’’قلندر نامہ‘‘ یہ دونوں کتب انہوں نے بالکل لڑکپن میں تصنیف کی تھیں۔      !              ’’سکندر نامہ‘‘
بقول مولانا عبدالمنان اثری: ’’کاش! یہ علمی نوادر کسی صاحب حیثیت کے ذریعہ زیور طبع سے آراستہ ہو جائیں ورنہ خطرہ ہے کہ یہ انمول اور بیش بہا ذخیرہ کہیں تلف نہ ہو جائے۔‘‘
نوٹ: مولانا ابوالحسن ندوی کی تحریر میں ہے کہ ’’مشکلات الحدیث‘‘ مولانا کی یہ تصنیف محفوظ نہ رہ سکی مگر ۱۹۷۱ء کے مضمون میں مولانا اثری نے ہی نقل کیا ہے کہ یہ دو جلدوں پر مشتمل باریک خط میں ہے۔ (الاعتصام: ۱۹۷۱ء)
اللہ تعالیٰ کسی صاحب ثروت کو توفیق دے کہ یہ ایک علمی اور نادر خزانہ طبع ہو جائے اور اہل علم کے لیے مشعل راہ بن جائے۔ مولانا اثری کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ سب نوادر دیکھے اور ۱۹۷۱ء تک وہ محفوظ تھے۔
خراج تحسین: مولانا محمد سورتیa: عالم اسلام کی نامور شخصیت‘ عربی زبان کے ادیب مولانا محمد سورتیa‘ مشہور اہل حدیث ومحقق عالم جناب مولانا سید ابوالخیر احمد برق کو الامام کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے۔
مولانا تقی الدین ہلالی: عالم اسلام کے معروف ومشہور یہ بزرگ (مدرس ندوۃ العلماء وپروفیسر مدینہ یونیورسٹی) بھی مولانا برق کو امام ہی کے لقب سے یاد فرمایا کرتے تھے۔ (ہفت روزہ الاعتصام: ۱۹۷۱ء)
ہمارے ممدوح جب حج بیت اللہ کے لیے حجاز مقدس تشریف لے گئے تو بقول علی میاں ان کی زیادہ نشست وبرخاست مدرسہ فاخریہ عثمانیہ میں اس کے مہتمم قاری اسحاق کے ہاں رہتی جو ذی علم اور جہاں دیدہ بزرگ تھے۔ وہ مولانا کی عربی اور حافظہ سے بہت متأثر تھے۔ انہوں نے اپنا ایک تصدیق نامہ بھی لکھ کر دیا جو میں نے مرحوم کے حالات مندرجہ تراجم علماء اہل حدیث مصنفہ مولوی ابویحییٰ امام خاں نوشہروی میں درج کر دیا ہے۔
پاک وہند کے نادر قلمکار جناب ابوعلی اثری ہندی ان کی تعریف میں یوں رطب اللسان ہیں: ’’یہ خاندان ایں خانہ ہمہ آفتاب است کا مصداق ہے۔‘‘ (چند اہل حدیث رجال: ۱۰۸)
مولانا عبدالحی لکھنوی‘ مولانا برق کے دادا مرحوم کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ ’’ان کا اسم گرامی السید ضیاء النبی بریلوی ہے [وکان شدید الاتباع للسنۃ، شدید الکراہۃ للبدع ومحدثات الامور] ’’آپ سنت رسولe کے متبع اور بدعات سے بہت زیادہ نفرت کرنے والے انسان تھے۔ (نزہۃ الخواطر: ۸/۱۹۸)
آخری ایام: ہمارے ممدوح بہت سے اوصاف وکمالات کے حامل تھے۔ اپنا کام خود کر کے دلی راحت محسوس کرتے تھے۔ ان کے محاسن میں لکھا ہے کہ آخر عمر میں ان کی صحت خاصی خراب رہنے لگی تھی۔ کئی امراض لاحق ہو گئے تھے۔ لکھنؤ میں وہ ایک مسافرانہ وقلندرانہ زندگی گذار رہے تھے۔ حسب طبع آپ نے عزیزوں اور دوستوں کا احسان لینے سے انکار کر دیا۔ بلکہ ان کا مزاج کسی طرح کی بھی خدمت لینے پر آمادہ نہ ہوتا تھا کیونکہ ان کی طبیعت میں خود داری تھی۔ جب طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو اپنے پھوپھا مولانا حکیم سید عبدالحی کے قدیم مکان واقع گوئن روڈ محمد علی لین میں ٹھہرے رہے۔
وفات: آپ نے ۲ جون ۱۹۷۰ء کو ۶۸ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! تاریخ نے لکھا ہے کہ جب جنازہ رکھا تھا‘ دیکھنے والے محسوس کر رہے تھے کہ میت کی تر وتازگی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ حدیث نبویe کے بڑے عالم اور اس کی تعلیم دینے والے کا جنازہ ہے۔ حدیث وسنت جس کا اوڑھنا بچھونا رہا ہے۔
اسی دن سہ پہر کے وقت آبائی قبرستان واقع دائرہ شاہ علم اللہ رائے بریلی میں اہل خاندان‘ عزیزوں‘ دوستوں اور سوگواران کی موجودگی میں ستودہ صفات اور فرشتہ خصلت اپنے باپ اور عالی مرتبت دادا جان کے پہلو میں دفن کیے گئے۔ (پرانے چراغ: ۲/۳۳۹)
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)